گھر پہنچتے ہی میں بستر پر گر کر بے سدھ ہوگئی تھی۔ غنودگی میں مجھے ایسا لگا کہ کوئی مجھے آوازیں دے رہا ہے، لیکن پلکوں پر جیسے کوئی بھاری بوجھ آن دھرا تھا اب کوئی مجھے ہلا رہا تھا اور میرے او پر ہلکی سی پھوار برس رہی تھی اس کے ساتھ ہی میرا ذہن تاریکی میں ڈوب گیا۔
صبح کی ہلکی ہلکی روشنی میرے منہ پر پڑ رہی تھی۔ اب میرا دماغ آہستہ آہستہ جاگ رہا تھا۔
”ارے یہ کمرا اتنا بدلا ہوا کیوں لگ رہا ہے؟ کیا صبح ہوگئی؟ یعنی میں دوپہر سے صبح تک سوتی رہی ہوں۔“ میں نے کھڑکی سے آتی روشنی کو دیکھ کر سوچا۔
”آپی کیسی طبیعت ہے آپ کی؟“ حوریہ میرے اوپر جھکی پوچھ رہی تھی۔ میں نے ناسمجھی سے اسے دیکھا کہ:
”میری طبیعت کو کیا ہوا ہے؟“
”آپ کو پورے دو دن بعد ہوش آیا ہے۔ ہوش میں آتی بھی تھیں تو رونے لگتی تھیں۔ ڈاکٹرز کہہ رہے تھے کہ آپ شدید ذہنی دباﺅ کا شکار ہیں۔ اچھا آپ آرام کریں میں ڈاکٹر کو بتا کر آتی ہوں آپ کے ہوش میں آنے کا۔“
”کہاں گئی تھی میں آخری دفعہ۔“ میں نے ذہن پر زور ڈالا پھر جیسے مجھے سب کچھ یاد آتا چلا گیا۔
”حسنین ، ماریہ اور اُن کی گفتگو۔“
”پھر ڈاکٹر صاحب آپ انہیں کب تک ڈسچارج کریں گے؟“ ماموں کی آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ایک دن تو لازمی اور باقی ان کی کنڈیشن کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کریں گے۔“ ڈاکٹر نے کہا۔
”پاپا ! آپی کو کیا ہوگیا ہے؟“ حوریہ نے مجھے تشویش سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔
”پتا نہیں اس کی حالت بہتر ہوگی تو یہ خود ہی بتائے گی۔“
”لائبہ بیٹا اب کیسی طبیعت ہے؟“ ماموںنے میرے بال سہلاتے ہوئے پوچھا۔ ماموں کے اس سوال کو میں سمجھنے کی کوشش کررہی تھی، لیکن وہ جیسے میرے سر پر سے ہی گزر گیا۔
”چلو حوریہ اب اسے آرام کرنے دو ہم تھوڑی دیر بعد اپنی بیٹی سے باتیں کریں گے۔“ ماموں میرے سر پر ہاتھ رکھ کر باہر نکل گئے۔
٭….٭….٭
آج گھر آئے ہوئے مجھے تیسرا دن تھا۔
”آپی یہ لیں سوپ پئیں۔“ حوریہ میرے پاس بیٹھی ہوئی مجھے سوپ پلانے کی کوشش کررہی تھی۔
”تم یہاں رکھ دو میں خود پی لوں گی۔“ میں نے اپنے پپڑی زدہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔
”اچھا ٹھیک ہے، لیکن ٹھنڈا ہونے سے پہلے ہی پی لیجیے گا۔“ گھر میں ابھی تک کسی نے مجھ سے کچھ بھی نہ پوچھا تھا۔ میں آہستہ آہستہ چلتی ہوئی شیشے کے سامنے آکھڑی ہوئی۔
خشک ہونٹ، آنکھوں کے گرد حلقے اور سانولی رنگت جو آج کل سیاہی مائل ہورہی تھی۔
”ہاں واقعی مجھ میں ایسا ہے ہی کیا جو وہ مجھے پسند کرے۔“ شیشے میں دیوار پر لگی خانہ کعبہ کی تصویر کا بھی عکس تھا۔ اب میں تصویر کی طرف رخ کرکے کھڑی ہوگئی۔
”اے خدا مجھ بے کار سی لڑکی کو پیدا ہی کیوں کیا تھا؟ تو نے مجھے آج تک دیا ہی کیا ہے؟ ساری زندگی بس میں سسک سسک کر ہی گزار دوں گی کیا؟ کسی کو تو اتنا نواز دیتا ہے کہ وہ فرعون بن جاتا ہے اور کسی کو تو چیونٹی سے بھی زیادہ بے مول بناتا ہے بس تجھے میری ضرورت نہیں میں بھی اب وہی کروں گی جو میرا دل چاہے گا۔ میں کیوں تیری بندگی کروں، مجھے آج تک ملا ہی کیا ہے؟“ میں بدگمانی سے سوچے جارہی تھی۔
”بالکل ٹھیک سوچا ہے میری پناہ میں آجاﺅ سب کچھ دوں گا۔“ اس نے میرے کان میں سرگوشی کی جہاں جیسے اس کی دوست علیزہ کو دیا تھا ایک نے دوسرے کے کان میں سرگوشی کی اور ہنس پڑے۔ اب وہ مزے سے بیٹھے اس لڑکی کو وہ پینٹنگ اتارتے ہوئے دیکھ رہے تھے جو بیت اللہ کی تھی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!