ماں کا آکاش

شہادت

اگلے دن،15 جولائی کو وہ سورج طلوع ہوا جو میرے اختیار میں ہوتا تو شا ید میں طلوع ہونے ہی نہ دیتی۔ صحیح کہتے ہیں، اولاد کا نصیب لکھنے کا اختیار ماں کے پاس ہونا چاہیے۔ لیکن قدرت کے کاموں میں کسے دخل ہے۔ دن کا اۤغاز تو معمول کے مطابق ہوا تھا لیکن ہر گزرتا لمحہ بے چینی بڑھاأے جا رہا تھا۔ منہ سے بار بار ”اۤکاش” کا نام نکل رہا تھا۔ دو ا یک راتوں سے کچھ عجیب و غریب خواب بھی اۤرہے تھے لیکن میں انہیں اپنا وہم سمجھ کر جھٹکے جا رہی تھی۔ اسی اثناءمیں ظہر کا وقت ہو گیا۔ میں نے نماز پڑھنا شروع کی۔ ابھی پہلے رکوع کے لیے جھکی ہی تھی کہ دماغ بھک سے اڑ گیا۔ اۤنکھوں کے سامنے اۤکاش کا چہرہ گھوم گیا، کفن میں لپٹا ہوا۔ یہ میں نے کیا دیکھا۔ میں ایسا سوچ بھی کیسی سکتی ہوں۔ اۤنکھوں کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔ بمشکل نماز مکمل کی اور وہیں مصلیٰ پر بیٹھ گئی۔ دماغ پر اندھیرا چھا یا ہوا تھا اور دل مختلف اندیشوں میں گھرا ہوا تھا۔ کافی دیر مصلے پر بیٹھے رہنے کے بعد جب حالت ذرا سنبھلی تو اٹھی اور کام کاج کی طرف بڑھی۔ کچھ ٹھیک سے نہیں ہو رہا تھا اس دن مجھ سے۔
عصر کی نماز کے بعد دانی اپنے دوستوں کے ساتھ افطار کے لیے باہر چلا گیا۔ اۤج اس نے باہر دوستوں کے ساتھ افطار کرنا تھی جبکہ میں افطاری کی تیاری کے لیے کچن میں اۤگئی۔ میں کچن میں ہی تھی کہ اۤکاش کے NCB سراج کا بھائی گھر اۤیا۔ اس نے ڈرائیور سے کہہ کر مجھے باہر بلوا یا۔ میں باہر گئی اور اس کے اۤنے کی بابت دریافت کیا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے اۤثار تھے۔ کہنے لگا کہ سراج کا دو دن سے فون نہیں اۤیا اسی لیے پریشان ہوں۔ میں نے اسے تسلی دی کہ میری اۤکاش سے کل بات ہوئی ہے۔ وہ سب خیریت سے ہیں تم بے فکر رہو۔ لیکن اس کی حالت بدستور ویسے کی ویسی ہی تھی۔ اس کا چہرہ مجھے الجھا رہا تھا۔ دل پہلے ہی پریشان تھا میرا۔ میں نے پھر پوچھا کہ کیا پریشانی ہے تو اس نے کہا کہ اۤپ ڈاکٹر صاحب کو بلا دیں۔ کوئی گھریلو مسئلہ ہے جو ان سے دریافت کرنا ہے۔ میں اۤفتاب صاحب کے کمرے میں اۤگئی اور انہیں اس کے اۤنے کا بتا یا۔ اۤفتاب صاحب اٹھ کر باہر چلے گئے جبکہ میں نے کچن کا رخ کیا۔ میرا دل کہہ رہا تھا کہ کچھ ہے جو مجھ سے چھپا یا جا رہا ہے کیوں کہ سراج کا بھائی پہلے بھی اۤفتاب سے گھریلو مسائل ڈسکس کر لیا کرتا تھا لیکن اس کا اتنا پریشان چہرہ میں نے اۤج پہلی مرتبہ دیکھا تھا۔ میں کچھ دیر کچن میں کام کرنے کی کوشش کرتی رہی لیکن میرا دھیان کام میں لگ ہی نہیں رہا تھا۔ پھر میرے قدم باہر کی جانب اٹھنے لگے جہاں اۤفتاب صاحب اور سراج کا بھائی باتیں کر رہے تھے۔ باہر جاتے ہوئے پہلے میری نظر براۤمدے میں کھڑے ڈرائیور پر پڑی جو مجھے دیکھ کر اپنے چہرے کے تاثرات تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں جلدی سے اۤفتاب صاحب کے پاس پہنچی۔ وہ کرسی پر بے بسی کی تصویر بنے، زمین پر نظریں گاڑے بیٹھے تھے۔ میں نے قریب جا کر انہیں مخاطب کیا۔ انہوں نے گردن اٹھا کر میری طرف اپنا چہرہ کیا تو برسوں کی تکان ان کے چہرے سے عیاں تھی۔ وہ یکدم برسوں کے بیمار لگ رہے تھے۔ اس وقت ان کی اۤنکھوں میں جو کرب تھا، میں وہ بیان نہیں کر سکتی۔ قریب تھا کہ اپنے حواسوں سے بیگانہ ہو جاتی کہ میرے پیچھے کھڑی لویل نے مجھے پکڑ کر دلاسہ دیا۔
”لویل کیا ہوا ہے؟ تم سب اس طرح کیوں بیٹھے ہو بتاأو مجھے میرا دل پھٹ جائے گا ورنہ۔” میں وہاں سراج کے بھائی کی موجودگی سے بے پروا دھاڑی تھی۔
”کچھ نہیں ہوا امی! بس کاشی کی یونٹ پر کچھ دہشتگردوں نے حملہ کیا ہے۔ اس کے بعد وہاں رابطہ نہیں ہوا۔ اۤپ بس اس کے لیے دعا کریں۔” لویل نے کمال ضبط سے مجھے سنبھالتے ہوئے کہا۔
”اے میرے مولا! میرا بچہ۔ اے میرے مالک! میرا اۤکاش! اسے کچھ ہو گیا تو میں جیتے جی مر جاؤں گی میرے مالک۔ میری عمر اسے لگا دے لیکن میرے بچے کو کچھ نہ ہونے دینا مالک!” میں وہیں ڈھے سی گئی تھی۔ وہیں پر ہی سجدے میں پڑی میں گڑگڑا کر اللہ سے اس کی سلامتی مانگ رہی تھی، اس بات سے بے بہرہ کہ وہ مکان لا مکان کی حدود سے اۤگے سفر کر چکا ہے۔
اتنی دیر میں دانی بھی گھر اۤگیا اور چپ چاپ اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ مجھے یہ خاموشی اب کاٹنے کو دوڑ رہی تھی۔ میں وہاں سے نکل کر اپنے کمرے کی طرف جا رہی تھی کہ اتمامِ حجت ہوئی۔ میرے کانوں نے جو اۤخری اۤواز سنی، وہ اۤفتاب صاحب کی تھی جو فون پر کسی سے پوچھ رہے تھے۔
”ہمیں اۤکاش کی باڈی کب ملے گی؟”
۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔

15 جولائی کی شام 5 بجے کے بعد دو کمانڈوز وردی میں ملبوس گھر اۤئے تھے۔ گھر پر اس وقت کیوں کہ صرف میں اور لویل تھیں اس لیے وہ دروازے پر گئی اور باہر دو کمانڈوز کو دیکھ کر کچھ پریشان ہو گئی۔ انہوں نے باری باری اۤفتاب صاحب اور دانش کا پوچھا جس پر لویل نے انہیں بتا یا کہ وہ دونوں گھر پر نہیں ہیں۔ اۤپ کو کوئی کام ہے تو اۤپ مجھے بتا دیجیے۔ لیکن وہ لویل سے کوئی بھی بات کیے بغیر چلے گئے کہ انہیں ان سے ہی کام ہے۔ کچھ دیر بعد اۤفتاب صاحب گھر اۤئے تو سیدھا جاکر اپنے کمرے میں سو گئے۔ چوں کہ روزے چل رہے تھے اس لیے انہوں نے کھانا نہیں کھانا تھا تو لویل کو بھی انہیں بتانے کا موقع نہ ملا۔ پھر جب وہ سوئے ہوئے تھے تو سراج کا بھائی اۤ گیا اور باقی کی کہانی میرے سامنے تھی۔ اۤفتاب صاحب کے جب حواس بحال ہوئے تھے تو انہوں نے مجھے بتا یا تھا کہ جب وہ اپنے کمرے میں سونے سے پہلے ٹی وی دیکھ رہے تھے، اس وقت میر علی میں ا یک کیپٹن اور ا یک جوان کی شہادت کی خبر چل رہی تھی۔ ان کا دھیان اۤکاش کی طرف اس لیے نہیں گیا تھا کیوں کہ ان کی اطلاعات کے مطابق وہ میران شاہ میں تھا جب کہ شہادتیں میرعلی کے مقام پر ہوئی تھیں۔ اس وقت مجھے یاد اۤیا کہ اۤکاش نے مجھے میرعلی جانے کے بارے میں بتا یا تھا۔ مجھے سب گھر والوں کو یہ بات بتانی چاہیے تھی لیکن مجھے موقع ہی نہیں مل سکا تھا۔
ادھر دانی جو اپنے دوستوں کے ساتھ افطار کرنے گیا تھا، لویل نے اسے فون کر کے جلدی گھر اۤنے کا کہا اور اسے بتا یا کہ اۤکاش کی یونٹ کے ساتھ کچھ مسئلہ ہوا ہے اور امی ابو دونوں بہت پریشان ہیں۔ وہ جلد از جلد گھر پہنچے۔ بقول دانی کے وہ سمجھ گیا تھا کہ مسئلہ اۤکاش کی یونٹ کا نہیں بلکہ اۤکاش کا ہے اور لویل اس سے بھی چھپا رہی ہے۔ اس سے اۤگے اس سے بھی نہ سوچا گیا۔ وہ اسی وقت گھر کے لیے روانہ ہو گیا۔ اس کے دوستوں نے بھی اس کے ساتھ اۤنے کا کہا لیکن چوں کہ دانش خود ابھی غیر یقینی کی صورتحال میں تھا، اس لیے اس نے انہیں فی الحال وہیں رکنے کا کہا اور خود گھر اۤگیا۔
کچھ ہی دیر میں یہ خبر ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر گردش کرنے لگی تو تمام عزیز و اقارب کو بھی اس متعلق پتا چل گیا۔ فون کالز کا ا یک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہو گیا جسے لویل نے ہی سنبھالا۔ ابھی وہ خود بچی تھی لیکن اس نے کمال ضبط کا مظاہرہ کیا جبکہ مجھے تو اپنی ہوش نہیں تھی۔ جب تک دانی گھر نہ اۤیا، اۤفتاب صاحب بھی خود پر ضبط کیے رہے لیکن جوں ہی ان کی نظر دانی پر پڑی، تمام بند ٹوٹ گئے۔ اۤفتاب صاحب دانش کے گلے لگ کر جو روئے، ہر دیکھنے والی اۤنکھ نم ہو گئی۔ ا یک باپ اپنے جوان بیٹے کا دکھ دوسرے بیٹے کے کندھوں پر ہلکا کر رہا تھا۔ اۤج سے پہلے میں نے اۤفتاب صاحب کو کبھی اتنا بے بس نہیں دیکھا تھا۔ سچ ہے، جوان اولاد باپ کا کندھا ہوتی ہے۔ ا یک کندھا ان سے جدا ہو چکا تھا۔ اب باقی ماندہ بوجھ دوسرے کندھے نے ہی اٹھانا تھا۔
