مقربِ خاص
سمیہ فیروز
(آخری حصہ)
گھر واپس آتے آتے میرے جسم کی ساری توانائیاں ختم ہوچکی تھیں۔ میں جیسے تیسے بس اسٹاپ سے اپنے آپ کو گھسیٹتی ہوئی گھر داخل ہوئی اور اپنے بستر پر ڈھے گئی۔ میرے اردگرد جیسے شک و شبہات نے خوف ناک شکلیں دھار لیں تھیں اور وہ اب مجھے ڈرا رہے تھے۔ حسنین کو گھر آتے ہی میں کئی بار کالز کرچکی تھی، لیکن اس کا موبائل بند جارہا تھا۔
”یا اللہ! کس سے بات کروں؟ نہ گھر میں کسی کو پتا ہے اور نہ عافیہ کو۔ ماریہ کو فون کرتی ہوں۔“ میرے ذہن میں خیال آیا۔ حوریہ دو دفعہ مجھ سے کھانے کا پوچھ کے جاچکی تھی، لیکن مجھے کھانے کا کیا پانی پینے تک کا ہوش نہ تھا۔ اب تو شام بھی ڈھل رہی ہے ورنہ حسنین کے گھر ہی چلی جاتی۔ اس سے اصل وجہ جاننے۔
”اے لڑکی باﺅلی ہوئی ہے کیا؟ جب سے آئی ہے صحن کا فرش گھس رہی ہے۔“ نانی کی آواز مجھے ہوش کی دنیا میں واپس لے آئی۔ اس طرح تو سب شک میں پڑجائیں گے مجھے اپنے آپ کو مضبوط رکھنا ہوگا۔ ماریہ کو فون کیا تھا تو اس کا موبائل بند تھا اور گھر کا فون کسی ملازم نے اٹھایا تھا جس کے مطابق ماریہ اپنی مما کے ساتھ دوپہر سے ہی کہیں گئی ہوئی تھی اور واپسی کا کچھ پتا نہیں۔ ایک تو اس ماریہ کے پیروں میں بھی پہیے لگے ہیں پتا نہیں ایگزامز کے دنوں میں گھر پر کیسے ٹک جاتی ہے۔ میں نے کوفت سے سوچا۔
’حسنین کا نمبر ملا ملا کے میرا انگوٹھا دکھنے لگا تھا۔ میں مایوس ہوکر اسے آخری دفعہ کال ملا رہی تھی۔ دوسری طرف بیل جاتی سن کر میرے ڈوبتے ہوئے دل کو جیسے سہارا ملا تھا۔
”ہیلو!“ دوسری طرف سے اس نے بہت کھردری سی آواز میں جواب دیا۔
”حسنین میں جب سے تمہیں فون کر رہی ہوں تم نے فون کیوں نہیں اٹھایا؟ مجھے بتاﺅ وہ بات سچ ہے۔ میرے سوال کا جواب دو۔“ میں اس کے فون اٹھاتے ہی بغیر کسی تمہید کے شروع ہوگئی۔
”لائبہ! جب تمہیں میرا یقین ہی نہیں ہے، تو میں تمہیں کیا صفائی دوں۔“ اس نے نروٹھے لہجے میں جواب دیا۔
”نہیں ایسی بات نہیں۔“ میں نے جلدی سے صفائی دی۔
”میں تو بس تم سے پوچھ رہی تھی۔“
”میں ابھی اس موضوع پر کوئی بات نہیں کرنا چاہتا تم سے بعد میں بات کروں گا بائے۔“ اس نے فوراً فون کاٹ دیا۔
تو حسنین میرے ساتھ سنجیدہ ہے اور میں نے اسے ناراض کردیا۔ میں اب ایک نئی فکر میں غلطاں تھی۔ چلو حسنین کا موڈ بہتر ہوگا، تو پھر اس سے بات کروں گی۔ سوری بھی کہہ دوں گی۔ میں اب اپنے اندیشوں میں ڈوبتے دل کو تسلیوں سے بہلارہی تھی۔
٭….٭….٭
کچھ دن یونہی خاموشی سے سرک گئے نہ حسنین نے رابطہ کرنے کی کوشش کی نہ میں نے اس سے رابطہ کیا۔ میں اپنے ڈوبتے ابھرتے دل کو کئی طرح کی تاویلوں سے بہلاتی رہی۔ روز رات کو بارہ بجتے ہی میری نظریں موبائل پرجم جاتی تھیں کہ شاید آج حسنین کی کال آئے لیکن میرا انتظار بس انتظار ہی رہ جاتا تھا۔ ماریہ سے بھی ایک ہی بار بات ہوئی تھی وہ بھی بہت مختصر سی اس لیے میں اسے کچھ بھی نہ بتا سکی۔ ہاں اس کے پاس مجھے بتانے کے لیے بہت کچھ تھا اس کی شادی کی ڈیٹ فکس ہوگئی تھی۔ وہ آج کل اسی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔
ایسے ہی بے زار سے دنوں میں حسنین کے فون نے میرے اندر نئی روح پھونک دی۔ پچھلے دنوں کی تلخی کا اس کے لہجے میں شائبہ تک نہ تھا۔ وہ انتہائی سرشار لہجے میں مجھ سے میری خیریت پوچھ رہا تھا۔
