امی کے انتقال کے بعد گھر کی فضا میں عجیب سی سوگواری تھی۔ ایسے ہی ایک سوگوار دن تھا۔ ہوم ورک کررہی تھی کہ دستک ہوئی۔ میں نے دروازہ کھولا۔
”جی کس سے ملنا ہے آپ کو؟“ میں نے سامنے کھڑے باریش شخص سے پوچھا۔
”گھر میں کوئی بڑا ہے] تو اسے بولو کہ فرقان صاحب آئے ہیں۔“ میں نے ان کا پیغام اندر پہنچا دیا] تو نانی اور ماموں وہیں کے وہیں رہ گئے اور پھر ایک دوسرے کو سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگے۔
”اچھا تم اندر جاﺅ میں دیکھتا ہوں۔“ ماموں نے مجھے مخاطب کیا۔
”جی ٹھیک ہے۔“ میں نے سرہلا کر جواب دیا۔ اس دن ان صاحب کے جانے کے بعد ماموں نے مجھے اپنے پاس بلایا اور مجھ سے پوچھا۔
”بیٹا تمہیں پتا ہے کہ یہ جو صاحب آئے تھے یہ کون تھے؟“
”نہیں ماموں کیا آپ کے کوئی دوست تھے؟“
”نہیں بیٹا یہ تمہارے ابو تھے اور چاہتے تھے کہ اب تم ان کے ساتھ رہو۔“
”لیکن ماموں میں نے تو انہیں آج پہلی بار دیکھا ہے اور میں کیسے رہوں گی؟ مجھے تو ہمیشہ سے یہیں رہنے کی عادت ہے۔“ میں گھبرا کر تیز تیز بولنے لگی۔
”اچھا تم پریشان مت ہو میں بات کروں گا ان سے۔“ لیکن بات کرنے کی نوبت ہی نہ آئی اس دن میں رات کو پانی پینے اٹھی تو ماموں ممانی کے کمرے سے اپنا نام سن کر رک گئی۔ ممانی تیز لہجے میں ماموں سے کہہ رہی تھیں کہ:
”اگر اس کا باپ اسے لینے آ ہی گیا ہے، تو اسے بھیج دیں۔ اب تک ہم اس کا خرچہ اٹھائے ہوئے ہیں، لیکن آگے مزید خرچے ہوں گے تو کون اٹھائے گا۔ اب اس کے باپ کو پہلی دفعہ اپنی ذمے داری کا احساس ہو ہی گیا ہے، تو آپ بیچ میں مت آئیں۔ اب اپنے بچوں کی بھی کچھ فکر کرلیں بہت اٹھالیے دوسروں کے بچوں کے نخرے۔“ اور پھر صبح اُٹھتے ہی میں نے ماموں سے کہہ دیا کہ:
”میں ابوکے ساتھ جانے کے لیے تیار ہوں۔“
٭….٭….٭
آج ماریہ نہیں آئی تھی تو سارا دن بہت بوریت بھرا۔ گزرا چھٹی سے کچھ دیر پہلے میں اکیلی بیٹھی تھی تو حسنین نے مجھے مخاطب کیا۔
” لائبہ ایک منٹ بات سنیے گا۔“
”جی بولیں!“ وہ کچھ پریشان سا کھڑا تھا۔
”وہ اصل میں بات یہ ہے کہ….“ وہ کچھ جھجکتے ہوئے بولا کہ:
”میں آپ کو پسند کرتا ہوں۔“ اس نے جیسے جلدی سے اپنی بات مکمل کی۔
”جی؟“ میںنے حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔
”دیکھیں آپ برا مت مانیں اگر آپ کوئی اعتراض ہے تو میں آپ کو آئندہ تنگ نہیں کروں گا، لیکن آپ یہاں موجود تمام لڑکیوں سے بہت مختلف ہیں۔“ اپنی بات کہہ کر وہ وہاں سے چلا گیا جب کہ میں وہی بیٹھی رہ گئی۔
٭….٭….٭
دوسرے دن زکام اور کچھ حسنین سے سامنا کرنے سے کترانے کی وجہ سے میں نے چھٹی کرلی۔ اس دن کوچنگ میں بھی میں بہت خاموش رہی۔ عافیہ نے بھی میری خاموشی نوٹ کرلی۔ واپسی پر عافیہ پوچھنے لگی۔
”کیا بات ہے لائبہ بہت چپ چپ ہو تم؟“
”نہیں کوئی بات نہیں بس فلو کی وجہ سے سر بھاری ہورہا ہے۔“ میں نے اسے مطمئن کرنے کی کوشش کی اور پھر میں اس کا دھیان بٹانے کے لیے اس سے رابعہ کی میکے آمد کی بابت پوچھنے لگی۔
