ماں کا آکاش

میرے بہت ہی پیارے بیٹے! میرے پردیسی بیٹے اۤکاش!
ا یک اور سال بیت گیا۔ تیرے بغیر ا یک اور سال گزر گیا۔ نہ جانے ابھی اور کتنے سال تمہارے بغیر گزارنے ہیں لیکن اللہ کا شکر ہے کہ میرے اپنے بیٹے سے ملنے کے درمیان سالوں میں سے ا یک سال کم ہوگیا۔
کاشی بہت وقت گزر گیا۔ تمہیں خط ہی نہیں لکھا۔ دل میں سوچ رہی تھی کیا لکھوں کیا کہوں۔ وہی تمہاری کمی وہی تمہاری یادیں۔ جب کہانی ہی وہی ہو تو الفاظ اور جملے بھی وہی ہوتے ہیں۔ اتنا عرصہ گزر گیا تمہیں دیکھے اور بات کیے ہوئے۔ وہ بھی کیا وقت تھا جب تم میرے ساتھ تھے ،لگتا ہے تم سے بچھڑے ہوئے نہ جانے کتنی صدیاں بیت گئیں۔
اۤکاش زندگی میں سب کچھ ہورہا ہے۔ کوئی کام بھی تو نہیں رکا۔ پھر بھی لگتا ہے کہ جیسے زندگی ٹھہر سی گئی ہے۔ اۤگے جانے کا نام ہی نہیں لے رہی۔ واقعات وقوع پذیر ہوتے جارہے ہیں۔ موسم بدل رہے ہیں۔ سردی گرمی خزاں بہار ہر موسم اپنے وقت پر اۤتا ہے اور اپنے حصے کی رونقیں بکھیر کر چلا جاتا ہے۔ عیدیں شب براتیں اۤتی ہیں تمہارے بغیر گزر جاتی ہیں۔ مذہبی تہوار، قومی تہوار سب روا یتی بھرپور طریقے سے مناأے جاتے ہیں۔ لیکن تمہاری اس ملک کے لیے قربانی کے بعد تو قومی تہوار بہت خاص ہوگئے ہیں۔
23مارچ، 14اگست، 6ستمبر تم نے میرے لیے یہ تمام دن خاص بنا دیے ہیں۔ اتنی محبت جو تھی تمہیں اپنے ملک سے، اپنے پاکستان سے کہ تم نے اس کے لیے اپنی جان بھی نچھاور کردی۔
کاشی! ا یبٹ اۤباد میں سردی زوروں پر ہے۔ دن بہت چھوٹے اور راتیں لمبی۔ سردی سے تمہاری relatedباتیں یاد اۤتی ہیں اور گرمیوں کے دنوں کی تمہاری یادیں ستاتی ہیں۔ کاشی کوشش کرتی ہوں کہ مصروف رہوں۔ یہ مصروفیت ہی ہے جس کی وجہ سے زندگی کے دن بیتتے چلے جارہے ہیں ورنہ تو اگر فارغ رہوں تو وقت گزارنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔
کاشی 6اکتوبر کو تمہاری Parent Unitاۤرٹلری کا raising dayکا فنکشن تھا۔ اسے ہم نے بھی اٹینڈ کیا۔ اس فکشن میں اۤرٹلری کے تمام جنرلز بھی اۤئے ہوئے تھے۔ خاص طور پر وہ لوگ جنہوں نے اۤرٹلری کی بنیاد رکھی تھی۔ کاشی میں تو زیادہ وقت یہ ہی سوچتی رہی کہ وہ بھی کیا دن تھے جب میرا بیٹا کاشی اس یونٹ کا حصہ ہوتا تھا۔ کاش وہ اۤج بھی یہاں ہوتا۔
کاشی! تو کیسے میرا ماضی بن گیا۔ کاشی اولاد ماں باپ کا ماضی نہیں مستقبل ہوتی ہے اور ماں باپ ماضی بنتے ہیں۔ پھر تو کیوں ماضی ہوگیا۔ تم ا یسے ہمارے ساتھ رہا کرتے تھے۔ مجھ سے ا یسے باتیں کرتے تھے۔ تم جب گھر اۤتے تھے تو یہ ہوتا تھا وہ ہوتا تھا۔ کبھی کاشی بھی اس دنیا میں، اس گھر میں، اۤرمی میں ہوتا تھا۔ کاشی یہ باتیں بہت دکھ، اذیت اور تکلیف دیتی ہیں۔
کاشی یقینا یہ ا یک بڑا دکھ ہے لیکن اس دنیا میں اور بھی بہت دکھ اور طرح طرح کی آزمائشیں ہیں۔ ا یک جاننے والی بتا رہی تھیں کہ ان کا بیٹا بیس سال سے ان سے دور ہے اور ان سے ملنے نہیںاۤتا۔ وہ فون تک نہیں کرتا۔ میں حیران و ششدر رہ گئی کہ ا یسے بھی ہوسکتا ہے۔ میرا بیٹا تو اس دنیا میں ہے ہی نہیں۔ میرے پاس تو ا یک وجہ ہے۔ کاشی تم نے تو اپنی مختصر سی زندگی میں مجھے اتنا پیار، اتنی خوشیاں دیں، اتنی عزت، اتنی اپناا یت دی۔ تمہیں میرا، اپنی پوری فیملی کا اتنا خیال ہوتا تھا جبکہ تم خود ا یک بچے تھے۔
کاشی میرے بچے تیرے جیسے بچے تو نصیب والی ماؤں کے ہوتے ہیں۔ تو میرے لیے اللہ کی بہت بڑی نعمت اور انعام تھا کاشی۔ میری جان جانے تم کہاںہو۔تم جہاں بھی ہو میرے بچے اللہ تمہیں بہت بہت خوش رکھے اور تمہیں جنت کی ہر ہر نعمت سے نوازے۔ (اۤمین ثم اۤمین)
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

جان سے پیارے بیٹے اۤکاش!
السلام علیکم!
