”ابا آپ کے پاس کچھ پیسے ہوں گے؟“ میں نے ابا سے سوال کیا۔
”کتنے چاہئیں بیٹے؟“ ان کے بیٹا کہنے پر میرا دل جھوم اٹھا۔
”بس جتنے آپ دے سکیں۔“
”یہ لو۔“ ابا نے ہزار کے پانچ نوٹ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔
”شکریہ ابا!“
”خدیجہ دیکھو میں نے یہ پیسے ابا سے لیے ہیں۔ رضوانہ آنٹی کو دینے کے لیے ان کی بیٹی کی شادی ہے نا۔“
”اور یہ پیسے اور کپڑے رکھ لو تم خدیجہ نے بیگ میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ بھی انہیں دے دینا۔ ہم تو کل چلے جائیں گے نا۔ مری اور اسلام آباد۔ تم بھی چلو نا لائبہ ہمارے ساتھ۔“ خدیجہ نے پھر سے اصرار کیا۔
”نہیں تم لوگ جاﺅ پندرہ دن کی تو بات ہے۔“ میں جانتی تھی کہ تائی مجھے زیادہ پسند نہیں کرتیں اسی لیے میں نے جانے سے انکار کردیاتھا۔
” ریحان بھائی سے ہوشیار رہنا۔“ اس نے میرا ہاتھ دبا کر تاکید کی۔ باہر کھڑی ہوئی پھوپھو کے ذہن میں کیا چل رہا تھا یہ ان دونوں میں سے کوئی نہ جانتا تھا۔
٭….٭….٭
”لائبہ! یہ دیکھو۔“ ماریہ نے اپنا موبائل میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اسی رانگ کالر کا میسج تھا آپ پے پنک کلر بہت سوٹ کرتا ہے۔ ماریہ نے قہقہہ لگایا۔
”یہ تمہارے بارے میں اتنا جانتا کیسے ہے؟“
”پتا نہیں لاﺅ ابھی اس کو میسج کرتی ہوں آج اس کی خواہش پوری کرہی دوں روز کہتا ہے کہ آپ بات کریں ایک دفعہ ہی سہی۔“ ماریہ آج بہت شوخ ہورہی تھی۔
”ماریہ پتا نہیں کون ہے رہنے دو۔“ میں نے اسے باز رکھنے کی کوشش کی۔
”ارے کچھ نہیں ہوتا۔“
”آپ کون ہیں؟“ ماریہ نے اسے میسج کیا۔
”آپ کا چاہنے والا۔“ جواب حاضر تھا۔ ہاہاہا! ماریہ ہنس ہنس کر دوہری ہوگئی۔
”آپ کا نام کیا ہے؟“
”جس نام سے آپ کا دل چاہے بلالیں۔“
”ماریہ رہنے دو! پتا نہیں کون ہے گلے ہی نہ پڑجائے۔ “
”برائے مہربانی مجھے تنگ نہ کریں۔“ ماریہ نے میسج سینڈ کیا۔
”اوکے۔“
”ہیں اتنی جلدی مان گیا۔“ ماریہ حیرت سے بولی۔
”لو میں پہلے ہی اسے منع کردیتی۔“
”وہ تو تمہیں ایک دو دن میں پتا چلے گا یہ شخص اپنے وعدے کا کتنا پکا ہے۔“ میں نے اپنی نوٹ بک کھولتے ہوئے جواب دیا۔
”آج کل پڑھائی کا بہت حرج ہورہا ہے میرا۔ اب ذرا اس وقت میں کل والا لیکچر پڑھ لوں سر تو آتے ہی مجھ سے سوال کرتے ہیں۔“ میں نے ماریہ سے برا سا منہ بناتے ہوئے کہا۔
”چلو میں بھی پڑھ لوں تمہارے ساتھ۔“ ماریہ نے بھی جلدی سے اپنی نوٹ بک نکالی۔
٭….٭….٭
”پھوپھو!“ میں نے ڈرتے ڈرتے انہیں مخاطب کیا۔
”ہونہہ!“ اس وقت وہ مالش کروانے کے بعد دھوپ میں بیٹھا کرتی تھیں۔
”یہ میں نے رضوانہ آنٹی کے لیے کچھ چیزیں جمع کی ہیں آپ انہیں دے دیجیے گا۔“ اپنی بات کہہ کر میں منتظر تھی کہ مجھے باتیں سننے کو ملیں گی، لیکن انہوں نے خلاف توقع کچھ بھی نہ کہا۔
”ٹھیک ہے! رضوانہ آئے تو تم اسے خود دے دینا۔“ انہوں نے آنکھیں موندے ہوئے جواب دیا۔
آج پھوپھو کا موڈ بڑا چھا ہے۔ میں دل ہی دل میں حیران ہوتی ہوئی اپنے کمرے میں واپس آگئی۔ خدیجہ واپس آئے گی تو اسے بتاﺅں گی۔ پھر اس دن رضوانہ آنٹی تو نہ آئیں ان کا بیٹا آگیا۔ اس کی اطلاع مجھے پھوپھو کی خاص ملازمہ سکھاں سے ملی۔
”لائبہ بی بی ! بیگم صاحبہ کہہ رہی ہیں آپ جاکے انہیں چیزیں دے دیں۔“
