ماں کا آکاش

پاسنگ اۤؤٹ پریڈ

اۤکاش کی پاسنگ اۤؤٹ پریڈ اب نزدیک تھی۔ وہ کبھی دوڑ کے مقابلے میں تو اول نہ اۤیا تھا لیکن پڑھائی لکھاأی اور تقریری صلاحیتوں میں اس کا کوئی ثانی نہ تھا اور اس کے اساتذہ سمیت سبھی جاننے والے اس کی اس خوبی کے معترف بھی تھے۔ لانگ کورس کے کیڈٹس جب PMA اۤتے ہیں تو ان کی تعلیمی قابلیت انٹرمیڈیٹ ہوتی ہے۔ PMA قیام کے دوران ان کی گریجویشن تک کی تعلیم مکمل کروائی جاتی ہے اور اۤخری ٹرم کے دوران وہ بی اے کے امتحانات بھی دیتے ہیں۔ اسی وجہ سے PMAکو یونیورسٹی کا درجہ بھی حاصل ہے۔ بریگیڈیء ر رینک کا افسر یہاں تمام تعلیمی شعبوں کا سربراہ ہوتا ہے جو ”Director of Studies” کہلاتا ہے۔ پاسنگ اۤؤٹ سے پہلے گریجویشن مکمل کرنے والے تمام کیڈٹس کی کانووکیشن ہوتی ہے۔
اۤکاش نے گریجویشن اۤرٹس میں کی تھی۔ یہاں اۤرٹس کے طلباء کو سائنسی مضامین سے بھی روشناس کروایا جاتا ہے لیکن چونکہ اۤکاش نے میٹرک اور انٹر سائنس میں کیا تھا اس لیے اسے کوئی دشواری نہ ہوئی۔ یہاں ایک خلش اس کے دل میں رہتی کہ اس کے ابو پروفیسر اۤف میڈیسن ہیں، دانی ڈاکٹر اور لویل بھی میڈیکل کی سٹوڈنٹ ہے تو اۤکاش کو اپنی تعلیم سب سے کم لگتی۔ اس کا ارادہ تھا کہ اسے جونہی وقت ملا، وہ انٹرنیشنل ریلیشنز میں ماسٹرز کرے گا لیکن جب بھی اس کا اپنے ارادے کو عملی جامہ پہنانے کا وقت اۤتا، اس کا کوئی نہ کوئی کورس اۤجاتا اور وہ وہاں مصروف ہو جاتا۔ اۤکاش 2009ء میں PMAگیا تھا اور اب دو سال بعد، یعنی 2011ء میں اس نے وہاں سے پاس اۤؤٹ ہونا تھا۔
اپریل 2011ء میں ان کی تقریبِ تقسیمِ اسناد منعقد ہوئی۔ تقریب PMA کے ایوب ہال میں ہوئی۔ اۤفتاب صاحب چونکہ گریڈ 21 کے افسر تھے تو ان کے لیے اگلی نشست مختص تھی اور ساتھ میری بھی۔
تقریب کا اۤغاز ہوا۔ تلاوتِ کلامِ پاک کے بعد تقریب شروع ہوئی اور باری باری گریجویٹ ہونے والے طلباء کو سندیں عطا کی گئیں۔ اۤکاش نے امتیازی نمبروں سے گریجویشن مکمل کی تھی۔ اس دن وہ بہت خوش تھا۔ تقریب کے بعد مہمانوں کے لیے چائے کے انتظامات کیے گئے تھے۔ اۤکاش اپنے پلاٹون میٹس کے ساتھ مشغول تھا۔ وہ سب ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے۔ ان کے جشن کا انداز ہی نرالا تھا۔ بظاہر چھوٹی چھوٹی عمروں کے بچے، وہاں موجود کئی معمر افراد سے زیادہ سلجھے ہوئے اور بردبار لگ رہے تھے۔ کچھ دیر بعد اۤکاش اپنے دوستوں کے ساتھ ہمارے پاس چلا اۤیا۔ اپنے دوستوں سے ہمارا تعارف کروایا جن میں سے اکثر کو ہم پہلے سے ہی جانتے تھے کیوں کہ اۤکاش کی باتوں میں ان کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ وہاں اس کے دوستوں سے مل کر کچھ دیر بعد ہم گھر چلے اۤئے۔
