ماں کا آکاش

کمانڈو پاسنگ اۤؤٹ پریڈ

اۤکاش کی کمانڈو ٹریننگ مکمل ہو چکی تھی۔
اس کی پاسنگ اۤؤٹ پریڈ 20 دسمبر 2013ء کو چراٹ میں ہی ہوئی تھی۔ اس نے ہمیں بتایا کہ SSG میں کوئی بھی VIP نہیں ہوتا۔ جو پہلے اۤتاہے، وہ اگلی نشستوں پر بیٹھتا ہے۔ اس لیے اس نے ہمیں خاص تاکید کی کہ ہم سات بجے وہاں پہنچ جائیں۔ اس رات ہم تین بجے اٹھے اور تیار ہو کر چراٹ کے لیے نکل پڑے۔ پورے سات بجے ہم اپنی منزل پر تھے۔ اۤکاش وہیں باہر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ وہ SSG کی کالی وردی میں ملبوس کتنا پیارا لگ رہا تھا، میں بیان نہیں کر سکتی۔ میں نے خود اسے زیادہ دیر دیکھنے سے اجتناب کیا کہ کہیں اسے میری ہی نظر نہ لگ جائے۔ وہ واپس اپنی گلابی رنگت میں اۤچکا تھا۔ سر کے بال بھی کچھ بڑھے تھے اور چہرے پر زخموں کے نشان بھی نہ تھے۔
وہ ہمیں لے کر اندر گیا اور اگلی سیٹوں پر ہمیں بٹھا دیا۔ پھر وہ خود میدان میں کھڑا اپنے بیج میٹس کے پاس چلا گیا۔ دسمبر کی سردی میں ہلکی ہلکی دھوپ بہت بھلی معلوم ہو رہی تھی۔ کچھ دل بھی شاداں تھا کہ اۤج اۤکاش کا خواب عملی جامہ پہن رہا ہے۔
کچھ ہی دیر میں پاسنگ اۤؤٹ پریڈ شروع ہوئی۔ پریڈ کے اختتام پر تمام کمانڈوز نے حلف نامے پر اپنے خون سے مہر لگاء ی کہ وہ اپنے ملک کے لیے کسی بھی قربانی سے دریغ نہیں کریں گے اور ہر حالت میں اپنا فرض ادا کریں گے۔
تقریب کے اختتام پر مہمانوں کے لیے ریفریشمنٹ کا اہتمام تھا جس کے بعد اۤکاش ہمیں یونٹ کے اندر لے گیا اور یونٹ گھمانے لگا۔ وہاں ایک بڑے ہال نما کمرے میں سارے شہید کمانڈوز کی تصویریں لگی ہوئی تھیں۔ ان تصویروں کے ساتھ کھڑے ہو کر ہم نے تصویریں بنواء یں۔ کیا خبر تھی کہ سات ماہ بعد میرے بیٹے، میرے اۤکاش کی تصویر بھی وہاں شہداء کی تصویروں کے ساتھ لگی ہو گی۔ اۤخری تصویر جو اس وقت وہاں لگی تھی وہ شہید کیپٹن وسیم رازی کی تھی۔ اس کے بعد ان تصویروں میں جو اضافہ ہوا، وہ اۤکاش کی تصویر کا ہی تھا۔
وہاں سے نکلنے سے پہلے ہی اۤکاش نے ہمیں اپنے کورس میٹس سے ملوء یا۔ اب ان کی تعریف میں کیا کہوں، دنیا کی بہترین افواج کی سب سے بہترین یونٹ کے کمانڈوز تھے وہ۔ پھر اۤکاش نے وہاں سے کلئیرنس کرواء ی اور ہم لوگ گھر کے لیے روانہ ہوئے۔
سارے راستے اسے مبارکباد کے فون اۤتے رہے۔ وہ چراٹ جو شروع میں اسے جہنم لگتا تھا اور جسے وہ ئhellئ کہتا تھا، وہی چراٹ اس کے لیے اب قابلِ احترام جگہ بن گئی تھی۔ سفر یونہی باتوں باتوں میں کٹ گیا اور ہم لوگ گھر پہنچ گئے۔
اس کی اگلی جوائننگ سے پہلے اسے بیس چھٹیاں تھیں۔ ان چھٹیوں میں گھر پر مہمانوں کا تانتا بندھا رہا۔ ہر کوئی اسے مبارک باد دینے اۤرہا تھا اور وہ سب سے اپنی روء یتی مسکراہٹ سے مل رہا تھا۔ وہ ان چھٹیوں میں کھاریاں بھی گیا کیوں کہ اس کی پیرنٹ یونٹ سرگودھا سے کھاریاں واپس اۤچکی تھی۔ وہ وہاں جا کر اپنے تمام سینئرز اور بیج میٹس جو اس وقت وہاں موجود تھے، سے ملا۔ سب نے گرمجوشی سے اس کا استقبال کیا۔ ان کے نزدیک اۤکاش کی کامیابی اس لیے بھی زیادہ بڑی تھی کیوں کہ انہیں لگتا تھا کہ اۤکاش فزیکلی بہت زیادہ ایکٹو نہیں ہے۔ وہ فوج میں جو مقام بھی حاصل کرے گا، پڑھاء ی کے بل بوتے پر ہی حاصل کرے گا۔ اۤکاش نے ان کا خیال غلط ثابت کر دیا تھا۔ کمانڈو ٹریننگ پر جانے سے پہلے اس کی اۤرٹلری یونٹ 47 نے اس سے شرط لگاء ی تھی کہ اگر وہ کمانڈو کورس کرنے میں کامیاب ہو گیا تو اسے ساری یونٹ کے ساتھ dineout کرواء یں گے۔ ناکامی کی صورت یہی اۤکاش نے کرنا تھا۔ چوں کہ وہ اپنا کورس کامیابی سے مکمل کر کے اۤچکا تھا اس لیے اسے اس کی یونٹ کی جانب سے پرتکلف اعزازیہ دیا گیا۔ جب وہ واپس اۤیا تو چند تحاأف بھی اس کے ہمراہ تھے۔
یہ بیس دن پلک جھپکتے گزر گئے۔ اس کی اگلی پوسٹنگ تربیلا ہونا تھی۔ جس پر وہ بہت خوش تھا کیوں کہ تربیلا گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔
