”ماریہ یہ لو تمہارا موبائل۔“ حسنین نے اسے اسی دن اس کا موبائل بھی دے دیا تھا۔
”تھینک یو!“ ماریہ نے اس کے ہاتھ سے موبائل لے کر سائیڈ پے رکھ دیا۔
”تم تیار ہوجانا آج لنچ باہر کریں گے اور شام میں آنٹی انکل سے بھی ملنے چلیں گے۔ “
”ٹھیک ہے!“ ماریہ نے مختصر جواب دیا۔ وہ حسنین کو اپنے رعب میں رکھنا چاہتی تھی اسی لیے ابھی اس سے ٹھیک طرح سے بات نہیں کررہی تھی۔
لنچ کے بعد حسنین اسے شاپنگ پر لے گیا تھا۔
”آﺅ جیولری بھی لیتے ہیں۔“
”علی اتنا بھی بہت ہے۔“ ماریہ نے کہا۔
”نہیں آﺅ چلیں۔“
”جی ہمیں سب سے جدید ترین ڈیزائن دکھائیں ۔“ حسنین، جیولر شاپ میں بیٹھتے ہوئے بولا تھا۔ پھر ایک بعد ایک ڈبے کھلتے گئے مگر حسنین کو کوئی چیز پسندہی نہیں آرہی تھی۔ آخر کار اس کو ایک بہت نفیس بریسلٹ پسند آہی گیا۔
”بس یہ دے دیں۔“ ایک بھاری رقم کا بل دے کر وہ وہاں سے اٹھ کھڑے ہوئے۔ ماریہ شاپ سے نکل کر بہت مسرور تھی۔
”شکریہ علی! تم بہت اچھے ہو بس اپنے غصے پر کنٹرول کرلو۔“ اس کے تبصرے پر علی صرف مسکرایا تھا ماریہ اب لفٹ کا بٹن دبا رہی تھی۔
”اب غصے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔“ وہ پھر مسکرایا تھا۔
٭….٭….٭
”تو پھر حسنین واپسی کب تک ہوگی تمہاری اور ماریہ کی؟“ اس دن شام کی چائے پیتے ہوئے ماریہ کی ماما نے پوچھا۔
”اصل میں آنٹی مجھے وہاں پر کچھ دفتری کام بھی ہے، تو میں ٹھیک طرح سے نہیں بتا سکتا کہ ہماری واپسی کب تک ہوگی۔“ حسنین نے چیئر پر ریلیکس ہوکر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”اور میں ویسے بھی بہت تھک گیا ہوں تو ماریہ کے ساتھ انجوائے کرنا چاہتا ہوںاسی لیے ماریہ کوبھی ساتھ لے کر جارہا ہوں یہ بھی تو گھر میں بور ہوجاتی ہے نا ابھی تو بس ناردرن ایریاز تک ہی جائیں گے۔ پھر اگلے کچھ مہینوں میں یورپ کا ٹور بھی کریں گے۔“ ماریہ کی ماما نے بڑے فخر سے اپنے وجیہہ داماد کو دیکھا، کتنا خیال تھا اسے اپنی بیوی کا۔ کل کی ٹی پارٹی میں سنانے کے لیے ان کے پاس اچھا خاصا مواد جمع ہوچکا تھااور آنٹی ماریہ کو مت بتایئے گا اس نے ماریہ کے جانے کے بعد کسی پکی سہیلی کی طرح انہیں مخاطب کیا۔ ”تین چار مہینے تو لگ ہی جائیں گے یہ اس کے لیے سرپرائز ہے اب اتنے دن بعد بندہ گھر سے نکلے تو دن تو لگ ہی جاتے ہیں نا آنٹی۔“
”ہاں ہاں بیٹا کیوں نہیں آرام سے گھومو پھرو۔“ وہ خوشی سے پھولی نہ سمائیں۔ کل کی پارٹی میں بتاﺅں گی تو سب تو جل ہی جائیں گی۔ وہ اپنی سوچوں میں گم تھیں اور حسنین اب ملازمہ سے مزید چائے منگوا رہا تھا۔
٭….٭….٭
”ماریہ پیکنگ کرلی تم نے اپنی؟“
