”یا اللہ حسنین کو معاف کردے میں نے بھی اسے معاف کیا۔“ میں بڑی عاجزی سے اللہ سے دعا کررہی تھی۔ وہ شخص اب رحم کے ہی لائق تھا۔ میں نے اسے دل کی گہرائیوں سے معاف کردیا تھا۔
انسان ساری زندگی زمین پر بڑا اکڑ کر چلتا ہے جیسے اسے یہاں سے کبھی جانا ہی نہیں ہے۔ اللہ اس کی رسی دراز کرتا ہے اور کرتا ہی جاتا ہے اور وہ سمجھتا ہے کہ اس کی کبھی پکڑ ہوگی ہی نہیں اور اسی زعم میں مبتلا انسان کی رسی ایک دم سے کھینچ لی جاتی ہے۔
٭….٭….٭
”صاحب جی! آپ سے ملنے کوئی آیا ہے۔“ ملازم کے اطلاع دینے پر اس نے اپنی آنکھیں تھوڑی سی کھول کر سامنے دیکھا۔” یہ لڑکی دیکھی بھالی ہے۔“ اس نے اسکارف عبا میں ملبوس اس لڑکی کو پہچاننے کی کوشش کی۔
”بی بی جی آپ بیٹھیں میں آپ کے لیے کچھ لے کر آتا ہوں۔“ گوکہ مجھے کسی چیز کی حاجت نہ تھی مگر تنہائی کے خیال سے میں نے ٹھیک ہے کا اشارہ کردیا۔
”حسنین میں لائبہ ہوں یاد آیا تمہیں؟“ میں نے بڑی مشکل سے بات کا آغاز کیا۔ جو شخص آپ کی بری یادوں کا ذمے دار ہو اسے معاف کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ”لائبہ؟“ پھر اس کی یادداشت میں کچھ مناظر ابھرے اور بس اس نے کپکپاتے ہوئے ہاتھ میرے سامنے جوڑ دیے۔
”حسنین میں یہاں تمہاری بے بسی کا تماشا دیکھنے نہیں آئی میں نے تمہیں معاف کیا اللہ تمہاری مشکل آسان کرے۔ معاف کرنا بھی باظرف لوگوں کا وصف ہے یہ ہر ایک کی خوبی نہیں ہوتی۔ میں نے نمی چھپانے کے لیے سن گلاسز آنکھوں پر لگالیے اور باہر نکل آئی۔ پیچھے حسنین پھوٹ پھوٹ کر رو رہا تھا اور پیمپر شاید لیک ہوچکا تھا۔ اس میں سے غلاظت رس رس کر باہر آرہی تھی اور ماحول کو تعفن زدہ کررہی تھی۔
میں ہوں نشانِ عبرت
کہ آﺅ اور مجھے دیکھو
٭….٭….٭
”تم دونوں کون ہو؟“ اس نے ان کرخت چہرے والے اشخاص کو پہچاننے کی کوشش کی۔
”ہم تمہیں لینے آئے ہیں۔“
”کہاں لے کر جاﺅگے؟“ وہ غشی کے عالم میں بڑبڑایا۔
”وہیں جہاں انسان کا ابدی گھر ہے۔“ آہ ! تکلیف ہی تکلیف تھی۔
”صاحب کیا ہورہا ہے آپ کو؟ میں ڈاکٹر کو بلا کر لاتا ہوں۔“ اسے اپنے ملازم کے لب تو ہلتے نظر آئے لیکن وہ کچھ سمجھ نہ سکا۔ تکلیف ہی تکلیف تھی جیسے نوک دار سیخ گیلی اون میں سے گزاری جائے اور پھر اس کی نظریں ساکت ہوگئیں۔ ایک ہچکی اور قصہ ختم۔
٭….٭….٭
اس دن میں گھر آکر بے پناہ روئی تھی میں جو اللہ سے شکوے کرتی تھی کہ اللہ نے مجھے کچھ اچھا نہیں دیا کبھی، میرے ساتھ ہمیشہ برا ہوتا ہے اور جس نے میرے ساتھ برا کیا وہ سب خوش ہیں۔ مجھے آج یقین آگیا تھا کہ اللہ کی لاٹھی بے آواز ہے۔
٭….٭….٭
فون کی گھنٹی مسلسل بج رہی تھی میں کچن میں تھی جلدی سے بھاگ کر فون اٹھایا۔
”ہیلو! السلام علیکم!“
”وعلیکم السلام بیٹا کیسی ہو؟“
”جی ممانی میں ٹھیک ہوں الحمدللہ۔ آپ سنائیں کیسی ہیں؟“
”ہاں میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا۔ بیٹا بس یاد دہانی کے لیے فون کیا تھا کل حوریہ کے سسرال جانا ہے تم بھی چلنا۔“
”جی ممانی! یاد ہے مجھے آپ پریشان مت ہوں۔“ ممانی اب مجھے اکثر فون کرلیتی تھیں اور ہر ضروری کام میں مجھے ضرور شریک کرتی تھیں۔ میں نے ان سے دو چار اِدھر اُدھر کی باتیں کرکے فون رکھ دیا۔
٭….٭….٭
”آپی ! آپ کا گھر کتنا پیارا ہے۔“ حوریہ ہمارے گھر میں داخل ہوتے ہی بولی۔
”جہاں تم جارہی ہو وہ گھر بھی کم پیارا نہیں ہے۔“ میں نے مسکرا کر اسے چھیڑا۔ ہم اپنے نئے گھر میں شفٹ ہوئے تھے اور اسی خوشی میں آج ہمارے گھر میں دعوت تھی۔
”ویسے آپ نے کس کس کو بلایا ہے؟“ حوریہ اپنی لپ اسٹک ٹھیک کرتے ہوئے بولی۔
”بس اپنے قریبی لوگ ہی ہیں۔“
”اچھا ! عبدالہادی بھائی کے دوست آئیں گے کیا؟“
”ہاں جنہیں بلایا ہے وہ تو آئیں گے نا۔“ میں مسکراہٹ دبا کر بولی۔
”اچھا!“ حوریہ نے لمبا سا اچھا کیا۔
”کن کن دوستوںکو بلایا ہے؟“
”فکر نہ کرو تمہارا پورا سسرال آئے گا۔“ میں قہقہہ لگا کر بولی۔ میرے اچانک حملے پر حوریہ گڑبڑا گئی۔
”نہیں وہ تو میں بس ایسے ہی پوچھ رہی تھی۔“
”بچو! میں تمہیں بہت اچھے طریقے سے جانتی ہوں۔“ میری ہنسی ہی نہیں رک رہی تھی۔
”تیار ہوکر باہر آجانا۔“ تقریب کا انتظام باہر لان میں کیا گیا تھا میں یونہی انتظامات کا جائزہ لینے لگی۔ اللہ مجھے بے حد و بے حساب نواز رہا تھا۔ میں جب تک دنیا والوں اور دنیا کے پیچھے بھاگتی رہی ذلیل و خوار ہوتی رہی اور جب میں اللہ کی ہوگئی تو اللہ نے پوری دنیا میرے قدموں میں لابٹھائی تھی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!