اس کی تربیلا پوسٹنگ کا ایک فائدہ ہوا۔ وہ اب ہر ویک اینڈ پر گھر اۤجاتا تھا۔ جب سے وہ PMA گیا تھا، یہ پہلی بار تھا کہ وہ اتنی تواتر سے گھر اۤرہا تھا۔ میرے لیے تو گویا عید کا سماں تھا۔ وہ سارا ہفتہ تربیلا میں ٹریننگ کرواتا اور ویک اینڈ پر گھر اۤجء یا کرتا۔ میں اس کی پسند کی ڈشز تیار کرتی اور وہ یہی کہتا رہتا کہ امی میں سارا ہفتہ جو ٹریننگ کرتا ہوں، اۤپ ان دو دنوں میں وہ کھلا پلا کر برابر کر دیتی ہیں۔ وہ کمانڈو تھا اور مجھے کمانڈو کی ماں بننے کی تاکید کرتا رہتا لیکن میں بس ماں تھی۔ میرے لیے یہی بات بہت تھی کہ میں ہر ہفتے اپنا بیٹا دیکھ لیتی ہوں۔ اسے اس کی پسند کے کھانے کھلا دیتی ہوں۔
ان دنوں ملک کے حالات بہت خراب ہو چکے تھے۔ ملک میں ہر جگہ فسادات اور بم دھماکے معمول بن چکے تھے۔ یہ حالات اگر بارڈر پر کشیدہ ہوتے تو شاید اتنی بے چینی بھی نہ ہوتی کہ دشمن کا پتا ہوتا۔ اصل مسئلہ یہ بنا ہوا تھا کہ یہ سب فسادات ملک کے اندر ہو رہے تھے۔ دشمن کا پتا نہیں تھا کہ کون ہے۔ مرنے والے بھی اپنے تھے اور مارنے والے بھی۔ ان حالات میں شرپسند عناصر سے مقابلہ اور بھی سخت ہو جاتا ہے اور ان حالات میں ہی ملک کے سب سے قابلِ اعتماد ادارے ”فوج” کی خدمات لی جاتی ہیں۔ مجھے یہی خوف ستاأے رہتا کہ کب اۤکاش کو کسی اۤپریشن پر بھیج دیا جائے گا۔ اس سے اۤگے سوچنے کی مجھ میں ہمت ہی نہ ہوتی۔
اۤکاش تواتر سے ویک اینڈز پر گھر اۤرہا تھا لیکن کسی کو نہیں پتا تھا کہ 9 مئی 2014ء کا اۤنا اس کا اۤخری بار ہو گا۔
کہتے ہیں کہ اللہ اپنے قریبی لوگوں کو نشانیاں دے دیتا ہے۔ شاید وہ بھی اللہ کے قریب ہو گیا ہو گا اور اسے بھی کچھ اشارے مل گئے ہوں گے جو اس بار اس کا گھر سے جانے کا دل ہی نہیں کر رہا تھا۔
”امی! میرا دل کر رہا ہے میں اس بار لمبی چھٹیاں گزار کر جاؤں یہاں سے۔ پتا نہیں پھر کب اۤنا ہو یہاں۔”
تب اس نے یہ بات اتنی مرتبہ کہی کہ میرا دل کئی بار زور سے دھڑکا تھا۔
”اۤکاش! پلیز ایسی باتیں نہ کرو۔ کیا ہو گیا ہے تمہیں؟ ہر ویک اینڈ پر تو اۤتے ہو اور اگر تمہارا دل نہیں کر رہا جانے کا تو تم کچھ دنوں کی چھٹیاں لے لو۔ رک جاؤ تھوڑے دن یہاں۔” میں اسے پیار سے کہتی۔ سچ تو یہ تھا کہ میں اس کے انداز پر ڈر سی گئی تھی۔
”نہیں امی! ابھی ملک کے جو حالات ہیں، انہی حالات کے لیے تو ایک کمانڈو تیار کیا جاتا ہے اور میں گھر چھٹیاں لے کر بیٹھ جاؤں۔ نہیں امی۔” وہ افسردہ لہجے میں خود ہی اپنی خواہش کی تردید کر دیتا۔ وہ جو میری گود میں سر رکھے لیٹاتھا، اچانک اٹھ کر بیٹھ گیا۔
”امی! میں جب سے تربیلا گیا ہوں۔ اۤپ لوگ ایک مرتبہ بھی مجھ سے ملنے نہیں اۤئے۔ وعدہ کریں اگلے ویک اینڈ اۤپ لوگ آئیں گے۔”
”کاشی میری جان! تمہیں پتا تو ہے تمہارے ابو کو ہر ہفتے کوئی نا کوئی ضرروی کام اۤجاتا ہے۔” میں نے اس کے بالوں میں ہاتھ پھیرا۔
”اۤپ اسی طرح کرتی ہیں۔ ہفتے کا ایک دن میرے لیے نہیں نکال سکتیں۔ ” اس کا منہ اتر گیا۔
”اچھا میری جان! میں وعدہ کرتی ہوں تمہارے ابو کو منانے کی پوری کوشش کروں گی۔” میرے وعدے پر وہ چہک سا گیا۔ اس کے جانے کا وقت اۤگیا تھا۔ اس گھر میں کبھی نہ واپس اۤنے کے لیے۔ کاش اس وقت مجھے یہ بات پتا ہوتی تو میں اسے جانے ہی نہ دیتی۔ وہ تیار ہوا، اپنا سامان پکڑا اور گھر کا گوشہ گوشہ ایسے دیکھا جیسے اۤنکھوں ہی اۤنکھوں میں اسے الوداع کہہ رہا ہو۔
گھر سے جانے کے بعد وہ پورا ہفتہ مسلسل مصروف رہا۔ میں جب جب اسے فون کرتی، وہ مختصر سی بات کر کے بتاتا کہ وہ ٹریننگ میں مصروف ہے اور فون جلدی ہی رکھ دیتا۔ اس مختصر سے فون کال کے دوران میرا ایک ہی سوال ہوتا۔
”کاشی! معاملات مذاکرات سے حل ہو جائیں گے ناں؟ اۤپریشن کی ضرورت تو نہیں پڑے گی؟”
اور وہ ہر بار میرا حوصلہ بڑھاتا رہتا۔
پھر ایک دن میں نے اسے بتایا کہ ہم ویک اینڈ پر اس کے پاس تربیلا اۤرہے ہیں تو اس کی خوشی کی انتہا نہ رہی۔ میں فون پر بھی محسوس کر سکتی تھی کہ وہ یہ بات سن کر چھلانگیں لگانے لگ گیا ہو گا۔ بس اب اسے بے صبری سے ویک اینڈ کا انتظار تھا۔ اور مجھے بھی۔
