آج رپورٹس ملنی تھیں۔ میں دھک دھک کرتے دل کے ساتھ رپورٹس لے کر ڈاکٹر کے پاس پہنچی۔
”سب کچھ ٹھیک ہے۔“ ڈاکٹر نے رپورٹس دیکھنے کے بعد کہا۔
”اللہ کا شکر ۔“ میں نے گہرا سانس خارج کیا۔ پھر ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے ہوئے میں باہر نکل آئی۔ میں نے متلاشی نظروں سے اِدھر اُدھر دیکھا شاید میرا وہم ہی ہوگا میں نے خود کلامی کی ورنہ حسنین یہاں کیا کررہا ہوگا وہ بھی اس حالت میں اور پھر ماریہ بھی تو نہیں تھی اس کے ساتھ۔
گھر آکر حسنین اور ماریہ دونوں میرے ذہن سے محو ہوگئے۔ آج گھر پر بہت سارے کام تھے عبدالہادی کو بہت اچھی جاب آفر ہوئی تھی۔ بس اسی خوشی میں اپنے قریبی لوگوں کو ہم نے اپنے گھر مدعو کیا تھا۔ تھوڑی ہی دیر میں سب لوگ پہنچنے والے ہوں گے۔ میںبھی جلدی سے تیار ہوجاﺅں۔ ریڈ کلر انہیں بہت پسند ہے چلو آج یہی پہن لیتی ہوں۔ میں نے جلدی سے ریڈ ڈریس اٹھایا اور واش روم میں گھس گئی۔
”ممانی عبدالہادی کے کوئی جاننے والے ہیں۔ آج کل اپنے لڑکے کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہے ہیں۔ میں نے آپ کا فون نمبر دیا ہے حوریہ کے لیے۔“
”اللہ تم دونوں کوبہت خوش رکھے عبدالہادی تو بیٹے سے بھی بڑھ کر ہے۔“ ممانی بے ساختہ ہمیں دعائیں دینے لگیں۔ بہت ساری محبتوں کے ساتھ یہ چھوٹی سی دعوت اختتام کو پہنچی۔
٭….٭….٭
وہ ایک نرم سی صبح تھی جب ہمارا بیٹا اس دنیا میں آیا۔ سب گھر والے خوشی سے بے حال تھے۔
”اس کا نام سوچا ہے؟“ حوریہ مجھ سے پوچھ رہی تھی۔
”پتا نہیں کچھ سمجھ نہیں آرہا آپ لوگ بتائیں؟“
”ارے بیٹا ماں تو تم ہو سب سے زیادہ حق تو تمہارا ہے؟“ پھوپھو بولیں۔
”چلو نہیں بھی سوچا ہے تو سوچ لینا۔“ ممانی بولیں۔
ہمارے چھوٹے سے گھر میں جیسے خوشیاں ہی خوشیاں بھر گئیں تھیں اور مصروفیت بے انتہا بڑ ھ گئی تھی۔ ایک دن ممانی ہمارے گھر آئیں تو مجھے بے انتہا مصروف دیکھ کر کہنے لگیں۔
”بیٹا اس طرح تو تم بہت تھک جاﺅگی ایسا کرو ایک دو دن ہمارے گھر آجاﺅ تھوڑا آرام مل جائے گا۔“
”جی ممانی! میں آﺅں گی، لیکن تھوڑے دن بعد۔“ میں نے بلال کو سنبھالتے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
چلو چھوٹو تو سوگیا۔ اب میں جلدی سے کچن کا کام ختم کرلیتی ہوں۔ میں نے اپنے کاموں کی لسٹ دہرائی۔ کچن کے کام ختم ہوتے ہی میں نے سکھ کا سانس لیا۔ میں دبے پاﺅں چلتی ہوئی کمرے میں آئی یہ ابھی تک سو رہا ہے۔
٭….٭….٭
”کون ہو تم؟“ اس شخص کی ابھی آنکھ لگی تھی کہ اپنے سامنے ایک کریہہ صورت آدمی کو دیکھ کر وہ بری طرح ڈر گیا۔
”میں کون ہوں؟ اس کریہہ شخص کے چہرے پر حیرت کے تاثرات ابھر آئے۔
”تم سے زیادہ کسے پتا ہوگا کہ میں کون ہوں۔ میں تمہارے برے اعمال ہوں جو تم نے کیے۔“ وہ کریہہ شخص اب اس کی طرف بڑھنے لگا تھا۔