پہلے جو بس اۤس پاس کے چند لوگ گھر اۤئے تھے، کچھ ہی دیر میں وہاں لوگوں کا جمِ غفیر جمع ہو گیا۔ میں اپنے حواس سے بیگانہ ہو کر کہیں بت بنی بیٹھی تھی۔ اۤکاش کا جسدِ خاکی اگلے روز یہاں منتقل ہونا تھا۔ اس کی تدفین اۤرمی قبرستان میں ہونی تھی جس کا سارا انتظام اۤرمی خود کر رہی تھی۔
اگلے روز اۤکاش کا جسدِ خاکی بذریعہ ہیلی کاپٹر منتقل کر دیا گیا۔ اۤکاش کے کچھ بیج میٹس، دوست اور اس کا NCB بھی ساتھ تھے۔ ہیلی کاپٹر سے اسے ا یمبولینس کے ذریعہ گھر منتقل کیا گیا۔
اس دن گھر میں تل دھرنے کی جگہ نہیں تھی۔ گھر کے اندر اور باہر لوگ جمع ہو گئے تھے۔ ہمارے گھر سے ملحقہ گھر جو کہ اۤکاش کے ماموں کا ہے، وہاں مردوں کے بیٹھنے کا انتظام کیا گیا جبکہ گاڑیوں کی پارکنگ کے لیے گھر کے سامنے واٹر انجینا ر والوں کے دفتر کی دیوار توڑ کر جگہ بنائی گئی۔ اس کے باوجود کالونی اور باہر کی سڑکیں گاڑیوں سے بھر گئی تھیں۔ پھر پولیس اور اۤرمی والوں نے گاڑیاں وہاں سے ہٹا کر مین روڈ پر کھڑی کرنے کا کہا جس سے کچھ راستہ بنا۔ اۤرمی تو پہلے ہی انتظام سنبھال چکی تھی، ان کی معاونت کو پولیس بھی وہاں اۤگئی۔
دوسری طرف گھر کے اندر اور باہر لوگوں کا تانتا بندھا ہوا تھا۔ کوئی اۤکاش کے لیے افسوس کر رہا تھا تو کوئی اس کی شہادت پر مبارکباد دے رہا تھا۔ میں صرف اۤکاش کے تابوت کے ساتھ لگی بیٹھی تھی۔ لویل میرے ساتھ ہی تھی۔ دوسری طرف اۤرمی کے جوان وہاں اۤکاش کو دیکھنے اۤنے والوں کو منظم کا ے ہوئے تھے تاکہ سب کو بلاتامل اۤکاش کے اۤخری دیدار کا موقع مل سکے۔
اس کا جسد خاکی صبح نو بجے گھر لا یا گیا تھا۔ تین گھنٹے بعد اسے اس گھر سے ہمیشہ کے لیے لے جا یا جا رہا تھا۔ اس کا جنازہ اٹھا تو اتنی اۤہ و بکا تھی کہ کان پڑی اۤواز سنائی نہ دیتی تھی۔ میرا دل بھی تھا کہ میں دھاڑے مار مار کر اپنے لعل کو روئوں۔ اپنی گود اجڑ جانے پر ماتم کروں اور بین کر کر کے دنیا والوں کو بتاأوں کہ میں نے کیا کھو دیا ہے اۤج۔ لیکن پتا نہیں مجھ میں اس وقت اتنا ضبط کہاں سے اۤگیا تھا کہ میں یہ سب نہ کر سکی۔ شا ید شہیدوں کی ماؤں کو یہ ضبط بھی قدرت عطا کرتی ہے۔ میں سارا وقت بس اس کا چہرہ اپنی یادداشت میں محفوظ کر رہی تھی تاکہ باقی ماندہ زندگی گزارنے کا سامان کر سکوں۔ وہ جو اس گھر کی رونق تھا، جس سے اس گھر کے درودیوار چہکتے تھے، وہ جس کی عدم موجودگی میں اس گھر کی ہر چیز کو ساا یں ساا یں کرتے میں نے خود محسوس کیا ہے، وہ ان تمام چیزوں، تمام یادوں اور تمام باتوں کو چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے جا رہا تھا اور میری بے بسی کا اندازہ کیجیے، میں اسے روک بھی نہیں سکتی تھی۔یہاں اس کا جنازہ اٹھا کر باہر لے جا یا گیا، وہاں میرے ضبط کے سبھی بندھن ٹوٹ گئے۔ میں جو اب تک ا یک شہید کی ماں ہونے کا مظاہرہ کر رہی تھی، مامتا کے ہاتھوں بے بس ہو گئی۔ میرا اۤکاش مجھے ہمیشہ کے لیے چھوڑ کر جا چکا تھا۔ اۤہ! ساری دنیا کا دکھ اس وقت میرے سینے پر رکھ دیا جاتا تو بھی شا ید میں برداشت کر لیتی۔ لیکن دکھ اس سے بڑا تھا۔ مجھے چھوڑ کر جانے والا کوئی اور نہیں، میرا اۤکاش تھا۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ میں زندہ کیسے رہ گئی۔ میری سانسیں اس کے جانے سے چلی کیوں نہ گئیں۔ میں جو اب تک کمال ضبط کا مظاہرہ کیے بیٹھی تھی، دھاڑیں مار مار کر رو دی۔ میرے ساتھ رونے والی اۤکاش کی ہمراز، اس کی دوستوں جیسی بہن لویل تھی۔ کچھ قریبی رشتہ دار خواتین مجھے حوصلہ دینے کے لیے اۤگے بڑھیں لیکن لویل نے انہیں روک دیا کہ میں اب بھی نہ روتی تو شا ید مر جاتی۔ وہ دکھ جو میں اتنے صبر سے اب تک چپ کر کے چھپائے بیٹھی تھی، وہ اب بھی ہلکا نہ ہوتا تو جان لیوا ہوتا۔ میں ناجانے کب تک اسے روتی رہی، مجھے اندازہ نہ ہوا۔

باہر اگر انتظام فوج اور پولیس نے نہ سنبھالا ہوتا تو بڑی پریشانی ہو جاتی۔ اۤکاش کا جنازہ قبرستان لے جانے کے لیے باہر لے جا یا گیا تو اۤرمی او رپولیس نے ٹریفک بند کروا دی۔ روڈ کے دونوں اطراف میں عوام کھڑے اس پُروقار جنازے کو جاتا دیکھ رہے تھے۔ اۤکاش کی نمازِ جنازہ ا یف ا یف گراؤنڈ میں ہونا تھی جہاں اۤرمی کے جوان انتظامات پہلے ہی مکمل کر چکے تھے۔ اس وقت گراؤنڈ میں صرف انسانی سر نظر اۤرہے تھے جو اللہ کے اس مجاہد کو رخصت کرنے اۤئے ہوئے تھے۔ جتنے لوگ وہاں موجود تھے، اس سے زیادہ لوگ ٹریفک میں پھنسنے کی وجہ سے پہنچ نہیں پائے تھے جس پر وہ افسردہ تھے۔ نہ صرف مقامی افراد بلکہ اسلام اۤباد، پشاور، لاہور، مانسہرہ، اوگی، بٹگرام اور جانے کہاں کہاں سے لوگ اس کے جنازے میں شرکت کے لیے اۤئے ہوئے تھے۔ ا یبٹ اۤباد نے اتنا بڑا جنازہ پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اس موقع پر وہاں موجود لوگوں نے ا یک بات اور نوٹ کی اور تقریباً سبھی نے کی۔ اس دن گرمی زیادہ تھی۔ لیکن ا یف ا یف گراؤنڈ میں جہاں اۤکاش کا جنازہ پڑھا یا جا رہا تھا، وہاں بادل چھا گئے تھے اور ہلکی ہلکی پھوار پڑنا شروع ہو گئی تھی جبکہ باقی سارے گراؤنڈ میں دھوپ ویسے ہی تھی۔ یہ معجزہ بھی شا ید اللہ نے اپنے شہید کے لیے دکھانا تھا۔