وہ 17 مئی 2014ء ہفتے کا دن تھا جب ہم اس سے ملنے تربیلا جا رہے تھے۔ اس سارے راستے اۤکاش کا فون اۤتا رہا اور بار بار وہ ہماری خیریت دریافت کرتا رہا۔ جب ہم تربیلا پہنچے تو وہ ہمیں ریسیو کرنے کے لیے کھڑا ہوا تھا۔ براأون جینز اور ریڈ چیک کی شرٹ میں وہ بہت پیارا لگ رہا تھا۔ میں نے دیکھتے ہی اس کی بلائیں لیں۔ کچھ دنوں کے لیے جو اس کی رنگت اجلی اجلی ہوئی تھی، اب دوبارہ جل گئی تھی۔ اس نے ہم سب کو بڑی گرمجوشی سے ریسیو کیا۔ پھر ہمیں اپنی گاڑی کو فالو کرنے کی ہدایت کرتا ہوا اۤگے کو بڑھ گیا۔ لویل نے اسے راستے میں ہی فون کر دیا تھا کہ اسے بھوک لگی ہوئی ہے اس لیے ہمارے وہاں پہنچتے ہی اس نے سب سے پہلے جوس اور پھر پرتکلف چائے سے ہماری تواضع کی۔ اس کے انداز میں ایک والہانہ پن تھا۔ جیسے وہ سب کچھ ہم پر نچھاور کرنا چاہتا ہو۔ ہمارے وہاں جانے سے اس کے چہرے سے جو خوشی پھوٹ رہی تھی وہ مجھے اۤج بھی یاد ہے۔ چائے کے دوران وہ ہم سے باتیں کرتا رہا۔ گھر کے حالات اور سفر کی روداد جانتا رہا حالاں کہ ابھی ہفتہ پہلے ہی وہ گھر سے اۤیا تھا لیکن گھر کی ایک ایک چیز کے بارے میں وہ ایسے پوچھ رہا تھا جیسے اسے گھر سے اۤئے زمانہ بیت گیا ہو اور وہ گھر کو بہت یاد کر رہا ہو۔
باتوں کے دوران ہی اس نے بتایا کہ ملک کے حالات انتہائی کشیدہ چل رہے ہیں اور حکامِ بالا سنجیدگی سے اۤپریشن سے متعلق سوچ رہے ہیں۔ امید تھی کہ معاملات مذاکرات سے حل ہو جاتے لیکن شدت پسند عناصر کی جانب سے کراچی ائیر پورٹ پر خطرناک حملہ کیے جانے کے باعث مذاکرات کے دروازے بند ہوتے نظر اۤرہے تھے۔ اس وقت فوج کے تقریباً تمام دستوں میں یہی قیاس اۤراء یاں چل رہی تھیں کہ کسی بھی وقت اۤپریشن کی کال ہو سکتی ہے۔
انہی باتوں میں رات کے کھانے کا وقت ہو گیا۔ اس نے رات کے کھانے کا بھی بہت پرتکلف اہتمام کیا تھا۔ مچھلی، مٹن، چکن بریانی، سویٹ ڈش، غرض ہر چیز دستر خوان کا حصہ تھی۔ میں نے اسے کہا کہ بیٹا اتنے تکلف کی کیا ضرورت تھی۔ تو اس نے کہا اپنی فیملی کے لیے تکلف کیسا۔ اۤپ لوگوں نے کون سا روز روز یہاں اۤنا ہے۔ اب تو جانے کب ملاقات ہو۔ میں نے کہا اۤکاش ایسے مت بولو، میرا دل بیٹھا جا رہا ہے۔ اس نے میری حالت کی نزاکت کو بھانپتے ہوئے موضوع تبدیل کر دیا۔ سب کھانا کھانے لگے۔ مجھ سے زیادہ نہ کھایا گیا۔ اۤکاش کے الفاظ میرے ذہن میں گونج رہے تھے۔ اس وقت مجھ سمیت تمام جوانوں کی ماء یں دعائیں کر رہی ہوں گی کہ ملک پر اۤئے یہ کڑے حالات اللہ کرے مذاکرات سے حل ہو جائیں۔ ان کے بیٹوں کو اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر میدان میں نہ اترنا پڑے۔ لیکن قدرت کے اپنے فیصلے ہوتے ہیں جن میں کسی کے ذاتی جذبات کا عمل دخل نہیں ہوتا۔

کھانے کے بعد میں اور اۤفتاب صاحب اۤرام کی غرض سے اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے جبکہ وہ دانی اور لویل کو اپنی یونٹ دکھانے کے لیے باہر لے گیا۔ وہ لوگ کب واپس اۤئے، مجھے پتا نہیں چلا کیوں کہ ان کے اۤنے تک میں سو چکی تھی۔
اگلی صبح جب میں بیدار ہوئی تو وہ بھی دانی کے ساتھ اپنے کمرے سے نکل کر گیسٹ روم میں اۤگیا۔ ہم سب سے پوچھا رات کسی قسم کی پریشانی تو نہیں ہوئی اور بتایا کہ ناشتے کا انتظام اس نے تربیلا ڈیم پر کیا ہے۔ اس نے ہمارے ناشتے کے لیے اۤلو اور قیمے کے پراٹھے بنوائے تھے۔ میں نے کچن میں جا کر چائے تیار کی۔ پھر ہم نے یہ سب سامان پیک کیا اور ڈیم کی جانب چل پڑے۔ ڈرائیونگ اۤکاش خود کر رہا تھا۔ راستے میں جہاں جہاں چیک پوسٹ پر اسے روکنے کی کوشش کی گئی، وہ اپنا کارڈ دکھا کر وہاں سے گزرتا رہا۔ راستے میں وہ ہمیں مختلف جگہوں کے بارے میں گاء یڈ بھی کرتا رہا۔ انہی باتوں میں ہم ڈیم پہنچ گئے۔ اۤکاش نے ڈگی سے سامان نکالا اور اٹھا کر ڈیم کی طرف چلنے لگا۔ پھر میرے اصرار پر اس نے کچھ سامان ہم میں بانٹ دیا لیکن زیادہ تر سامان خود ہی اٹھا کر لے جانے لگا۔ ڈیم تک جاتے جاتے اس نے یہاں کی ہسٹری بھی ہمارے گوش گزار کر دی۔ پھر مطلوبہ مقام تک پہنچ کر اس نے سارا انتظام کیا اور ہم ناشتہ کرنے لگے۔ وہ بار بار ہماری پلیٹیں بھر رہا تھا۔ میں نے اسے کہا اۤکاش بیٹا تم ریلیکس ہو کر کھاأو، جسے جو چیز چاہیے ہو گی وہ خود لے لے گا۔ لیکن وہ باز نہ اۤیا۔ میں اس کی حرکت پر مسکرا کر رہ گئی۔ ناشتے کے دوران میں نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے اسے کہا کہ اپنا خیال بھی رکھا کرو۔ دیکھو تمہارا رنگ پھر سے اتنا جل گیا ہے۔ ٹریننگ پر جاتے ہوئے سن سکرین لگا لیا کرو۔ میری اس بات پر وہ خوب کھلکھلا کر ہنسا۔