”ہاں بس تھوڑی سی رہتی ہے۔“ ماریہ نے مسکرا کر جواب دیا۔
”ویسے تو میں ان سب جگہوں پر کئی دفعہ جاچکی ہوں، لیکن تمہارے ساتھ تو پہلی دفعہ جاﺅں گی نا اسی لیے میں بہت خوش ہوں۔“
”کپڑے اور دوسری چیزیں سب رکھ لینا دھیان سے۔“ وہ یونہی ایک غیرضروری سی ہدایت دے کر وہاں سے ہٹ گیا۔
”ویسے تو یہاں بھی سب مل جاتا ہے، لیکن میں وہاں سے پشمینہ شال ضرور خریدوں گی۔“ ماریہ نے شاپنگ لسٹ میں ایک اور چیز کا اضافہ کیا۔
”چلو جلدی سے پیکنگ ختم کرلوں پھر سوجاﺅں گی صبح جلدی بھی تو نکلنا ہے۔“
٭….٭….٭
”جی ماما ہم مری پہنچ گئے ہیں۔ بہت بارش ہورہی ہے۔ ہم جب سے آئے ہیں اچھا ٹھیک ہے۔ میں آپ سے بعد میں بات کروں گی ہم ابھی تھوڑی دیرمیں باہر نکل رہے ہیں اوکے بائے۔“ فون بند کرکے ماریہ گھر کا جائزہ لینے لگی یہ گھر آبادی سے الگ تھلگ قدرے ویران جگہ پر تھا، لیکن تھا بہت خوب صورت، جگہ بہت پرسکون ہے۔ ماریہ نے ایک گہرا سانس لیا اور تیار ہونے اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔ تیار ہونے کے بعد ماریہ نے پرس میں موبائل ڈالا اور باہر نکل آئی۔
”حسنین چلیں؟“ ماریہ نے لمبی چین والا پرس ایک کندھے سے دوسرے کندے پر منتقل کرتے ہوئے کہا۔
”ہاں چلو۔“ حسنین نے گلاسز لگاتے ہوئے کہا۔
”ارے کتنی خوبصورت شال ہے حسنین ذرا یہ پرس پکڑنا مجھے یہ اوڑھ کر دیکھنی ہے۔“
”کون سی والی لوں یہ والی یا یہ والی؟“ ماریہ نے حسنین سے رائے مانگی۔
”یہ والی لے لو۔“ حسنین نے ایک شال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ٹھیک ہے۔
”یہ والی دے دیں۔“ ماریہ نے دکان دار کی طرف شال بڑھاتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
”آج تو بہت تھک گئے۔“ ماریہ صوفے پر گرتی ہوئی بولی۔
”ہاں یہ توہے۔ میں فریش ہوکر آتا ہوں۔“ حسنین اٹھتے ہوئے بولا۔
”ٹھیک ہے۔“ ماریہ نے سرہلاتے ہوئے پرس کھولا۔
”ارے! میرا موبائل کہاں گیا؟“ ماریہ نے پورا پرس کھول دیا۔ اس پرس میں جگہ ہی کتنی تھی چھوٹا سا پرس تھا اور اسے اچھی طرح یاد تھا کہ اس نے موبائل پرس میں ڈالا تھا۔ پھر بھی ہوسکتا ہے کہ میں گھر پر ہی بھول گئی ہوں اس نے بیڈروم کی طرف جاتے ہوئے سو چا۔ پورا بیڈروم دیکھنے کے بعد بھی اسے اپنا موبائل نہ ملا۔ لگتا ہے باہر جب گئے تھے تو کسی نے نکال لیا اس نے خود کلامی کی۔
”علی میرا موبائل کسی نے نکال لیا۔“ اس نے بال بناتے حسنین کو مخاطب کیا۔
”تو کس نے کہا تھا یہ لونگ چین پرس لے جانے کو۔“ حسنین نے اس کے پرس کی طرف اشارہ کیا۔
”ہاں صحیح کہہ رہے ہو۔“ اس نے منہ بنایا۔
