ماں کا آکاش

آکاش کی مسکراہٹ ماند نہیں پڑی!

کچھ انسان ایسے ہوتے ہیں جو آپ کے اندر مثبت تبدیلیوں کا باعث بنتے ہیں اور جن کے آس پاس ہونے سے ہی آپ کچھ نہ کچھ سیکھتے رہتے ہیں۔ آکاش بھی میرے لیے انہی لوگوں میں سے ایک تھا۔ قدرت نے مجھے اس کے ساتھ ایک طویل عرصہ گزارنے کا موقع دیا، لیکن یہ طویل ساتھ بھی اتنا مختصر ہو گا، مجھے اندازہ نہ تھا۔
کمانڈو کورس کے دوران ہمارے TOنے مجھے اور آکاش کو buddyبنا دیا تھا۔ buddy دراصل دو ساتھیوں کو کہتے ہیں جنہیں پوری ٹریننگ میں ایک ساتھ رہنا ہوتا ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ایک کا ٹاسک مکمل نہ ہو تو دونوں کو سزا ملتی ہے۔ حتیٰ کہ دونوں میں سے کسی ایک کا کورس مکمل ہو جائے اور دوسرا کسی وجہ سے رہ جائے تو اسے بھی اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ مل کر اسے وہ کورس مکمل کرنے میں مدد کرنی ہوتی ہے۔ اسی وجہ سے آکاش کو کئی مرتبہ میرے کیے کی سزا بھی بھگتنا پڑی لیکن کبھی اس کے ماتھے پر شکن نہ آئی۔ وہ ناز و نعم میں پلا بڑھا تھا، لیکن پھر بھی جس طرح اس نے دنیا کے مشکل ترین کورسز میں شامل یہ کمانڈو کورس کیا، وہ میرے لیے حیرانی کا باعث تھا۔
کورس کے اختتام پر بھی وہ اور میں ایک ہی یونٹ میں گئے۔ قدرت مجھے اس کے ساتھ رہنے کا موقع دے رہی تھی اور میرے لیے یہ کسی تحفہ سے کم نہ تھا۔ روز بہ روز ہماری دوستی گہری ہورہی تھی۔ وہ مجھے بالکل اپنے چھوٹے بھائی کی طرح پیار کرتا تھا۔ جب ہم تربیلا اپنی یونٹ میں تھے تو وہ اور میں روم میٹ تھے۔ وہ بہادر اور دلیر تو تھا ہی، لیکن یہاں اس کی شخصیت کے کچھ اور پہلو میری نظر میں آئے۔ وہ اپنی فیملی سے بہت محبت کرنے والا انسان تھا۔ ٹریننگز اور کورس میں بھی جب جب اسے وقت ملتا وہ گھر ضرور بات کرتا، لیکن فارغ اوقات میں تو وہ گھر پر گھنٹوں بات کیا کرتا۔ خاص کر اپنی امی سے لمبی لمبی باتیں کرنا اس کا مشغلہ تھا۔ میں اکثر حیرانی میں اسے کہتا کہ یار مجھ سے تو دس منٹ سے زیادہ گھر بات نہیں ہوتی۔ تم گھر والوں سے کیسے اتنی لمبی لمبی باتیں کرتے ہو؟ تو وہ مسکرا کر کہتا کہ میری بیسٹ فرینڈ میری امی ہیں۔ جب تک میں ان سے اور وہ مجھ سے اپنی ہر بات نہ شیئر کرلیں، مجھے چین نہیں آتا۔ اسی طرح اپنے بہن بھائی اور ابو سے اس کی دوستی دیکھ دیکھ کر میں حیران ہوتا۔ اور خوش بھی۔
آپریشن ضربِ عضب پر جانے سے پہلے اس نے بڑے ڈائل والی ایک گھڑی خریدی تھی جو اسے بہت پسند تھی۔ ایک دن اس گھڑی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے وہ بولا:
”میں یہ گھڑی دانش کو دے دوں گا۔ مجھے یقین ہے اسے پسند آئے گی۔“
اسی طرح اپنی شہادت سے دو تین دن پہلے اس نے میس سے اپنے تمام واجب الادا بلز کی تفصیل منگوائی اور کہا کہ ان کے تمام بلز ادا ہو جائیں گے۔ اگر کچھ رہ بھی گیا تو اس کا بھائی وہ تمام بلز کلیئر کر دے گا۔ اس کی ان باتوں سے میں پریشان ہوا کہ وہ ایسا کیوں کر رہا ہے، لیکن اب اندازہ ہوتا ہے کہ شاید اسے معلوم ہوچکا تھا کہ اس زمین پر اس کی چند ہی سانسیں باقی رہ گئی ہیں۔
میں اکثر سوچتا ہوں کہ آکاش معمولی انسان نہ تھا۔ اس میں بہت کچھ غیرمعمولی تھا۔ ایک طرف عزم و ہمت، جرأت و بہادری کا نمونہ تو دوسری طرف انتہائی محبت اور شفقت کرنے والا انسان۔
آکاش چلا گیا۔ لیکن وہ مسکراہٹ جو میں نے پہلی ملاقا ت سے لے کر اس کی شہادت تک ہمیشہ اس کے چہرے پر دیکھی، اس کے جانے کے بعد بھی وہ ماند نہیں پڑی۔ آکاش اب بھی اسی مسکراہٹ کے ساتھ میرے خیالوں کا حصہ ہے۔
میجر عثمان کیانی
دوست، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

