”یہ لیں!“ میں نے گرم دودھ کا گلاس عبدالہادی کی طرف بڑھایا۔
”شکریہ ۔ صبح اسپتال بھی جانا ہے جلدی لیٹ جایئے گا۔“ میں نے تاکید سے کہا۔
”نیک بیوی بھی اللہ کی ایک نعمت ہے۔“ میں نے انہیں کہتے سنا اور ”نیک شوہر بھی۔“ میں نے مسکراتے ہوئے دل میں سوچا۔ عبدالہادی کو رات دیر تک پڑھنے کی عادت تھی۔ وہ آگے بڑھنے کے لیے بہت محنت کررہے تھے۔ کتنا ہی اچھا ہوتا اگر ہمارے پاس ایک گاڑی ہوتی۔ میں لیٹ کر سوچنے لگی کتنی گرمی میں انہیں بائیک پر سفر کرنا پڑتا ہے۔ یہی سوچتے سوچتے میں نیند کی وادی میں اتر گئی۔
٭….٭….٭
میں نے اسکارف کو اچھے طریقے سے اپنے چہرے کے گرد لپیٹا اور کھانے کی ٹرے اٹھا کر پھوپھو کے گھر آگئی۔
”کیسی طبیعت ہے پھوپھو اب آپ کی؟“ پچھلے کئی دنوں سے انہیں بخار آرہا تھا۔
”اب تو ٹھیک ہوں بیٹی یہ بتاﺅ عبدالہادی کیسا ہے؟“ بہت دنوں سے چکر نہیں لگایا۔
”جی پھوپھو آج کل وہ بہت مصروف ہوتے ہیں گھر بھی بہت دیر سے آتے ہیں۔ پھوپھو میں آپ کے لیے یخنی بنا کر لائی ہوں آپ کا جب دل چاہے پی لیجیے گا۔“ جواب میں ان کے لبوں سے دعاﺅں کا چشمہ پھوٹ پڑا۔ میں جب بھی ان سے ملتی تھی مجھے اپنی پھوپھو یاد آجاتی۔ دونوں میں زمین آسمان کا فرق تھا۔
٭….٭….٭
”ارے آج آپ جلدی آگئے؟“ ہاں آج مریض کم تھے، تو میں نے سوچا اپنی پیاری بیگم کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے۔“ یہ لو انہوں نے کچھ لفافے میری طرف بڑھائے ان لفافوں کو کھولتے ہوئے میں مسکرا دی ان میں سموسے تھے۔ مجھے یاد آیا کہ ٹی وی دیکھتے میں نے کہا تھا سموسے کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ شروع میں، میں حیران ہوتی تھی جب میرے شوہر یاد سے میرے لیے کچھ لے کر آتے تھے اب میں صرف شکر گزار ہوتی تھی ”ہادی“ کی بھی اور عبدالہادی کی بھی۔
٭….٭….٭
”ارے ابا آپ؟“ آئیں میں غیر متوقع طور پر صبح ہی صبح ابا کو دیکھ کر بے حد خوش ہوگئی۔
”ہاں بیٹا تم سے ملنے کو دل چاہ رہا تھا اسی لیے آگیا، تم بھی تو اتنے دن سے نہیں آئیں۔“
”جی ابا بس ٹائم ہی نہیں ملتا۔“ میں ہنس کر بولی۔
”میری بیٹی خوش تو ہے نا؟“
”جی ابا الحمد للہ“ میں طمانیت سے مسکرادی۔
”اچھا لائبہ بیٹا یہ میں تمہارے لیے لایا ہوں۔“ ابا نے ایک چیک میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”ابا یہ کیا ہے؟“ میں نے نا سمجھی سے انہیں دیکھا۔
”تمہارے لیے ایک چھوٹا سا تحفہ۔“
