”میرا لونگ گواچا۔“ حوریہ چیخ چیخ کر عافیہ اور محلے کی کچھ لڑکیوں کے ساتھ مل کر گا رہی تھی۔ یہ چھوٹی سی تقریب میرے نکاح سے ایک دن پہلے رکھی گئی تھی۔ پورے صحن میں مسحور کن سی خوشبو چکراتی پھر رہی تھی۔
”چلیں بھئی اب ہماری دادی ایک گانا سنائیں گی۔“ حوریہ نے بوتل کو مائیک بناکر ایک نیا نعرہ بلند کیا۔ میں نے مسکرا کر حوریہ کو دیکھا سب کچھ کتنا خوب صورت تھا۔
٭….٭….٭
کام دار سرخ فراک میں، میں بالکل تیار ہوں۔ بس کچھ گھنٹے اور پھر میں اس گھر سے رخصت ہوجاﺅں گی۔ میں نے گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے سوچا۔
”لڑکے والے آتے ہی ہوں گے۔“ رابعہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے بولی۔
”لاﺅ میں تمہارا میک اپ فریش کردوں اور کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ بھی بتادو۔“ اس نے مجھ سے پوچھا۔
”نہیں۔“ میں نے نفی میں سرہلایا۔ اس وقت میرے دل کی کیفیت عجیب سی ہورہی تھی جس گھر میں جن لوگوں کے ساتھ زندگی گزاری تھی انہیں چھوڑنے کا وقت آگیا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے آنے والی زندگی کے خدشات بھی ڈرا رہے تھے۔ اگر امی ہوتیں تو وہ کتنا خوش ہوتیں۔ میں نے سوچا اور ابا نے پتا نہیں کیا سوچا ہوگا جب انہیں میری شادی کی اطلاع ملی ہوگی۔
”لائبہ تم سے ملنے کوئی آیا ہے۔“ عافیہ کی آواز نے مجھے میرے خیالات سے چونکا دیا۔
میں نے دروازے کی طرف دیکھا اور بے یقینی سے دیکھتی ہی رہ گئی۔
”ابا!“ میں بھاگ کر ان کی بانہوں میں سما چکی تھی۔
”ابا مجھے لگا تھا آپ نہیں آئیں گے۔“ میں ہچکیوں سے روتے ہوئے بولی۔ سب لوگ موقع کی نزاکت دیکھتے ہوئے ہمیں اکیلا چھوڑ گئے تھے۔
”مجھے معاف کردو میری بچی خدیجہ نے مجھے سب بتادیا ہے۔“ ابا نے اپنی آنکھیں صاف کرتے ہوئے کہا۔
”نہیں ابا کیسی باتیں کرتے ہیں آپ۔“ میں خفگی سے بولی۔
”بس بھول جائیں پرانی باتوں کو۔ ابا خدیجہ کو بھی لے آتے۔“
”بھئی تمہیں رونے دھونے سے فرصت ملے، تو ہماری باری بھی آئے۔“ خدیجہ اندر داخل ہوتے ہوئے بولی۔ میں اب چیخ مار کر اس سے لپٹ چکی تھی۔
”ویسے رو رو کر اپنا اچھا خاصا میک اپ بگاڑ لیا ہے تم نے۔“ اس کی سرگوشی پر میں اسے گھور کر رہ گئی۔ آج کا دن میرے لیے اتنی خوشیاں لائے گا مجھے اندازہ ہی نہیں تھا۔ میرا رواں رواں اپنے پروردگار کا مشکور تھا۔
”بس یہ آخری بار ہے جب میں تمہارا میک اپ صحیح کررہی ہوں۔ اب اگر روئیں تو اسی شکل کے ساتھ رخصت ہونا۔“ رابعہ نے مجھے دھمکی دی۔
”بیٹا یہاں سائن کردو۔“ ماموں میرے پاس بیٹھے ہوئے بول رہے تھے۔ سائن ہوتے ہی مبارک سلامت کا شور مچ گیا۔
”یہ لو تم بھی کھانا کھا لو۔“ خدیجہ میرے پاس بیٹھ کر میری طرف پلیٹ بڑھا رہی تھی۔
”نہیں ابھی بھوک نہیں۔“ میں نے پلیٹ پیچھے کردی۔
”تھوڑا سا تو کھا لو۔“ اس کے اصرار پر میں نے تین چار لقمے لے لیے۔
”اچھا بہن اب ہمیں اجازت دیں۔“
”چلو بھئی تمہارے سسرال والے رخصتی کا کہہ رہے ہیں یہ چادر اوڑھو۔“ عافیہ نے چادر میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