٭….٭….٭
آج مجھے اپنے بابا کے ساتھ گھر جانا تھا۔ میں اندر ہی اندر بہت ڈری سہمی تھی اور ڈرائیور کے ساتھ ابو بالکل سپاٹ چہرے کے ساتھ بیٹھے تھے۔ گاڑی ایک شاندار سے گھر کے آگے رکی، تو میں اپنے خیالوں سے چونکی۔ اتنا بڑا گھر! میں حیرت سے منہ کھولے دیکھ رہی تھی۔
”پتا نہیں۔ یہاں رہنے والے لوگ کیسے ہوں گے؟“ میں دل ہی دل میں ڈرتے ہوئے سوچ رہی تھی۔ ابو مجھے لے کر لاﺅنج میں آگئے تھے جہاں تخت پے ایک عمر رسیدہ عورت سر پے دوپٹا لیے براجمان تھی۔
”اماں!“ ابو نے دھیرے سے انہیں مخاطب کیا۔ انہوں نے ہلکے سے آنکھیں کھول کر مجھے دیکھا ان کے انداز میں کسی بھی قسم کی کوئی شفقت نہ تھی۔
”فرقان! ملازمہ سے بولو اس کا کمرا دکھا دے گی اور پھر آنکھیں بند کرکے تسبیح گھمانے لگیں۔ ملازمہ مجھے کمرے میں چھوڑ کر جاچکی تھی اور اب میں اپنے کمرے کا جائزہ لے رہی تھی۔ کمرے میں ایک سنگل بیڈ اور الماری کے علاوہ کچھ نہ تھا۔ چھوٹا سا کمرا معمولی سامان سے آراستہ تھا۔ میں منہ ہاتھ دھوکر چپ چاپ ایک کونے میں بیٹھ گئی۔
”یا اللہ کوئی آجائے کھانے پر بلانے کے لیے میں نے کل رات سے کچھ نہیں کھایا تھا اب تو پیٹ میں اینٹھن ہورہی تھی۔“ جب بہت دیر تک کوئی نہ آیا تو میں ہمت کرکے اٹھی اور اندازے سے
باورچی خانے کی طرف آگئی۔ باورچی خانے میں دو ملازماﺅں کے علاوہ کوئی نہ تھا۔
”بات سنو! کھانا کب تک لگے گا؟“ میرے خیال سے یہاں سب لوگ دیر سے کھانے کے عادی تھے۔ ملازمہ کی آنکھوں میں حیرت ابھری۔
”بی بی جی کھانا تو سب لوگ کھا چکے۔ آپ نے نہیں کھایا کیا؟“ اور میں حیران پریشان رہ گئی کہ
”اگر میں کسی کو یاد ہی نہیں میری کسی کو ضرورت ہی نہیں تو ابا مجھے لائے کیوں تھے؟“
٭….٭….٭
یونیورسٹی میں آج کا دن بہت مصروف گزرا تھا۔ ایک تو چھٹی کرنے کی وجہ سے کام بھی جمع ہوگیا تھا اور دوسرے ایک اسائنمنٹ بھی ملی تھی جسے میں اور ماریہ ڈسکس کررہے تھے۔ ماریہ اسائنمنٹ کے بیچ میں ایک دم سے کچھ جھجک کر بولی۔
”لائبہ! کل تم نہیں آئی تھیں نا تو حسنین مجھ سے تمہاری خیریت پوچھ رہا تھا۔“
”اچھا!“ میں کچھ پریشان ہوتی ہوئی بولی۔ پہلے میں نے سوچا کہ میں ماریہ کو اصل بات بتادوں پھر میں چپ ہوگئی۔
٭….٭….٭
آج یونیورسٹی سے آنے کے بعد بھی میں بہت الجھی الجھی رہی۔ کوچنگ سے آنے کے بعد بھی گھر کے کام کرتے وقت میرا سارا دھیان حسنین کی طرف ہی رہا۔ کیا وہ واقعی مجھ سے محبت کرتا ہے یا صرف ٹائم پاس کررہا ہے؟ لیکن اس کو لڑکیوں کی کیا کمی ہے جو وہ مجھ سی عام سی لڑکی کو پسند کررہا ہے؟ یہ سوال میرے دماغ میں سرسرا رہا تھا، لیکن اس نے کہا تھا کہ میں دوسری لڑکیوں سے مختلف ہوں۔ میں آپ ہی آپ مسکرانے لگی۔ کوئی آپ کو پسند کرے یہ خیال ہی میرے لیے بڑا خوش کن تھا۔
٭….٭….٭
One Comment
سبحان اللہ بہت خوبصورت تحریر ہے۔ اینڈ تو بہت ہی خوبصورت ہے۔ جزاک اللہ ڈیٸر راٸٹر اینڈ الف کتاب ٹیم!