”تم یہاں کیا کررہی ہو؟“ میںنے ہکلاتے ہوئے پوچھا۔
”ارے تم سے ملنے آئی ہوں۔“ ماریہ نے حیرت سے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے جواب دیا۔
”تم حسنین کی فیملی سے ہو اور تم نے مجھے بتایا بھی نہیں۔“
”چلو اب بتادیتی ہوں۔“ ماریہ مسکرائی ۔
”میرے منگیتر علی حسنین لغاری سے ملو۔“
”کیا مطلب۔“ مجھے اپنی آواز کسی کھائی سے آتی محسوس ہوئی۔
”ارے اتنی سی بات تمہیں سمجھ نہیں آرہی۔“ ماریہ نے افسوس سے گردن ہلائی۔
”یہ تمہارے علی بھائی ہیں جن سے ملنے کا تمہیں بڑا اشتیاق تھا۔“ ماریہ استہزائیہ ہنسی۔
”لیکن حسنین نے تو مجھے کبھی نہیں بتایا اور تم نے بھی۔ “ میں نے دونوں کی طرف بڑی امید بھری نظروں سے دیکھا۔
”جیسے وہ ابھی کہیں گے ہم تو تمہیں تنگ کررہے تھے۔“
”ارے تمہیں تو بہت کچھ نہیں پتا۔ علی تم بتاﺅگے یا میں شروع سے بتاﺅں؟“
”پلان تمہارا تھا تو تم ہی بتاﺅ۔“ حسنین اس سارے عرصے میں پہلی دفعہ بولا۔
”تو کہانی کچھ اس طرح سے شروع ہوئی۔“ ماریہ نے کسی ماہر داستان گو کی طرح کہانی شروع کی۔
”جب علی ہماری یونیورسٹی میں مائیگریٹ ہوکر آیا، تو اس کی چارمنگ پر سنیلٹی کی ساری لڑکیوں میں دھوم مچ گئی۔ ایسے میں صرف تم ہی تھیں جس نے علی پر کوئی توجہ نہ دی۔ بس اسی بات کو لے کر علی اور مجھ میں بحث چھڑ گئی۔ علی کہتا تھا تمام لڑکیاں ایک جیسی ہوتی ہیں اور میں کہتی تھی اس نے تمہیں گھاس ہی نہ ڈالی اور تمہیں تو پتا ہی ہے کہ میں کتنی جلدی بوریت کا شکار ہوجاتی ہوں، تو بس میں نے علی کے ساتھ شرط لگائی کہ تم اسے بدل کر دکھاﺅ تو میں تمہیں مانوں۔ اس سے پہلے تو جتنی بھی لڑکیاں تھیں۔ وہ خود تمہارے اوپر پروانوں کی طرح گرتی تھیں۔ اگر یہ تمہارے رنگ میں رنگ جائے تو پھر میں مانوں کہ تمہاری مقناطیسی شخصیت ہے۔ شروع میں تو مجھے لگا کہ علی یہ شرط ہار جائے گا، لیکن اب تو علی کو پچاس ہزار دینے ہی پڑیں گے ۔“ اس نے مجھے اوپر سے نیچے دیکھتے ہوئے بات مزید آگے بڑھائی۔
”سنا ہے اب تو سلیولیس بھی پہن لیتی ہو۔“ اس بات پر میرا دل چاہا کہ میں زمین میں سما جاﺅں۔“
”لیکن جانو تمہاری مدد نہ ہوتی تو یہ کام اکیلے مجھ سے نہیں ہوسکتا تھا۔“ اب کہ حسنین نے لب کشائی کی۔
”اگر تم شاپنگ میں مدد نہ کرتیں، اپنے استعمال شدہ کپڑے نہ دیتیں، تو میں یہ سب کیسے کرتا۔“
”استعمال شدہ کپڑے؟“ میں نے سرگوشی کی۔
”ہاں اب تمہیں ہر دفعہ تو ہزاروں روپے کی چیزیں نہیں دی جاسکتی تھیں نہ ویسے بھی تم نے تو وہ چیزیں خواب میں بھی نہ دیکھی ہوں گی۔ کیا ہوا اگر وہ کچھ دفعہ کی استعمال شدہ تھیں۔ “ ماریہ نے حقارت سے مجھے دیکھ کر کہا۔ میرے ذہن میں وہ مانوس سی خوشبو لہرائی وہ ماریہ کا پرفیوم تھا جسے میں پہچان نہ سکی تھی۔
”ویسے ایک بات اور بھی تھی تمہیں تو پتا ہی ہے میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اور مجھ سے سیکنڈ پلیس کبھی برداشت نہیں ہوتی اور یونیورسٹی میں تم نمبر ون تھیں تویہ میرے لیے ناقابل برداشت تھا۔ میں نے اسی لیے تم سے دوستی کی کہ کسی طریقے سے تم سے آگے بڑھ سکوں، لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ پھر جب تم علی کی طرف متوجہ ہوئیں تو میں نے یہ بھی پلان میں شامل کرلیا کہ تمہیں کسی بھی طریقے سے پڑھائی کی طرف توجہ دینے کا موقع نہ مل سکے۔“