اۤکاش کے جنازے میں اس کے یونٹ کے سٹیشن کمانڈنٹ اور سیاسی شخصیات بھی شرکت کے لیے اآئی تھیں۔ جنازے کے بعد اۤکاش کا تابوت دوبارہ ا یمبولینس میں ڈال کر قبرستان لے جا یا گیا۔ اس وقت اۤکاش کے ساتھ اس کے ابو بھی تھے۔ وہ بار بار صرف اۤکاش کا چہرہ دیکھ رہے تھے کہ جیسے اسے ہمیشہ کے لیے نظروں میں محفوظ کرنا چاہ رہے ہوں۔ اب وہ رو نہیں رہے تھے۔ شہید کے باپ کو اللہ نے صبر دے دیا تھا۔ دانش اس وقت سوچ رہا تھا اۤکاش کتنی بڑی ذمہ داری تنہا اس کے کندھوں پر چھوڑ گیا ہے۔ اب وہ کیسے ہم دونوں کو سنبھالے گا۔ لیکن حقیقت ہے، وقت سب سے بڑا مرہم ہے۔ قبرستان لے جا کر اس کا جسدِ خاکی ا یمبولینس سے اتارا گیا۔ وہاں بھی لوگوں کا ا یک جمِ غفیر اس کے اۤخری دیدار کے لیے قطار در قطار اۤرہا تھا۔ یہاں بھی سارا انتظام فوج نے خود سنبھالا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد قریبی رشتہ داروں اور میڈیا کے نمائندوں کے علاوہ باقی سب کو باہر نکال دیا گیا۔ اس کی اۤخری رسومات کی ادائیگی اور دیدار کے لیے مجھے بھی وہاں بلا لیا گیا تھا۔ وہیں ا یمبولینس میں مجھے اس کا اۤخری دیدار کروا یا گیا۔
کیا نور تھا اس کے چہرے پر اس وقت کن الفاظ میں بیان کروں۔ داڑھی سے سجا پرسکون چہرہ اور اس پر ثبت ا یک مانوس سی مسکراہٹ۔ مجھے لگ ہی نہیں رہا تھا کہ اسے یہاں اۤخری رسومات کے لیے لا یا گیا ہے۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ میٹھی سی نیند سو رہا ہو اور کوئی خوبصورت سا خواب دیکھ کر مسکرا رہا ہو۔ اس کے ماتھے پر بندھی پٹی ابھی بھی اس کی تروتازگی کا ثبوت دے رہی تھی۔ اس وقت اسے کوئی بھی دیکھتا تو یقین نہ کر سکتا کہ یہ کوئی تئیس سال کا نوجوان ہے بلکہ وہ مردِ مجاہد اس وقت کوئی وجیہہ اور بارعب مرد لگ رہا تھا۔ میں بس اس کے چہرے اور جسم پر ہاتھ پھیرتے اور اس کے چہرے کے بوسے لیتی اپنی مامتا کی تسکین کرتی رہی۔ جن قریبی رشتہ دار خواتین نے بھی اسے اس وقت دیکھا، ان کے منہ سے بھی بے اختیار سبحان اللہ نکلا۔
پھر اس کا جسدِ خاکی ا یمبولینس سے اتارا گیا اور پاک فوج کے چاق و چوبند دستے نے اسے سلامی پیش کی۔ اۤکاش کی رخصتی کئیہ منظر اس وقت میڈیا کے توسط سے ساری دنیا میں دکھا یا جا رہا تھا۔ اس کے بعد PMA کے کمانڈنٹ میجر جنرل نذیر بٹ نے مجھے اۤکاش کی SSG کی وردی اور ٹوپی پیش کی۔ ساتھ سبز ہلالی پرچم اور اس کے میڈلز بھی تھے۔
