مقربِ خاص ۔ مکمل ناول

اس دن میں یعنی لائبہ فرقان نے جانا اس دنیا میں موجود کوئی شخص رب کریم کے لیے عام اور بے معنی نہیں۔ وہ تو اپنے تمام بندوں سے غیر مشروط محبت کرتا ہے یہ تو اس کے بندے ہی ہیں جو گناہوں کے راستے پر چلتے ہوئے اس سے دور بہت دور آجاتے ہیں۔ اپنے کرتوتوں کے ذریعے جمع کی ہوئی ذلت ہم اس ذات کے سر پر ڈال دیتے ہیں جوکہ تمام عیبوں سے پاک ہے۔

٭….٭….٭

یا اللہ مجھے معاف کردے۔ میں تمام وقت تیری ناشکری اور نافرمانی کرتی رہی۔ میں یونیورسٹی سے پورا کام کرائے بغیر ہی واپس آگئی تھی اور بس اب یہی کلمات میری زبان سے نکل رہے تھے۔

میں تمام وقت دوسروں کی ہی نظر میں آنے کی کوشش کرتی رہی۔ میں نے کبھی اس کی نظر میں آنے کی کوشش کی ہی نہیں جو تمام بگڑی کو بنانے پر قادر ہے۔

وقت یونہی خاموشی سے سرکتا رہا۔ دوپہر سے شام اور شام سے رات ہوگئی اور پھر رات کا آخری پہر آپہنچا۔ ایک وجود تھا جو رات کے اس پہر اللہ کے آگے سجدہ ریز تھا۔ بڑی عاجزی، بڑی شرمندگی کے ساتھ۔

یارب العالمین تو مجھے معاف کردے، میری تمام خطاں کو بخش دے۔ اس دل میں سے دنیا کی محبت نکال کر بس اپنی محبت ڈال دے۔ مجھے اپنی تمام نعمتوں کے ساتھ ساتھ شکر کی نعمت سے بھی نواز دے۔وہ وجود بڑی عاجزی کے ساتھ گڑ گڑارہا تھا اور دور کہیں آسمانوں پر اس کی حاجت بڑی غور سے سنی گئی تھی۔

٭….٭….٭

آپی اٹھ جائیں کتنا سوئیں گی؟حوریہ مجھے جگارہی تھی۔

توبہ ہے کتنی دیر سے اٹھار ہی ہوں آپ تو گھوڑے بیچ کر سو رہی ہیں۔آج بہت عرصے بعد مجھے اتنی گہری اور پرسکون نیند آئی تھی۔ منہ ہاتھ دھو کر میں نے جھاڑو سنبھال کر پورے گھر کی صفائی شروع کردی۔ پتا نہیں بے چارے ماموں میری شادی کا خرچہ کیسے پورا کریں گے، میں کام کرتے ہوئے سوچنے لگی۔ میں اپنے پاس رکھے ہوئے پیسوں کے بارے میں سوچنے لگی جو میری تنخواہ میں سے بچ جاتے تھے تو میں اپنے پاس جمع کرتی رہتی تھی، لیکن وہ بھی کم ہی ہوں گے۔ آج کل تو میرج ہالز ہی اتنے مہنگے ہوتے ہیں اور پھر جہیز کم سے کم بھی لاکھوں کا خرچہ ہے۔ میں نے تخمینہ لگایا اور پھر میرے بعد حوریہ بھی تو ہے میری شادی پر ماموں کی سب جمع پونجی لگ گئی تو حوریہ کا کیا ہوگا؟ میں آہستہ آہستہ اب اپنی ذات سے ہٹ کر دوسروں کے بارے میں سوچنا سیکھ رہی تھی۔

٭….٭….٭

آپی آپی! چلیں بازار چلتے ہیں۔حوریہ نے مزے سے فرمائش کی۔

بازار وہ کیوں بھئی؟میں نے حیرانی سے پوچھا۔

افوہ! ایک تو نا آپ کو بھی ہر بات سمجھانی پڑتی ہے۔ بھئی آپ کی شادی کی تیاری کے لیے۔ آخر دلہن کی ایک ہی تو بہن ہے اسے تو زبردست لگنا چاہیے نا۔“ 

حوریہ ابھی تو ڈیٹ بھی فکس نہیں ہوئی کپڑے تو بعد میں خریدیں گے۔میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ 

آپ تو بہت ہی بورنگ ہیں بھئی۔اس نے منہ بسورا۔

ڈیٹ فکس ہوجانے دو پھر چلیں گے۔میں نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔

اچھا ٹھیک ہے! لیکن پھر روز چلیں گے۔اس نے جیسے مجھے خبردار کیا۔

حوریہ کے جانے کے بعد میں الماری میں موجود اپنے پیسے گننے لگی یہ تو صرف پچیس ہزار ہیں میں نے مایوسی سے اپنے ہاتھ میں پکڑے پیسوں کو دیکھا۔

کاش! ابا نے کبھی مجھے اپنی ذمے داری سمجھا ہوتا۔میں نے مایوسی سے سوچا پھر فوراً ہی میں نے اپنے دل کو ڈپٹا۔

مجھے بندوں سے امید لگانی ہی نہیں ہے۔ بس اللہ مالک ہے۔میں نے اپنے دل کو تسلی دیتے ہوئے الماری بند کردی۔ 

٭….٭….٭

Loading

Read Previous

منیر نیازی ۔ انہیں ہم یاد کرتے ہیں

Read Next

اپنے تعلقات کو چوٹ پہنچائے بغیر لکھیں ۔ فکشن ۔ کمرشل رائٹنگ

One Comment

  • سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!