”اچھا تو اسی لیے حسنین مجھے اپنی باتوں کے جال میں الجھائے رکھتا تھا۔“ میںنے دل ہی دل میں سوچا۔
”اور میں اسے اس کی محبت سمجھ کر کبھی منع ہی نہ کرسکی۔“
”اور علی نے یہ کردکھایا۔“ ماریہ نے اورنج جوس کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔
”علی مجھ سے بہت محبت کرتا ہے۔“ ماریہ نے مجھے جتایا۔
”میں جو کہتی ہوں یہ کرتا ہے۔ علی کے شرط جیتنے کا مجھے افسوس نہیں کیوں کہ فرسٹ پوزیشن تو اب میری ہی ہوگی۔ اب تو تمہیں سمجھ آ ہی گیا ہوگا کہ مخمل میں ٹاٹ کا پیوند نہیں لگا کرتا، تو اپنی اوقات سے باہر ہی ہونے لگی تھی کہ علی حسنین لغاری سے شادی کے خواب دیکھ رہی تھی۔ “ ماریہ کے لفظ لفظ سے حقارت ٹپک رہی تھی اور مجھے اس وقت ایک برسوں پرانا لیکچر یاد آرہا تھا جو پیراسائٹ ڈیفائن کرتے میں ہمارے ٹیچرنے بتایا تھا کہ:
”بعض انسان بھی پیرا سائٹ کی طرح ہوتے ہیں دوسروں کی محنت پر پلنے والے اور انہی کو ڈنگ مارنے والے کیوں کہ یہ ان کی فطرت ہے۔“ ماریہ بھی ایک ایسا ہی پیرا سائٹ تھی۔ میرے لیکچرز، میرے نوٹس استعمال کرنے والی اور موقع ملتے ہی اس نے مجھے ڈس لیا تھا۔ میں اُسے چیخ چیخ کر کوسنا چاہ رہی تھی، لیکن کسی نے جیسے میری قوت گویائی چھین لی تھی۔
”چلو علی۔“ اس نے حسنین کو مخاطب کیا۔
”ہاں چلو میں بس ایک منٹ آیا۔“ ماریہ کے جانے کے بعد حسنین نے مجھ سے کہا۔
”تم علیزہ کے بارے میں پوچھ رہی تھی نا؟ ہاں وہ چین میں نے ہی علیزہ کو دی تھی بے چاری یک طرفہ پیار کا شکار تھی۔ پکے پھل کی طرح جھولی میں آگری تم سے زیادہ سچی عاشق تھی وہ میری جو میں نے کہا کرتی گئی۔ ایک دفعہ بھی نہ سوچا میلا کپڑا کون تن سے لگاتا ہے۔“ وہ مزے سے ہنسا۔
”اس کے سامنے ایک دفعہ میں نے نشے میں اپنا پلان بک دیا تھا۔ مجھے دھمکیاں دے رہی تھی کہ اگر مجھے چھوڑا، تو تمہیں سب بتادے گی، مگر میں بہت اچھا منصوبہ ساز ہوں، خاموش کرادیا۔ میں نے اسے اچھا! اب میں چلتا ہوں ماریہ گاڑی میں میرا انتظار کررہی ہوگی، ہماری شادی میں ضرور آنا۔“ اس نے ایک کارڈ میری طرف پھینکا۔
”گڈ بائے۔“
”ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی۔“ علیزہ میرے اردگرد بولی۔
”اگر میں حسنین کے ساتھ چلی جاتی تو کیا ہوتا؟“ میرے بدن میں سنسنی دوڑ گئی۔ آتے جاتے لوگ مجھے اور میری مخدوش حالت کو عجیب نظروں سے دیکھ رہے تھے۔
”میڈم ٹیبل خالی کردیں۔“ وہی واہیات ویٹر دانت نکوستے ہوئے بولا۔ میں جیسے خواب سے جاگی مردہ قدموں سے اپنے آپ کو گھسیٹتی باہر آگئی۔
”پچاس ہزار کی حیثیت تھی میری۔“ میں گرتے پڑتے قدموں سے کس طرف جارہی تھی مجھے بالکل اندازہ نہ تھا۔
”آئیں میڈم کہاں جانا ہے؟ ابھی ایک کی جگہ باقی ہے۔“ وہ دو آوارہ سے آدمی تھے جنہوں نے میرے پاس بائیک روکی تھی۔ تب میں جیسے ہوش میں آئی صد شکر پاس سے ایک رکشا گزر رہا تھا میں جھٹ سے اسے روک کر بیٹھ گئی۔
”بیٹا اس ٹائم یہ جگہ بڑی سنسان ہوتی ہے تمہیں اکیلے نہیں نکلنا چاہیے تھا۔“ وہ رکشے والا ان غنڈوں کو مجھے تنگ کرتے دیکھ چکا تھا اسی لیے کہہ رہا تھا ،لیکن میں جیسے بت بن چکی تھی احساسات اور آواز سے عاری بت۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!