دادی کے گھر میں یہ جواب ایک نئی پریشانی کھڑی ہوگئی تھی۔ میری سمجھ نہیں آتا تھا میں اس سے کیسے نمٹوں۔ اگر میں کسی سے کچھ کہتی بھی تو کوئی میری بات پر یقین نہ کرتا اور ہنگامہ الگ کھڑا ہوجاتا۔ کیا کروں کس سے بات کرو؟ میں پریشانی سے سوچ رہی تھی۔ اب تو میں ڈر کے مارے زیادہ باہر ہی نہ نکلتی تھی کہ ریحان بھائی سے ٹکراﺅ نا ہوجائے لیکن وہ کبھی کوئی نہ کوئی موقع ڈھونڈ ہی لیتے تھے۔
تنگ آکر میں نے ابا سے بات کرنے کا سوچا، لیکن آمنہ والا قصہ یاد کرکے میں چپ ہوگئی۔ میں اپنے کمرے میں بیٹھی انہی سوچوں میں گم تھی کہ خدیجہ میرے برابر میں آکر کب بیٹھی مجھے پتا ہی نہ چلا۔
”کیا بات ہے لائبہ؟“ وہ مجھے بہت غور سے دیکھ رہی تھی۔
”کچھ نہیں تم کب آئیں؟“ میں چونکتے ہوئے بولی۔
”نہیں تم کچھ پریشان ہو اور آج کل تم اپنے کمرے سے بھی نہیں نکل رہیں۔“ میں چوں کہ خود بھی بہت پریشان تھی اسی لیے اسے سب بتادیا۔
”کیا؟ ریحان بھائی کی اتنی ہمت۔“ وہ غصے سے چیخ پڑی۔ اب میری سمجھ آیا امی مجھے پھوپھو کے پورشن میں کیوں نہیں جانے دیتیں۔
”تم ایسا کرو چاچو کو بتاﺅ یہ سب۔“
”نہیں میں کیسے بتاﺅں تم بھول گئیں خدیجہ آمنہ والا قصہ؟ ابو نے میری کوئی بات نہیں سنی تھی۔“ میں نے نفی میں گردن ہلائی۔
”تو تم کوشش کیا کرو کہ تم زیادہ وقت اکیلے نہ رہو گھر میں باہر نکلو بھی تو کوئی نہ کوئی تمہارے آس پاس ہو۔“ خدیجہ نے مجھے مشورہ دیا ۔
”اور مجھے پھوپھو پر حیرت ہے کہ انہوں نے اپنے بیٹے کو کچھ بھی نہ کہا۔ سب کی مائیں ہیں نہ انہیں بچانے کے لیے کوئی بھی میری طرح تھوڑی ہے۔“ میں اداسی سے بولی۔
”اچھا چلو اب اُداس مت ہو۔ “وہ میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر بولی۔
دوسرے دن آمنہ چلی آئی۔ دو ہار گلے میں پہنے ہوئے بڑے بڑے جھمکے اور لال بنارسی سوٹ میں وہ مجھے گائے لگ رہی تھی۔ اسے دیکھ کر مجھے اور خدیجہ کو اپنی ہنسی روکنا مشکل ہورہا تھا۔
”اس کا شوہر اگر واقعی میں پڑھا لکھا ہے، تو وہ اسے برداشت کیسے کرتا ہوگا؟“ خدیجہ نے میرے کان میں سرگوشی کی۔
”چپ کرو ابھی سن لیا ان لوگوں نے تو مصیبت آجائے گی۔“ میں نے ہنسی دباتے ہوئے اسے کہنی ماری۔
”اے لڑکیوں تم لوگ کیا کھسر پھسر کیے جارہی ہو؟“ دادی نے آمنہ اور پھوپھو کے ساتھ اپنے غیبت سیشن کو روکتے ہوئے پوچھا۔
”کچھ نہیں دادی میں لائبہ کو بتارہی تھی کہ آمنہ نے جو یہ جھمکے پہنے ہوئے ہیں وہ آپ نے کتنے مہنگے بنوائے تھے۔“ خدیجہ نے جلدی سے بات بناتے ہوئے کہا اور میں نے اپنی ہنسی چھپانے کو کچن کا رخ کرلیا۔
٭….٭….٭
سلیولیس کرتے کو چھپانے کے لیے میں نے ہلکا ساشرگ لے لیا تھا جانے سے پہلے میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو کوئی میرا منتظر نہ تھا۔ چلوایسے ہی سہی میں اب ایسی باتوں کو زیادہ دل پر نہ لیتی تھی۔ آج یونیورسٹی کے بہ جائے ہم سیدھا ہی ہوٹل آگئے تھے۔ گھر سے میں دیر سے نکلی تھی۔ اب شرگ میں گاڑی میں چھوڑ آئی تھی۔ اس حلیے میں نکلنے میں مجھے بہت دشواری کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ کم عمری سے چادر سر پے لینی والی اگر ایک دم سے ایسے حلیے میں آجائے تو مشکل تو ہوگی، لیکن حسنین بہت خوش تھا۔
’واﺅ لائبہ مجھے پتا نہیں تھا کہ تم اتنی خوب صورت ہوگی۔“ ابھی ہوٹل میں زیادہ لوگ نہ تھے اور وہ بے خود ہوا جارہا تھا۔
”لائبہ!“ میں اپنی ہی الجھنوں میں گم تھی کہ اس کے ہاتھ مجھے اپنے بازو پر سرسراتے ہوئے محسوس ہوئے۔