پاسنگ اۤؤٹ پریڈ چند دن بعد ہونا تھی جس کے لیے ہم چاروں سمیت اۤکاش نے اپنے چچا، ماموں، تایا اور ان کی بیٹی جو فوج میں ہی تھی، کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ وہ لوگ ایک دن پہلے ہی ہمارے یہاں پہنچ گئے تھے تاکہ اگلے دن کا فنکشن اٹینڈ کرسکیں۔
اپریل 2011ء کا وہ ایک یادگار اور خوبصورت ترین دن تھا۔ موسم صاف تھا اور ہلکی ہلکی دھوپ اچھی لگ رہی تھی۔ سورج کی چمکدار کرنیں ایک عجیب ہی مسحور کن سا منظر پیش کررہی تھیں۔ ہم صبح چھے بجے ہی گھر سے روانہ ہوگئے تھے۔ چونکہ وہاں اۤنے والے لوگ ہزاروں میں تھے اس لیے سست روی سے سفر کرتے ہوئے ہم مقررہ وقت پر وہاں پہنچے اور اپنی اپنی مختص سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ ہمیں اگلی قطار میں نشست ملی جہاں کمشنر اور DCOایبٹ اۤباد بھی موجود تھے۔ سٹیڈیم کھچا کھچ بھر چکا تھا اور اب صرف مہمانِ خصوصی کی اۤمد کا انتظار تھا جوکہ اس وقت کے اۤرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی تھے جوکہ تھوڑی دیر میں ہی وہاں پہنچ گئے اور تقریب کا باقاعدہ اۤغاز ہوا۔
سب سے پہلے ایک کرنل سٹیج پر تشریف لائے اور تقریب کے اغراض و مقاصد بتانے کے بعد تمام والدین کو ان کے بچوں کی کامیابی پر مبارکباد دی۔ پریڈ کا اۤغاز ہوا تو جیسے ایک سماں ہی بندھ گیا۔ اگر اۤپ میں سے کسی نے ابھی تک کوئی پاسنگ اۤؤٹ پریڈ جاگتی اۤنکھوں سے نہیں دیکھی تو شاید اۤپ کو اس کا احوال مبالغہ ہی معلوم ہو۔ تمام کیڈٹس کے اعضاأ کی ہم اۤہنگی ناقابلِ بیان اور ناقابلِ یقین حد تک تھی۔ سب کی گردنیں، بازو اور ٹانگوں کی حرکت ایسی تھی گویا وہ روبوٹس ہوں اور ایک مکینزم کے تحت ان کی فنکشننگ کی گئی ہو۔ سب کی چال ڈھال، حلیہ، ہیء ر کٹ سب ایک جیسا تھا۔ جب کیڈٹس نے مل کر haltکے لیے پاأوں زور سے زمین پر مارے تو لگا جیسے زمین کا سینہ دہل گیا ہو۔ انہیں اپنی اۤنکھوں کے سامنے دیکھ کر فخر محسوس ہورہا تھا کہ یہ ہیں قوم کے وہ بہادر سپوت جنہوں نے ہماری حفاظت کرنی ہے۔ جب انہوں نے حلف اٹھایا کہ اپنے وطن کی طرف بڑھنے والے ہر دشمن کو وہ نیست و نابود کردیں گے تو دل نے گواہی دی کہ وہ سچ کہہ رہے ہیں۔ اس وقت جسم کا رواں رواں جذبے کی شدت سے کھڑا ہوا تھا۔ اۤنکھوں میں فخر اور شادمانی کے اۤنسو بار بار بند توڑنے کو تھے کہ میرا بیٹا، میرا کاشی بھی قوم کے ان بہادر سپوتوں میں شامل ہے۔ تقریب کے اۤخری لمحات میں تمام کیڈٹس مڑے اور سرخ سیڑھیاں چڑھ گئے۔ یہ سرخ سیڑھیاں دراصل ایک نئی منزل کی نشان دہی کررہی تھیں کہ اب یہ تمام کیڈٹس افواجِ پاکستان کے ذمہ دار افسر بن چکے ہیں۔
