ماں کا آکاش


میرے چاند سے بیٹے اۤکاش!
اۤپریشن ضربِ عضب کو شروع ہوئے ا یک سال مکمل ہوگیا ہے۔ اۤکاش تمہیں کس قدر خوشی ہورہی تھی کہ تمہارے ہاتھوں اچھا کام ہونے جارہا ہے۔ تم کہتے تھے کہ یہ دہشت گرد مسلمان تو دور کی بات انسان کہلانے کے حقدار بھی نہیں ہیں۔ میران شاہ میں جن باتوں کا تم پہ انکشاف ہوا اس سے تمہارے دل میں ان دہشت گردوں کے لیے نفرت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ تمہارا بس نہیں چل رہا تھا کہ تم کس طرح پلک جھپکنے میں سارے دہشت گرد اور ملک دشمن عناصر ختم کردو۔
جس قدر تم بے خوف ہوکر اۤگے اۤگے بڑھ کر لڑتے تھے، وہ سب جان کر میں کانپتی رہتی تھی اور اللہ سے تمہاری سلامتی اور کامیابی کی دعائیں مانگتی رہتی تھی۔ میران شاہ کلئیر کرنے کے بعد جس جوش و جذبے کا اظہار تم نے کیا میں وہ بیان نہیں کرسکتی۔ جب تمہیں پتا چلا کہ امی نے تمہارے اۤپریشن کی وجہ سے عید کی کوئی تیار نہیں کی تو تم مجھ سے کتنا خفا ہوئے۔ تم نے مجھے کہا کہ سب کی عید کی تیاری کریں اور اگر مجھے دو چار دن کی چھٹی ملی تو میں بھی اۤجاؤں گا۔
اۤکاش !تم لوٹے تو سہی لیکن عید سے پہلے اور سبز ہلالی پرچم میں لپٹے ہوئے۔
اۤج جب ٹی وی پر سب کہتے ہیں کہ اۤپریشن ضربِ عضب کامیاب ہوگیا ہے تو میں اور میرے ساتھ دوسرے شہداء کی ماا یں یہ سوچتی ہیں کہ اس کامیابی کی قیمت ہم نے دی ہے اور بہت بڑی قیمت دی ہے۔
اپنے جوان، خوبصورت اور قابل بچوں کو کفن میں دیکھنا اۤسان نہیں ہے۔
اۤکاش میرے درد کواگر کوئی چیز کم کرتی ہے تو وہ یہ خیال ہے کہ تم شہید ہو اور تمہیں شہادت کا شوق تھا۔ اور یہ کہ اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کو بہت اونچا مقام دیا ہے اور ان کے ساتھ جنت میں اعلیٰ مقام دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اۤپریشن ضربِ عضب پاکستان کی امن سلامتی کے لیے بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس قوم کا بچہ بچہ ضربِ عضب کے غازیوں اور خاص طور پر اس کے شہیدوں کا ممنون ہے۔ شہیدوں کا جو فرض تھا وہ نبھا گئے۔ وہ اپنے حصے سے زیادہ کا قرض اتار گئے۔ اب اگر قوم انہیں یاد نہیں رکھے گی یا قوم میں وہ اقدار ہی نہ ہوں کہ وہ اپنے محسنوں کو یاد رکھیں، جنہوں نے اپنا خوبصورت اور روشن اۤج ان کے کل کے لیے قربان کردیا، تو بھلا ا یسی بے حس قوم کے لیے کون اۤگے اۤئے گا؟
بس ابھی اور نہیں لکھا جارہا۔ پھر بات ہوگی۔
ابھی کے لیے خدا حافظ
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

جان سے پیارے بیٹے اۤکاش!