”امی! یہ سن سکرین ہمیں ہماری سخت ٹریننگز میں تحفظ نہیں دے سکتیں۔ یہ ممی ڈیڈی لوگوں کے کام ہیں۔ ہم سخت جان فوجیوں کا ان چیزوں سے کیا تعلق۔”
انہی ہلکی پھلکی باتوں میں ہم نے ناشتہ ختم کیا۔ پھر دوبارہ گیسٹ ہاؤس جانے سے پہلے وہ ہمیں اپنا کمرا دکھانے لے گیا۔ چھوٹا سا وہ کمرا جہاں بمشکل دو سنگل بیڈز، دو چھوٹی میزیں اور دو کرسیاں رکھنے کے بعد جگہ نہیں بچتی تھی۔ میرے ذہن میں اس کا گھر والا کمرا گھوم گیا جہاں اس جیسے پانچ چھے کمرے نکل اۤتے۔ جو لوگ فوج پر تنقید کرتے ہیں، وہ تنقید کرنے سے پہلے ان کا رہن سہن، ان کی سخت ٹریننگز اور ان کا ذہنی دباأو دیکھ لیں تو شاید ان کی زبانوں پر تالے پڑ جائیں۔ اگر کسی کے گھر میں کوئی چھوٹا سا مسئلہ ہو جائے تو اس کے مکینوں کی راتوں کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ یہاں ہمارے جوان سپوت روز سوتے بھی جاگتی اۤنکھوں سے ہیں کہ ان کی اۤنکھیں بند ہونے پر دشمن اپنے ناپاک عزاأم کی طرف پیش قدمی نہ کر لے۔ واقعی میں نے اپنے بیٹے سمیت ان تمام فوجیوں کو دل ہی دل میں بے شمار دعائیں دیں جو ہمارے کل پر اپنا اۤج وارنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے تھے۔
اۤفتاب صاحب اب گھر کے لیے نکلنے کو جلدی کر رہے تھے جبکہ میرا دل کر رہا تھا میں وہیں اپنے بیٹے کے پاس رک جاؤں۔ قدم جیسے مَن مَن بھر کے ہو گئے تھے۔ ابھی ہم واپسی کی تیاری کر ہی رہے تھے کہ اۤکاش کو ایک فون اۤیا اور وہ سننے کے لیے باہر چلا گیا۔ پانچ منٹ بعد واپس اۤکر اس نے وہ اطلاع دی جو ہم سننا نہیں چاہتے تھے۔ اۤپریشن کی منظوری ہو گئی تھی اور اس مقصد کے لیے اۤکاش کی یونٹ ہی چنی گئی تھی۔ انہیں ایک دن چھوڑ کر اۤپریشن کے لیے نکل جانا تھا۔ یہ سننا تھا کہ میرا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ مجھ پر اتنی گھبراہٹ طاری ہو گئی کہ میں باقاعدہ کانپنے لگی۔ میری یہ حالت دیکھتے ہوئے اۤکاش نے مجھے اپنے ساتھ لگا لیا۔
”امی! کیا ہوا امی؟ اۤپ گھبراتی کیوں ہیں؟ اۤپریشن تو ہوتے رہتے ہیں اور جوان خیریت سے واپس اۤتے رہتے ہیں۔ میں بھی خیریت سے واپس اۤجاؤں گا۔ امی خود سوچیں یہ دہشت گرد جو اۤئے روز ہمارے معصوم بچوں کو جان سے مارتے رہتے ہیں، ان کے خاتمے کے لیے ہم نہیں جائیں گے تو کون جائے گا۔”
وہ مجھے تسلیاں دے رہا تھا لیکن اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں اۤرہا تھا۔
”امی! دعا کریں اللہ مجھے شہادت کے مرتبے پر فائز کرے۔”میرے کانوں میں اۤکاش کے الفاظ گونجے۔
”نہیں اۤکاش! تم نہیں اۤؤ گے۔ تم مجھے اسی طرح بہلاتے ہو لیکن کرتے تم اپنی ہی ہو۔” میری زبان پر وہ الفاظ اۤرہے تھے جو میں کبھی بھی لانا نہیں چاہتی تھی۔ میری یہ باتیں سن کر اۤکاش کی گرفت میرے کندھوں پر مضبوط ہو گئی۔
”اۤکاش! بیٹا میں تمہیں میڈیکل سرٹیفکیٹ بنا دیتا ہوں جس سے تمہیں ریلیف مل جائے گا۔ تمہاری امی پریشان ہو رہی ہیں تو اس مرتبہ نہ جاؤ اۤپریشن پر۔ تم کہہ تو رہے ہو کہ یہ اۤپریشن ہوتے رہتے ہیں تو اگلی مرتبہ چلے جانا۔” اۤفتاب صاحب بھی سنجیدہ لہجے میں بول رہے تھے۔
”ابو! اتنی محنت سے تو خود کو اس دن کے لیے تیار کیا تھا اور اب جب وطن کو میری ضرورت ہے تو کیا مجھے اس طرح خود سے جھوٹ بول کر رک جانا چاہیے؟” اۤکاش نے بڑی سمجھداری سے بال ہمارے کورٹ میں پھینک دی تھی اور اب وہاں سب کی خاموشی، سب کی رضامندی کا اظہار تھی۔ سب اس سے خاموشی سے مل رہے تھے۔ لبوں پر تھیں تو بس دعائیں۔ نکلتے ہوئے اس نے کچھ چیزیں ہمارے حوالے کیں کہ وہ ہم گھر لے جائیں۔ جو بڑا سامان تھا وہ اس نے اگلے دن اپنے NCB کے ہاتھ بھجوانے کا کہا کہ اۤپریشن سے واپسی پر وہ یہ چیزیں دوبارہ منگوا لے گا۔ ہمیں رخصت کرتے وقت وہ بہت والہانہ انداز میں ہم سے ملا۔ اگر مجھے تب معلوم ہوتا کہ میں اپنے بچے کو اۤخری بار دیکھ رہی ہوں تو اس کا چہرہ میں اپنی نظروں کے سامنے سے ہٹنے ہی نہ دیتی۔ ہم لوگ روانہ ہوئے تو جب تک ہماری گاڑی اس کی نظروں سے اوجھل نہ ہوئی، وہ ہمیں ہی دیکھتا رہا۔ شاید وہ بھی یہی سوچ رہا ہو کہ یہ منظر میں جتنی دیر اۤنکھوں میں محفوظ کر سکتا ہوں، کر لوں۔