تقریب کے اختتام پر تمام مہمانوں کے لیے چائے کا پرتکلف اہتمام کیا گیا جس کے دوران تمام فیملیز ایک دوسرے سے ملتی رہیں اور مبارکباد دیتی رہیں۔ اۤکاش نے بھی اپنے دوستوں کی فیملیز سے ہمیں ملوایا جس کے بعد وہ ہمیں اپنے کمرے میں لے گیا۔ یہاں اۤکاش نے پورے دو سال گزارے تھے اور اۤج جب وہ یہاں سے واپس جارہا تھا تو یہ کمرا بھی مجھے اداس لگا۔ اس کے چند دوست یہاں بھی موجود تھے جن سے اۤکاش نے ہمیں ملوایا۔ ابھی اس کے کمرے میں گئے ہمیں تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہاں کھاریاں کے اۤرٹلری یونٹ کے کمانڈنگ اۤفیسر کرنل دلاور صاحب بھی اپنی فیملی سمیت اۤگئے۔ ان کے ساتھ گپ شپ چلتی رہی اور تین گھنٹے گزرنے کا ہمیں پتا ہی نہیں چلا۔ اس کے بعد اۤکاش نے وہاں موجود اپنا سامان اٹھایا اور گاڑی میں رکھنے لگا۔ اس خوشی کے موقع پر وہ اداس بھی تھا۔ یہاں کے درودیوار چھوکر وہ یہاں بتائے لمحات حافظے میں محفوظ کرنے لگا۔ ہم چپ چاپ اسے دیکھ رہے تھے۔ وہ وہاں موجود ملازمین سے بھی بڑی گرمجوشی سے ملا جو اس کے جانے پر افسردہ تھے۔ اس نے انہیں یقین دلایا کہ وہ ان سے ملنے اۤتا رہے گا۔ پھر ہم گھر کی طرف روانہ ہوئے۔ تمام سفر وہ خاموش ہی رہا تھا۔ ہم سب بھی اس کی کیفیت سے بخوبی اۤگاہ تھے اس لیے ہم نے بھی کوئی بات چیت کرنے سے گریز کیا۔
گھر پہنچے تو وہاں عزیز و اقارب کا ایک تانتا بندھا ہوا تھا جو اۤکاش سے ملنے اۤئے تھے۔ اۤکاش نے کپڑے تبدیل کرکے جینز اور ٹی شرٹ پہن لی جو اس نے خود خریدی تھی ورنہ اۤکاش کی شاپنگ ابھی تک میں خود کرتی تھی۔ اس کی ڈریسنگ سینس بہت اچھی ہوگئی تھی اور ان کپڑوں میں وہ بہت سمارٹ لگ رہا تھا۔ لیکن اس ساری گہما گہمی میں بھی ایک خاموشی اس پر طاری تھی جس کی وجہ مجھے بعد میں پتا چلی۔
پاسنگ اۤؤٹ پریڈ سے پہلے تمام کیڈٹس سے ایک سوالنامہ پُر کروایا جاتا ہے جس میں ان کی پسند کی یونٹ کے بارے میں پوچھا جاتا ہے اور کاررواأی کے بعد انہیں مختلف یونٹوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔ اۤکاش نے اپنی پسند کے مطابق پہلے نمبر پر اۤرمر، دوسرے پر اۤرٹلری اور تیسرے نمبر پر انفنٹری رکھی تھی۔ اۤکاش کو پوری امید تھی کہ اسے اس کی پسند کے مطابق اۤرمر یونٹ اساأن کی جائے گی۔ دراصل اۤرمر یونٹ فوج کی انتہائی قابل اور فیصلہ کن یونٹ ہوتی ہے۔ جنگی حکمت ِ عملی طے کرنا اور مختلف محاذوں کے لیے پلاننگ کرنا بھی اسی یونٹ کی ذمہ داری ہوتی ہے اور اسی بنا پر اس نے اس یونٹ میں شمولیت کی خواہش کی تھی لیکن اسے اۤرٹلری 47فیلڈ دی گئی۔ اگرچہ اس یونٹ کی بھی وطن کے لیے بے شمار قربانیاں ہیں لیکن اۤکاش کو اۤرمر میں نہ جانے کا گہرا دکھ رہا۔ اس کی پہلی پوسٹنگ کھاریاں میں ہوئی تھی اور پوسٹنگ سے پہلے تمام کیڈٹس کو دس دن کی چھٹیاں ملی تھیں۔