لو اۤکاش ا یک اور سال تیری جداا ی میں تیرے بغیر گزر گیا۔ سالوں کے اتنے حساب کتاب پہلے کبھی نہ کیے تھے۔ کاشی میں بٹ کر رہ گئی ہوں بلکہ زندگی afterاور beforeمیں بٹ کر رہ گئی ہے۔ سال گزارنے کبھی ا یسے مشکل بھی نہ تھے۔ زندگی بھی تو صرف سانسوں کی ڈور ہے جو چل رہی ہے ورنہ اس جیون میں سے روح تو تمہارے ساتھ ہی رخصت ہوگئی تھی۔ اب تو زندگی کے نقشے پہ میرے لیے جو دن لکھے ہوئے ہیں، انہیں کاٹنا ہے، گزارنا ہے، خرچ کرنا ہے۔ میرے لیے یہ زندگی ا یسے ہے جیسے کسی کے پاس ڈھیر سارے اور بے تحاشا پیسے ہوں اور وہ انہیں جلدی جلدی خرچ کرکے ختم کرنا چاہتا ہو، لٹانا چاہتا ہو، لیکن میں تو اسے جلدی جلدی ختم بھی نہیں کرسکتی۔ کاشی ہر شام کو یہ خیال اۤتا ہے کہ اۤج ا یک دن اور گزر گیا اور میرے اور کاشی کے درمیان فاصلے سے ا یک دن کم ہوا، لیکن ا یک دن میں تو ا یک ہی دن گزر سکتا ہے نہ جانے کتنے دنوں اور سالوں کا سفر ابھی باقی ہے۔
اۤکاش بہت زیادہ مصروف رہنے کی کوشش کرتی ہوں اور کافی مصروف بھی رہتی ہوں۔ اۤج کل تمہاری مختصر لیکن بہت پیاری اور قیمتی زندگی پر لکھتی رہتی ہوں۔ اس میں میرا کافی وقت گزر جاتا ہے۔ کاشی خود اپنے بیٹے کی زندگی پر memories لکھنا بہت زیادہ مشکل کام ہے، زندگی کے اس حسین حصے میں چلے جانا، بیٹے کی پھر یاد تازہ کرنا۔ اگرچہ یہ ا یسے ہی ہے جیسے خود اپنے زخم کھرچ کھرچ کر تازہ کرنا، اپنے درد اپنے غم اپنے دکھ اور اپنی تکلیف کو اور بڑھانا، لیکن مجھے یہ سب بھی اچھا لگتا ہے۔ کاشی تم سے جڑی ہر چیز چاہے وہ دکھ اور درد ہی کیوں نہ ہو، مجھے بہت عزیز ہے۔
اۤکاش انسان جب بوڑھا ہوکر یا بیمار ہوکر اۤہستہ اۤہستہ زندگی کا سفر طے کرتا ہے، تو گھر والے بھی اۤہستہ اۤہستہ لاشعوری اور ذہنی طور پر اس جداا ی کے لیے کچھ نہ کچھ تیار ہو ہی جاتے ہیں، لیکن جن ماؤں کے جوان بچے اس طرح اچانک ا یسے وقت میں بچھڑتے ہیں جب وہ ان کے سر پر سہرا سجانے کے خواب دیکھ رہی ہوتی ہیں تو ان کی زندگی اندھیر ہو جاتی ہے۔ وہ اس حادثے کو کبھی قبول ہی نہیں پاتیں۔ کاشی میرے بچے ا یسے لگتا ہے کہ جیسے ابھی bellہوگی یا تمہاری گاڑی کا ہارن سنائی دے گا، پھر گیٹ کھلے گا اور میرا شہزادہ میرے دل کا ٹکڑا ہنستے مسکراتے ہوئے میرے سامنے اۤکھڑا ہوگا۔
اور کاشی! تمہارے کپڑوں سے، تمہارے یونیفارم سے، تمہارے کمبل سے، تمہارے جوتوں سے، کتابوں سے، تمہاری لکھی ہوئی تحریروں سے، تمہاری ہر چیز سے تمہاری خوشبو اۤتی ہے۔ کاشی تمہارے ابو کہہ رہے تھے کہ اۤکاش کی چیزوں کو دھوپ لگواأو لیکن میں اس ڈر سے انہیں دھوپ میں نہیں رکھواتی کہ کہیں ان میں سے تمہاری خوشبو نہ چلی جائے۔ میرے بیٹے تمہاری یادیں اس طرح دماغ میں بسی ہوئی ہیں کہ محو ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ ہر طرف تمہاری یادوں کے چراغوں کی روشنی ہے اور کاشی جب بھی ہواا یں پتوں سے ٹکرا رہی ہوتی ہیں، مجھے ا یسے لگتا ہے کہ میرے ساتھ وہ بھی تمہارے جانے کا ماتم کررہی ہیں۔ میرے بیٹے تمہاری جداا ی نے میری شامیں، شام ِ غریباں میں بدل دیں۔ اۤکاش لگتا ہے میرے دل و دماغ پر لگے زخموں نے بہت سارے روپ دھار لیے ہیں جو بدل بدل کے میرے سامنے اۤجاتے ہیں۔ کاشی سکون تو اب کہیں نہیں ہے، وہ تو تمہارے جانے کے ساتھ ہی میری چوکھٹ کا راستہ بھول گیا۔
کاشی! میرے لخت ِجگر! جب سے تم نے مٹی کا گھر اۤباد کیا ہے مجھے مٹی سے تمہاری خوشبو اۤتی ہے۔ مجھے یہ مٹی بہت پیاری لگتی ہے کہ اس کے لیے میرے بیٹے نے اپنی نا یاب، انمول اور خوبصورت جوانی قربان کی ہے۔
اۤکاش سال 2017ا بھی اپنے اختتام کو پہنچ گیا ہے، اس سال ا یسے ہزاروں موقع اۤئے جب تمہاری کمی شدت سے محسوس کی گئی۔ دنیا والے شا ید وقت کے ساتھ جانے والے کو بھلا دیتے ہیں، لیکن والدین اپنے بچے کو کبھی نہیں بھلا سکتے بلکہ ان کا دل و دماغ تو اسی بچے میں اٹکا رہتا ہے جو ان کے پاس نہیں ہوتا۔