گاڑی اب میرے گھر سے دور ہوتی جارہی تھی۔ بیک ویو مرر میں سب لوگ چھوٹے ہوتے ہوتے بالآخر اوجھل ہوگئے اور گاڑی اب نئی منزل کی طرف گامزن تھی۔
٭….٭….٭
”سنو دروازہ دھیان سے بند کرلینا۔“ عبدالہادی نے بائیک نکالتے ہوئے مجھے ہدایت دی۔ آج ہماری شادی کے بعد ان کا پہلا دن تھا اسپتال میں۔ عبدالہادی پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے۔ میں دروازہ بند کرکے اند رآگئی۔ چھوٹا سا صحن تھا جس کے ساتھ دو بیڈرومز، لاﺅنج اور ڈرائنگ روم تھا۔ صحن کے ایک طرف کچن بنا ہوا تھا۔ چلو آج اچھی سی صفائی کرتی ہوں میں نے دل میں سوچا۔ ہماری شادی کے بعد سے عبدالہادی کی پھوپھو اپنی ماسی بھیج رہی تھیں صفائی کے لیے لیکن میری خود دار طبیعت کو مزید یہ گوارا نہیں تھا۔ اچھی طرح صفائی کرنے کے بعد میں ابھی فارغ ہوئی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی۔
”کون©؟“ میں نے پوچھا۔
”کھولو بیٹا میں ہوں۔“ پھوپھو کی آواز سن کر میں نے دروازہ کھول دیا۔
”آجائیں پھوپھو۔“ میں نے انہیں جگہ دیتے ہوئے کہا۔
”صفائی کرلی تم نے؟“ انہوں نے مجھ سے پوچھا۔
”جی!“ مجھے لگا جیسے وہ اب کچھ تنقید کریں گی، مگر اس کے برعکس وہ کہنے لگیں۔
”اللہ تمہیں خوش رکھے میں یہی بات کرنے آئی تھی تم سے کہ تم چاہو تو یہی ماسی رکھ لو پہلے تو عبدالہادی اکیلا ہوتا تھا، تو میں ایک دن چھوڑ کر صفائی کراجاتی تھی۔“
”ارے نہیں پھوپھو آپ پریشان مت ہوں مجھے کام کی عادت ہے۔“
”اچھا چلو صفائی تو کر ہی لی ہے تم نے کھانا مت پکانا وہ میں بھیج دوں گی۔“ وہ اٹھتے ہوئے بولیں ان کی ایک عادت بہت اچھی تھی کہ وہ جب بھی آتیں تو جتنی دیر بھی بیٹھتیں کسی کی برائی نہیں کرتی تھیں۔
صبح کا وقت تو گزر گیا تھا، لیکن دوپہر میں اب مجھے بہت بوریت ہورہی تھی۔
”پتا نہیں کب آئیں گے یہ؟“ میں نے بے زاری سے سوچا۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے فون کردیا۔
”کب آئیں گے آپ؟“ میں نے چھوٹتے ہی پوچھا تھا۔
”ابھی تو صرف تین بجے ہیں۔“ وہ جیسے تھوڑا سا حیران ہوئے۔
”اور آج تو مریض بھی بہت زیادہ ہیں، لیکن تم فکر نہ کرو میں کوشش کروں گا جلدی آنے کی۔“
شام ہوتے ہی جیسے میرے اندر بجلی بھر گئی۔
”کیا پہنوں؟“ میں الماری کھول کر کھڑی ہوگئی۔ ایسا کرتی ہوں یہ گرین والا پہن لیتی ہوں۔ جلدی جلدی تیار ہوکر میں نے چائے چولہے پر رکھی ہی تھی کہ بائیک کا ہارن بجا۔ لگتا ہے آگئے میں نے خوشی سے سوچا۔
”السلام علیکم۔“ میں نے دروازہ کھولتے ہوئے خوشی خوشی کہا۔
”وعلیکم السلام ۔ یہ لوتمہارے لیے لایا ہوں۔ ”عبدالہادی نے کچھ شاپرز مجھے پکڑائے۔
”کیا ہے ان میں؟“
”کل تم کہہ رہیں تھیں نا گول گپے کھانے کو دل چاہ رہا ہے وہی لایا ہوں۔“
”بہت شکریہ۔“ میں خوشی سے مسکرائی اتنے دنوں میں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اللہ نے مجھے بہت نیک شوہر سے نوازا ہے۔ ہمارے پاس پیسہ چاہے زیادہ نہیں تھا، لیکن گھر میں سکون اور محبت بہت وافر مقدار میں تھی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!