دوسرے دن میں نے موقع ملتے ہی وہ کپڑے دیکھے۔
”یہ کتنے حسین ہیں۔“ میں نے بے اختیار میں ان پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا۔ کتنی بار میں نے خواہش کی تھی کہ ماریہ جیسے کپڑے میرے بھی ہوں۔ اور اب یہ خواہش پوری ہونے جاری تھی۔
دوسرے دن میں انہی میں سے ایک جوڑا پہن کر یونیورسٹی چلی گئی۔
”واﺅ!“ ماریہ نے مجھے دیکھ کر ہونٹ سکیڑے۔
”آج تم لگ رہی ہو زبردست۔“ اس نے میری تعریف کی۔ پھر وہ کچھ رکتے ہوئے بولی۔
”لائبہ! برا مت ماننا۔ میں، میں تم سے کہنے ہی والی تھی تمہیں اپنے آپ کو بدلنا ہوگا۔ حسنین جس سوسائٹی میں موو کرتا ہے تمہیں اس کے طور طریقے آنے چاہئیں۔“ میں خاموشی سے سنتی رہی۔
”پھر تمہارے خیال سے مجھے کیا کرنا چاہیے؟“ میں نے اس سے پوچھا۔
”پہلے تم اپنی ڈریسنگ ٹھیک کرو اور دوسرا یہ جو تمہیں حسنین کے ساتھ جانے کی بات پر پسینے چھوٹتے ہیں اس دبو پن کو ختم کرو ورنہ حسنین تم سے جلد بور ہو جائے گا۔“ ماریہ نے مجھے لیکچر دیتے ہوئے کہا۔
”بلکہ میں تو کہتی ہوں کوئی اچھا سا ہیئر کٹ بھی لو۔“ اس دن میں یونیورسٹی سے واپسی پر سیدھی پارلر چلی گئی۔ میرے خوب صورت بال کاٹ کے اس نے انہیں ایک بالکل نیا اسٹائل دے دیا پھر کچھ سوچتے ہوئے میں نے دو تین چیزیں اور بھی کرالیں ۔ پھر خوشی خوشی گھر کی راہ لی۔
٭….٭….٭
”تم بہت بدل گئی ہو لائبہ!“ کوچنگ میں عافیہ مجھ سے بولی۔
”اچھا کیوں؟“ میں نے بات کو ہنسی میں اڑانے کی کوشش کی۔
”کچھ تو ہے جو تم میں بدل گیا ہے اور آج کل تم کپڑے بھی بہت مہنگے پہننے لگی ہو۔“ عافیہ کی نظریں میرے اندر اتر رہی تھیں۔
”کیا مطلب ہے تمہارا؟ میں مہنگے کپڑے نہیں خرید سکتی کیا؟“ میں نے الٹا اسی پر چڑھائی کردی ۔
”نہیں میرا یہ مطلب نہیں تھا۔“ وہ بوکھلا کر بولی۔
”بس میں تو تم سے پوچھ رہی تھی اور تمہیں پتا ہے باجی بھی تمہارا پوچھ رہی تھیں کہ اتنے دنوں سے تم گئیں نہیں ان کے پاس۔“ اس بات پر میں دل ہی دل میں شرمندہ ہوگئی۔
”ہاں! آج جاﺅں گی۔“ میں ہلکے سے بولی۔
”السلام علیکم باجی! آج میں خالی ہاتھ تھی پرس تو سارا پارلر میں خالی کر آئی تھی۔“
”وعلیکم السلام! بیٹھو اتنے دن بعد آئی ہو۔“ انہوں نے شکوہ کیا۔
”جی بس مصروفیت ہی اتنی ہے آج کل۔“ میں نے چور سے لہجے میں وضاحت دی۔
”ارے یہ تم نے بال کب کٹوائے؟“ میں ان کے ہاں چادر لے کر گئی تھی، لیکن بال ماتھے پر گر رہے تھے ان کی نظریں میرے بالوں سے ہوتی ہوئی میرے نیل پالش سے سجے ناخنوں پر جا ٹھہریں۔
