کئی دنوں کے حبس کے بعد آج بہت تیز بارش ہوئی تھی۔ ابا کے گھر میں ایک بڑا سا لان بھی تھا۔
”آہ! کتنا اچھا موسم ہے۔“ میں نے باہر جھانکتے ہوئے سوچا۔ چلو میں ایسا کرتی ہوں باہر بیٹھ کر ہی پڑھ لیتی ہوں۔ میں نے اپنی کتابیں اٹھائیں اور باہر لان میں آکر بیٹھ گئی۔ مجھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ پھوپھو میرے سر پر آکر کھڑی ہوگئیں۔
”سنو لڑکی! یہ جو لان میں بیٹھ کر مزے لوٹ رہی ہو نا موسم کے ابھی اماں کو پتا چل گیا تو تمہاری کھال ادھیڑ دیں گی۔ اندر جاﺅ۔“ انہوں نے مجھے درشتگی سے ڈانٹا۔
”جی اچھا۔“ میں خاموشی سے اٹھ کر اندر آگئی۔ اس دن اسکول سے واپس آکر میں اپنے لیے کھانا نکال رہی تھی کہ پیچھے سے مجھے آواز آئی ۔
”چچ چچ !امی بھی کتنا برا کرتی ہیں نا؟“ میں پیچھے مڑی تو پھوپھو کے بیٹے ریحان بھائی کھڑے تھے۔ وہ اس گھر کے تمام مردوں سے مختلف تھے۔ تائی اماں تو ان کی موجودگی میں خدیجہ کو پھوپھو کے پورشن کی طرف جانے بھی نہ دیتی تھیں۔
”کیوں کیا ہوا؟“ میں ذرا سختی سے بولی۔
”اب دیکھو انہوں نے تمہیں ذرا سی بات پر کتنی باتیں سنادیں۔“
”ایسی کوئی بات نہیں ہے ریحان بھائی میری بڑی ہیں وہ۔“ اور جلدی سے اپنی ٹرے اٹھا کر باہر نکل آئی۔
”یہ بھی عجیب آدمی ہیں مجھے بھی اندازہ تھا کہ وہ کس قماش کے انسان ہیں۔ اب بچی تو تھی نہیں میں فرسٹ ائیر کی اسٹوڈنٹ تھی۔ آئندہ سے اب اور احتیاط کروں گی۔“ میں نے دل ہی دل میں تہیہ کیا۔
٭….٭….٭
دادی کے اس گھر میں عجیب ماحول تھا۔ عبادات بہت پابندی سے کی جاتی تھیں، لیکن دوسروں کی غیبتیں اور دل آزاری کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا تھا اور ماﺅں کی یہی عادت ساری لڑکیوں میں بھی تھیں۔ بس خدیجہ ہی تھی جو مختلف تھی۔
آج کل گھر میں آمنہ کی شادی کا زور تھا۔ روز سب لوگ شاپنگ کے لیے نکل جاتے تھے۔ آمنہ بھی آج کل گردن اکڑائے اکڑائے پھر رہی تھی۔ سنا تھا اس کا منگیتر اچھا خاصا پڑھا لکھا اور امیر تھا۔ یہ رشتہ میرے ددھیال کی شرافت اور دینداری کو دیکھتے ہوئے لڑکے والوں نے دیا تھا۔ یہ بات آتے جاتے پھوپھو اور دادی مجھے سنایا کرتی تھیں۔
”اے لڑکی! بس ہر وقت پڑھتی ہی رہنا تم۔“ خدیجہ میرے برابر میں دھپ سے بیٹھتے ہوئے بولی۔
”تو پھر کیا کروں؟“ میں نے مسکرا کر پوچھا۔
”شادی کی شاپنگ کرلی؟“ اس نے مجھ سے پوچھا۔
”نہیں!“