مجھے پوری امید ہے کہ تم جنت میں خوش و خرم ہو گے اور اللہ تعالیٰ کی مہمان نوازی کی پوری لذت لے رہے ہو گے کیونکہ خداوند تعالیٰ بہت بڑے مہمان نواز ہیں اور مجھے پتا ہے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بہت پیار کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا تمہارے ساتھ پیار اور ساتھ جو وہ تمہاری قربانی کی قدر کرتے ہیں، اس کے اشارے اللہ نے مجھے بہت مرتبہ دکھاأے ہیں جس کی وجہ سے میں بہت تسلی میں ہوتی ہوں کہ تم اللہ کے پاس بہت خوش ہو گے۔ (انشا اللہ)
کاشی میرے پاس تمہیں بتانے کے لیے بہت باتیں جمع ہوگئی ہیں جنہیں میں دل کی ڈاأری پر لکھتی رہتی ہوں کہ جب اۤکاش ملے گا تو اسے یہ سارا کچھ بتاأوں گی۔
اۤکاش میرے شہزادے! تمہیں یاد ہے نا کہ میں تم سے ہر بات Shareکرتی تھی اور جب تک کوئی بات تمہیں بتا نہ پاتی قرار نہیں ملتا تھا۔ تم میرے بیٹے، میرے دوست، میرے رازدان میرے سب کچھ تھے۔ تمہاری صورت میں میرے پاس ہر رشتہ تھا اور صحیح خالص رشتہ۔ کاشی میں وہ احساسات کبھی نہیں بھلا سکتی جب تم میرے پاس بیٹھے ہوتے میرے قریب ہوتے تو جو میرے احساسات ہوتے تھے وہ نہ میں نے کبھی دانش اور نہ کبھی لویل کے لیے محسوس کیے۔ اس وقت مجھے نہیں سمجھ اۤتی کہ یہ ا یسا کیوں ہوتا ہے لیکن اب مجھے اندازہ ہوا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کے لیے خاص تھے۔ اس لیے میرے دل میں بھی تمہارے لیے غیرمعمولی احساسات ہوتے تھے، تمہارا نام ہوتا تھا ۔ میرے دماغ میں ہر وقت تمہارا خیال ہوتا تھا اور وہی صورتحال ابھی بھی ہے۔
اۤکاش دل کی ڈاأری سے ا یک بات تم سے شیا ر کرتی ہوں۔ بچپن میں جب Defence Dayاۤتا اور ٹی وی پر شہیدوں کے ماں باپ دکھاأے جاتے جو بڑے حوصلے اور ہمت سے کہتے کہ ہمیں اپنے بیٹے کی قربانی پر فخر ہے تو مجھے بڑی حیرت ہوتی تھی۔ میں سوچتی تھی کہ یہ کتنے بڑے دل والے ہیں۔ اور جب میں ماں بنی، بچوں سے ماں کی محبت کا اندازہ ہوا تو پھر تو میں یہ کہتی تھی کہ یہ ا یسے کیسے کہہ سکتے ہیں۔ یہ کس طرح اپنے جوان بیٹوں کی جداا ی برداشت کرتے ہیں۔ اتنا حوصلہ، اتنا صبر کہاں سے لاتے ہیں۔ اس وقت اۤکاش شا ید قدرت میرے اوپر ہنس رہی ہوتی ہو اور کہہ رہی ہوتی ہو کہ یہ سب تو تمہارے مقدر میں بھی لکھا جاچکا ہے اور میری جان دیکھو، 6ستمبر کو میں خود اس مقام پر کھڑی تھی کہ یہی باتیں سب لوگ میرے بارے میں کہہ رہے ہوں گے۔ کاشی یہ تقدیر کا کھیل کسی کی سمجھ میں نہیں اۤسکتا۔ اۤکاش اس دن قدم قدم پر سٹیج پر ہر وقت ہر جگہ مجھے وہی باتیں یاد اۤرہی تھیں کہ مجھ جیسی ٹوٹی ہوئی ریت کی طرح ذرہ ذرہ ہوئی عورت کو سب بہادری، ہمت اور صبر کی مثال سمجھ رہے تھے۔ سٹیج پر میں دو تین بار بولتے بولتے رکی اور ان یادوں کو بڑی مشکل سے پرے دھکیلا اور اۤکاش پھر مجھ پر یہ حقیقت اۤشکار ہوئی کہ ا یسے ہی نہیں کہا اللہ نے کہ شہید زندہ ہوتے ہیں، ہمارے درمیان موجود ہوتے ہیں اور جبھی تو اللہ ہمیں خود سے اتنا حوصلہ دے دیتا ہے ورنہ اپنے جوان بیٹے کا دکھ تو مجھے اٹھ کر کھڑا ہونے بھی نہ دیتا۔
کاشی مجھے اندازہ ہوا ہے کہ تمہاری قربانی راا یگاں نہیں گئی۔ ا یک تو ملک کے حالات بہتر ہورہے ہیں اور دوسرا لوگ تمہاری قربانی کو نہیں بھولے۔ یہ عوام، یہ لوگ تم سے بے انتہا پیار کرتے ہیں۔ تمہاری قربانی کی قدر کرتے ہیں۔ تمہارے بارے میں اتنے اچھے اچھے articels اور commentsلکھتے ہیں۔ ان سب لوگوں کے لیے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں جو میرے ساتھ میرے بچے کو یاد کرتے ہیں اور کاشی تم بھی یہ سب یقینا دیکھ رہے ہو گے کیونکہ تم تو زندہ ہو۔ کاشی تمہیں اپنے لوگوں سے بہت پیار تھا اور تم نے ان کے لیے اپنی جان جیسی قیمتی چیز کی قربانی دے دی۔ کاشی ہم ہمیشہ سنتے ہیں کہ اللہ پاک شہیدوں کا بہت لحاظ کرتے ہیں اور ان کی سفارش سنتے ہیں تو کاشی یہ لوگ جو تمہیں دل سے پیار کرتے ہیں، تمہاری قدر کرتے ہیں تمہیں یقینا ان کا پتا ہو گا۔ روزِ محشر ان کی بھی بہت سفارش کرنا۔
کاشی تمہارے کچھ دوست میرا اتنا خیال رکھتے ہیں اور پوری کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں تمہاری کمی محسوس نہ ہو۔ کاشی ان کے لیے میرے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ تم بھی ان کے لیے بہت دعائیں کرنا اور اۤکاش میں جب بھی تمہاری یادوں کے اۤگے بہت کمزور پڑ جاتی ہوں تو دانش اور لویل مجھے یاد کرواتے ہیں کہ میں ا یک بہادر اور دلیر بیٹے کی ماں ہوں۔
اۤخر میں اۤکاش اس دعا کے ساتھ اجازت چاہوں گی کہ اللہ تمہیں اور دوسرے تمام شہداء کو اپنے پاس بے انتہا خوش رکھے اور جنت الفردوس میں بہت اعلیٰ مقام دے۔( اۤمین ثم اۤمین)
خوش رہو میرے بیٹے
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میرے بہت ہی پیارے بیٹے اۤکاش!
