حسنین کی مدہوشی دیکھ کر میرے کان میں جیسے باجی نے سرگوشی کی۔
”ایک نامحرم مرد اور عورت کے بیچ میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔“ باجی یہ حدیث اکثر دہرایا کرتی تھیں۔ میں نے حسنین کی گرفت سے ہاتھ چھڑائے۔
”حسنین آرڈر تو کردیں۔“ میں نے مینیو کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ وہ بھی جیسے خود فراموشی کے عالم سے باہر آیا۔
”ہاں کیا لوگی تم؟“
”کچھ بھی لائٹ سا۔“میں اپنے حواس قابو میں لاتے ہوئے بولی۔
”اسے کیا ہوگیا تھا؟“ میں خود ہی اپنے آپ سے سوال جواب کررہی تھی، لیکن حسنین میرے برعکس اطمینان سے لنچ کرنے میں مصروف تھا۔ پھر تھوڑی دیر بعد اس نے مجھے گھر سے دور ایک اسٹاپ پر اتار دیا تھا۔ جہاں سے مجھے اب بس میں اپنے گھر تک جانا تھا۔
”آپی! آجائیں کھانا کھالیں۔“ حوریہ نے گھر میں گھستے ہی مجھے آواز لگائی۔
”آپ کی پسند کی بھنڈی بنی ہے آج۔“ سنک پر ہاتھ دھوتے ہوئے مجھے ہنسی آگئی۔ بھنڈی کی سبزی! اب حوریہ کو میں کیا بتاﺅں۔
”تم کھاﺅ میں ابھی تھوڑی دیر میں کھاتی ہوں۔“ میں نے اس کا گال تھپتھپا کر کہا۔
نوٹس پھیلائے ہوئے میں پڑھنے میں مگن تھی۔ پچھلی دو پریذینٹیشن اور ٹیسٹ اچھے نہ ہوئے تھے۔ اچھے ہوتے بھی کیسے سارا دھیان تو حسنین میں لگا رہتا تھا۔
”آپی آپ کو چائے بنادوں؟“ حوریہ نے گردن اندر ڈال کر پوچھا۔حوریہ ممانی کے برعکس میرا بہت خیال کرتی تھی۔
”ارے نہیں! تم ادھر آﺅ دیکھو میں نے تمہارے لیے کیا لیا ہے۔“ میں پرس میں سے اسے اس کا گفٹ نکال کر دکھانے لگی۔
٭….٭….٭
”بھائی جان! آپ کو اب لائبہ کی شادی کے بارے میں کچھ سوچنا چاہیے۔“ پھوپھو نے اپنا انگوٹھیوں سے بھرا ہاتھ لہرا کر کہا۔
”ارے بھئی ابھی تو وہ چھوٹی ہے۔“ ابا اپنی کتاب میں مگن تھے۔
”نہیں اب وہ اتنی بھی چھوٹی نہیں اب یہی دیکھ لیں۔“ سامنے ہی لائبہ عثمان سے ہنس کر بات کررہی تھی۔ پھوپھو آج کل اپنے بھائی کا ذہن اسی طرح آلودہ کررہی تھیں۔ کبھی فون پر بات کرتے ہوئے دکھا کر ، کبھی کھڑکی سے باہر جھانکتے دکھا کر اور ابا ایک کانوں کے کچے مرد تھے یہ لائبہ کو تھوڑے دن بعد پتا چلنا تھا۔ اب ابا کسی گہری سوچ میں گم تھے اور پھوپھو اطمینان سے پان چبا رہی تھیں۔ انہیں اپنے بھائی کی اس کمزوری کا پتا تھا۔ دوسری طرف لائبہ آنے والے دنوں سے بے خبر کھل کے مسکرا رہی تھی۔
٭….٭….٭
”میرے پاپا تو کہہ رہے ہیں کہ ایگزامز کے دو مہینے بعد کی ڈیٹ فکس کرلیتے ہیں۔“ ماریہ مجھے بتارہی تھی۔
”تب تک میں بھی تھوڑا فریش ہوجاﺅں گی۔ اس روٹین نے تو ساری اسکن ڈل کر دی ہے۔ تمہیں بھی ضرور آنا ہوگا۔“ ماریہ نے ساتھ ساتھ مجھے بھی تلقین کی۔