”چلو ٹھیک ہے میں چاچو سے پیسے لے کر آتی ہوں پھر دونوں ساتھ چلیں گے۔“ وہ یہ کہتے ہوئے بھاگ گئی۔ اب پچھلے ایک گھنٹے سے وہ مجھے بازاروں میں لیے پھر رہی تھی۔ ہر دکان پر رکتی ، قیمت پوچھتی اور آگے بڑھ جاتی۔ آخر کار تین چار گھنٹوں میں ہماری شاپنگ ختم ہوئی اور ہم گھر واپس آئے۔
”آگئیں خیر سے آپ واپس۔“ یہ طنز بھری آواز پھوپھو کی تھی۔ میرے بہ جائے خدیجہ نے جواب دیا۔
”پھوپھو چاچو سے پوچھ کر گئے تھے ہم۔“
”تو بی بی! تم پر ذمے داری نہیں اس پر تو اماں کی ذمے داری ہے سارا کام مجھ پر آن پڑا۔“
”ارے اماں اب رہنے بھی دیں پہلی دفعہ تو گئی ہے یہ شاپنگ پر۔“ یہ آواز ریحان بھائی کی تھی جو پیچھے بیٹھے مجھے ہی دیکھ رہے تھے۔ ریحان بھائی کی اس بات پر پھوپھو نے انہیں گھور کر دیکھا اور اپنے پورشن کی طرف بڑھ گئیں۔ اولاداچھی ہو یا بری یہ بات ماں سے بہتر کون جانتا ہے۔
٭….٭….٭
”چلو اب میں فون رکھتی ہوں خدا حافظ۔“ ابھی سے حسنین چلایا۔
”اں تو اب مجھے سونا بھی ہے صبح اٹھ کر پڑھوں گی بھی نا۔“
”نہیں نا ابھی تھوڑی سی دیر۔“ اور یہ تھوڑی سی دیر اگلے دو گھنٹوں پر چلی گئی اور جب میں نے اسے خداحافظ کہا تھا تو میری آنکھیں نیند سے بوجھل تھیں۔
صبح جب میں اُٹھی تو سورج سر پر چمک رہا تھا۔
”اتنی دیر!“ میں نے ہڑبڑا کر بستر چھوڑا۔ آج اتوار تھا تو یونیورسٹی کی طرف سے بے فکری تھی۔ جلدی جلدی کام نمٹا کر میں پڑھنے بیٹھ گئی تو حسنین کے بارے میں سوچنے لگی۔ بس دو سمیسٹرز کی تو بات ہے پھر وہ اپنے ممی پاپا کو بھیجے گا ماموں کو بھی اس رشتے پر کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ آج کوشش کے باوجود بھی میرا دل پڑھائی میں نا لگ رہا تھا۔
٭….٭….٭
”کیا بات ہے آج کل بہت خوش لگ رہی ہو؟“ عافیہ نے کوچنگ سے واپسی پر مجھ سے پوچھا۔
”ہاں ! یہ بات تو ہے۔“ میں نے اعتراف کیا۔
”وجہ جان سکتی ہوں؟“ عافیہ نے سوال کیا کچھ خاص نہیں بس ایسے ہی میں اسے صاف ٹال گئی۔
گھر آنے پر میں چادر رکھ کر منہ ہاتھ دھونے چلی گئی۔ واپس آئی تو حوریہ میرا موبائل لیے کھڑی تھی۔
”آپی مجھے ایک کال کرنی ہے کرلوں؟“ وہ اکثر پہلے بھی میرے موبائل سے دوستوں کو فون کیا کرتی تھی۔ ممانی نے ابھی تک اسے اپنا موبائل نہ دلایا تھا۔ بقول ان کے یہ بچوں کی بھٹکنے کی عمر ہوتی ہے، لیکن انہیں یہ نہیں پتا تھا کہ بھٹکنے کی تو کوئی بھی عمر ہوسکتی ہے۔
”ایک منٹ رکو!“ میں نے موبائل اس کے ہاتھ سے جھپٹا جلدی سے حسنین کے میسجز ڈیلیٹ کرکے موبائل میں نے اس کی طرف بڑھا دیا۔ اگلی دفعہ میسجز پہلے سے ڈیلیٹ کردوں گی میں نے تہیہ کیا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!