”امی! جب میں بھی شہید ہوں گا تو میری بھی وردی اور جھنڈا اۤپ کو ا یسے ہی پیش کیا جائے گا۔”
اس کے الفاظ پھر سے میرے کانوں میں گونجنے لگے۔ میری اۤنکھوں سے اۤنسو لڑھک کر گال پر بہہ گئے۔ جو اۤنسو اۤج تک اس کے لیے نکلے تھے، اب اس کی وجہ سے نکل رہے تھے لیکن انہیں پونچھنے والا اب ہمیشہ کی نیند سو چکا تھا۔
فوج کی مختلف یونٹوں کی جانب سے اس کی قبر پر پھولوں کی چادریں چڑھائی گئیں۔ یہ چادریں اتنی زیادہ تھیں کہ اس کی قبر پوری طرح ڈھک گئی۔
تمام ٹی وی چینلز پر یہ ساری کاروائی لائیو دکھائی جا رہی تھی۔ میڈیا کے نمائندگان نے میرے، اۤفتاب صاحب اور دانش کے تاثرات بھی لیے تھے جو ٹی وی پر چلائے گئے۔ اس کی وردی اور جھنڈا میرے حوالے کیے جانے والا کلپ بار بار دکھا یا جا رہا تھا۔ ہم لوگ کافی دیر تک وہیں اۤکاش کی قبر پر رہے۔
”اۤکاش کی قبر” لکھتے وقت اۤج بھی میرا قلم کتنا بھاری ہو رہا ہے، یہ بات وہی ماں جان سکتی ہے جس نے اپنا جوان جان بیٹا کھویا ہو۔ اب یہی اۤکاش کی مستقل اۤرام گاہ ہے۔ میں کافی دیر اپنے بیٹے کے پاس بیٹھی رہی۔ لیکن اۤخرکار گھر تو جانا ہی تھا کیوں کہ وہاں تعزیت کے لیے اۤنے والوں کا ا یک تانتا بندھا ہوا تھا۔
گھر میں ہر طرف گہما گہمی تھی۔ لیکن میرے لیے اب وہ گھر سنسان ہو چکا تھا۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رُت ہی بدل گئی
اِک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا
وہ ہر اۤنکھ نم کر گیا تھا۔ شہید ہونے والا کوئی بزرگ نہیں، تئیس سالہ وہ جواں عمر لڑکا تھا جس نے ابھی جوانی کی دہلیز پر ٹھیک سے قدم رکھا ہی نہ تھا۔ اس نے وعدہ کیا تھا وہ گھر اۤئے گا۔ اس نے وعدہ پورا بھی کیا۔ وہ گھر اۤیا تھا، لیکن کسی اور کے کندھوں پر۔ اس مرتبہ ہمیشہ ہمیشہ جانے کے لیے۔ وہ جو کہتا تھا کہ اب گھر اۤئے گا تو پوچھے گا کہ ڈاڑھی میں کیسا لگتا ہے تو اس کی ماں اسے چیخ چیخ کر اتنے بتا رہی تھی کہ وہ داڑھی میں بہت ہی خوبصورت لگ رہا ہے۔ لیکن وہ سن ہی نہیں رہا تھا۔ کبھی جو نیند میں بھی ماں کی ہلکی سی اۤواز پر بے چین ہوکر اٹھ جاتا تھا، اۤج اپنی ماں کی مسلسل گریہ زاری اور چیخ و پکار پر بھی نہ اٹھا تھا۔ یہ چیخ و پکار پہلے التجا اور پھر سرگوشیوں میں تبدیل ہوئی، لیکن وہ نہ اٹھا۔ ہاں! اٹھا یا گیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے یہاں سے جانے کے لیے۔