ان چھٹیوں میں اس نے احسن کے ساتھ پنڈی اور مری جانے کا پلان کیا۔ دراصل وہ اپنا غم کم کرنا چاہتا تھا اور اسی لیے اس نے ماحول تبدیل کرنے کا سوچا۔ اۤکاش کی شہادت کے بعد احسن نے مجھے بتایا کہ اس نے یہ چھٹیاں گھر اس لیے نہیں گزاری تھیں کیوں کہ وہ اپنے رویہ سے ہمیں افسردہ نہیں کرنا چاہتا تھا۔ یہ سن کر میرے دل کو کچھ ہوا کہ میرا وہ بچہ جو بِنا کچھ کہے سب لوگوں کے حالات جان لیتا ہے، وہ اپنے رویہ کے بارے میں کتنا محتاط تھا۔ میں ایک مرتبہ پھر ماضی میں چلی گئی جب ان چھٹیوں میں وہ کچھ دن اۤکاش کے ساتھ گزار کر گھر واپس اۤیا تھا۔ وہ تمام دن اس نے گھر والوں کے ساتھ یوں گزارے تھے کہ جیسے اس کے پاس وقت بہت کم رہ گیا ہو۔ کتنی باتیں کی تھیں اس نے میرے ساتھ۔ مستقبل کے کتنے خواب اس نے بتائے تھے مجھے۔ باتوں باتوں میں وہ بتاتا کہ جہاں جہاں اس کی پوسٹنگ ہوگی، تو کیسے اپنے افسروں اور ماتحتوں کے ساتھ رہے گا۔ وہ کہتا تھا کہ امی میں اپنے ماتحتوں کے ساتھ ہر وقت کھڑا ہوں گا کہ انہیں بھی لگے کہ افسر صرف افسری نہیں کرتا بلکہ وہ بھی اپنی جگہ اتنی ہی ڈیوٹی دیتا ہے۔ میں اس کے ہر ارادے پر اۤمین بولتی۔ بس اس کی شہادت والی دعا پر میرے ہونٹ کچھ کپکپا جاتے۔ ابھی اس نے دیکھا ہی کیا تھا، لیکن میرے لب ہلکے سے جنبش کر ہی جاتے۔
”اللہ تمہیں تمہارے ہر مقصد میں کامیاب کرے بیٹا!”
فوج میں جانے سے اس کے دادا جی ہی سب سے زیادہ خوش تھے اور اب تو کاشی میں جیسے ان کی جان بستی تھی۔ وہ کہتے ”کاشی ہی میرا سگا پتر ہے بس” اور کاشی کھلکھلا اٹھتا۔ جتنے دن بھی وہ گھر پر رہا، صبح صبح ناشتے کے بعد روز وہ دادا جی کو لان میں لے اۤتا اور ان کی ڈاڑھی مونچھیں تراشتا۔ ابا جی اسے دعا دیتے:
”ایک دن میرا پتر بہت بڑا افسر بنے گا۔ اس کے گھر پر ایک دن بہت بڑا جھنڈا لہراأے گا۔”
میں اۤج جب کاشی کی قبر پر جھنڈا لہراتا دیکھتی ہوں تو مجھے اباجی کی وہی بات یاد اۤجاتی ہے۔ اباجی نے اس کے گھر پر جھنڈا لہرانے کی دعاأیں دی تھیں، اس نے اتنی سی عمر میں ہی اپنے داأمی گھر پر جھنڈا لگوا لیا ہے۔
انہی چھٹیوں کے دوران خاندان کے ان افراد کا ذکر ہوا جن کی شادیاں وہ اٹینڈ نہیں کرسکا تھا۔ چونکہ اس کی روٹین بہت سخت ہوتی اور پھر اسے چھٹی ملنے کا بھی بہت مسئلہ ہوتا۔ اسی وجہ سے وہ خاندان کی کافی شادیاں اٹینڈ نہیں کرسکا تھا۔ تب اس نے اۤہ بھرتے ہوئے کہا تھا:
”امی! مجھے لگتا ہے میرے نصیب میں فیملی کی شادیاں اٹینڈ کرنا لکھا ہی نہیں ہے۔”
سچ کہا تھا اس نے۔ اس کے نصیب میں فیملی کی شادیاں اٹینڈ کرنا نہیں لکھا تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!