آکاش صاحب، ایک زندہ دل افسر
آکاش آفتاب ربانی شہید 4کمانڈو یلغار بٹالین میں پوسٹ ہونے کے بعد مٹھا کمپنی 2پلاٹون میں بطور پلاٹون کمانڈر تعینات ہوئے۔ آپ انتہائی خوش مزاج، تحمل مزاج اور بہت ہی اعلی کردار کے مالک تھے۔ ہر ایک کے ساتھ بہت ہی اچھے اخلاق سے پیش آتے۔ ان کی اعلیٰ اخلاق کی وجہ سے وہ نہ صرف افسروں میں بلکہ جوانوں میں بھی بہت اچھے سے جانے جاتے تھے۔ ان کے اخلاق کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے۔
آپریشن ضربِ عضب پر جانے سے پہلے کمپنی میں ٹریننگ شروع ہوگئی جو آپریشن کے لحاظ سے تمام کارروائیوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے کی گئی۔ اس ٹریننگ کے دوران کمپنی کمانڈر میجر طارق نعیم صاحب ون پلاٹون کمانڈر، کیپٹن آکاش اور کیپٹن ہارون صاحب 2پلاٹون کمانڈر تھے۔ آپ نے پوری ٹریننگ میں بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا اور جوانوں کی بہت اچھی طرح سے ٹریننگ کروائی۔ پھر ہم سب آپریشن ضرب عضب کے لیے یونٹ سے نکل کر شمالی وزیرستان کے لیے روانہ ہوگئے۔ ہم راستے میں ہوں، بنوں میں قیام پذیر ہوں یا میران شاہ میں، کیپٹن آکاش باقاعدگی سے اپنے جوانوں سے ملتے، ان کا حال احوال جانتے اور ہر طرح سے ان کا خیال رکھتے رہے۔
جب بھی کسی کو ان سے کام ہوتا تو وہ کبھی انکارنہیں کرتے تھے۔ دوسروں کے مسائل سمجھنا اور انھیں حل کرنا ان کے مزاج کا حصہ تھا۔
جب آپریشن شروع ہوا تو انہوں نے ہر معرکے میں اپنی بہادری، دلیری اور اعلی حکمت ِعملی کے جوہر دکھائے۔ مشکل سے مشکل ٹاسک میں بھی وہ ذرا بھی نہ گھبراتے تھے۔ لگتا تھا کہ ڈر اور خوف تو کبھی ان کے قریب سے بھی نہیں گزرا۔ وہ بہت جگرے والے اور جی دار قسم کے افسر تھے۔ وہ جس ٹارگٹ اور taskمیں ہوتے اس کی کامیابی تو یقینی ہوتی تھی۔ دورانِ آپریشن انہوں نے بہت سے دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ ایک ایک دہشت گرد کو چن چن کر اپنے ہاتھوں سے مارتے۔ انہوں نے اتنے کارنامے سرانجام دیے جو بظاہر تو ایک انسان کے بس کے نظر نہیں آتے لیکن خداوندکریم نے ان سے وہ تمام اچھے کام لیے۔ شاید اللہ نے انہیں دنیا میں بھیجا ہی بڑے مقصد کے لیے تھا۔ وہ ہمیشہ اپنی ٹیم کے آگے آگے رہتے تھے۔ اتنی مشکلات اور پر خطر جگہوں میں کسی کو ان سے آگے جانے کی اجازت نہ تھی۔ انہیں اپنے جوانوں کی زندگی اور سلامتی کی بہت فکر رہتی تھی۔ لیکن اپنے سے پہلے کسی اور کو خطرے میں کودنے کی وہ اجازت نہیں دے سکتے تھے۔
وہ انسانوں کے روپ میں ایک فر شتہ تھے۔
وہ ٹاسک جس میں آکاش صاحب کی شہادت ہوئی تھی، اُس میں ان کے ساتھ میں بھی تھا۔ اور وہ ٹاسک اتنا مشکل تھا کہ آج بھی اس کا سوچ کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں لیکن آکاش صاحب جیسے کمانڈر کے ساتھ تو بندہ آگ میں بھی کود جائے۔ آکاش صاحب نے وہ ٹاسک volunteerکیا تھا۔ ان کی شہادت کے بعد انکی ہی کمبٹ ٹیم نے وہ ٹاسک ان ہی کے پلان کے مطابق مکمل توکر دیا، لیکن وہ جگہ جو وہ خالی چھوڑ گئے ہیں وہ آج بھی اُسی طرح خالی ہے۔ ان کی ٹیم ان کے بتائے ہوئے طریقوں پر عمل کرکے کامیابی تو حاصل کر تی رہی ہے لیکن ان کی جگہ ان کی کمی کو ئی بھی نہیں پُر کر سکا۔
میرے پاس تو وہ الفاظ ہی نہیں جو ان کے بارے میں بیان کر سکوں۔ بس اتنا کہتا ہو ں کہ اس طرح کا انسان صدیوں بعد ہی پیدا ہوتا ہے۔ جو اس وطن کے لیے اپنی بہت ہی قیمتی جان قربان کر گیا۔
جب کیپٹن آکاش پہلی دفعہ یونٹ میں آئے تو ان کے چہرے پر جو خوبصورت مسکراہٹ دیکھی تھی، وہ وقتِ شہادت بھی ویسے کی ویسی ہی تھی اور لگ ہی نہیں رہاتھا کہ وہ اب نہیں ہیں۔ کچھ چیزیں خواب نظر آتی ہیں۔ لیکن وہ حقیقت ہوتی ہیں۔ کاش یہ بھی ایک خواب ہوتا۔
قفس میں لے چکی گردش ایام اے وطن والو
گر ہو وطن میں اندھیرا تو گھر ہماراجلالینا
حوالدار اقبال
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!