”وہ مارا! وہ اچھلا یہ دونوں آگ سے کھیل رہے ہیں اور یہ آگ میرے وجود کا حصہ ہے میرا وجود ہی اس سے بنا ہے اب یہ دونوں بھی میرے ساتھ روز ازل ایندھن کا حصہ بنیں گے ان جیسے اور کتنے بھی۔“ وہ دیوانہ وار ہنس رہا تھا۔
”کیا ہوا؟ ابھی بھی نہیں سمجھے ارے وہی! جس نے میرے رب کے عزت و جلال کی قسم کھا کر اس کے بندوں کو بھٹکانے کی روز قیامت تک مہلت مانگی تھی اور وہ جو ہماری رگوں میں شر بن کر دوڑتا ہے۔“
٭….٭….٭
آج کل پھوپھو ریحان بھائی کے لیے لڑکی ڈھونڈ رہی تھیں۔ بہت زور و شور سے اور اسی سلسلے میں آمنہ بھی روز اپنے بھاری بھرکم زیورات اور شوخ رنگوں کے ملبوسات میں تیار یہیں پائی جاتی۔ بقول پھوپھو کے اس طرح لڑکی والوں پر رعب پڑے گا۔ آج بھی انہیں کہیں لڑکی دیکھنے جانا تھا۔ دونوں نے اپنے بہترین لباس زیب تن کیے ہوئے تھے۔
”اچھا اماں اجازت دیں۔“ دونوں نے اپنی کالی چادروںکے سرے اپنے اپنے چہروں پر ڈالتے ہوئے کہا۔
”جاﺅ! اور لڑکی اچھی طرح ٹھونک بجاکر دیکھنا۔“دادی نے ایسے کہا جیسے لڑکی پسند نہ کرنی ہو کوئی چیز پسند کرنی ہو۔
”ارے اماں آپ فکر ہی نہ کریں چاند کا ٹکڑا لاﺅں گی خدا حافظ۔“
ان کے جانے کے بعد پورے گھر میں خاموشی چھا گئی۔ میں پہلے کافی دیر تک تو پڑھتی رہی پھر چائے کی طلب ہونے پر میں کچن میں چائے بنانے آگئی۔
”آج آپ کیسے نظر آگئیں؟“ اپنے پیچھے ریحان بھائی کی آواز سن کر میں اچھل ہی تو پڑی۔
”اور وہ بھی اپنی دوست کے بغیر۔“
”یا اللہ اس وقت تو گھر پے کوئی نہیں ہے۔ سوائے دادی کے اور ملازم بھی اپنے سرونٹ کوارٹرز میں ہوں گے۔“ میں نے سوچا۔
”کن سوچوں میں گم ہوگئیں شہزادی؟“ ریحان بھائی اپنے گریبان کے کھلے بٹنوں کے ساتھ میری طرف بڑھے۔
”ابھی تو ابا اور تایا بھی آفس سے نہیں آئے ہیں۔ جو کرنا ہے مجھے ہی کرنا ہے۔“ میں نے دماغ کو حاضر رکھتے ہوئے اِدھر اُدھر کسی ہتھیار کے لیے نظر دوڑائی اور لمحے بھر میں ہی وہ چائے سا بھرا ساس پین میری نظر میں آگیا۔ میں نے وہ ساس پین انہیں دے مارا۔ وہ اتنے اچانک حملے کے لیے تیار نہ تھے۔ اسی لیے گرم چائے سے بوکھلا کر رہ گئے اور میں اس ایک لمحے کو غنیمت جانتے ہوئے بھاگ کر کمرے میں پہنچ کر کنڈی چڑھا چکی تھی۔
”یا اللہ ان کی حرکتیں تو حد سے زیادہ بڑھتی ہی جارہی ہیں ۔میں کیا کروں؟ لگتا ہے ابا سے بات کرنی ہی پڑے گی۔“ میں لرزتے ہوئے ہاتھ پیروں کے بس یہی ایک بات سوچے جارہی تھی۔
شام کو لاﺅنج میں سے پھوپھو کی آوازیں سن کر میں باہر نکل آئی۔ لڑکی کی ماں نے تو ہیرے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ وہ لڑکی والوں سے شدید متاثر کسی کو فون پر بتارہی تھیں ساتھ ہی آمنہ بیٹھی ہوئی تھی۔ چار من کے زیورات اپنے بدن پے لادے ہوئے۔
”پھوپھو۔“ میں کچھ سوچ کر ان کے پاس جا پہنچی۔
”ہوں! کیا بات ہے؟“ انہوں نے الوداعی کلمات کہتے فون بند کرتے ہوئے مجھ سے پوچھا۔
”اپنے بیٹے کو سمجھا لیں ورنہ مجبوراً مجھے ابا سے بات کرنی پڑے گی۔“ میں نے بغیر تمہید باندھے اپنے مطلب کی بات کی اور وہاں سے چلی آئی۔
”امی اسے یہاں سے چلتا کریں۔ ریحان کے تیور ٹھیک نہیں۔“ آمنہ نے اپنی ماں کے کان میں سرگوشی کی۔
”ہوں! کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ اس سے پہلے یہ بھائی صاحب سے بات کرے۔“ پھوپھو نے کسی گہری سوچ میں ڈوبے ہوئے کہا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!