کاشی 2017ا میں جہاں ہمارے ملک اور دنیا میں بڑی بڑی تبدیلیاں رونما ہوئیں، وہاں ہمارے خاندان میں بھی بہت کچھ ہوا۔ تمہارے کچھ کزنز کی شادیاں ہوئیں، کچھ کے نکاح ہوئے، پچھلے ہفتے تمہارے دوست کی بھی شادی تھی۔ وہ اٹینڈ کرنے کے لیے ہم جہلم گئے۔ راستے میں منگلا تھا، مجھے یاد اۤیا کہ SSGکے swimmingکورس کے دورانتم منگلا میں بھی کچھ دن کے لیے رہے تھے۔ میں یہ سوچتی رہی کہ کبھی وہ دن بھی تھے کہ اۤکاش یہاں رہ رہا تھا۔ تمہارے course mates سے بھی ملاقات ہوئی اور تمہاری ڈھیر ساری یادیں تازہ ہوئیں۔

اۤکاش پچھلے دنوں میں نے پڑھا، کسی نے لکھا ہوا تھا کہ ملک کا دفاع تو اۤرمی کا کام ہے کیونکہ وہ اس کا حلف لیتے ہیں۔ یہ تو ٹھیک ہے کہ ملک اور ملک کے لوگوں کا دفاع اۤرمی کا کام ہے لیکن اپنے فرض کی ادائیگی میں جان تک قربان کر دینا کوئی عام بات نہیں ہے اور جتنے بچوں نے بھی اۤج تک اس ملک کے لیے جان دی ہے، وہ کوئی معمولی بچے نہ تھے۔ وہ سب کے سب بہت ہی خاص اور اپنے گھر والوں کی اۤنکھوں کا تارا تھے۔ حلف تو ہمارے سارے حکمران بھی لیتے ہیں، تو کیا وہ اپنے حلف کا پاس رکھتے ہیں؟ ان سے بھی تو کوئی پوچھے کہ کہاں گئے ان کے حلف، عہد و پیماں اور بلند و بانگ نعرے اور دعوے۔ ملک کو ترقی دینے کے بجائے اسے پستیوں میں دھکیل دیا۔ ہمارے ملک میں تو ہمیں اتنا بھی شعور نہیں کہ ہم کیسے نمائندے منتخب کریں۔ کسے میڈل دیں، کسے عزت دیں اورکسے حقِ حکمرانی دیں۔
اۤکاش امریکہ میں بہادری کا سب سے بڑا ا یوارڈ Medal of Honourامریکہ میں 3517لوگوں کو دیا گیا۔ برازیل میں بہادری کا سب سے بڑا ا یوارڈ 300اور سپین کا بڑا ا یوارڈ 800افراد کو دیا گیا ہے۔ UKکا سب سے بڑا ا یوارڈ Victoria Cross، 1358لوگوں کو دیا گیا ہے اور یہی وہ ملک ہیں جو بہت ترقی یافتہ ہیں کیونکہ وہاں اچھے برے کی تمیز ہے۔ قربانیاں دینے والوں کا regardکیا جاتا ہے۔ پاکستان کا سب سے بڑا ا یوارڈ نشانِ حیدر ہے جو صرف گیارہ شہیدوں کو دیا گیا ہے۔ اپنے ملک کی خاطر بہادری سے لڑتے ہوئے جان قربان کرنا اتنی بڑی خدمت ہے کہ اس وسیع و عریض کاأنات کا مالک خود اس کا اعتراف کرتا ہے۔
کاشی لیکن بدقسمتی سے ہمارا ملک جوکہ ا یک اسلامی ملک ہے، یہاں شہیدوں کے ساتھ اتنی زیادتی ہوتی ہے، وہ ہیرے جیسے بچے جو اس پاکستان کی حفاظت کے لیے دشمنوں سے بڑی بہادری، جراا ت اور دلیری سے لڑتے ہوئے جان بھی قربان کردیتے ہیں۔ دو چار دن وقتی طور پر ظاہری باتیں کرکے پھر کوئی ان کا نام بھی نہیں لیتا۔ کاشی میں تمہارے تمام فوجی دوستوں سے، اپنے تمام فوجی بچوں سے یہ کہنا چاہتی ہوں کہ دیکھو یہ اس ملک کا المیہ ہے کہ اس ملک میں خون دینے والے کی کوئی وقعت نہیں جب کہ اس کو لوٹنے والے قائداعظم محمد علی جناحؒکی جگہ اپنی فوٹو لگانے کو تیار بیٹھے ہیں۔
واہ جی کاشی اور میرے تمام شہید بچو!
تم نے کس ملک کے لیے اپنا خون بہا یا ہے۔ جہاں یہ سمجھا جاتا ہے کہ تمہارا خون خون نہیں، پانی تھا۔ جیسے تمہاری جان تو قیمتی تھی ہی نہیں۔ جیسے تم تو بہادر تھے ہی نہیں۔ جیسے تمہاری نیت تو خالص تھی ہی نہیں۔
ظاہر ہے دوسروں کے بچوں کی چھاتیاں ہیں ان پر گولے بارود برستے رہیں، حکمرانوں کے اپنے بچے تو دوسرے ملکوں میں غریب عوام کے پیسوں پر عیش و اۤرام کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
کاشی میری جان مجھے اور تمام شہداء کے لواحقین کو ان باتوں سے ان زیادتیوں سے بہت تکلیف ہوتی ہے، لیکن ہم سب یہ سوچ کر اپنے اۤپ کو تسلی دینے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمارے اللہ کے پاس ہمارے معصوم بچوں کا اونچا مقام ہوگا۔ انشاأ اللہ
اور کاشی مجھے امید ہے کہ کبھی نہ کبھی تو کسی ذی شعور انسان کو اس زیادتی کا احساس ہوگا اور وہ ان شہداء کے حق کے لیے اۤواز اٹھاأے گا۔ انشاأ اللہ!
خط بہت لمبا ہوگیا ہے، میرے شہزادے!اب اجازت چاہتی ہوں۔
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میرے بہت ہی پیارے بیٹے اۤکاش!
