ماں کا آکاش

تم زندہ ہو!

آکا ش آفتاب ربانی 2002ء میں ایبٹ آباد پبلک سکول کے انٹری ٹیسٹ میں رول نمبر A-184-7کے تحت بیٹھا۔ جب اسے داخلہ ملا تو اسے PF-5493پر نسپل فائل نمبر الاٹ کیا گیا۔ اس کے داخلہ فارم پر اس کی تاریخ پیدائش 2اکتو بر 1990لکھی ہے۔ اس نے اسی سکول کے کالج سے ایف ایس سی کی ہے۔ وہ ایک اچھا، مؤ دب ذی شعور طالب علم تھا۔ میں نے اسے ہفتم گرین میں اردو پڑھا ئی تھی۔ وہ کلاس میں ایک با تونی اور شر ارتی لڑکا تھا۔ مگر اس نے کبھی بھی بدتمیزی اور بد تہذیبی کا بر تاؤ نہیں کیا۔ اس کے تمام اساتذہ اس سے خاص انس رکھتے تھے۔ ہاؤ س میں بھی اس کا برتاؤ بہت ملنسار تھا۔ وہ خوش گپیو ں کا رسیا، حاضر جواب، لطیفو ں میں سے لطیفے نکالنے والا اور دوستوں کے ساتھ بال کی کھال اُتار کر ان کو زچ کر نے والا انسان تھا۔ اس کے دوست، اس کے سینئرز اور جونیئرز سب اس کو بہت پسند کرتے تھے۔ وہ سب کادھیان رکھنے والا، کام آنے والا اور مخلص بچہ تھا۔
میں جب نشر ہاؤ س میں اپنی ڈیوٹی پر جا تا ہوں تو آکاش کی شرارتوں سے ملا قات ہوتی ہے۔ اس کی یادیں سوئمنگ پول اکیڈیمک بلا ک کے برآمدوں کے پھسلن والے فرشوں پر اس کا دوڑ کر کھڑے کھڑے پھسلنا آج بھی یاد آتا ہے۔واٹر کولر کے پچھواڑے یہ منظر آج بھی جما ہے کہ اس نے آدھا بھرا ہواگلاس اپنے ہم جما عت پر پھینک کر اتنا زوردار قہقہہ لگایا کہ میں نے اسے آلیا تھا۔ اسمبلی ہا ل میں دیوار پر داہنا پاؤں ٹکاکر سرگوشیاں کرنا اس کا محبوب مشغلہ تھا۔ ہاکی فیلڈ میں اس کا کودنا، دوڑنا، بھاگنا، پھدکنا،گرنا اور سنبھلنا اب بھی سبز گھاس کے پاس امانت کے طور پر رکھا ہوا ہے۔
پڑھائی میں وہ بہت پڑھاکو اور کتابی کیڑا نہیں تھا مگر بہت ذہین ہونے کی وجہ سے اچھے سکور لیتا تھا۔ وہ اپنے کام وقت پر کر تا تھا۔ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا۔ وہ ایک نفیس اور باحوصلہ کھلاڑی تھا۔ کرکٹ، فٹ بال، باسکٹ بال کے علاوہ سوئمنگ میں بھی امتیازی مقام رکھتا تھا۔ یوں کہوں کہ آکاش سکو ل اور ہاؤس دونوں جگہوں پر ایک فعال اور ذمہ دار طالب علم تھاتوغلط نہ ہوگا۔آکاش کو جتنا بھی یاد کر یں، کم ہے۔
وہ ایک سنہری باب ہے۔ اس کی شہادت کے بعد سکول نے ایک سڑک کو اس کے نام منسوب کیا ہے۔آل پاکستان آکاش شہید لسانی مقابلہ تقریر بھی اسکو یاد کرنے کابہانہ ہے۔ اس کے والدین نے مستحق بچوں کے لیے ایک سکالر شپ کا آغاز ”آکاش“ کے نام پر کیاہواہے۔تبھی تو میں کہتاہوں وہ کہیں دور نہیں گیا۔ وہ کہیں بھی نہیں گیا۔وہ ہم اساتذہ کے ہونٹوں پر زندہ ہے اور رہے گا۔
انشاء اللہ آکاش!تم زندہ ہو ہم جانتے ہیں یہ اور مانتے ہیں کہ تم زندہ ہو اور زندہ رہوگے۔
عادل سعید
٭……٭……٭