”اچھا منہ نہ بناﺅ میرے موبائل سے بات کرلو۔“ حسنین نے موبائل اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
”حسنین میری فرینڈ بھی مری میں رہتی ہے چلو اس کے گھر چلتے ہیں۔ میں تو گھر میں رہتے رہتے بور ہوگئی۔ دو دن سے ہم کہیں گئے ہی نہیں۔“
”نہیں! ماریہ ہم کہیں نہیں جائیں گے۔“ حسنین نے مصروف سے انداز میں کہا۔
”مگر کیوں؟“ ماریہ نے سوال کیا۔
”کیوں کہ اس کے گھر میں بھی کوئی نہ کوئی مرد ہوگا میں تمہیں وہاں لے کر نہیں جاﺅں گا۔“ حسنین نے قطعی انداز میں جواب دیا۔
”اچھا تو پھر باہر چلتے ہیں۔“ ماریہ نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے اپنی فرمائش میں ردو بدل کی۔
”اب گھر میں رہنے کی عادت ڈال لو ماریہ تم یہاں سے قدم باہر نہیں نکالو گی۔“ حسنین نے بڑے آرام سے آگاہ کیا۔
”لیکن علی ہم تو یہاں گھومنے پھرنے آئے ہیں نا۔“ ماریہ کو کچھ غلط ہونے کا احساس ہورہا تھا۔ حسنین زور سے ہنس پڑا۔
”گھومنے پھرنے نہیں میں تو یہاں تمہیں اس لیے لایا ہوں کہ یہاں تم صرف میری ہوکر رہوگی۔“ حسنین آنکھوں میں چمک لیے اس کے سامنے آبیٹھا ۔
”اور جب ہم لاہور واپس جائیں گے تو پھر کیا ہوگا؟“ ماریہ نے سوال کیا۔
”ابھی تو کوئی واپس نہیں جارہا اور جب جائیں گے، تو تب کی تب دیکھیں گے۔“ حسنین صوفے سے ٹیک لگا کر بیٹھتے ہوئے بولا۔
”تو یہ مجھے دھوکے سے یہاں لایا ہے اور یہ اب آگے کیا کرنے والا ہے میں بالکل نہیں جانتی۔“ ماریہ بہت خوف زدہ ہوکر سوچ رہی تھی۔
”مجھے اپنے آپ کو بہت پرسکون رکھنا ہوگا تاکہ موقع ملتے ہی یہاں سے بھاگ سکوں۔“ ماریہ اب اپنے یہاں آنے کے فیصلے پر پچھتا رہی تھی۔
”میں سمجھی تھی یہ ٹھیک ہوگیا ہے اور مجھے تو لگتا ہے موبائل بھی اسی نے نکالا ہے۔“
”تم کہیں یہاں سے بھاگنے کا تو نہیں سوچ رہیں؟“ آرام سے بیٹھا حسنین ایک دم وحشت زدہ ہوکر بولا۔
”نن نہیں تو!“ ماریہ اس کے اتنے صحیح اندازے پر ہڑبڑا گئی۔
”نہیں مجھے پتا ہے تم یہی سوچ رہی ہو۔ چلو کمرے میں میرے ساتھ۔“ حسنین نے اسے کمرے میں بند کرکے باہر سے تالا لگادیا۔
”میں تمہیں ایسے نہیں جانے دوں گا۔“ حسنین بڑبڑایا تھا۔
” مجھے پورا انتظام کرنا ہوگا۔“
”ہیلپ می!“ ماریہ کھڑکی کھول کر زور سے چلائی تھی، لیکن اس کی آواز سناٹے میں گونج کر رہ گئی۔ وہ کھڑکی کی سلاخیں تھام کر اِدھر اُدھر جھانکنے لگی۔
”کوئی ہے؟“ وہ پھر چیخی تھی اب ماریہ کی سمجھ میں آرہا تھا کہ حسنین نے یہ گھر کیوں پسند کیا تھا۔ کوئی تو راستہ ہوگا؟ باتھ روم میں دیکھتی ہوں لیکن واش روم میں بھی ایسا کچھ نہیں تھا جس سے مدد مل سکتی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!