تم سے بچھڑے 3سال ہوگئے۔ کہنے کو تو یہ 1105دن ہیں جوہم نے تمہارے بغیر گزارے لیکن میرے لیے یہ دن کئی صدیوں پر محیط ہیں۔ مجھے لگتا رہا کہ میری زندگی تو اسی مقام، اسی جگہ اور اسی نقطے پر ٹھہر گئی جہاں تم مجھے چھوڑ کر گئے تھے۔ اۤکاش تمہیں ہم نے کیسے ہمیشہ کے لیے رخصت کیا۔ 23برس کی عمر میں ہمارے سامنے کیسے تمہارا جنازہ اٹھا، تم جیسے حسین، خوبرو اور وجیہہ جوان کو کیسے ہمارے سامنے قبر میں اتارا گیا اور ہم نے یہ درد کیسے سہا، یہ صرف ہم ہی جانتے ہیں۔
کاشی ان تین سالوں میں صرف میں ہی تمہارے لیے نہیں تڑپی ہوں۔ تمہاری صورت کو دیکھنے کے لیے فقط میری اۤنکھیں ہی نہیں ترسی ہیں، میں نے اپنے گھر کے درودیوار اور رستوں کو بھی تمہاری یاد میں روتے دیکھا ہے۔ کاشی مجھے بہت اچھی طرح یاد ہے اور تمہیں بھی یاد ہوگا کہ میرا اور تمہارا رشتہ صرف ماں اور بیٹے کا نہیں تھا، تم میرا سب کچھ تھے۔ میری اۤنکھوں کا نور اور میری اۤنکھوں کی بیناا ی تھے۔ تم میرے دل کا قرار اور سکون تھے۔ تم ہمارا سہارا تھے۔ کاشی میں تم سے ہر بات shareکرتی تھی۔ کوئی پریشانی یا کوئی مسئلہ ہوتا تو سب سے پہلے تمہیں بتانے کو دل کرتا۔ کاشی ان تین سالوں میں ا یسے لاتعداد موقعے اۤئے جب مجھے تمہاری بے انتہا ضرورت تھی اور میرے دل نے شدت سے تمہاری کمی محسوس کی اور بے اختیار میری زبان سے نکلتا رہا” کاشی میرے بیٹے! میری جان تم کہاں ہو۔ پلیز واپس اۤجاؤ۔ مجھے تمہیں بہت کچھ بتانا ہے۔”
کاشی میرے بچے میں جو چھوٹی چھوٹی باتیں بھی تم سے shareکرتی تھی، جب میرے ساتھ اتنا بڑا حادثہ رونما ہوگیا، اتنی بڑی بات ہوگئی تو میں تمہیں بتا ہی نہ سکی کہ میرا جوان بیٹا، میرے دل کا ٹکڑا میرے سامنے کفن میں تابوت میں پڑا تھا اور وہ اۤنکھیں جن کی چمک دنیا کی ہر چیز کی چمک سے بڑھ کر تھی، وہ اۤنکھیں ہمیشہ کے لیے بند ہوگئیں۔ میرے بیٹے کا خوبصورت دل اور اس کی خوشبو دار سانسیں رک گئیں۔ جس گھر میں میں رہتی ہوں، اس کے بجائے قبرستان میرے بیٹے کا گھر ہوگیا۔ میں کس درد سے کاشی تمہاری قبر پر جاتی ہوں اور اُسے دیکھتی ہوں۔ کاشی تمہیں سامنے بٹھا کر تمہیں یہ سب کہنے کو دل کرتا ہے۔ کاشی! تمہاری یادیں، تمہاری محبتیں، تمہاری مسکراہٹیں یاد رکھوں تو تکلیف ہوتی ہے۔ نہ یاد رکھوں تو بھی تکلیف ہوتی ہے۔

کاشی مانا کہ تم بہت بہادر تھے۔ بہت عزم والے تھے، بلا کا ضبط رکھتے تھے۔ تم نے اپنی committment، اپنا عہد، اپنا فرض نبھانا تھا، مگر تم نے یہ نہ سوچا کہ تم جن سے بچھڑنے جارہے ہو انہیں تو شا ید ٹھیک سے بچھڑنا بھی نہیں اۤتا اور جن سے تم دور ہونے جارہے ہو وہ تو تمہارے بغیر جینے کا تصور بھی نہیں کرسکتے تھے۔ کاشی تمہارے بعد بہت دفعہ موسم بدلے ہیں اور بدلتے رہیں گے۔ اچھی باتیں بھی ہورہی ہیں اور ہوتی رہیں گی مگر ان سب کی لذت اور خوشیاں تو اپنے ساتھ لے گیا ہے۔
کاشی تو ہماری زندگی کو ا یک بہت بڑی Mortuaryبنا کے چلا گیا ہے۔ تو ہماری زندگی کو ہماری ہر خوشی کے لمحے کو نامکمل اور بے لذت کرکے چلا گیاہے۔ کاشی تو اپنے ساتھ جاتے جاتے کیا کیا نہیں لے گیا۔ میں کیا کیا گنوں زندگی اب اسی خیال اور حساب کتاب میں گزرے گی کہ یہ لمحہ جو تمہارے بغیر گزر رہا ہے، اس وقت تو اگر ہمارے ساتھ ہوتا تو سب کیسے ہوتا۔ کاشی تم نہیں ہو مگر تمہاری باتیں ہیں تمہاری یادیں ہیں۔ ہر جگہ، ہر مقام اور ہر موڑ پر تمہاری نشانیاں ہیں۔ تمہارے لفظ بھی ہیں اور تمہاری خاموشیاں بھی ہیں۔ کاشی تم اۤنکھوں کے سامنے نہیں ہو لیکن تم دل میں ہو، خیالوں میں ہو، ہواأوں میں ہو، روشنی میں ہو، بارش کی بوندوں میں ہو۔ کاشی تم ہر طرف ہو۔