”مگر ابا یہ تو بہت زیادہ ہیں۔“ میں چیک پر نظر دوڑاتے ہوئے بولی۔
”بیٹی کے لیے زیادہ نہیں ہیں۔“ ابا شفقت سے مسکرائے۔
”اچھا اب میں چلتا ہوں۔ یہاں سے آفس بھی جانا ہے۔“
ابا کے جانے کے بعد میں اس رقم کا مصرف سوچنے لگی۔ ہاں یہ ٹھیک ہے گاڑی لے لیں گے میں نے سوچا چھوٹی ہی سہی، لیکن آرام ہوجائے گا۔ میں نے فیصلہ کرتے ہوئے چیک الماری میں رکھ دیا۔
٭….٭….٭
”اب کیسی طبیعت ہے ماموں کی؟“ میں نے حوریہ سے فون پر پوچھا۔
”اب تو بہتر ہے ہم سب تو ڈر ہی گئے تھے۔“ حوریہ بولی۔
”ڈر تو میں بھی گئی تھی۔“ میں نے ہنڈیا میں چمچہ چلاتے ہوئے کہا۔
”لیکن تم پریشان مت ہونا اور کھانا بھی مت پکانا میں کھانا لے کر آﺅں گی، ماموں کا بھی پرہیزی کھانا بنا لیا ہے۔
”اچھا ٹھیک ہے میں بس آدھے گھنٹے میں آتی ہوں ۔ اللہ حافظ۔“
٭….٭….٭
”اچھا اب رونا تو بند کرو۔“ میں نے حوریہ کو تھپکتے ہوئے کہا۔
”آپی آپ ہی ابو کو سمجھائیں بائی پاس کرالیں ہماری بات تو وہ سن ہی نہیں رہے کہتے ہیں کہ بائی پاس کرالیا تو حوریہ کی شادی کے لیے پیسے کہاں سے آئیں گے۔ آپ بتائیں آپی ابھی کون سی میری شادی ہونی ہے ابھی تک تو بات بھی پکی نہیں ہوئی ہے ابو نہیں ہوں گے تو ہمارا کیا ہوگا؟“ وہ پھر زور شور سے رونے لگی۔
”اچھا تم رو نہیں میں کرتی ہوں کچھ۔“ میں نے اسے تسلی دی۔
٭….٭….٭
”بات سنیں مجھے آپ سے کچھ ضروری بات کرنی ہے۔“ اس دن میں الجھی الجھی سی رہی پھر رات ہوتے ہی میں عبدالہادی کے پاس جاپہنچی۔
”لگ رہا ہے کوئی بات ہماری بیگم صاحبہ کو پریشان کررہی ہے۔“ عبدالہادی نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”آپ کو کیسے پتا چل جاتا ہے؟“ میں حیران ہوئی۔
”بس دیکھ لو۔“ عبدالہادی نے شرارت سے کندے اچکائے۔
”اچھا وہ چھوڑیں میں نے آپ کو بتایا تھا نا کہ ابا مجھے پیسے دے کر گئے ہیں۔“
”ہاں تو پھر؟“
”پہلے تو میں سوچ رہی تھی کہ ہم ان پیسوں سے گاڑی خرید لیں گے، لیکن حوریہ مجھے بتارہی تھی کہ….“ میں انہیں پوری بات بتاتی چلی گئی ۔
”تو اب آپ مشورہ دیں مجھے کیا کرنا چاہیے؟“
”اب یہ تو تمہیں فیصلہ کرنا ہے کیا ضروری ہے اور کیا ضرورت؟“
”آپ کو کوئی اور ضرورت تو نہیں۔“ میں نے عبدالہادی کی طرف دیکھا۔
”نہیں بھئی مجھے کوئی ضرورت نہیں تم وہ کرو جو تمہیں ٹھیک لگتا ہے۔“
”ٹھیک ہے۔“ میں نے مطمئن ہوکر سرہلایا۔ فیصلہ ہوچکا تھا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!