تمہیں ستارہا بسالت کا اعزاز ملنے پر بہت بہت مبارک ہو۔ 23مارچ کو جب مجھے تمہارا اعزاز دینے کے لیے بلا یا گیا تو میرا دل چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا اۤکاش تم کہیں سے بھی اۤجاؤ اور اپنا اعزاز اپنے ہاتھوں سے خود وصول کرو، اۤکاش سب مبارک باد دے رہے تھے اور میری اۤنکھیں تمہیں ڈھونڈ رہی تھیں۔
اۤکاش اس حقیقت کو ماننے کو دل ہی نہیں کرتا کہ تم ہمیشہ کے لیے چلے گئے ہو۔اۤکاش تم اپنی ماں سے پہلے کیسے جا سکتے ہو؟ اۤکاش تمہاری بہت زیادہ کمی محسوس ہوتی ہے، تم بے انتہا یاد اۤتے ہو۔ میں نے تمہارا اعزاز ہاتھوں میں پکڑا ہوا تھا اور میں تمہاری یادوں میں غرق تھی۔ کاش یہ تمہارے اپنے ہاتھوں میں ہوتا تو تب مجھے بے انتہا خوشی ہورہی ہوتی۔ ابھی تو یہ حالت ہے کہ اگر پوری دنیا بھی مجھے دے دی جائے تو بھی مجھے کوئی خوشی نہیں ہونی۔ میرے بچے میرے دل کے ٹکڑے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
nothing can compensate your absence.
ا یوانِ صدر میں اور بھی شہیدوں کی فیمیلیزاآئی ہوئی تھیں۔ سب نے دکھی دل سے اعزاز وصول کیے۔ خدا یا یہ بھی کیا عجیب سی کیفیت تھی۔ اۤکاش کبھی ا یسا تصور بھی نہیں کیا تھا کہ تمہاری وجہ سے اتنی زیادہ عزت، اتنا رتبہ، اتنا مقام ملے گا لیکن تم خود نہیں ہوگے۔ زندگی میں ا یسے بھی ہوگا، یہ تو کبھی وہم و گمان میں بھی نہیں تھا۔ اۤکاش! تمہارے لیے تمہاری ماں، تمہاری بہن اور تمہاری فیملی روتی ہے۔ یہی حال بہت سے اور لوگوں کا ہے۔ جن کے چھوٹے چھوٹے بچے ہیں اور انہیں یہ پہاڑ جیسی زندگی اپنے guardians کے بغیر گزارنی ہے۔
اس قوم کو اللہ نے ا یک عجیب سی اآزمائش میں ڈالا ہوا ہے۔ دکھ اور درد کی نا ی نا ی داستانیں ہر لمحہ جنم لیتی ہیں۔ تم اور تمہارے جیسے شہیدوں نے اپنا فرض تو پورا کردیا، اپنا فرض نبھا دیا، مگر لگتا ہے ہماری غفلتوں، نااہلیوں اور گناہوں کا بوجھ دن بہ دن مزید قربانیاں مانگ رہا ہے۔ کوئی گھرانہ، کوئی علاقہ محفوظ نہیں ہے۔ پوری قوم ماتم کناں ہے اور پورا ملک ماتم کدہ بن گیا ہے۔
تمہاری جداا ی کا دکھ تو دل میں سلگتا ہی رہتا ہے، لیکن اۤئے روز پھول جیسے نئے جوان اور افسر اس ملک کی پالیسی سازوں کی بے پرواا ی کے کفارے میں اس دھرتی پر اپنی جان وار رہے ہیں۔
مٹی کی محبت میں ہم اۤشفتہ سروں نے
وہ قرض اتارے ہیں جو واجب بھی نہیں تھے
اۤکاش ہر شہادت کے ساتھ تمہاری شہادت کی یاد تازہ ہو جاتی ہے اور مجھے لگتا ہے کہ تم ا یک بار پھر شہید ہو گئے ہو۔ یہ سلسلے انتہائی درد ناک ہے۔ ہمیں سوگواری، اُداسی اور اۤنسوئوں کے حوالے کرکے اۤکاش تم کہاں جا کر بس گئے ہو۔
اۤکاش ہر شام کو بس اس ا یک بات کی ہلکی سی خوشی ہوتی ہے کہ تمہارے اور میرے درمیان دوری کا ا یک دن اور کم ہوگیا ہے۔
کاشی میں تمہیں بار بار اۤکاش کہہ کر ہی مخاطب کررہی ہوں حالانکہ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جب میں تمہارا پورا نام لیتی تھی تو تم کہتے تھے کیوں پورا نام لیتی ہیں؟ مجھے صرف کاشی ہی کہا کریں۔ پر کاشی کیا کروں، میرے پاس صرف تمہارا نام ہی تو رہ گیا ہے۔
اۤکاش! 23مارچ کے بعد تم دو تین لوگوں کو خواب میں نظر اۤئے ہو پر تم میرے خواب میں نہیں اۤئے۔ میں تو تمہیں خواب میں بھی دیکھنے کو ترس گئی ہوں۔ اۤکاش تمہاری نانی اور دادی تمہارا ستارہا بسالت دیکھ کر روتی رہیں کہ کاش تم یہاں ہوتے تو یہ ستارہ تمہاری قمیص پر لگتا۔
کاشی تم سے کرنے کی باتیں بہت زیادہ ہیں جس کے لیے نہ جانے کتنا انتظار کرنا پڑے گا۔
ابھی اجازت چاہتی ہوں۔
اللہ تعالیٰ تمہیں اپنے پاس بے انتہا خوش رکھے۔
اللہ حافظ
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میرے بہت ہی پیارے بیٹے! میرے دل کے ٹکڑے اۤکاش!