کاشی مانا کہ شہادت بہت بڑا مقام ہے اور تم نے جو مجھے ا یک شہید کی ماں ہونے کی پہچان دی ہے، شناخت دی ہے، وہ یقینا بہت بڑی بات ہے۔ اس کے لیے میں اللہ تعالیٰ کا بے انتہا شکریہ ادا کرتی ہوں اور اس کی بہت احسان مند ہوں کیونکہ اگراللہ تعالیٰ تمہیں کسی اور طور پر لے جاتے تو بھی میں کیا کرسکتی تھی۔ لیکن دکھ تو دکھ ہے، دوری تو دوری ہے، کمی تو کمی ہے۔ اور جب میرا دل تڑپتا ہے تو کچھ یاد نہیں رہتا اور یاد پڑتا ہے اور سمجھ اۤتی ہے تو صرف یہ کہ تم اۤنکھوں کے سامنے نہیں ہو اور تمہیں دیکھنے کے لیے نہ جانے کتنا عرصہ انتظار کرنا پڑے گا۔ کاشی تمہاری جداا ی نے مجھے بہت زیادہ sensitive کردیا ہے۔ جو بچہ بھی جوانی میں چلا جاتا ہے، اپنے وقت سے بہت پہلے چلا جاتا ہے اس کے لیے میرا دل خون کے اۤنسو روتا ہے۔
کاشی جس شہید بچے کی تصویر دیکھتی ہوں، یہ ہی سوچتی رہتی ہوں کہ کیا یہ اس کے جانے کی عمر تھی۔ اس نے اپنی زندگی میں دیکھا ہی کیا تھا۔ کاشی تمہاری طرح یہ بچے بھی پہلے تعلیم اور پھر سخت ٹریننگ سے گزرے اور جب تھوڑا کام ہلکا ہوا، زندگی شروع ہونے لگی تو شہید ہوگئے۔ کاشی مجھے یاد ہے تمہارے کتنے پلان ہوتے تھے۔ تم کیا کیا سوچا کرتے تھے۔ تم اپنی فیملی کے لیے اتنا کچھ کرنا چاہتے تھے لیکن کاشی تم نے سب بھلا کر، مجھے بھی بھلا کر اپنے فرض کو اپنے وطن کو سب پر ترجیح دی ۔حتیٰ کہ اپنی زندگی اور قیمتی جان بھی قربان کر ڈالی۔
کاشی 15جولائی کو تمہارا تیسرا یومِ شہادت تھا جو ہم نے بلوچی ہال ا یبٹ اۤباد میں منعقد کیا۔ کاشی تمہارے پروگرام میں تمہارے سکول و کالج کے طلباء اور سر عادل سعید نے بھرپور حصہ لیا اور بہت اچھی تقریریں کیں اور تمہیں اور وطن پر جان دینے والے تمام عظیم شہداء کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ ا یک دو اور سکولز کے بچوں نے بھی بھرپور حصہ لیا۔ ملی نغمے اورtabloپیش کیا اور اپنی جاندار اور شاندار پرفارمنس سے پروگرام کو چار چاند لگا دیے۔ دو شہید کیپٹن کے ماں باپ نے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار کیا اور میڈم رافعہ جدون نے اپنی خوبصورت پرجوش کمپیا رنگ سے پروگرام کو نہا یت ہی پراثر بنا یا۔ کاشی تمہارے دوستوں اور batch mates کی شرکت اور موجودگی نے ماحول کو مزید جذباتی بنا دیا۔ جو شہداء اور فوج کی عزت و توقیر میں اضافے کا باعث بنا۔
کاشی ہم نے اپنے رشتہ داروںاور دوستوں کے علاوہ اۤرمی کے شہداء اور APSسکول پشاور کے شہید بچوں کے والدین کو بھی مدعو کیا ہوا تھا۔ میں ان سب کی بہت ممنون ہوں کاشی جو تمہارے یومِ شہادت پر لاہور، پشاور، شبقدر، سرگودھا، اسلام اۤباد اور پنڈی سے تشریف لائے۔ یہ سب ہماری طرح دُکھی لوگ اپنے بچوں کی یادوں کے ساتھ بندھے ہوئے اتنے دور دور سے کھنچے چلے اۤئے۔
کاشی تمہارے یومِ شہادت کے پروگرام میں ہم نے تمام شہیدوں کو tributeپیش کیا۔ بہت سارے شہیدوں کے پوسٹرز بنا کر لگائے جنہیں لوگ جانتے بھی نہیں تھے یا شا ید پہلی دفعہ دیکھے تھے۔ کاشی مجھے بہت افسوس ہوتا رہا لیکن یہ ان کا قصور بھی نہیں ہے۔ یہ بحیثیت قوم ہم سب کا قصور ہے کہ ہم اپنے محسنوں کو، اپنے شہیدوں کو بھلا دیتے ہیں۔ ہم ان کو فراموش کردیتے ہیں جنہوں نے اپنا سب کچھ اپنی زندگیاں، اپنی قیمتی نا یاب جانیں، اپنی خوبصورت جوانیاں، اپنا اۤج، اپنا مستقبل اس ملک و قوم کے دفاع، تحفظ اور امن و سکون کے لیے قربان کردیا۔ ان کا ا یک دو دفعہ تذکرہ ہوتا ہے اور پھر کوئی بھولے سے بھی ان کا نام نہیں لیتا۔ ان کی برسیاں اۤتی ہیں، گزر جاتی ہیں۔ کہیں ان کا ذکر تک نہیں ہوتا۔ کسی کو یاد ہی نہیں رہتا کہ ان بچوں نے ہمارے لیے ہمارے ملک کے لیے اپنی جانوں کی قربانیاں دی ہیں۔
اس کے برعکس کرپٹ حکمران جو اپنے ملک کا بلکہ ان کے خون پسینے کا کما یا ہوا سب کچھ لوٹ کر دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہیں اور پیٹ ان کے پھر بھی نہیں بھرتے۔ وہ سانس اندر لیتے ہیں تو ہمارا میڈیا انہیں کور کرتا ہے اور سانس باہر نکالتے ہیں تو بھی ہمارا میڈیا انہیں کوریج دیتا ہے اور اخبارات اُن ہی کی جھوٹی خبروں سے بھرے ہوتے ہیں۔