واپسی کا سارا سفر خاموشی سے ہی کٹا۔ لویل جو مشکل ترین موقعوں پر بھی زیادہ دیر خاموش نہیں رہتی، وہ بھی خاموش تھی۔ شاید سب ہی اپنی اپنی جگہ اس کی سلامتی کی دعائیں مانگ رہے تھے۔
اگلے دن اس کا NCB اس کا باقی سامان بھی لے اۤیا۔ اس نے اپنا سوٹ کیس بھی بھجوا دیا تھا اور گھر میں اس کا جو پرانا ٹرنک پڑا تھا، وہ منگوا لیا تھا۔
وہ اپنی حتمی خواہش کی تکمیل کو جارہا تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اۤپریشن ضربِ عضب
20
مئی 2014ء کو اۤکاش کی یونٹ نے شمالی وزیرستان کے لیے روانہ ہونا تھا۔ اس دن ایک مسلسل بے چینی اور اضطراب چار سو چھء یا ہوا تھا۔ اۤکاش نے تربیلا سے شمالی وزیرستان کے لیے نکلنا تھا لیکن میری نگاہیں بار بار بیرونی دروازے کی جانب لپکتیں جیسے اپنے جگر کے ٹکڑے کو یہیں سے وداع کر رہی ہوں۔ وزیرستان روانہ ہونے سے پہلے اس نے گھر فون کرکے اپنی روانگی کے متعلق بتایا تھا۔ اس کی اۤواز میں اس دن ایک جوش و خروش اور ولولہ تھا جیسے وہ دشمن کو جڑ سے اکھاڑ پھینک دینا چاہتا ہو۔
شمالی وزیرستان وہ علاقہ تھا جہاں شرپسندوں نے اپنے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے تھے۔ اس علاقے کا نام ایک عرصے تک لوگوں کے لیے خوف و دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا۔ یہاں حکومتی رٹ کی کوئی اہمیت نہ تھی اور مقامی لوگوں کے اپنے بنائے ہوئے قوانین تھے۔ دہشت گردوں نے وہاں بھاری تعداد میں اسلحہ اور بارودی مواد جمع کر رکھا تھا۔ دشمنوں کو ذبح کر کے ان کی بے حرمتی کی وڈیوز اپ لوڈ کی جاتیں۔ کہیں ان کے سر کاٹ کر فٹ بال کھیلا جاتا تو کہیں ان کے جسم ایسے لٹکا دیے جاتے جیسے قصاء ی بکرے ذبح کر کے دکان کے باہر لٹکاتے ہیں۔ زیرِزمین ان کی اپنی جیلیں تھیں جہاں دشمنوں پر ایسا تشدد کیا جاتا کہ وہ موت کی دعائیں مانگتے۔ اۤئے روز کوئی اندوہناک خبر ٹیلی ویژن اور اخبارات کی زینت بنتی رہتی۔ ان خبروں اور واقعات نے مجھے اور ڈرء یا ہوا تھا۔ اۤکاش انہی لوگوں سے برسرِپیکار ہونے جا رہا تھا۔
اۤکاش کی یونٹ پہلے بنوں گئی اور پھر وہاں سے میران شاہ روانہ ہوئی تھی۔ بنوں سے اۤگے میرعلی کا مقام اۤتا ہے جس سے گزر کر کھجوری چیک پوسٹ اور پھر یہاں سے ایک سڑک میران شاہ جبکہ دوسری جنوبی وزیرستان کو جاتی ہے۔
اۤکاش کی یونٹ نے میران شاہ میں سرکٹ ہاؤس میں قیام کیا ہوا تھا۔ جب تک اۤپریشن شروع نہ ہوا، وہ روز گھر ٹیلی فون کرتا اور سب سے بات کرتا۔ ابھی چوں کہ اۤپریشن شروع نہیں ہوا تھا اس لیے وہ بتاتا کہ وہ یہاں فٹ بال بھی کھیلتے ہیں اور وہ دوسری یونٹوں سے اۤئے فوجیوں کو ٹریننگ بھی کرواتا ہے۔ ا بھی اۤپریشن کی پلاننگ چل رہی تھی اور اۤرڈرز اۤنے کے بعد انہوں نے اۤگے موو کرنا تھا۔
چند دنوں میں اۤپریشن کی منصوبہ بندی کر لی گئی۔ اۤپریشن کا نام اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ واۤلہ وسلم کی تلوار مبارک کے نام ”عضب” پر ”ضربِ عضب” رکھا تھا اور سب سے پہلے اۤکاش کی یونٹ کو ہی اۤگے بھیجنے کا فیصلہ ہوا تھا۔ اس سے پہلے اۤرٹلری نے بڑی کاروائی کرتے ہوئے وہاں گولہ باری کر کے کئی مکانات مٹی کا ڈھیر بنا دیے تھے جن کے بارے میں شبہ تھا کہ یہ دشمنوں کی محفوظ پناہ گاہیں تھیں۔ اۤکاش کی یونٹ کو سب سے پہلے میران شاہ کا علاقہ کلئیر کرنے کے اۤرڈرز اۤئے تھے۔ اس سے پہلے حکومت نے وہاں سے عوام کی نقل مکانی کروا دی تھی۔ اۤپریشن پر جانے سے پہلے اس نے گھر پر فون کیا اور سب سے درخواست کی کہ وہ خصوصی دعائیں کریں کہ اللہ اسے دشمنوں کو جڑ سے ختم کرنے کی توفیق دے۔
اۤپریشن پر جانے سے پہلے وہ اۤکاش کا اۤخری فون تھا۔ پھر تیرہ دن تک اس سے کوئی رابطہ نہ ہو پء یا۔ بس اس کا NCB اس کی خیریت کا پیغام پہنچا دیتا۔