کاشی اۤج کا دن وہ دن ہے، جب دو سال پہلے ہم اۤخری بار اکٹھے تھے۔ اۤج پورے دو سال ہو گئے ہیں تمہیں دیکھے ہوئے۔ 17اور 18ما ی ہماری زندگی کے قیمتی ترین اور خوبصورت ترین دن تھے جو ہم نے تمہارے ساتھ گزارے۔ کاشی اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ یہ پیارا وقت اب دوبارہ کبھی واپس نہیں اۤئے گا۔
کاشی تمہیں ہمارا کتنی بے چینی سے انتظار تھا۔ سارے راستے بار بار تمہارا فون اۤرہا تھا کہ ابھی اۤپ لوگ کہاں پہنچے ہیں اور کتنی دیر میں میرے پاس پہنچیں گے۔ جیسے ہی ہم تربیلا پہنچے، تم فوراً ہی ہمیں لینے اۤگئے ۔پھر تم ہمیں اپنے ساتھ گیسٹ ہاؤس لے گئے۔ کاشی ہم سے مل کر تمہاری اۤنکھیں خوشی سے چمک رہی تھیں۔ تم نے جتنا ہمارا خیال رکھا اور جتنی زیادہ ہماری مہمان نوازی کی، میں اس وقت خوش ہورہی تھی کہ تم بہت سمجھدار اور اپنی عمر سے زیادہ میچور ہوگئے ہو۔
مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا میرے بچے کہ یہ تمہارے ساتھ ہماری اۤخری ملاقات ہے۔ میں تو پھر تمہیں دیکھنے اور سننے کو ترس جاؤں گی۔
میرے بچے میں نے دو سال تمہارے بغیر گزار ہی لیے۔ 18ما ی کو اۤج کے دن ہم تمہارے ساتھ تربیلا ڈیم گئے۔ تم نے ناشتے کا سارا بندوبست پہلے سے کیا ہوا تھا۔ جب ہم گاڑی سے اتر رہے تھے تو تم نے سارا سامان اکیلے ہی اٹھا لیا تھا تاکہ کسی اورکو تکلیف نہ ہو۔ کاشی تمہاری وہ باتیں، تمہاری مسکراہٹیں، قہقہے سب کچھ کھو دیا میں نے۔ سمجھ ہی نہیں اآئی کہ کیسے چلے گئے تم۔ تربیلا ڈیم سے واپس اۤکر جب ہم دوپہر کو گیسٹ ہاؤس کے لاأونج میں بیٹھے تھے تو تمہیں فون اۤیا اور تم نے ہمیں بتا یا کہ اۤپریشن شروع ہونے والا ہے اور ہمیں جلد ہی اۤپریشن پر جانا ہوگا۔ یہ سن کر اس وقت ہی میرا دل زور زور سے دھڑکا تھا اور میں بہت ڈر گئی تھی۔ تم نے مجھے حوصلہ دیا کہ اماں کچھ نہیں ہوگا۔ اگر میرے ہاتھوں ملک کے کچھ دشمن ختم ہوتے ہیں اور ملک میں امن اور سکون قائم ہوتا ہے تو اۤپ کو خوشی نہیں ہوگی؟ میں نے کہا خوشی تو ہوگی مگر مجھے تمہاری فکر ہے۔ تم نے کہا اماں سب کہتے ہیں میں بہت بہادر ہوں۔ اۤپ مجھے کمزور نہ بنائیں۔ کاشی میں نے تمہیں کمزور نہیں بنا یا۔ پر میں خود ٹوٹ گئی۔
4بجے جب ہم تربیلا سے تم سے رخصت ہورہے تھے، اس وقت جب میں نے تمہیں گلے لگئیا تو میرا دل بھی بہت زیادہ اُداس تھا۔ تمہارا وہ پیچھے سے دیر تک اور بڑی دور تک ہاتھ ہلانا اور ساتھ تمہارا زور سے زمین پر پیر مارنا سب بہت یاد اۤتا ہے۔ کاشی مجھے اس وقت پتا نہیں تھا کہ اب تمہیں دوبارہ دیکھنے کے لیے قیامت تک انتظار کرنا پڑے گا۔ کاشی مجھے بہت بے صبری سے قیامت کا انتظار ہے۔ پتا نہیں وہ قیامت کب اۤئے گی جب میں تمہیں دیکھوں گی۔
انسان کو پتا ہی نہیں ہوتا کہ اس کی زندگی میں اۤگے کتنے امتحان اور کتنی آزمائشیں لکھی ہوئی ہیں، مگر ا یک بات یقینا سچ ہے کہ اولاد کا امتحان اولاد کا کھو جانا سب سے مشکل ترین امر ہے اور پھر کہاں اۤپ کا جوان اور سب سے پیارا، قابل، ہونہاور اور اتنا خیال رکھنے والا بیٹا اۤپ سے چھن جائے۔ کاشی تم تو بہادر تھے ہی لیکن میں بھی کم بہادر نہیں ہوں۔ دیکھو تو تمہارے بغیر زندہ ہوں۔
کاشی مجھے اپنے جیسی ساری ماا یں عظیم لگتی ہیں جب میں سوچتی ہوں کہ یہ اتنے دکھ اور کرب کے ساتھ زندگی گزار رہی ہیں۔ کاشی ہم سب اس امید پر جیے جارہے ہیں کہ انشاأ اللہ ا یک دن ہم ضرور اپنے بچوں سے دوبارہ ملیں گے۔
اچھا کاشی اب اجازت دو!