کاشی یہ قوم جو خود اپنی قربانیوں کو، اپنے شہیدوں کو، اپنے بچوں کو بھول جاتی ہے، President ٹرمپ سے شکوہ رکھتی ہے کہ اس نے سعودی عرب میں جو دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کانفرنس کی تھی، اس میں پاکستان کی قربانیوں کا ذکر ہی نہیں کیا۔ کتنے شرم کی بات ہے۔ کاشی اس بے حس قوم کو کون سمجھاأے کہ تم لوگ کبھی خود ان قربانیوں کا اعتراف کرتے ہو؟ ان پیارے پیارے بچوں کی قربانیوں کو یاد رکھتے ہو؟ کبھی ان کی برسی پر ہی ان کے بارے میں دو لفظ بولے ہیں اور بتا یا ہے کہ فلاں شہید نے اس طرح اس ملک کے لیے اس اۤپریشن میں اپنی جان دی ہے اور یہ ہماری قربانیاں ہیں؟
کاشی تو پھر کیوں یہ امید رکھتے ہیں کہ دوسری دنیا کے لوگ ان کی قربانیوں کو یاد کریں گے۔ کاشی میں یہ ا یک جنرل بات کررہی ہوں کیونکہ میں دل سے مانتی ہوں کہ اللہ نے شہیدوں کو ان کی قربانی کی وجہ سے جو عزت دی ہے اور ان کا مقام انبیاأ، صدیقین اور صالحین کے ساتھ بیان کیا ہے اس کے سامنے ان سب دنیاوی باتوں کی کوئی وقعت نہیں۔ یہ دنیا عارضی ہے اور اللہ کے انعام کے اۤگے دنیاوی انعام کی کوئی حیثیت نہیں۔
کاشی میں سمجھتی ہوں کہ قوم کو اپنے مستقبل کے لیے ان قربانیوں کو یاد رکھنے کی ضرورت ہے جو قربانیاں 1947ا سے لے کراب تک اس ملک و قوم کے لیے دی گئی ہیں کیونکہ اگر ان قربانیوں کو بھلا یا جائے گا تو یہ کرپٹ حکمران اسے مفت کا مال سمجھ کر لوٹ کھسوٹ کرکے پرے ہو جاا یں گے اور کاشی میں دل سے مانتی ہوں کہ اگر ان شہداء کی قربانیوں کو یاد نہ رکھا گیا جیسے ان کا حق ہے اور جس مقصد کے لیے وہ اپنی جانیں دیتے رہے ہیں، ان مقاصد کی تکمیل نہ کی گئی تو قوم اس فتنہ و فساد کے عذابِ الٰہی سے چھٹکارا نہیں پاسکے گی۔ نیشنل ا یکشن پلان کے ساتھ سرد مہری APSکے ننھے شہداء کو بھولنے کے مترادف ہے۔
کاشی اللہ تعالیٰ تم سب شہیدوں کے خون کے صدقے ہم سب کو صحیح سمجھ اور ہمت و حوصلہ دے۔
کاشی! باقی اۤندہ۔
اور اب میں تم سے اجازت چاہوں گی۔
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

میری اۤنکھوں کا نور! میرے دل کے ٹکڑے! میرے بیٹے اۤکاش!
تمہیں دیکھے ہوئےمیرے بیٹے3سال ہوگئے۔ 17اور 18ما ی 2014ء کو ہم تربیلا میں تمہارے ساتھ تھے۔ وہ اۤخری دفعہ ہم سب اکٹھے تھے۔ وہ ہماری زندگی کے حسین ترین، پرسکون اور بہت قیمتی دو دن تھے اور میں اتنی نادان، اتنی ناسمجھ کہ ذرا بھی اندازہ نہیں تھا کہ میں اپنے شہزادے سے اۤخری بار مل رہی ہوں۔ کاش میں اُن سب دنوں کو جو تمہارے ساتھ گزرے کسی طرح Save کرلیتی اور جب بھی چاہتی انہیں دیکھ سکتی، لیکن میرے بچے صرف یادیں ہی رہ جاتی ہیں جو اب کسی انمول خزانے سے کم نہیں۔
ا یک طرف سے خوش بھی ہوتی ہوں کہ زندگی سے تین سال کم ہوگئے اور تم سے ملنے کے ٹاأم میں کچھ کمی ہوئی۔ پر یہ تو میرا اللہ ہی جانتا ہے کہ ابھی بھی کتنا فاصلہ باقی ہے۔

کاشی میں اکثر یہ ہی سوچتی رہتی ہوں کہ کاش تو مجھ سے نہ بچھڑتا، کاش تو ہمارے ساتھ، اپنی فیملی کے ساتھ ہوتا تو ہم مکمل ہوتے۔ کاشی جنت کا تصور اچھا لگتا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہاں پر ہر طرح کی نعمتیں ہوں گی اور بہت اۤرام ہوگا بلکہ اس لیے کہ وہاں موت نہیں ہوگی اور کوئی کسی سے نہیں بچھڑے گا۔
وہاں ہم جیسی ماؤں کے بچے ان سے نہیں بچھڑیں گے اور جو بچے یہاں یتیم ہیں، وہاں ان کے والدین ان کے ساتھ ہوں گے اور وہاں بچھڑنے والی خطرناک ترین اور افسوس ناک ترین صورتحال نہیں ہوگی۔ وہاں یہ جداا یاں، یہ ویرانیاں اور یہ اُداسیاں نہیں ہوں گی۔
کاشی پتہ نہیں جنت میرے نصیب میں ہے یا نہیں۔ پر مجھے بس اس جنت کا انتظار ہے جہاں میرے بچے میرے ساتھ اکٹھے ہوں۔ میری ساری فیملی، میرے ابو، تمہارے دادا ابو سب اکٹھے ہوں۔ الگ ہونے کی، بچھڑنے کی کوئی بات نہ ہو۔
