”السلام علیکم باجی!“ میں نے صحن میں داخل ہوتے ہوئے انہیں سلام کیا۔
”وعلیکم السلام!“ باجی نے مجھے قرآن پڑھایا تھا جب امی ابو سے علیحدگی کے بعد نانی کے گھر آگئی تھیں۔ تھیں تو بیوہ لیکن کوئی اولاد نہ تھی اسی لیے اکیلی رہتی تھیں۔ تمام محلے والے ان کی بہت عزت اور قدر کرتے تھے۔ وہ تھیں ہی ایسی عزت کیے جانے کے قابل۔ تمام محلے کے بچے ان کے پاس قرآن پڑھنے آتے تھے اور محلے کی عورتیں بھی اپنے گھریلو اور دینی مسائل لے کر ان کے پاس آتی تھیں۔ ابھی بھی ایک عورت ان کے پاس اپنا کوئی گھریلو مسئلہ لیے بیٹھی تھی اور وہ اسے اپنے مخصوص نرم لہجے میں سمجھا رہی تھیں۔
”دیکھو بی بی یہ تو قرآن میں ہے کہ کسی بھی پریشانی کے حل کے لیے صبر اور نماز سے مدد لیا کرو۔ تم بھی نماز کے بعد پورے خلوص سے اپنے لیے دعا مانگا کرو۔ اللہ تمہارے مسئلے حل کرے گا۔“ میں بہت محویت سے باجی کو دیکھ رہی تھی ان کے سانولے اور موٹے نقوش والے چہرے پے کچھ ایسا تھا جو انہیں بہت خاص بناتا تھا اور وہ کیا تھا؟ اس کا جواب میرے پاس نہ تھا۔
٭….٭….٭
شادی کے اس فنکشن میں رنگ و بو کا سیلاب امڈا ہوا تھا۔ شہر کی ساری کریم اس شادی میں شریک تھی۔ ایک سے ایک اعلیٰ لباس خوش باش بے فکرے چہرے۔ ان سب کو دیکھ کر لگتا ہی نہ تھا کہ انہیں کبھی کوئی پریشانی چھو کر گزری ہوگی۔ دُلہا دلہن کی آمد پر پورے ہال کی لائٹس آف کردی گئیں۔ ریمپ پر دُلہا دلہن کی آمد ہوچکی تھی اور تمام لوگوں کی نظریں ان پر جمی ہوئی تھیں۔
٭….٭….٭
”ایک منٹ مس! بات سنیے گا۔“ کوئز کے بعد جب میں اور ماریہ کلاس سے باہر نکل رہے تھے، تو حسنین نے ہمیں مخاطب کیا۔
”جی فرمایئے!“ ماریہ بولی۔
”کیا آپ کے پاس ابھی تک کے تمام لیکچرز موجود ہیں؟ اور اگر ہیں تو کیا مجھے مل سکتے ہیں؟“
”میرے پاس تو نہیں ہیں۔ ہاں آپ لائبہ سے لے لیں اس کے پاس ضرور موجود ہوتے ہیں۔“
میں جو چپ چاپ کھڑی ان کی باتیں سن رہی تھی ہڑبڑا کر نوٹس نکالنے لگی۔ بیگ سے نوٹس نکال کے میں نے چپ چاپ اس کے حوالے کردیے۔
”شکریہ میں یہ آپ کو کل تک واپس کردوں گا۔“ حسنین لغاری کے جانے کے بعد ہماری کلاس کی علیزہ تیز قدموں سے ہماری طرف آئی۔
”یہ تم سے کیا باتیں کررہا تھا؟“ علیزہ کا اشتیاق اس کے ہر لفظ سے ٹپک رہا تھا۔ ماریہ نے ناگواری سے اسے دیکھا اور بولی۔
”ڈنر پے بلایا ہے چلو گی تم؟“ علیزہ جھینپ کر ہنس پڑی اور کہنے لگی۔
”میں تو ویسے ہی پوچھ رہی تھی۔ ویسے بندہ ہے غضب کا؟“ اور اس بات کا اعتراف تو دل ہی دل میں، میں نے بھی کیا تھا۔
”تمہیں تو ہر دوسرا بندہ ہی غضب کا لگنے لگتا ہے ابھی کل ہی تو تم ایم پی اے کے ارسلان کے گن گارہی تھیں۔“
ماریہ نے اس کو ٹھیک ٹھاک سنادیں اور وہاں سے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے لے آئی۔
”یہ علیزہ بھی ویسے بہت چیپ ہے۔“ ماریہ چھوٹے سے آئینے میں اپنا جائزہ لیتے ہوئے بولی۔
”ہاں ٹھیک کہا کل مجھ سے بھی حسنین لغاری کے بارے میں رائے مانگ رہی تھی۔“ میں نے سرسری سے انداز میں بتایا۔
”تو تم نے کیا بولا۔“