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میرے بہت ہی پیارے بیٹے! میرا دل اۤکاش!
تم نے جانے کس جہاں میں کھو گئے۔ سال بدلتے رہتے ہیں۔ ا یک کے بعد ا یک موسم پھر لوٹ اۤتے ہیں۔ سردی، گرمی کوئی موسم بھی بے وفاا ی نہیں کرتا۔ جنوری پھر پلٹ اۤیا۔ فروری، مارچ، جولائی اور پھر دسمبر بھی واپس اۤجائے گا۔ پر میرے بیٹے تم ا یسے گئے اور ا یسی جگہ چلے گئے جہاں سے واپسی ممکن ہی نہیں اور نہ واپسی کی کوئی امید ہے۔
کاشی میں تمہیں بے وفا نہیں کہہ رہی اور نہ ہی میں تمہیں بے مروت کہہ سکتی ہوں کیونکہ میں جانتی ہوں کہ تم کیسے تھے۔ تم ا یسے ہرگز ہرگز نہیں تھے کہ مجھے اور اپنی فیملی کو بھول جاؤ۔ ہم سب یقینا تمہیں یاد ہوں گے۔ تم بھی مجھے missکرتے ہو گے۔ تمہیں ابو، دانی اور لویل کا خیال ضرور اۤتا ہوگا۔ ان دنوں کی یاد تمہیں بھی ضرور ستاتی ہو گی جب ہم سب اکٹھے تھے۔
جب جانے والا چلا جاتا ہے تو یہ بات اور یہ احساس زیادہ تکلیف اور دکھ دیتا ہے کہ وہ ہمیشہ کے لیے چلا گیا ہے اور اب کبھی بھی نہیں اۤئے گا۔ کوئی امید ہی نہیں کہ اُسے دنیا میں دوبارہ دیکھ سکیں۔ دوبارہ اکٹھے رہ سکیں۔ بس دوسرے جہاں کے انتظار میں جیے جاتے ہیں کہ شا ید وہاں اس سے ملاقات ہو جائے اور دوسرا جہاں بھی تو ہے وہاں نہ جانے اللہ تعالیٰ کے کیا نظام ہوں گے۔ اللہ کی باتیں اور اللہ کے نظام وہ خود ہی جانتا ہے۔
ہم اللہ تعالیٰ کے سامنے بہت بے بس ہیں۔ ہم اپنے نصیب اور قسمت کے اۤگے بے بس ہیں۔ جو اآزمائش، دکھ تکلیف اور جداا ی مقدر میں ہوتی ہے، ہم اسے سہنے اور برداشت کرنے کے علاوہ اور کیا کرسکتے ہیں۔ پیسہ جائے واپس اۤجاتا ہے، صحت واپس اۤسکتی ہے،ہر چیز واپس اۤجاتی ہے۔ اۤکاش جب میں ریت، سیمنٹ اور ا ینٹوں سے بنے گھروں کو دیکھتی ہوں، اپنے گھر کو دیکھتی ہوں تو یہ ہی سوچتی رہتی ہوں کہ یہ چیزیں بھی کتنی پائیدار ہیں۔ ویسے کی ویسے کھڑی ہیں۔ اۤکاش گھر میں جو بھی پرانی چیز ہے فرنیچر ہے، برتن ہیں، بستر ہیں، درخت اور پودے ہیں سب کو دیکھ کر چڑ ہوتی ہے کہ یہ کتنے عرصے سے ہیں۔ انہیں کچھ نہ ہوا اور میری سب سے قیمتی چیز چلی گئی۔ میرا کاشی اتنی چھوٹی عمر میں چلا گیا اور یہ سب بے کار چیزیں، ٹکے ٹکے کی چیزیں ویسے کی ویسے پڑی ہوئی ہیں۔
کاش جانے والے کے ساتھ یادیں بھی چلی جاتیں تو شا ید اتنا دکھ نہ ہوتا لیکن یادیں بھی تو کسی بڑے خزانے سے کم نہیں ہیں۔ اگر یہ بھی نہ ہوں تو پھر جانے والے کی کوئی نشانی ہی نہ رہے۔ کوئی بھی حادثہ ہو دو تین دن سب اس کی ہی باتیں کرتے رہتے ہیں اور پھر ہفتے بعد سب ختم۔ دکھ تو فیملی کا ہی ہوتا ہے۔
کہتے ہیں زندگی چھوٹی ہے۔ پر کاشی جن کے ساتھ ا یسے حادثے ہوتے ہیں ان کے لیے وہی زندگی صدیوں پر محیط ہو جاتی ہے۔ خوشی کے دن لمحے لگتے ہیں اور دکھ کے پل صدی محسوس ہوتے ہیں۔ کاشی میں کبھی کبھی چیخ چیخ کر رونا چاہتی ہوں۔ ابھی بھی اس دن کا سوچنے سے ڈر لگتا ہے وہ دن جس کے بعد زندگی کے معنی ہی بدل گئے۔ جب خبر سنی اور پھر زمین پر گر کر کتنی ڈھیروں دعائیں کیں کہ یہ خبر جھوٹ ہو۔ اللہ کو کتنے واسطے دیے۔ کتنی منتیں کیں۔ جو کچھ کرسکتی تھی کیا۔
Shivers go through my spine whenever I think of your funeral.