وزیرستان اب ا یک پرامن علاقہ بن چکا ہے۔ وہ علاقہ جس کی وجہ سے پاکستان دشمن قوتیں، پاکستان کو اقوامِ عالم کے لیے خطرہ قرار دے کر پوری دنیا سے اس پر حملے کا مطالبہ کرتی تھیں، افواجِ پاکستان کی لازوال قربانیوں کی وجہ سے اب امن و سلامتی کا گہوارہ بن چکا ہے۔ اۤرمی کے اتنے اۤفیسرز اور جوان اب تک براہِ راست جنگوں میں شہید نہیں ہوئے جتنے ان اۤپریشنز کے دوران ہوئے۔ جنہوں نے یہ نہیں سوچا کہ ان کے بغیر ان کا خاندان کیسے جیے گا۔ ان کے بیوی بچے کیسے ا یک شوہر اور باپ کے بغیر دنیا کی دھوپ چھاأوں کا مقابلہ کریں گے۔ کیسے ان کی ماا یں راتوں کو سو پاا یں گی۔ کیسے ان کی بہنوں کا ہر تہوار ان کے بھائیوں کی یاد میں گزرا کرے گا۔ کیسے ان کا با پ ان کی جوان لاشیں اپنے بوڑھے ناتواں کندھوں پہ اٹھاأے گا اور کیسے ان کے بھائی ان کے بغیر اپنی زندگیاں گزاریں گے۔ انہوں نے کچھ سوچا تو یہ کہ وہ رہیں یا نہ رہیں، ان کا وطن رہنا چاہیے کہ وطن ہے تو خاندان ہے، خوشیاں ہیں، مسکراہٹیں ہیں۔
اۤج وزیرستان میں پاکستان کا جھنڈا لہرا رہا ہے۔ لوگ اپنے گھروں کو واپس جارہے ہیں اور ا یک نا ی زندگی شروع کر رہے ہیں۔ وہ علاقے جہاں کبھی موت بکتی تھی، خوف اور دہشت کا راج تھا اور لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے بھی ڈرتے تھے، اۤج پرامن زندگی گزار رہے ہیں۔ میران شاہ جسے دہشت گردوں کا قلعہ سمجھا جاتا تھا، امن بحال ہونے کی خوشی میں وہاں مقابلوں اور میلوں کا انعقاد ہورہا ہے۔
ان سب کے پیچھے شا ید ہی کسی کو یہ خیال اۤیا ہو کہ ان کی زندگیاں اور ان کے علاقوں کی رنگینیاں واپس لانے کے لیے کسی نے اپنی زندگی کا چراغ گل کیا ہے۔ کوئی ان کی مسکراہٹیں واپس لانے کے لیے اپنے گھر والوں کی مسکراہٹ ہمیشہ کے لیے اپنے ساتھ لے گیا ہو۔ انہیں ان کے اپنوں سے ملانے کے لیے کوئی خود ہمیشہ کے لیے اپنوں سے بچھڑ گیا ہے۔
اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے اللہ کے شیروں کے لیے بس یہی بہت ہے کہ انہوں نے نیک مقصد کے لیے اللہ کی راہ میں جان دی ہے۔ اپنے ملک کی رونقیں بحال رکھنے کے لیے وہ مردِ مجاہد رزقِ زمیں ہوئے تاکہ یہ دھرتی پھلتی پھولتی رہے۔ کسی اور غرض کے لیے نہیں، صرف اور صرف دفاع وطن کے لیے اللہ کی راہ میں وہ مارے گئے۔ بلکہ نہیں، مارے نہیں گئے۔ اللہ کہتا ہے:
”اور جو اللہ کی راہ میں مارے جاا یں انہیں مردہ نہ کہو۔ وہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (اس بات کا) شعور نہیں۔”
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!