”کچھ نہیں میں نے کہا بس ٹھیک ہے۔“ یہ کہہ کر میں ماریہ کا جائزہ لینے لگی جو اب لپ اسٹک کا کوٹ لگا رہی تھی۔
٭….٭….٭
ابو سے طلاق کے بعد جب امی ہمیں نانی کے ہاں لے کر آئیں تو شروع کے دنوںمیں ہم دونوں بہن بھائی یونہی فارغ پھرتے تھے۔ بھائی جو لڑکا ہونے کی وجہ سے ابو امی کا لاڈلا تھا اب ایک دم سے توجہ کی کمی کی وجہ سے چڑ چڑا ہوگیا۔ آتے جاتے ممانی کی چیزیں گرادیتا، ماموں کے بچوں کی چیزیں چھین کر کھا جاتا اور سارا سارا دن گلی میں پھرتا رہتا۔ ایک دن گھر میں ایسا ہی فساد مچا ہوا تھا، تو باجی ہمارے گھر میں داخل ہوئیں۔ اس وقت سفیان ممانی کے ہاتھوں پٹ رہا تھا۔
”ارے ارے کیا کررہی ہو؟ بچے کو کوئی ایسے مارتا ہے کیا؟“ ممانی باجی کو دیکھ کر مو¿دب ہوگئیں اور بتانے لگیں۔
”باجی اس لڑکے نے سب کی ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ آج بھی میں کپڑے استری کررہی تھی۔ بس پانچ منٹ کر اٹھ کر گئی اور اس نے اپنا کام دکھا دیا۔ استری تیز گرم کرکے قمیص کے عین بیچ میں رکھ دی جب میں آئی تو کھڑا ہوا دانت نکال رہا تھا۔“ ممانی نے غصے سے ساری روداد سنادی۔
”تو آپ نے بھی تو کہہ دیا تھا کہ تمہارے لیے کوئی انڈے نہیں ہیں چپ کرکے پاپے کھاﺅ تمہارے باپ کا گھر نہیں ہے یہ۔“ سفیان نے بھی اپنا حساب برابر کیا۔ باجی نے ایک تاسف بھری نظر ممانی پر ڈالی اور پھر نانی سے گزارش کی کہ
”محلے کے باقی بچوں کے ساتھ ان دونوں کو بھی میرے گھر قرآن پڑھنے بھیج دیا کریں۔“ اور نانی نے خوشی خوشی ہامی بھرلی تھی کہ ”فتنہ“ تھوڑی دیر تو گھر سے باہر رہے گا۔ یوں ہم باجی کے گھر جانے لگے۔ باجی کا گھر ان کی طرح ہی سادہ تھا۔ گرمیوں کی شام میں وہ ہمیں صحن میں بیٹھا کر پڑھاتی تھیں۔ مجھے یاد ہے ایک دفعہ میرے ہاتھ سے چائے کا کپ گر کر ٹوٹنے پر ممانی نے سزا کے طور پر کھانا بند کردیا تھا۔ اس دن مجھ سے کسی صورت سبق ہی نہ یاد ہوا۔ بھوک سے پیٹ میں بل جو پڑرہے تھے۔
”بیٹا کیا بات ہے تم تو بڑی اچھی بچی ہو آج سبق یاد نہیں ہورہا تم سے کیوں؟“
”وہ کچھ نہیں باجی پیاس لگ رہی ہے۔ میں پانی پی لوں؟“ میں نے جھٹ سے بہانہ بنایا۔
”باجی یہ جھوٹ بول رہی ہے ممانی نے آج کپ ٹوٹنے پر اسے کھانا نہیں دیا۔ “ سدا کے منہ پھٹ سفیان نے جھٹ میرا پول کھول دیا۔ اس بات پر باجی نے غور سے مجھے دیکھا اور بغیر کچھ کہے اٹھ کر باورچی خانے میں چلی گئیں ۔ پھر مجھے آواز دے کر بلایا اور دال چاول میرے سامنے رکھ دیے۔ اس دن کے بعد سے باجی اکثر ہی ہمیں کسی بہانے سے گھر پر روک کر کھانا کھلانے لگیں کیوں کہ سفیان نے انہیں بتا دیا تھا کہ سزا کے طور پر ہمارا کھانا اکثر بند ہوجاتا ہے۔
٭….٭….٭
بغیر آستینوں کی ٹاپ اور بلیک جینز میں اس کا سراپا بہت نمایاں ہورہا تھا۔ اس نے اپنے کٹنگ شدہ بالوں میں آج کرلز ڈالے ہوئے تھے۔ گہرے میک اپ نے اس کی شخصیت بالکل ہی بدل کر رکھ دی تھی۔ گھڑی میں وقت دیکھ کر وہ زیر لب بڑبڑائی۔
” اب مجھے چلنا چاہیے۔“ اور پرس اٹھا کر باہر نکل گئی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!