”نہیں مجھے چھوڑو میں نے کچھ نہیں کیا۔“ اسے اسپتال کا وہ کشادہ کمرا اب یک دم گھوٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔
”تم نے وہ سب کچھ کیا جو تمہارا دل نے چاہا اب بھگتو مزہ۔“ اسے اپنی طرف بڑھتے دیکھ کر وہ مزید زور زور سے چیخنے لگا۔ اس کی چیخ و پکار سے پریشان ہوکر اس کا ملازم ڈاکٹرز کو کمرے میں بلا لایا۔ اب وہ اسے پرسکون کرنے کی کوشش کررہے تھے۔
٭….٭….٭
عافیہ کے ہاں بیٹی ہوئی تھی۔ اس کے شوہر کو پینل پر وہی اسپتال ملا ہوا تھا جس میں عبدالہادی بھی کام کرتے تھے۔ آج میں اس کی بیٹی کو دیکھنے آئی ہوئی تھی۔ میں جب بھی کسی چھوٹے بچے کو دیکھتی تھی مجھے بے اختیار بلال یا د آجاتا تھا۔
”چلو اب میں چلتی ہوں۔“ کچھ دیر بیٹھ کر میں نے اجازت چاہی۔
”ہاں میں بھی بس فارغ ہونے والا ہوں ساتھ چلیں گے۔“ عبدالہادی نے مجھے تھوڑی دیر انتظار کرنے کو کہا۔
میں یونہی ایک بنچ پر آکر بیٹھ گئی اورآتے جاتے لوگوں کو دیکھنے لگی۔ یہ شہر کا ایک معروف اور مہنگا اسپتال تھا۔ کچھ لوگوں کے چہرے خوشی سے دمک رہے تھے اور کچھ لوگوں کا پورا وجود جیسے اداسی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جگہ ایک ہی تھی لیکن سب کے آنے کی وجوہات الگ الگ تھیں۔ ٹھک! ایک چھوٹی سی ربڑ کی بال میرے قدموں میں آکر گری۔
”سوری آنٹی۔“ ایک گلابی سی بچی پھولا سا منہ بنائے میرے پاس کھڑی تھی۔
”کوئی بات نہیں۔“ میں نے جھک کر اس کی بال اسے پکڑائی اور مسکرا کر اس سے باتیں کرنے لگی۔ اسی دوران میری نظر ویل چیئر پر جاتے اس شخص پر پڑی۔ حسنین وہ حسنین ہی تھا بلکہ حسنین کی پرچھائی تھی۔
”یہ اسے کیا ہوگیا؟“ میں بے اختیار اس کے پیچھے گئی۔
”یہ انہیں کیا ہوا ہے؟“ میں نے اس ملازم ٹائپ شخص سے پوچھا۔
”پتا نہیں بی بی جی تھوڑے عرصے پہلے تک تو بھلے چنگے تھے پھر ایک دن خون کی الٹی آنے پر اسپتال والوں نے ٹیسٹ کرائے تو پتا چلا جگر کا کینسر ہے۔ ڈاکٹر صاحب کہتے ہیں شراب زیادہ پینے کی وجہ سے ہوا ہے۔“ وہ ملازم باتوں کا بہت شوقین معلوم ہوتا تھا۔
”اور ان کی فیملی؟“
”پتا نہیں بی بی جی بڑے لوگوں کی بڑی باتیں۔ بڑے صاحب اوربیگم صاحبہ خیال تو کرتے ہیں، لیکن وہ مصروف بھی بہت رہتے ہیں اور بیوی ان کی ہیں نہیں۔ بس اب بیمار شخص کو کیا کہوں میں دوسری بیبیاں بہت آتی تھیں گھر پر اب تو جیسے سب ساتھ چھوڑ گئے۔“ اس شخص نے افسردگی سے سرہلایا۔ وہ شخص اور بھی کچھ کہہ رہا تھا، لیکن میرا دماغ جیسے سن سا ہوگیا تھا۔
”لگتا ہے ماریہ نے بھی اسے چھوڑ دیا ہوگا۔ بیماری کی وجہ سے۔“ میں نے قیاس آرائی کی، لیکن ملازم تو کہہ رہاتھا ان کی بیوی ہے ہی نہیں۔ وہ ڈھانچہ نما بغیر بالوں والا شخص وہ حسنین تو نہ تھا جس کی وجاہت پر لڑکیاں مرتی تھیں۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!