”لائبہ اس جمعے کو فری ہو؟“ اس نے مجھ سے پوچھا۔
”ہاں!“
”تو پھر اس جمعے کو اچھا سا تیار ہوکر آجانا میں تمہیں اپنے فیملی ممبرز سے ملواﺅں گا۔ پچھلے دنوں تمہیں مجھ پر شک بھی بہت رہاہے نا، ان تمام شک و شبہات کا تمہیں جواب مل جائے گا۔“ وہ ہلکے سے ہنسا۔
”حسنین ممی ڈیڈی کو کیسی لڑکیاں پسند ہیں؟ میں کیسا تیار ہوکر آﺅں؟“ میں نے اس سے بے صبری سے سوال کیے۔
”ارے یار! کچھ بھی پہن کر آجاﺅ۔ اچھا میں تم سے بعد میں بات کرتا ہوں بائے۔“
”اوکے بائے۔“ میں نے فون رکھ دیا۔ اب میں بالکل مطمئن تھی اور جمعے کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
٭….٭….٭
بہت دل لگا کے میں نے گھر کی صفائی کی۔ پھر دوپہر کے کھانے کے بعد اپنے کمرے میں آگئی۔ کوچنگ کی جاب سے میں نے ریزائن کردیا تھا۔ شادی سے کچھ عرصے پہلے اب میں کیا جاب کروں۔ میں نے دل میں سوچا تھا۔ سو اب فراغت ہی فراغت تھی۔ میں نے بہت دل لگا کے کلینزنگ کی اب ماسک لگائے۔ میں کل پہنے جانے والا ڈریس منتخب کررہی تھی۔ حسنین کے دیے ہوئے تحفوں میں سے ایک لان کا کرتہ منتخب کرکے اسے استری کرکے لٹکا دیا اس کے ساتھ کی جیولری منتخب کرکے میں اب مطمئن سی گنگنا رہی تھی۔
”اللہ کرے! کل سب کچھ اچھے طریقے سے ہوجائے۔“ میں نے دل ہی دل میں دعا کی۔
٭….٭….٭
ممانی کسی سے فون پر بات کرتی ہوئی کچن میں داخل ہوئیں۔
”ہاں رشتہ تو اچھا ہے اب دیکھو ہم سوچ سمجھ کر ہی فیصلہ کریں گے۔“ میں جو وہاں کھڑی ہوئی سلاد بنارہی تھی گویا سن ہوگئی۔
”کہیں میرے لیے تو کوئی رشتہ نہیں آیا ہوا؟ ہوسکتا ہے حوریہ کے لیے آیا ہو، لیکن وہ تو ابھی چھوٹی، بس کل ملتے ہی حسنین سے کہوں گی کہ رشتہ بھیجے ورنہ بات سنبھالنا مشکل ہوجائے گی۔“ میں نے اپنے لرزتے کانپتے دل کو تسلی دی۔ اسی فکر میں مجھے ساری رات نیند ہی نہ آئی۔
حسنین کو اپنے نکلنے کا میسج کرکے میں اب جلدی جلدی چادر اوڑھ رہی تھی۔
”ارے اب تو امتحان ختم ہوگئے آج پھر جارہی ہو؟“ نانی نے ناک پر انگلی رکھتے ہوئے کہا۔
”جی نانی۔ ایک دو فارم لے کر آنے ہیں جلدی آجاﺅں گی۔“ میں نے نانی کے سوالوں سے بچنے کے لیے جلدی سے صحن عبور کیا۔ ہوٹل پہنچتے ہی میں سیدھی ریسٹ روم گئی ۔ بس میں آنے کی وجہ سے سارا حلیہ بگڑ گیا تھا۔ جلدی جلدی بالوں میں برش کرکے میں نے میک اپ ٹھیک کیا اور باہر آکر حسنین کا انتظار کرنے لگی۔
”ہیلو! اپنے پیچھے حسنین کی آواز سن کر میں مڑی۔
”اکیلے آئے ہیں آپ؟“ ا س کے پیچھے دور دور تک کوئی نہ تھا۔
”ہاں میں تو گھر سے آرہا ہوں۔ تم پریشان مت ہو جس سے تمہیں ملوانا ہے وہ بھی راستے میں ہی ہے۔“
”اچھا!“ مجھے کچھ تسلی ہوئی۔
”کچھ آرڈر تو کرو یار۔“ اس نے مینیو کار ڈ میری طرف بڑھایا۔
”فی الحال تو کچھ بھی نہیں کھانا پینا۔“ میں نے ہاتھ کے اشارے سے منع کیا۔ میری نظریں گھڑی پر ہی جمی ہوئی تھیں۔
”یہ لو تمہارا انتظار ختم ہوا۔“ حسنین نے مسکراتے ہوئے میری پشت کی طرف اشارہ کیا۔
”میری فیملی سے ملو۔“ میں نے مسکراتے ہوئے اپنی گردن موڑی اور جیسے میں پتھر کی ہوگئی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!