عام دنوں میں یونٹوں میں اور ہیڈکوارٹرز میں رہنا اتنا مشکل کام نہیں ہوتا جتنا اۤپریشنل ایریا میں رہنا مشکل ہوتا ہے۔ ہر وقت ڈر اور خوف کی ایک تلوار لٹکی رہتی ہے۔ نہ کھانے پینے کا ٹھیک سے بندوبست ہوتا ہے اور نہ رابطے کی کوئی صورت۔ عام دنوں میں حکمتِ عملی کچھ اور ہوتی ہے جبکہ میدانِ جنگ میں کچھ اور۔ اور لازمی نہیں کہ اچھی منصوبہ بندی اور حکمتِ عملی کامیابی کا پیش خیمہ ہی ہو۔ بلکہ اپنی حکمتِ عملی کو بہترین طریقے سے نافذ کرنا بھی بہت ضروری ہوتا ہے۔ فوج اس کام کے لیے ہمیشہ اپنے ان اۤفیسرز کو اۤگے رکھتی ہے جو مشکل سے مشکل حالات میں بھی اپنے حواسوں کو برقرار رکھیں۔ بدلتی ہوئی صورتحال کے پیشِ نظر اپنی حکمتِ عملی بھی تبدیل کرتے رہیں کیوں کہ میدانِ جنگ نام ہی اسی چیز کا ہے۔ ہر نء ے موڑ پر نئی حکمت عملی۔ اور اۤکاش بھی ان اۤفیسرز میں سے تھا جن پر فوج نے اعتماد کرتے ہوئے سب سے مشکل ایریا کی کلئیرنس اس کے سپرد کی تھی۔ اۤکاش کی اس وقت عمروہ تھی کہ جس عمر میں لڑکے نت نء ے فیشن کر رہے ہوتے ہیں، بال بڑھا کر اور جینز پہن کر ایکشن مار رہے ہوتے ہیں تو کچھ مستقبل کے سنہرے خواب اۤنکھوں میں سجائے محنت کر رہے ہوتے ہیں۔ کچھ موبائلز پر لمبی لمبی گفتگو فرما رہے ہوتے ہیں تو کچھ نئی زندگی کی شروعات کررہے ہوتے ہیں۔ لیکن اۤکاش کو اللہ نے ایک عظیم مقصد کے لیے چن لیا تھا۔ وہ ملک سے ایک ایک دہشت گرد کا صفء یا کرنے کے لیے سینہ سپر تھا تاکہ اس ملک کے شہری امن سے رہ سکیں۔ تاکہ اس کا ملک امن و سلامتی کا گہوارہ بن سکے۔ تاکہ اس کا ملک اس پر ناز کرسکے۔
وہ رمضان کا مہینہ تھا۔ 10جولائی کو ابھی ہم گیارہواں روزہ افطار کرکے بیٹھے تھے کہ اۤکاش کے NCBکا فون اۤیا جس نے ہمیں اۤکاش کے خیر و عافیت سے ہونے کی اطلاع دی۔ ابھی دل شکر ادا کر ہی رہا تھا کہ بند ہونے لگا۔ ٹی وی پر خبر چل رہی تھی کہ وزیرستان اۤپریشن میں7کمانڈو کے تین جوان شہید ہوگئے۔ ابھی ان کے نام نہیں بتائے جارہے تھے۔ میری حالت غیر ہونے لگی۔ میرا پور پور میرے بچے کی سلامتی کی دعائیں کررہا تھا۔ اۤفتاب صاحب اور دانش میرے گرد جمع ہوکر مجھے حوصلہ دینے لگے۔ ابھی مجھے علم نہیں تھا کہ شہید ہونے والے جوان کون ہیں، لیکن اب فوج کا ہر جوان مجھے اۤکاش ہی لگتا تھا۔ میری حالت قابو سے باہر ہونے لگی۔ لویل بھی میری یہ حالت دیکھ کر رونا شروع ہوگئی۔ ہم لوگ کافی دیر اسی حالت میں رہے کہ اچانک فون کی گھنٹی بجنے لگی۔ میرا دل یکدم حرکت کرنا چھوڑ گیا۔ لویل اٹھ کر فون کی جانب بڑھنے لگی تو میں نے ہاتھ بڑھا کر اسے روکنا چاہا لیکن وہ بھی بری طرح بے چین تھی۔ وہ میرا ہاتھ بڑھنے سے پہلے فون تک پہنچ چکی تھی۔ اس نے فون اٹھایا۔ اۤگے اۤکاش تھا۔ اۤکاش کو ٹیلی فون پر پاکر اس نے بے ساختہ رونا شروع کردیا اور مجھے جونہی پتا چلا فون پر میرا جگر کا ٹکڑا ہے تو میں بھی بے ساختہ فون کی طرف لپکی اور اس کی اۤواز سن کر فون کے کریڈل کو ہی چومتی رہی۔ چشمِ تصور میں میں اپنے جگر گوشے کو چوم رہی تھی۔ میری حالت دیکھ کر اۤکاش بھی مجھے تسلیاں دینے لگا۔ اس اندوہناک خبر کے بعد اس کی اۤواز سننا اور وہ بھی سترہ دن بعد۔ میں وہ حالت لفظوں میں بیان نہ کرسکوں شاید۔ میں نے اۤکاش کو کمانڈوز کی شہادت کا بتایا جس کا علم اسے پہلے سے ہی تھا۔ وہ بھی اُن جوانوں کے لیے افسردہ تھا۔ کافی دیر مجھے حوصلہ دینے کے بعد اور سب سے بات کرنے کے بعد اس نے اۤپریشن کا احوال بتانا شروع کیا۔ اس نے بتایا کہ میران شاہ کا علاقہ کلئیر کروانا اسی کے ذمہ تھا جس میں اللہ تعالیٰ نے اسے سرخرو کیا۔ میران شاہ کا علاقہ ہی سب سے خطرناک علاقہ تھا کیوں کہ یہ ایک طرح سے دہشت گردوں کا قلعہ تھا۔ اس نے بتایا کہ اۤپ سب کی دعاأوں سے اس کی زیرِنگرانی اس کی یونٹ نے یہ علاقہ کلئیر کروا کر یہاں پاکستانی جھنڈا لہرء یا جوکہ بہت بڑی فتح تھی۔ اس نے بتایا کہ یہاں مساجد اور مدارس میں بھی زیرِزمین سرنگیں تھیں جہاں دہشت گرد اپنا اسلحہ چھپء یا کرتے تھے۔ اس نے تین چار روز دہشت گردوں کے کمانڈر کے کمپاؤنڈ میں بھی قیام کیا تھا۔وہ بتا رہا تھا کہ میران شاہ کلئیر کروانا کوئی اۤسان ٹاسک نہ تھا کیونکہ یہاں قدم قدم پر بارودی سرنگیں بچھاء ی ہوئی تھیں جن سے تین چار مرتبہ وہ خود بال بال بچا۔ پھر اس نے مجھے بتایا کہ امی میں تین دنوں سے بالکل نہیں سویا کیونکہ اۤپریشن فیصلہ کن مراحل میں تھا۔ فرنٹ لاأن پر لڑتے ہوئے حکمتِ عملی بنانا بھی اسی کی ذمہ داری تھی اور اسی وجہ سے اسے اۤرام کا بالکل وقت نہیں مل سکا تھا۔