کاشی لاأونج میں تمہارے ٹیبل پر تمہارے نام کی پلیٹ خالی ہوتی ہے۔ ڈاأننگ ٹیبل پر تمہاری کرسی خالی ہوتی ہے۔ تمہارے سپون اور فورک نہیں ہوتا۔ جب میں درزی سے کپڑے سلواتی ہوں تو اس میں تمہارے جوڑے نہیں ہوتے، تمہارے نام کی shoppingنہیں ہوتی۔ کاشی کو یہ پسند ہے تو یہ پکے گا، اب یہ نہیں ہوتا۔ گھر کی لانڈری میں تمہارے کپڑے نہیں دھلتے۔ اب کبھی بھی مجھے تمہارا بستر نہیں بنانا ہوتا، تمہارا انتظار نہیں ہوتا کہ وہ راستے میں ہے اور اۤرہا ہے۔ بار بار فون نہیں کرنا ہوتا کہ کاشی کہاں پہنچے ہو۔ کب تک گھر پہنچو گے۔ کاشی اۤہستہ گاڑی چلانا۔ دیکھو راستے میں فضول نہ رکنا۔
کاشی میرے فون پر تمہارے نام کی کوئی ringنہیں اۤتی۔ تمہارے نام سے کوئی message نہیں اۤتا۔ کیا بتاأوں کس کس بات پر میں نہیں تڑپتی۔ دکھی نہیں ہوتی اور ٹوٹتی نہیں ہوں۔
کاشی تم نے اپنی زندگی میں ا یک گانا youtubeپر ڈالا تھا۔
جو بھی قدم تم اٹھاأو گے میں یاد اۤاوں گا
جب تنہا راہوں میں جاؤ گے میں یاد گاؤں
ہاں کاشی ا یسا ہی ہے۔ ساری دنیا اردگرد ہے لیکن لگتا ہے تنہا ہوں۔ اۤس پاس کچھ نہیں ہے۔
میرے بیٹے کاشی پلیز واپس اۤجاؤ، کاش تمہیں اندازہ ہو کہ میں تمہیں کتنا یاد کرتی ہوں۔
اکثر سونے سے پہلے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتی ہوں کہ اللہ جی! کاشی اۤپ کا دیا ہوا تحفہ تھا۔ اۤپ کی چیز تھی اۤپ کی امانت تھی۔ اۤپ کو بھی بہت پیارا تھا۔ اۤپ نے مجھ سے واپس لے لیا۔ میں اۤپ سے گلہ نہیں کرسکتی پر پلیز مجھے خواب میں تو اس سے ملوادیا کریں۔ میں اس کے خوبصورت معصوم چہرے کی فرشتوں کی سی مسکراہٹ دیکھ لوں۔ میں اس کے وہ گولو گولو سے ہاتھ اور پاأوں چھولوں۔ میں اس کی وہ اۤواز سن لوں کہ جب وہ بولتا تھا تو جیسے میرے کانوں میں رس سا گھلتا تھا۔ کاشی ساری خواہشیں ختم کرکے ا یک خواہش رہ گئی ہے کہ میں کاشی کو دوبارہ کب دیکھوں گی، اُف کاشی اتنا لمبا انتظار۔
کاشی اۤج شام کو بہت اچھا موسم ہورہا تھا۔ بہت خوش گوار ٹھنڈی ٹھنڈی ہواا یں چل رہی تھیں۔ کاشی تو بہت یاد اۤرہا تھا۔ تیری باتیں۔ ا یسے موسم میں تو کہا کرتا تھا کہ امی اآئیں سب باہر براۤمدے میں بیٹھ کر گپ شپ لگاتے ہیں اور ساتھ کچھ ”باٹا کھاپا” ہو جائے۔ جب بھی تم اچھا کھانا کھاتے یا اچھی پارٹی ہوتی تو تم کہتے تھے اۤج تو بہت ”باٹا کھاپا” ہوا امی اب دو دن میں میں کچھ نہیں کھاأوں گا۔
کاشی ہر بات کے ساتھ تمہاری کوئی نہ کوئی یاد جڑی ہوتی ہے۔
اور کاشی کیا بتاأوں زندگی کی وہی روٹین ہے۔ تین سالوں میں کچھ بھی نہیں بدلا۔ جب تک انسان زندہ ہے بس وہی تماشے اور ڈرامے جو شروع سے ہوتا چلا اۤرہا ہے۔ کاشی میں کچھ نہ کچھ تو کرتی رہتی ہوں۔ اِدھر اُدھر بھی اۤتی جاتی رہتی ہوں۔ زندگی کاٹنی جو ہے۔ لوگوں کو پریشانی ہوتی ہے کہ زندگی تیزی سے گزر رہی ہے اور ختم ہو جائے گی اور یہاں میں ختم ہونے کے انتظار میں جیے جا رہی ہوں۔ کاشی عجیب سی زندگی ہے۔ خوشی کی بات پر بھی خوشی نہیں ہوتی۔ ہاں پریشانی کی بات پر زیادہ پریشانی اور دکھ ہوتا ہے۔ ا یسے لگتا ہے برداشت ختم ہوگئی ہے۔ ہمت جواب دے گئی ہے۔ ہر وقت جیسے کوئی جھنجھلا کر بیٹھا ہوا ہو۔
اۤکاش ہم کیپٹن سلمان سرور کے یومِ شہادت پر لاہور گئے تھے۔ انہوں نے سلمان کئیومِ شہادت بڑی اچھی طرح سے organizeکیا۔ بہت سے شہداء کی فیملیز اآئی ہوئی تھیں۔ ہم سب کے چہروں پر ا یک ہی کہانی تھی۔ جو ہم باۤسانی ا یک دوسرے کے چہرے سے پڑھ سکتے تھے۔ اپنے جیسے لوگوں کے ساتھ وہ دو دن بہت اچھے گزرے۔ اۤکاش جب بھی talk show میں ٹی وی پر یہ تبصرہ ہوتا ہے کہ فلاں اۤپریشن کے بعد ملک میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری اآئی ہے اور دہشت گردی کے واقعات کم ہوئے ہیں تو کبھی کسی نہ کسی اعلیٰ عہدے دار یا حکمرانوں کے نمائندے زبردستی کریڈٹ لینے کی کوشش کرتے ہیں اور اس میں وہ پڑھے لکھے اور سمجھدار anchor’sبھی ان شہیدوں کو بھول جاتے ہیں جنہوں نے اس دہشت گردی کی جنگ میں اپنے ملک، اپنی سرزمین کی امن و سلامتی کے لیے اپنی قیمتی جانیں قربان کی ہوتی ہیں۔
کاشی رمضان اۤنے والا ہے کوشش کروں گی کہ اچھے سے عبادت کرسکوں۔ کاشی گھر میں سب خیریت ہے سب کے لیے دعا کرنا۔
اب اجازت چاہتی ہوں۔ اللہ حافظ!
تمہاری ماں
میرے پیارے شیر دل بیٹے اۤکاش!