یہ بات یقینا سچ ہے کہ جو اۤتا ہے وہ جاتا بھی ہے لیکن اپنی عمر گزار کر۔ اپنی باری پر جانے کی بات اور ہے اور ماں باپ کے سامنے جوان اولاد کا جانا اور چیز ہے۔ ماں باپ جدا ہوتے ہیں تو اولاد کے لیے بھی یہ بڑا دکھ اور صدمہ ہے۔ ہیں تو یہ دونوں دکھ، مگر ان میں زمین و اۤسمان کافرق ہے۔
اۤکاش 2016ء بھی تمہارے بغیر گزر گیا۔ جب سال شروع ہوا تھا تو سوچتی تھی کبھی یہ ختم بھی ہوگا۔ اللہ کا شکر ہے جیسے تیسے کرکے گزر گیا۔ ا یک ہفتے اگر بچے کی کوئی خبر یا فون نہ اۤئے تو ماا یں کتنی بے قرار ہو جاتی ہیں اور میں اور میری جیسی کتنی ماا یں سالوں اپنے بچوں کے بغیر، اس کی کسی خبر کے بغیر کتنی اذیت سے گزارتی ہیں۔
کاشی سال ختم ہوتا ہے تو صرف اس بات کی خوشی ہوتی ہے کہ چلو زندگی کے اوراق میں سے ا یک اور ورق ختم ہوا۔
اۤکاش قوم تمہیں یاد کرکے میرے دل کو بہلاتی رہتی ہے، نہ قوم کی سمجھ میں کچھ اۤرہا ہے نہ میری سمجھ میں کچھ اۤرہا ہے۔ وہ تمہارے خون کا قرض ادا کرنا چاہتے ہیں۔ تمہیں عزت و وقار کا سب سے اونچا مقام دینے کو تیار ہیں، لیکن میں کیا کروں، میرے درد کی کسک تو کسی طور کم نہیں ہوتی۔
اۤکاش اۤج کل تمہارے گھر پر مقبرہ بن رہا ہے۔ میں جناب راحیل شریف کی بہت شکر گزار ہوں کہ جن کے کہنے پر یہ تیار ہورہا ہے۔ جب ہمارا یہ گھر بن رہا تھا تو تم نے بہت کام کیا تھا۔ میرے بیٹے میں تمہارے کاموں کو تمہاری محنت کو کبھی نہیں بھلا سکتی۔ کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ تم اس گھر میں نہیں ہو گے اور ہمیں تمہارے بغیر اس گھر میں رہنا پڑے گا اور تمہارا گھر قبرستان میں بنے گا۔
شہادت یقینا بہت بڑی بات ہے۔ بہت خوش نصیبی کی بات ہے۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ اللہ نے میرے بیٹے کو عام موت کے بجائے شہادت کی موت دی۔ کاشی اگر تم عام موت سے چلے جاتے تو بھی میں کیا کرسکتی تھی۔ میں اللہ کی بہت شکرگزار ہوں کہ اس نے تمہیں عزت سے، وقار سے اور شہادت کی موت دے کر اپنے پاس بلا یا۔ مسئلہ یہاں پر صرف یہ ہے کہ پہلے میں جاتی پھر تم جاتے۔ کیونکہ تم میرے اۤنے کے بعد دنیا میں اۤئے اور تمہیں جانا بھی اسی طرح میرے بعد میں چاہیے تھا۔ پھر یہ باری کیوں الٹ ہوگئی۔
کاشی اللہ تمہیں اور تمہارے جیسے اور بچوں کو اپنے پاس بہت زیادہ بہت زیادہ خوش رکھے اور جو خوشیاں تم سب نے دنیا میں نہیں دیکھیں، وہ تمہیں سب کچھ جنت میں عطا کرے۔ (اۤمین)
اۤکاش اس دعا کے ساتھ اجازت چاہتی ہوں۔ اللہ حافظ!
