”بڑے عرصے بعد وہ آج تیار ہوئی تھی۔ سر سے پیر تک وہ الگ الگ برانڈز کا چلتا پھرتا اشتہار تھی۔
”واﺅ! تم بہت خوب صورت لگ رہی ہو۔“ اس کی ماما نے توصیفی انداز میں اسے دیکھا۔
”دیکھا میں تو تم سے کہتی ہوں کہ اب بھی کچھ نہیں بگڑا بس تم ہی ہر وقت سوگ کی کیفیت میں رہتی ہو۔ مسز خواجہ بھی تمہیں بہت پیار سے بلا کر گئیں ہیں، تمہیں وہاں بہت مزا آئے گا۔“
”مام آپ جاکر ملیں سب سے میں یہاں بیٹھی ہوں۔“ اس نے پارٹی میں جاکر کہا۔
”ٹھیک ہے ہنی۔“ اس کی مام آگے بڑھ گئیں۔ وہ بھی تو ایک ایسی ہی پارٹی تھی جس میں جانے کے لیے تیار ہوئی تھی۔ وہ اپنا ماضی سوچنے لگی تھی۔
٭….٭….٭
ماریہ اپنی تیاری کو فائنل ٹچز دے رہی تھی۔ یہ ایک بیک لیس اور سلیولیس گاﺅن تھا۔
”ہمم!“ اس نے تیاری کے بعد شیشے میں اپنے آپ کو تنقیدی نظروں سے دیکھا۔ آگے پیچھے گھوم کر دیکھنے کے بعد بھی اس کی تسلی نا ہوئی تو وہ علی کے پاس چلی آئی۔
”علی!“ اس نے اپنے اوپر پرفیوم چھڑکتے ہوئے علی کو مخاطب کیا۔
”ہاں بولو۔“
”میں کیسی لگ رہی ہوں؟“ اس کے سوال پر علی نے پیچھے مڑ کر اس کا جائزہ لیا۔
”شاندار“پھر اس کے تاثرات میں سختی ابھر آئی۔
”کس کے لیے اتنا تیار ہورہی ہو؟“
”تمہارے لیے علی۔“ وہ ناسمجھی سے مسکرائی۔
”ہماری شادی کی خوشی میں پارٹی ہے تو تمہارے لیے ہی تیار ہوں گی نا۔“
”پکی بات ہے؟“ اس نے پھر سے پوچھا۔
”ہاں بھئی پکی بات ہے اب چلیں دیر ہورہی ہے۔“
”واﺅ یار مونا پارٹی تو بہت زبردست ہے۔“ ماریہ نے پارٹی کے انتظامات دیکھ کر بے اختیار سراہا تھا ورنہ وہ اتنی آسانی سے کسی چیز کی تعریف نہیں کرتی تھی۔
”ہاں بھئی میں نے تو ممی پاپاسے کہہ دیا میں ہر چیز خود دیکھوں گی۔ آخر میری بیسٹ کزن کی آفٹر ویڈنگ پارٹی ہے۔“ مونا خود بھی سلیولیس بلیک ٹاپ اور اسکرٹ میں ملبوس تھی۔
”ارے انکل آنٹی کہاں ہیں؟“ماریہ نے نظریں گھمائیں۔
”آﺅ میں تمہیں ملواﺅں۔“‘ مونا اسے لیے پول کی دوسری طرف آئی۔
یونہی پارٹی سے لطف اندوز ہوتے میں حسنین کے پاس آکر کھڑی ہوگئی۔
”علی تمہیں مزہ آرہا ہے نا؟“
”ہاںمیں بہت انجوائے کررہا ہوں۔“
”ارے تم شہریار سے ملے وہ میرا اور مونا کا بیسٹ فرینڈ ہے ہم لوگ پہلے ایک ہی اسکول میں پڑھتے تھے پھر وہ لوگ امریکا شفٹ ہوگئے۔ آج کل آئے ہوئے ہیں۔ سب لوگ ان کی فیملی سے آﺅ میں تمہیں ملواﺅں۔“
”ہائے شہریار کیسے ہو تم؟“ ماریہ اس کے گلے لگتے ہوئے بولی۔
”میں ٹھیک ہوں، تم کیسی ہو؟“
”میں بھی ٹھیک ہوں، علی سے ملو میں خاص طور پر تم سے ملوانے لائی ہوں۔“
”تو یہ ہیں وہ خوش قسمت آدمی۔“ ماریہ نے اس کے کندھے پر ہاتھ مارا۔
”مذاق مت کرو۔ علی تم برا مت ماننا اس کی مذاق کرنے کی عادت ہے۔“
”ارے نہیں علی میں مذاق نہیں کررہا میں لیٹ ہوگیا ورنہ میں بھی اس کا امید وار تھا۔“ شہر یار قہقہہ لگا کر بولا۔