”اچھا ٹھیک ہے تم جاﺅ۔“ میں نے ٹھیک سے دوپٹا سر پر جماتے ہوئے کہا پھر اپنے آپ کو کوستے ہوئے کہنے لگی کہ یہ چیزیں میں سکھاں کو ہی دے دیتی۔ نہیں اس کے بھی بہت دماغ ہیں میں خود ہی چلی جاتی ہوں۔ میں نے اپنے خیال کی نفی کی۔
”جی یہ آپ کی بہن کی شادی کے لیے کچھ چیزیں ہیں۔“ میں نے اس آدمی کی طرف سامان بڑھاتے ہوئے کہا۔
”بڑی مہربانی جی آپ کی۔“ وہ شخص بہت عاجزی سے بولا۔
”دیکھ لیں بھائی جان یہ پہلے بھی گھر کی قیمتی اشیا ایسے ہی اس لڑکے کو دے چکی ہے۔“ پھوپھو تیز تیز بولتے ہوئے ابا کے ساتھ داخل ہوئیں۔
”نہیں ابا میں تو بس….“ لیکن پھوپھو نے مجھے بولنے ہی نہ دیا۔
”اسی لیے اس نے باہر والوں سے دوستیاں کی ہوئی ہیں کہ گھر کی چیزیں باہر بیچ کر مزے کرے۔ “
”غلطی ہوگئی…. بیگم صاحبہ۔“ وہ شخص بھی پینترا بدل کر پھوپھو کے قدموں میں جا بیٹھا۔
”بی بی جی نے مجھ سے کہا تھا یہ سیٹ بیچ کر پیسے مجھے دے دو اور یہ پیسے اور کپڑے تم رکھ لوبہن کی شادی کرنی ہے دل میں لالچ آگیا۔“
”کون سا سیٹ؟“ میں ہکلائی۔
”وہی جی بی بی جو آپ بیگ میں سے نکال کر مجھے دکھا رہی تھیں ابھی۔“
”کوئی سیٹ نہیں ہے میرے پاس۔“ میں غصے سے چلائی۔
”ٹھیک ہے ابھی پتا چل جائے گا۔“ پھوپھو نے آگے بڑھ کر زپ کھولی۔
”یہ تو خدیجہ کے کپڑے بھی چرالائی ہے۔“ اور پھر کپڑوں کے نیچے سے وہ پوٹلی نکلی جسے دیکھ کر میری سانس رکنے لگی۔ گویا یہ سب پھوپھو کی ساز ش ہے مجھے اب سمجھ آیا۔
”یہ آپ خود ہی دیکھ لیں بھائی جان یہ وہ سیٹ ہے جو میں نے ریحان کی دلہن کے لیے لیا تھا۔ جب میں کل اماں کو دکھا رہی تھی تو یہ وہیں تھی۔“ة
”نہیں ابا یہ سب پھوپھو ریحان بھائی کی غلطیوں کو چھپانے کے لیے کررہی ہیں۔“
”بس خاموش ہوجاﺅ۔ “ابا دھاڑے ۔
”میرے بھی پیسے غائب ہیں جس دن سے میں نے تمہارے سامنے دراز کھولی ہے۔ ارے پانچ ہزار کم لگ رہے تھے، تو اور مانگ لیتیں تمہارے بھائی اور تمہیں تمہاری ماں نے بگاڑ دیا ہے۔ وہ نشے سے مارا گیا تم چوری کرتے ہوئے پکڑی جاﺅگی تو پھانسی لگ جائے گی اپنا سامان سمیٹ لو کل ڈرائیور تمہیں واپس چھوڑ آئے گا۔“ ابا کمرے سے جاچکے تھے اور پھوپھو مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھ رہی تھیں۔
”خس کم جہاں پاک۔“ پھوپھو نے مجھے دیکھ کر کہاہاتھ جھاڑے اور وہاں سے چلی گئیں۔
دوسرے دن میں جب اپنے سامان کے ساتھ واپس پہنچی تو ممانی نے ہنگامہ کھڑا کردیا۔ لیکن میری پوری بات سننے کے بعد ماموں نے مجھے وہاں بھیجنے سے انکار کردیا۔ حالاں کہ نانی نے بھی بہت زور لگایا کہ :
”اولاد اسی کی ہے ماں باپ غصے میں کچھ کہہ ہی دیتے ہیں۔ تم اسے خود لے کر جاﺅ اور ساری بات بتاﺅ وہ ضرور سنے گا۔“
” نہیں اماں لائبہ یہاں رہتی تھی اس نے کبھی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگایا اور میں فرقان کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں وہ اپنی ہٹ کا پکا آدمی ہے کبھی اس کی بات پر یقین نہیں کرے گا اور اس گھر میں اس کی زندگی اجیرن ہوجائے گی۔ میری بھی بیٹی ہے مجھے خد اسے ڈر لگتا ہے کہ ایک بچی کا بوجھ نہ اٹھا سکا۔“ اور یوں میں واپس وہیں آگئی جہاں سے چلی تھی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!