وہ ان اۤفیسرز میں سے نہیں تھا جو بس پیچھے بیٹھ کر اپنے جوانوں کی کارکردگی کا جائزہ لیتے ہیں بلکہ وہ ان کے ساتھ خود میدانِ عمل میں اۤگے ہو کر لڑنے والا اۤفیسر تھا۔ اسی لیے اس کی یونٹ کے سبھی جوان نہ صرف اس کی دیوانہ وار تقلید کرتے بلکہ دل سے اس کی عزت بھی کرتے تھے۔ وہ بھی اپنی یونٹ کی سبھی جوانوں کی دل سے حوصلہ افزاء ی کرتا تھا۔ جہاں جہاں بھی اس نے دہشت گردوں کے صفاأے کا ذکر کیا، یہی کہا کہ امی میرے جوانوں کے بغیر یہ ممکن ہی نہیں تھا۔ اب وہاں سے ریکور ہونے والے اسلحہ کو آرگنائز اور ارینج کر کے میڈیا کے سامنے پیش کرنا بھی اس کی ذمہ داری تھی۔ میران شاہ کی کلئیرنس کے بعد وہاں سبھی میڈیا چینلز کوریج کے لیے جا رہے تھے۔ کئی ء ینکرز نے اس کا انٹرویو لینے پر بھی اصرار کیا لیکن چوں کہ انہیں اجازت نہیں تھی تو وہ سب سے معذرت کرتا رہا۔ میران شاہ کی کلئیرنس مجھ سے بات کرنے کے بعد اس نے اپنے ابو، دانی اور لویل سے بھی تفصیلی بات چیت کی۔ وہ اپنے بہن بھائیوں سے ایسے نارمل انداز میں بات اور مذاق کر رہا تھا کہ لگتا ہی نہ تھا کہ وہ کسی فوجی اۤپریشن پر گیا ہوا ہے بلکہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی پکنک پر ہے۔ اس دن اس نے کافی دیر بات کی اور پھر اگلے دن فون کرنے کا کہہ کر فون بند کر دیا۔ مجھے تب سے ہی اس کے اگلے فون کا انتظار شروع ہو گیا۔ میران شاہ کلئیر کروانے کے بعد انہیں چند دن کی چھٹیاں تھیں اس لیے وہ روز بات کر سکتا تھا۔ میرے لیے تو اب اس کی اۤواز سننا بھی غنیمت تھا۔
اگلا سارا دن اس کے فون کا انتظار کرتے گزرا۔ شام افطار کے بعد اس کی کال آئی۔ فون میں نے اٹھایا تھا۔ ایک دن پہلے پوچھے جانے والے سوال میں پھر سے پوچھنے لگی اور وہ مسکرا کر اپنا حال بتاتا رہا۔ میں نے تڑپ کر پوچھا، جو میں گزشتہ روز اس سے پوچھنا ہی بھول گئی تھی۔
”اۤکاش! تو سحری افطاری کیسے کرتا ہے؟”
”امی! یہاں کسی چیز کی کمی نہیں۔ ہمیں ہر وقت ہمارا سامان پہنچتا رہتا ہے۔ کبھی دیر سویر ہو بھی جائے تو سب کی ٹریننگ ایسی ہے کہ کئی گھنٹے بھی بھوک پیاس برداشت کر لیتے ہیں اور اپنے بیٹے کا تو اۤپ کو پتا ہی ہے۔ فقیر طبیعت کا ہے۔ مل جائے تو ڈٹ کر کھا لیا، نہ ملے تو پروا کوئی نہیں۔”
پھر ادھر اُدھر کی باتیں شروع ہو گئیں کہ اس نے پوچھا۔
”امی اۤپ لوگوں نے عید کی شاپنگ کر لی؟”
”کیسے کر لیں اۤکاش؟ یہاں دن رات تمہارے بغیر سکون سے نہیں کٹ رہے۔ عید اور اس کی شاپنگ کیسے کر لیں تمہارے بغیر؟”
”یہ کیا بات ہوئی امی؟ کل لویل نے بتایا کہ اس نے اپنی سالگرہ نہیں منائی کہ میں اۤپریشن پر ہوں۔ اۤج اۤپ کہہ رہی ہیں کہ عید نہیں کرنی کہ میں اۤپریشن پر ہوں۔ امی میں زندہ ہوں اور خیریت سے ہوں۔ بلکہ میں نے اۤپ کو بتانا تھا کہ شاید عید پر مجھے چند دنوں کی چھٹیاں ملیں تو میں عید اۤپ لوگوں کے ساتھ ہی کروں۔” وہ خفا خفا سا کہہ رہا تھا۔
”تم جھوٹ بول رہے ہو۔ تم نے تو کہا تھا جب تک اۤپریشن مکمل نہ ہو جائے تمہاری واپسی نہیں ہو گی۔ مجھے پتا ہے تم مجھے بہلا رہے ہو۔” میں نے یقین اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت میں کہا۔
”نہیں امی! میں بالکل سچ کہہ رہا ہوں ۔میران شاہ کلئیر کروانے کے بعد اب جب تک اگلے اۤرڈرز نہیں اۤجاتے، ہم یہاں فارغ ہی ہیں۔ اسی لیے کہہ رہا ہوں بلکہ میں نے تو اۤپ سے کہنا تھاکہ شاید وہاں اۤنے پر میرے پاس شاپنگ کا وقت بھی نہ ہو اس لیے میرے لیے بھی اچھی سی شاپنگ کر لیجء ے گا۔”
مجھے تو جیسے یقین ہی نہیں اۤیا کہ کاشی عید ہمارے ساتھ کرے گا۔ میں نے کئی طریقوں سے اسے ٹٹولنے کی کوشش کی کہ کہیں وہ جھوٹ تو نہیں بول رہا اور اس نے مجھے ہر طرح سے یقین دلوایا۔ پھر اگلے دن فون کرنے کا کہہ کر اس نے فون بند کر دیا۔ میں اگلے دن ہی اس کی کال سے پہلے جا کر اس کے لیے شاپنگ کر آئی۔ ساتھ اپنی بھی جتنی کر سکتی تھی کر لی کیوں کہ اس نے کہا تھا کہ اۤج وہ مجھ سے شاپنگ کے بارے میں پوچھے گا۔ میں ایک مرتبہ پھر اس کی کال کا انتظار کرنے لگی اور جونہی اس کا فون اۤیا، میں نے اسے بتایا کہ میں عید کے لیے اس کے لیے کیا کیا لائی ہوں۔ جب میں نے اسے سب بتا دیا تو اس نے پوچھا امی اپنے لیے کیا لائی ہیں؟ تو میں جو جو اس وقت لا سکی تھی وہ اسے بتا دیا۔ اپنی شاپنگ سے زیادہ میری شاپنگ کا سن کر وہ خوش ہوا تھا۔ پھر وہ وہاں کے حالات بتانا شروع ہو گیا۔ فون پر اس بارے میں وہ زیادہ بات نہیں کرتا تھا۔ وہ کہتا کہ امی ایسی باتیں فون پر نہیں کی جا سکتیں۔ جب میں واپس اۤؤں گا تو اۤپ کو یہاں کے تمام قصے کہانیاں سناؤں گا جو اۤپ یقین بھی نہیں کر سکتیں۔ لیکن یہ قصے کہانیاں مجھے اس سے پھر کبھی سننا نصیب نہیں ہوئیں بلکہ اس کے قصے بعد میں اس کے ساتھیوں نے سنائے۔ خیر اس وقت بھی وہ اگلے دن فون کا کہہ کر فون بند کر گیا۔
وہاں ایک ہی فون تھا جس پر تمام جوان شام کو اپنے اپنے گھروں میں بات کرتے تھے۔ اۤکاش سب سے اۤخر میں بات کرتا تاکہ تمام جوان تسلی سے اپنے گھر بات کر سکیں۔ اس سے اسے یہ فائدہ ہوتا کہ اسے تھوڑا زیادہ وقت مل جاتا۔
تیسرے دن پھر افطار کے بعد اس کا فون اۤیا۔ یہ اس کا فون اۤتے مسلسل تیسرا دن تھا۔ میں تب تمام کاموں سے فارغ ہو کر صرف اس کے فون کا انتظار کر رہی ہوتی۔ دن کاٹنا مشکل ہو جاتا تو دل کرتا اسے فون خود ہی کر لوں لیکن وہاں فون کرنے سے اس نے خود ہی منع کیا تھا۔ خیر شام میں اس کا فون اۤیا۔ وہ اۤواز سے زیادہ ہشاش بشاش لگ رہا تھا۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس نے وہاں جا کر داڑھی بھی رکھ لی ہے جس کی تصویریں وہ مجھے بھیجے گا۔
”کیا اۤکاش؟ تم نے داڑھی رکھ لی اور مجھے اب بتا رہے ہو؟ یعنی میرا وہ بیٹا جو بال بھی مجھ سے پوچھ کر کٹواتا تھا، اب تیسرے چوتھے روز مجھے یہ بات بتا رہا ہے؟”
”وہ امی! کرنے کے لیے اتنی ساری باتیں تھیں کہ مجھے یاد نہیں رہا۔” اس کا لہجہ معذرت خواہانہ تھا۔
”ارے وہ تو کوئی بات نہیں! مجھے جلدی اپنی تصویریں بھیجو تاکہ میں دیکھ تو سکوں کہ کیسا لگ رہا ہے میرا بیٹا۔”
”جی امی! ابھی بھیج رہا ہوں۔”
اس نے اسی وقت تصویریں بھیج دیں۔ ماشا اللہ وہ اب اور بھی وجیہہ لگ رہا تھا۔ میں نے اس کی خوب بلائیں لیں۔ پھر فون رکھتے وقت میں نے ایک مرتبہ پھر اسے یاددہانی کرواء ی کہ اس نے عید پر اۤنا ہے اور اس نے مسکرا کر ”جی امی” کہا۔ پھر فون بند کر دیا۔
اگلے روز میں اپنی امی سے ملنے ان کے گھر گئی ہوئی تھی۔ ان کی طبیعت نہیں ٹھیک تھی اور میں کافی دنوں سے وہاں جا بھی نہیں سکی تھی۔ میری غیرموجودگی میں گھر پر اۤکاش کا اۤخری فون اۤیا تھا۔ اۤفتاب صاحب اس وقت سو رہے تھے اور دانی گھر پر تھا نہیں تو صرف لویل کی اس سے بات ہوئی۔ لویل سے بات کرنے کے بعد اس نے میرا پوچھا تو لویل نے بتایا کہ میں نانی کے گھر گئی ہوئی ہوں۔ اس سے بات کرنے کے بعد اۤکاش نے مجھے امی کے نمبر پر فون کیا۔ مجھے خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ اس دن کاشی جلدی جلدی بات کر رہا تھا۔ اس کے لہجے میں ایک بے چینی تھی جو مجھے اس وقت محسوس نہ ہوئی۔ اس نے وہاں اپنی نانی اور ماموئوں سے بھی بات کی۔
”امی! یہ چند دن ہم اۤف تھے۔ ہو سکتا ہے جلد ہی ہمیں میرعلی یا شوال کے لیے نکلنا پڑے۔ اگر میرا فون نہ اۤیا تو اۤپ پریشان نہ ہونا۔ بس اپنا بہت خیال رکھیے گا۔ موقع ملا تو پھر بات ہو گی۔”
اس کے بعد اس نے مجھے اۤخری بار خداحافظ کہہ دیا۔ میرا دل بے چین ہونے لگا۔ مجھ سے اس کے بعد زیادہ دیر امی کی طرف بیٹھا نہیں گیا۔ میں تھوڑی دیر بعد وہاں سے گھر اۤگئی۔
”امی! اگر میرا فون نہ اۤئے تو پریشان نہ ہونا۔ بس اپنا بہت خیال رکھیے گا۔ موقع ملا تو پھر بات ہو گی۔”
یہی الفاظ میرے کانوں میں گونج رہے۔ وہ اضطراب جو مجھے اس وقت اس کے لہجے میں محسوس نہیں ہوا تھا، اب محسوس ہو رہا تھا۔ میری بے چینی بڑھ رہی تھی۔ ہاتھ بار بار فون کی طرف بڑھتا کہ اسے فون کر لوں۔ پھر اس کی ہدایت یاد اۤتی کہ وہاں فون نہیں کرنا تو ہاتھ واپس پلٹ جاتا۔ بے چینی زیادہ بڑھی تو میں مصلیٰ بچھا کر بیٹھ گئی۔ دل صرف ایک ہی دعا کر رہا تھا۔
”یااللہ! میرے بچے کی حفاظت فرما۔”
کافی دیر میں اسی حالت میں بیٹھی اللہ سے اس کی سلامتی کی دعائیں مانگتی رہی۔ پھر اٹھ کر بستر پر اۤگئی اور میری اۤنکھ لگ گئی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!