”ہاں ضرور کیوں نہیں۔“ میں مسکرائی۔
”حسنین سے کہوں گی ہماری شادی کی ڈیٹ بھی زیادہ دور کی نہ رکھے۔“ میں دل میں منصوبے بنارہی تھی۔
”اب جب بھی بات ہوگی اس سے کہوں گی اپنے مام ڈیڈ سے ملوا تو دے ایک دفعہ۔ پتا نہیں اس کے مام ڈیڈ کو میں کیسی لگوں گی؟“ میرا دل ایک دم سے ڈوبا۔
”اگر انہوں نے منع کردیا تو؟ نہیں حسنین کہہ رہا تھا وہ اس کی بہت بات مانتے ہیں۔ میں بھی ڈیزائنر ڈریس بنواﺅں گی ماریہ سے بھی اچھا۔“ میں اپنے خیالوں میں بہت دور تک چلی گئی تھی۔
٭….٭….٭
”یہ لو! حسنین نے میری طرف ایک بیگ بڑھایا اس میں کچھ ڈریسز ہیں اور جیولری وغیرہ۔ میں نے خود ہی اپنی پسند سے لے لیے۔“ حسنین نے مجھے بتایا۔
”بہت خوب صورت ہیں یہ۔“ میں نے بیگ میں جھانک کر دیکھا۔
”پرائس ٹیگ میں نے ہٹا دیے تھے۔“ اس نے جیسے مجھے وضاحت دی۔
”مجھے پتا ہے آپ نہیں چاہتے کہ میں قیمت دیکھ کر شرمندہ ہوں۔“ میں نے دل میں حسنین کو مخاطب کیا۔
”حسنین ہم بھی اپنی شادی کی ڈیٹ جلدی رکھیں گے۔“
”ہم بھی سے کیا مطلب ہے؟“ حسنین نے سوالیہ نظروں سے مجھے دیکھا۔
”وہ ماریہ بتارہی تھی کہ ….“
”ہاں ٹھیک ہے میں تھوڑے دن بعد ممی پاپا کو لے آﺅں گا اور شادی تو پھر کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے اور پتا ہے میں تمہیں نا اٹلی ضرور لے کر جاﺅں گا۔“ میں پورے اشتیاق سے اپنے مستقبل کے سنہری سپنے بن رہی تھی۔
٭….٭….٭
”ارے واہ! کتنے نفیس کپڑے ہیں۔ میں آج کپڑے دیکھ ہی رہی تھی کہ حوریہ کمرے میں آگئی۔
”ہاں یہ والا مجھے ماریہ نے دیا ہے اور یہ والا میں نے خود خریدا ہے۔ نقلی ہے اصلی نہیں اسی لیے سستا مل گیا۔“ میں نے اسے سراسر جھوٹی وضاحت دی۔
”آپی! ان کپڑوں میں سے خوشبو کتنی اچھی آرہی ہے نا۔“ حوریہ زور سے سونگھتے ہوئے بولی۔
”ہاں واقعی!“ میں نے بھی گہری سانس لیتے ہوئے وہ خوش بو اندر اتاری۔ بہت ہی پیاری اور مانوس سی خوشبو تھی ان کپڑوں میں۔
٭….٭….٭
”امی آپ کو پتا ہے میں نے بیس ہزار کا ڈریس لیا ہے۔ بھابی کے بیٹے کا ختم قرآن ہے نا۔“ آمنہ نے اپنی گردن اکڑائی۔
”ہاں تو اچھا ہوا نا بھئی یہ تو بڑی سعادت والی بات ہے اور بڑی بابرکت محفل ہوگی۔ تمہاری جیٹھانی کو بھی میں کچھ دوں گی اس کے بچے کے ساتھ ساتھ اسی بہانے تمہاری بھی واہ واہ ہوگی۔“
”ہاں جب ہی تو میں نے بھی بیس ہزار کا ڈریس لیا ہے۔ یہی تو مواقع ہوتے ہیں اپنے کپڑے دکھانے کے اور امی آپ کوئی سونے کی بھاری سی چیز دیجیے گا۔“ آمنہ نے گردن اکڑائی۔
”ہاں ہاں! میری بیٹی کی سسرال میں عزت کا سوال ہے۔“