ماریہ نے اس کے کندھے پر پھر ایک دھپ لگائی۔
”ابھی شیما کو جاکر بتاتی ہوں تمہارا منگیتر کیا بکواس کررہا ہے۔“ پھر وہ دونوں قہقہہ لگا کر ہنسنے لگے جب کہ علی کے ہرطرف ایک ہی آواز گونج رہی تھی۔
”میں لیٹ ہوگیا۔“
٭….٭….٭
”آج کی پارٹی اچھی تھی نا؟“ ماریہ نے کلینرنگ کرتے میں حسنین کو مخاطب کیا۔
”ہمم! لگتا ہے تم نے بہت انجوائے کیا؟“ حسنین نے اس کے سوال کے جواب میں ایک اور سوال کیا۔
”ہاں بہت زیادہ!“ ماریہ مسکرائی۔
”شہریارسے بہت اچھی دوستی تھی تمہاری کیا؟“ حسنین نے چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔ اس کے لہجے پرماریہ کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔
”علی تمہیں شہریار کے ساتھ کوئی پریشانی ہے کیا؟ تم وہاں بھی اتنا عجیب بی ہیو کررہے تھے۔“
”ہاں ہے پریشانی۔“ وہ یک دم غرّایا۔
”تم اس کے ساتھ بے تکلفی کی ہر حد پار کر جاﺅ اور مجھے اس سے پریشانی بھی نہ ہو۔“
”علی اسٹاپ اٹ! “ ماریہ اس سے بھی زیادہ بلند آواز میں چلائی۔
”چھوٹے دماغ کے مردوں کی طرح بی ہیو مت کرو اور مجھے سمجھ نہیں آرہا میں نے ایسا کیا کیا ہے؟“ ماریہ کو واقعی سمجھ نہیں آرہا تھا اس نے کیا کیا ہے۔ ہاتھ ملانا، گلے لگ کر وش کرنا اس کے نزدیک عام سی باتیں تھیں اور پھر یہ سب حسنین خود بھی کرتا ہے۔
”تم مجھے اس کے آس پاس نظر نہ آﺅ بس اتنا چاہتا ہوں میں۔“ حسنین پھر سے چلایا تھا۔ وہ کسی مرد کو لے کر ان کے بیچ پہلا جھگڑا تھا۔
دوسرے دن حسنین نے اس سے خود ہی معافی مانگ لی تھی۔
”میں کچھ زیادہ ہی غصہ کرگیا تھا سوری۔“
”کوئی بات نہیں۔“ ماریہ نے مسکرا کر اس کی معافی قبول کی۔ وہ ویسے بھی اپنے شوہر سے بہت محبت کرتی تھی۔
”اچھا ٹھیک ہے آج ڈنر باہر کریں گے تم تیار رہنا۔“ علی بس میرے بارے میں پوزیسو زیادہ ہے اور کوئی بات نہیں ماریہ نے اس کی صفائی خود ہی پیش کی۔
٭….٭….٭
”ہیلو ماما کیسی ہیں آپ؟“ جی میں بھی ٹھیک ہوں، اچھا ماما علی آگیا ہے، میں آپ سے بعد میں بات کرتی ہوں۔“
”کیا ہوا بات کرتی رہتیں۔“ حسنین نے بیڈ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔
”نہیں بس وہ ایسے ہی خیر خیریت پوچھ رہی تھیں۔“
”اچھا موبائل فری ہے تو دینا میں ایک کال کروں گا میرے موبائل کی بیٹری بالکل ڈاﺅن ہے۔“ حسنین نے موبائل کے لیے ہاتھ بڑھایا۔
”ہاں یہ لو۔“ ماریہ نے موبائل اس کی طرف بڑھایا اور خود کمرے سے باہر نکل گئی جب کہ پیچھے حسنین کال لوگ اور میسجز چیک کررہا تھا۔
”علی کال کرکے نیچے آجانا۔“ اسے ماریہ کی آواز آئی۔
”ہاں بس آرہا ہوں۔“ اس نے جلدی سے موبائل رکھا اور باہر نکل گیا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!