اۤج 15جولائی ہے۔ تمہیں یاد ہے کاشی اۤج کے دن کیا ہوا تھا۔
اۤج کے دن میں نے اپنی جان سے پیارا بیٹا، وہ بیٹا جو میری زندگی، میری خوشی، میرا سکون، میرا مان اور میرا فخر تھا، کھو دیا تھا۔ اۤج کے دن کاشی میں نے تمہیں ہی نہیں بلکہ اپنے اۤپ کو بھی کھو دیا تھا۔
میری زندگی میں بہت بار جولائی اۤیا، پر اس بار 15جولائی نے میری زندگی ہی بدل ڈالی۔ اس دن 15جولائی کو کیا ہوا تھا، میں سوچتی ہوں تو کانپنے لگتی ہوں۔
کہنے کو تو تمہارے جانے کے بعد ا یک سال گزر گیا ہے یا شا ید ا یک صدی بیت گئی ہے۔ تمہارے جانے کے بعد دنوں کا حساب کتاب ہی بدل گیا ہے۔ لگتا ہے گھڑی کی سوئیاں اور کیلنڈر کے دن سب رک سے گئے ہیں۔ لوگ کہتے ہیں وقت کے ساتھ سب ٹھیک ہو جائے گئیا پھر صبر اۤجائے گا۔ کیا واقعی وقت کے ساتھ صبر اۤجاتا ہے؟
کہنے کو تو میں شہید کی ماں ہوں، لیکن بیٹے کی جداا ی برداشت کرنا مشکل ہوتا ہے۔ یہ تو وہی جانتے ہیں جنہوں نے یہ غم سہا ہوا ہے۔
کاشی تمہارے بعد یہ سال ہم نے کس طرح گزارہ ہے کیا بتاأوں۔ کاشی تمہارے بعد ہمارے گھر میں کوئی کھل کے نہیں ہنسا۔ ہماری ہنسی کھوکھلی ہوگئی ہے۔ تمہارے جانے کے بعد گھر میں تمہاری پسند کے کھانے بننے اور عیدیں، سالگرہ اور دوسرے تمام تہوار منانا بند ہوگئے ہیں۔
اۤکاش کوئی خوشی کی بات بھی خوشی نہیں دیتی۔ اۤکاش ہم خوش بھی کیسے ہوسکتے ہیں۔ ہم نے تمہیں کفن میں دیکھا ہے۔ میرا جوان، قابل،خوبصورت، ہونہار، با ادب بیٹا مجھ سے پہلے قبر میں اتر گیا۔ دیکھو میں پھر بھی زندہ ہوں۔ درد اور دکھ کے ساتھ کوئی نہیں مرتا۔ سب کا اپنا وقت مقرر ہوتا ہے۔ اۤکاش ہم نے تمہیں ہر لمحہ ہر پل یاد کیا ہے۔ اۤنکھ کھلنے کے ساتھ پہلا خیال تمہارا اۤتا ہے۔
اۤکاش ہر پل میں یہی سوچتی رہتی ہوں کہ اس تاریخ کو تم یہ کررہے تھے، تم وہ کررہے تھے۔ تم ویک ا ینڈ پر گھر اۤئے ہوئے تھے۔ اس دن تمہارا فلاں کورس چل رہا تھا۔
کاشی جب تم یہاں تھے تو میں نے کبھی بھی اتنا تمہارے بارے میں نہیں سوچا تھا،لیکن اب تو بس ا یک یہی کام رہ گیا ہے۔
اۤکاش تمہاری وہ مسکراہٹ، تمہارا وہ زندگی سے بھرپور قہقہہ کہاں سے ڈھونڈوں؟ تمہیں کہاں تلاش کروں؟ اۤج بھی فون پر تمہارا نام دیکھنے کی اۤرزو ہے۔ اۤج بھی گیٹ پر گھنٹی ہوتی ہے تو میں بے چین ہو جاتی ہوں، شا ید اس امید پر کہ میرا اۤکاش ہنستا مسکراتا اندر اۤجائے گا اور مجھے گلے لگا کر کہے گا :
”امی اۤپ نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے۔”
اۤکاش جب بھی تمہاری گاڑی میں بیٹھتی ہوں تو تمہارا وہ جملہ دماغ میں گونجتا ہے۔
”اماں! اۤپ لوگوں نے تو میری گاڑی پر قبضہ کرلیا ہے۔”
اۤکاش بارش ہوتی ہے تو تمہارا وہ کہنا یاد اۤتا ہے:
”امی جی اۤج تو پکوڑوں کا موسم ہورہا ہے۔ چائے اور پکوڑے بنائیں۔ براۤمدے میں بیٹھ کر کھاا یں گے۔”
اۤکاش اس گھر کی در و دیوار، ہر چیز تمہیں یاد کرتی ہے۔ یہ گھر تمہاری موجودگی سے کتنا بھرا بھرا اور زندگی سے بھرپور تھا۔ اب اتنا ویران لگتا ہے۔
اۤکاش 10جولائی کو تم نے میران شاہ کلئیر کرنے کے بعد فون کیا تھا۔ پھر 11اور 12جولائی کو تم نے افطاری کے بعد فون کیا، وہ ہمارے ساتھ تمہاری اۤخری باتیں تھیں۔
تم کتنی خوشی اور جوش سے بتا رہے تھے کہ تم نے میران شاہ میں کیا کچھ کیا تھا اور ہم سے بھی گھر کی ہر بات پوچھ رہے تھے۔
تم نے کہا کہ بیشک میں اۤپریشن میں ہوں، اۤپ عید ٹھیک طرح سے منانا۔
پر کاشی اب کون سی عیدیں اور کون سی خوشیاں۔
اۤکاش زندگی تو میری وہی تھی جو میں نے تمہارے ساتھ جی لی۔ کاشی تمہیں یاد ہے میں نے تم سے اۤخری بات کیا کی تھی۔
Akash! I am waiting for you.
ہاں کاشی میں تمہارا انتظار کررہی ہوں۔ اس دن کا انتظار کررہی ہوں جب تم مجھے دوبارہ ملو گے۔
جانے کتنا لمبا انتظار ہے میرا!
تمہاری ماں
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!