”ان لوگوں نے ایک بابرکت محفل کو نمودو نمائش کا ذریعہ بنالیا ہے۔“ میں نے افسوس سے سوچا۔ ہمارے ددھیال میں مایوں مہندی ، سالگرہ نہیں منائی جاتی تھی۔ لیکن میلاد، درس، ختم قرآن بہت ذوق شوق سے ہوتا تھا۔ افسوس کی بات یہ تھی کہ ان تمام چیزوں کا مقصد صرف اپنے کپڑے زیور کی نمائش تھا۔
”پتا ہے کل کے درس میں مسز ہمدانی اپنا پرانا ہی جوڑا پہن آئیں تھیں اور رضوانہ نے تو جارجٹ کا سوٹ پہنا ہوا تھا۔“ پھوپھو نے ہفتہ وار درس کی تفصیلات اپنی بیٹی کو فراہم کیں۔
”بھئی ہم سے تو نہ پہنے جائیں جارجٹ کے سوٹ۔“ پھوپھو نے اپنے بریزے کے سوٹ کا دامن ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔
”امی پتا ہے رضوانہ آنٹی مجھ سے میرے لان کے کپڑوں کی قیمت پوچھ رہی تھیں کہ اپنی بیٹی کے جہیز میں رکھوں گی۔ میں نے قیمت بتائی تو آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔“ ان کی باتیں سن کر مجھے درحقیقت افسوس ہورہا تھا رضوانہ آنٹی بے چاری بیوہ خاتون تھیں ہفتہ وار درس کے دن درس سننے اور اپنے ہاتھ کی سلائی کڑھائی والی چادریں اور قمیص بیچنے آتی تھیں۔ عورتیں اکثر ان سے کچھ نہ کچھ خرید ہی لیا کرتی تھیں۔ خیر میں کیا کرسکتی ہوں میرے پاس تو خود پیسے نہیں ہوتے میں نے دل میں ان کی مدد کی خواہش کو دباتے ہوئے سوچا اور اپنے کمرے کی طرف بڑھ گئی۔
٭….٭….٭
حسنین سے آج بہت دن بعد ملاقات ہوئی تھی۔
”کیسی ہو لائبہ؟
”بالکل ٹھیک ہوں۔ اب آپ کو جو دیکھ لیا۔“ میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔
”یہاں بھی یہی حال ہے۔“ حسنین مسکراتے ہوئے میرے اوپر جھکا، تو میں فوراً پیچھے ہٹی۔ اس دن کے بعد میں حسنین سے ذرا احتیاط کرتی تھی۔ باجی کی آواز میرے آس پاس گونجتی رہتی تھی۔
”ایک نامحرم مرد اور عورت کے بیچ میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔“ حسنین سے ملنا میری مجبوری تھی کہ اس کے بغیر میرا دن نہ گزرتا تھا اور پھر اس سے میرے اندر اعتماد آتا جارہا تھا جوکہ حسنین کے قدم سے قدم ملا کے چلنے کے لیے میرے خیال میں بہت ضروری تھا۔
”کہاں کھوگئیں؟“ حسنین نے میرے آگے چٹکی بجائی۔
”آں کہیں نہیں۔“ میں اپنے خیالوں سے چونکی۔
”حسنین تمہارے ممی پاپا مجھے قبول کرلیں گے نا؟“ میں نے اس سے یونہی پوچھا۔
”ارے تم میں کمی کیا ہے؟ میرے پاپا کو تو انٹلیکچویل لڑکیاں بہت پسند ہیں۔“ حسنین ہمیشہ اسی طرح میرامان بڑھایا کرتا تھا۔ میں اب ہلکی پھلکی ہوکر حسنین سے اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگی تھی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!