کیپٹن آکاش آکاش کی بلندیوں پر پہنچ کر ہمیں دیکھ رہا ہے

ہمارے معاشرے میں جہاں ملک دشمن عناصر جابجا موجود ہیں، وہیں ملک پر جان لٹانے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے۔ اچھے اچھے خاندانوں سے تعلق رکھنے والے نوجوان بھی اس ملک پر اپنی جان قربان کرچکے ہیں جہاں مال ومتاع گھر کی باندی ہوتی ہے اور ہر قسم کا عیش وعشرت انہیں میسر ہوتا ہے مگر اس کے باوجود جب جوان اپنے وطن پر قربان ہونے کا جذبہ لے کر میدان میں اترتے ہیں تو وہ چٹان بن جاتے ہیں۔ ایسا ہی ایک نوجوان کیپٹن آکاش بھی تھا جو میرے بھانجے سے بڑھ کر دوست اور بیٹے سے بڑھ کر تھا۔ اس کلاس کے بچوں کے خواب جہاں پر آسائش زندگی اور آسان اور بہترین کیرئیر ہوتا ہے، وہاں آکاش کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے ملک کی طرف اُٹھنے والی ہر میلی آنکھ نکال کر رکھ دے اور اللہ اسے اس کام کے صلے میں شہادت نصیب کرے۔
میرا تعلق بھی محکمہ پولیس سے ہے جہاں ہمیں بھی دشمنوں کے خلاف کارروائیاں کرنی پڑتی ہیں لیکن چھوٹی سی عمر میں ہی اس کے اتنے پختہ ارادوں سے میں بھی اکثر خوف محسوس کرنے لگتا۔ ہاتھوں میں کھیلا آکاش آرمی جوائن کرنے کے بعد میرے اور بھی قریب ہوگیا۔ اس کا عزم اس کی آنکھوں سے جھلکنا شروع ہوگیا۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کے مقصد نے اسے تارکِ دنیا بنا دیا تھا۔ نہیں! بلکہ وہ تو ہر محفل کی جان ہوا کرتا تھا۔ جہاں جاتا، ہنسی مسکراہٹیں بکھیر دیتا۔ بچوں کے ساتھ بچہ بن جاتا اور جہاں کہیں کسی کو اس کی ضرورت محسوس ہوتی تو فوراً ایک برباد، سلجھا ہوا اور عقل مند آکاش بن جاتا۔ نہ جانے کتنی پرتیں چڑھائی ہوئی تھیں اس نے خود پر۔ اب بھی سوچتا ہوں تو حیران رہ جاتا ہوں۔ اب یہ گمان ہوتا ہے کہ محنت اور شوق اپنی جگہ، لیکن آکاش جیسے دلیر اور بہادر سپاہی پیدائشی ہی ہوتے ہیں۔ ڈرنا جن کی سر شت میں نہیں ہوتا اور خوف جنہیں چھو کر نہیں گزرا ہوتا۔ دلیری ایسی کہ کبھی بلٹ پروف جیکٹ تک نہیں پہنی اور ایمان کئیہ عالم کہ کہتا ماموں جان، جو گولی تقدیر میں لکھی ہے، اسے بلب پروف جیکٹ بھی نہیں روک سکتی۔
جس کم عمری میں آکاش نے بہادری سے لڑتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا، میں اس کے ماں باپ کو ایسے جواں دل اور شیر بیٹے کی تربیت پر مبارک باد دیتا ہوں۔ چونکہ موت تو اٹل حقیقت ہے اور ایک دن سب کو آنی ہی ہے، لیکن جس طرح آکاش اس دنیا سے گیا، وہ ہر کسی کا نصیب نہیں ہوتا۔
مجھے یقین ہے کہ آکاش، آکاش کی بلندیوں سے ہمیں ضرور دیکھ رہا ہوگا اور کہہ رہا ہو گا کہ میں آپ لوگوں کے آس پاس ہی ہوں اور یہی حقیقت ہے۔ ہم آج بھی اسے محسوس کرتے ہیں۔ میں جب بھی اس کی بہادری کے قصے سینہ چوڑا کرکے سنا رہا ہوتا ہوں تو مجھے محسوس ہوتا ہے کہ وہ مسکرا کر مجھے دیکھ رہا ہے۔

نثار احمد خان تنولی
ماموں،کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!