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میرے لخت جگر! میرے بیٹے! میرے اۤکاش!
کاشی میرے بچے تم سے جدا ہوئے چار سال بیت گئے۔ چار سال گزار ہی لیے ہیں میں نے تیرے بغیر کاشی اور میں حیران ہوں کیسے گزار لیے۔ یہ صرف اللہ کا ہی کام ہے۔ اللہ کا ہی نظام ہے جو انسان کو ہر حال میں چلاتا ہے۔
اۤکاش کوئی ا یسا وقت نہیں گزرا جب تمہیں یاد نہ کیا ہو۔ تمہاری کمی محسوس نہ کی ہو۔ تمہاری کمی اور تمہاری یاد کے ساتھ چار سال گزار لیے۔ اۤکاش لاتعداد دفعہ سوچا اور خواہش کی کہ کاش کاش تم مجھ سے نہ بچھڑتے۔ اۤج میرے ساتھ ہوتے۔ اِس موقع پر ساتھ ہوتے۔ اُس موقع پر ساتھ ہوتے۔
کاشی! جب میجر شبیر شریف کی والدہ کا انتقال ہوا تو میں نے حساب لگئیا کہ وہ اپنے بیٹے کے بعد 43سال جیتی رہیں۔ تو میں نے سوچا اُف اتنا لمبا عرصہ وہ اس درد اور تکلیف کے ساتھ زندہ رہیں۔ پتا نہیں انہوں نے اتنا لمبا عرصہ اپنے بیٹے کی جداا ی میں کیسے کاٹا اور اب کچھ کچھ سمجھ اۤتی ہے کہ درد کے ساتھ تکلیفوں کے ساتھ بھی انسان جیتا ہے۔ زندگی گزارتا ہے کیونکہ یہ سب اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ نہ کوئی زیادہ خوشیوں کی وجہ سے لمبا جی سکتا ہے اور نہ ہی کوئی دکھ کی وجہ سے مرسکتا ہے۔ زندگی اور موت صرف اور صرف اللہ کے ہاتھ میں ہے۔ کاشی اگرچہ میں اپنے اۤپ کو بہت مصروف رکھتی ہوں۔ کچھ نہ کچھ کرتی رہتی ہوں کہ کسی طرح وقت گزرے، زندگی کٹے، لیکن مصروفیت کے باوجود بھی قدم قدم پر تمہاری کمی محسوس ہوتی ہے۔
اۤکاش رمضان کے مہینے میں تم اۤپریشن میں مصروف تھے۔ اۤپریشن ضربِ عضب جاری تھا اور میں تمہاری شہادت سے پہلے ہی ہر وقت ڈری ڈری اور گھبرائی رہتی تھی اور تمہاری سلامتی کی دعائیں مانگتی رہتی تھی۔ جب کبھی تم سے فون پر بات ہوتی تو مجھے حوصلہ دیتے۔ امی کچھ نہیں ہوگا مجھے کیوں فکر کرتی ہیں۔ اۤپ کی دعاأوں سے اللہ میری حفاظت کرے گا۔ پتا نہیں میری دعائیں، ا یک ماں کی دعائیں کیوں نہ حفاظت کرسکیں تمہاری۔ اگر جانے کا وقت مقرر ہوتا ہے تو پھر دعائیں کیوں مانگی جاتی ہیں؟
کاشی پتا نہیں کیا کہوں کہ تو مجھ سے بچھڑ گیا۔ مجھ سے بہت دور چلا گیا۔ میری نظروں سے اوجھل ہوگیا یا ہمیشہ کے لیے امر ہوگیا۔ کاشی 2014ء میں جب رمضان شروع ہوا تو مجھے نہیں اندازہ تھا کہ میرا بیٹا زندگی کے اۤخری دن گزار رہا ہے۔ اۤخری اۤخری دن ۔ مجھ سے بہت دور شمالی وزیرستان (میران شاہ) میں۔ کبھی کبھی تم مجھے فون کرکے اپنی یونٹ کی اور اپنی فوج کی کامیابیوں کی خبریں دیتے رہتے تھے۔
امی انشا اللہ ا یک دن پاکستان ا یک پرامن اور پرسکون ملک بن جائے گا۔ امی میرا بس چلے تو میں ا یک ا یک دہشت گرد کو اپنے ہاتھوں سے جہنم واصل کردوں۔ جو ہمارے ملک کے لوگوں کے دشمن ہیں جو کمزوروں، نہتے بچوں اور عورتوں پر حملے کرتے ہیں۔ امی انسان کی عزت اپنے ملک سے ہوتی ہے۔ امی یہ دہشت گرد ہمارے ملک پاکستان کے نہیں ہیں۔ کیسے کو ئی اپنے لوگوں کو اتنی ے دردی سے مارسکتا ہے۔