”ابھی گھر جاکر ہٹالوں گی باجی!“ میں نے انہیں وضاحت دی۔
”حالاں کہ اب نیل پالش میرے ناخنوں سے ہٹتی نہ تھی۔
”اچھا باجی اب میں چلتی ہوں۔“ میں تھوڑی ہی دیر میں گھبرا کر کھڑی ہوگئی کیوں کہ حسنین کی کال آنے والی تھی۔ حسنین سے بات کرنے کے بعد میں نے کل پہننے والے کپڑے استری کیے اور اپنا موبائل چار ج پر لگا کر میں کل حسنین کے ساتھ طے ہونے والے پروگرام کے بارے میں سوچنے لگی۔ ہم نے طے یہ کیا تھا کہ وہ یونیورسٹی کے باہر سے مجھے پک کرے گا اور وہاں سے ہم ساتھ ہی کسی ہوٹل میں جائیں گے۔
”اچھا نانی میں جارہی ہوں۔“ میں نے انہیں خدا حافظ کہتے ہوئے بتایا۔ آج کوئی لیکچر مجھے سمجھ نہ آرہا تھا۔ جب ایک گھنٹہ رہتا تھا چھٹی ہونے میں تو میں نے اپنے کپڑے چینج کرلیے۔ یہ سب کرتے ہوئے مجھے ٹھنڈے پسینے آرہے تھے، لیکن جینز گھر سے پہن کر نکلتی تو نانی ضرور پوچھتیں۔ جینز کے اوپر کھلا کرتا پہن کر میں نے دوپٹا گلے میں ڈالا اور چادر لیتی ہوئی تیز قدموں سے باہر آگئی۔ ساتھ ساتھ ڈر بھی لگ رہا تھا کوئی کلاس فیلو نہ دیکھ لے لیکن شکر کسی نے نہ دیکھا۔
گاڑی میں بیٹھ کر میں نے جلدی سے چادر تہ کرکے بیگ میں رکھی۔
”واﺅ! آج تو پہچان میں ہی نہیں آرہی۔“ حسنین نے میری تعریف کی۔
”تھینک یو!“ میں اعتماد سے مسکرائی۔ لنچ کے بعد حسنین مجھے شاپنگ مال میں لے گیا۔ اتنا بڑا مال میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ میں اردگرد میں گم تھی کہ حسنین نے ایک ڈریس میرے آگے کیا۔
”دیکھو لائبہ یہ میں تمہارے لیے لے رہا ہوں کلر ٹھیک ہے؟“
”لیکن یہ تو سلیولیس ہے۔“ میں حیرت سے بولی۔
”تو کیا ہوا؟“ اس نے بے پروائی سے کندھے اچکائے۔
” ہمارے گھر میں تو یہی سب چلتا ہے تم کیا بعد میں بھی یہی کروگی؟“ وہ تھوڑا بگڑ کر بولا۔
”اچھا! ٹھیک ہے۔ میں پہن لوں گی۔“ مجھے اس کی ناراضگی سے بڑا ڈر لگتا تھا۔
٭….٭….٭
اپنے نوٹس میں سامنے بے دلی سے پھیلائے بیٹھی تھی۔ آج کل دل کسی بھی بات میں نہ لگتا تھا اور ابھی تو یہ بھی پریشانی تھی کہ وہ سلیولیس کرتا پہن کر میں نکلوں گی کیسے؟ حسنین کی فرمائش تھی میں اس کے دیے ہوئے کپڑوں میں سے کوئی کپڑے پہن کر آﺅں اب ہم جب بھی ملیں انہی سوچوں میں گم ۔ میں نے گھر کے کام کیے تھوڑا بہت کھانا کھایا اور پھر سے اپنے نوٹس لے کر بیٹھ گئی۔ فائنل کی تو کچھ بھی تیاری نہیں ہے چلو ابھی دن ہیں تھوڑے میں کرلوں گی تیاری۔ میں نے اپنے آپ کو تسلی دی۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!