اور میں کاشی تمہاری سوچ، تمہارے اپنے وطن سے محبت اور عقیدت پر حیران ہوتی کہ میرا بچہ کیا کہتا ہے۔ کیسی سوچ رکھتا ہے۔ یہ چھوٹا سا تئیس سال کا لڑکا ہے اور اس عمر میں جب لڑکوں کے ارمان اور خواب اور طرح کے ہوتے ہیں۔ اۤکاش کے کیسے خیالات ہیں۔ اس کے ارادے کتنے مضبوط اور پکے ہیں۔ یہ کس دنیا کی مخلوق ہے۔ اسے پتا ہی نہیں کہ یہاں اس دنیا میں کیا ہورہا ہے۔ یہاں ہمارے حکمران جو اتنی بڑی بڑی عمروں کے ہیں۔ قبر میں پاأوں لٹکائے بیٹھے لیکن وہ صرف اور صرف اپنا فائدہ دیکھتے ہیں۔ ملک اور ملک کے لوگ جاا یں بھاڑ میں۔ انہیں اس کی کوئی پروا نہیں۔ وہ صرف اپنی جاا یدادیں بناتے ہیں اور اپنی تجوریاں بھرتے ہیں۔
اور یہاں میرا معصوم بیٹا کس طرح کی سوچ رکھتا ہے۔میرا بیٹا جو علامہ محمد اقبالؒ اور قائداعظم محمد علی جناحؒ کے پاکستان کا سچا مجاہد ہے۔ اللہ تو اس کی حفاظت کرنا لیکن اللہ تمہیںاس خود غرض اور نفسانفسی کی ماری دنیا میں نہیں رکھنا چاہتے تھے۔ تم جو انسان ہوکر فرشتوں جیسے تھے۔ اس لیے شا ید اللہ تعالیٰ نے تمہیں اس لالچی اور مطلبی دنیا سے واپس فرشتوں کے پاس بلا لیا۔
کاشی مجھے خوشی ہے کہ لوگوں میں کچھ نہ کچھ شعور بیدار ہورہا ہے۔ انہیں ان کے لیے جان دینے والوں اور لٹیروں میں فرق سمجھ اۤرہا ہے۔ ان پچھلے دنوں جتنے بھی پولیس اہلکار اور اۤرمی والے شہید ہوئے ہیں انہیں عوام اور میڈیا والوں نے بہت خراج تحسین پیش کیا ہے اور یہ ہم شہیدوں کے خاندان والوں کے لیے بڑی حوصلہ افزا بات ہے کیونکہ جب ہمیں احساس ہوتا ہے کہ ہمارے قیمتی بچوں نے کس بے حس قوم کے لیے اپنی جان دی ہے تو ہمیں بہت تکلیف اور دکھ ہوتا ہے۔
اۤکاش سولہویں رمضان 15جولائی کو تمہاری شہادت ہوئی۔ یہ دن ہمارے لیے کسی قیامت سے کم نہ تھا، بلکہ اس سے بڑھ کر ہی تھا کیونکہ اصلی قیامت جب اۤئے گی تو اس کئیہ فائدہ ہوگا کہ سب اکٹھے مر جاا یں گے، لیکن قیامت بھی گزرے اور انسان مرے بھی نہ، تو یہ صورت حال بہت مشکل ہوتی ہے۔ اس لیے میں کہتی ہوں کہ وہ دن ہمارے لیے قیامت سے بڑھ کر تھا کیونکہ مجھے اس کے بعد بھی زندہ رہ کر برداشت کرنا تھا۔
کاشی میرے بچے اکثر تمہاری تصویر کے اۤگے گم صم کھڑی ہوکر تمہیں دیکھتی رہتی ہوں۔ میرے شہزادے کی اۤنکھیں ا یسی ہوتی تھیں۔ اس کا ماتھا، ناک، ہونٹ اور چہرہ ا یسا تھا۔ وہ ا یسے بولا کرتا تھا۔ وہ ا یسے مسکراتا تھا۔ میرے بچے میرے گڈے۔ میں تمہاری ہر چیز ہر بات مس کرتی ہوں۔ کاش کاش کاش تم مجھ سے نہ بچھڑے ہوتے۔ کاش! اے کاش اۤج تم میرے ساتھ ہوتے۔ کاش میں تمہیں کبھی دیکھ سکتی۔
اس رمضان کے مہینے میں دنیا سے جانے والوں کو خوش قسمت تصور کیا جاتا ہے کہ اس مقدس مہینے کے صدقے اللہ ان کی مغفرت کردیں گے اور ان کی اۤخرت سنور جائے گی۔ میرے شہید بیٹے مجھے پتا ہے کہ اللہ نے ضرور تمہاری مغفرت کی ہوگی۔ کیونکہ تم اتنے معصوم اتنے کم سن اور فرشتوں جیسے تھے۔
میری اللہ سے دعا ہے کہ وہ تمہیں ستر ماؤں کے برابر پیار دے۔وہاں اپنے پاس اللہ تمہیں کوئی کمی نہ ہونے دے اور تم وہاں اتنے خوش رہو اتنے خوش رہوکہ تمہیں کبھی بھی ہماری، اپنے گھر کی یاد نہ آئے۔ (اۤمین ثم اۤمین)۔
کاشی اب تم سے اجازت چاہتی ہوں۔
اللہ حافظ!
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!