ماں کا آکاش

کیپٹن آکاش، داستانِ عشق

آکاش میرا ہم جماعت ہی نہ تھا بلکہ ہم ہاسٹل میں بھی ایک ساتھ ہی رہے جس سے مجھے آکاش کو بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ سدا کا خوش مزاج، دوسروں کی مدد کرنے والا، ذہین، مشکل سے مشکل حالات میں بھی حواس برقرار رکھنے والا اور عزم و ہمت کا پیکر۔
ہم ساتویں جماعت میں تھے کہ آکاش کو نشتر ہاؤس (ہمارا ہاسٹل) کی فٹ بال ٹیم میں جانے کا شوق ہوا۔ سکول کی ٹیم میں زیادہ تر گیارہویں اور بارہویں جماعت کے لڑکوں کو لیا جاتا تھا۔ آکاش بضد تھا کہ اسے بھی ٹیم میں شامل کیا جائے۔ اس کی ضد کو دیکھتے ہوئے ٹیم کے کپتان نے یہ شرط رکھی کہ اگر وہ ہمارے ہاؤس کے سامنے والی جھاڑی کو پھلانگ سکے تو اسے ٹیم میں شامل کر لیا جائے گا۔ آکاش نے یہ چیلنج قبول کر لیا اور جھاڑی پھلانگنا شروع کردی۔ واضح رہے کہ جھاڑی کم سے کم پانچ فٹ اونچی تھی۔ وہ جھاڑی تو نہ پھلانگ سکا اور نہ ہی ٹیم میں شامل ہو سکا۔ ہاں البتہ اس نے پانچ سے چھ دفعہ کوشش ضرور کی۔ تب تو عقل اتنی پختہ نہیں تھی کہ آکاش کے اس عمل سے کوئی مطلب نکال پاتا۔ لیکن اب جب مْڑ کے دیکھتا ہوں تو یقین ہو جاتا ہے کہ ارادے کی پختگی کسی بھی مضبوط انسان کا بنیادی وصف ہوتا ہے اور یہ وصف آکاش میں اپنے کمال کو پہنچا ہوا تھا۔
اس کا چہرہ ایسا تھا کہ سنجیدہ ہوتے ہوئے بھی مسکراتا دکھائی دیتا اور روشن آنکھوں سے ہمیشہ شرارت ٹپکتی رہتی۔
ایبٹ آباد پبلک سکول کے چار سال گزرے اور میں لاہور چلا آیا۔ اس وقت میں گورنمنٹ کالج یونیورسٹی میں تھا کہ جب خبر ملی کہ آکاش نے بطور سکینڈ لیفٹیننٹ پاکستان آرمی جوائن کر لی ہے۔ زندگی کی مصروفیات نے رابطے کم کر دیے لیکن میری جب بھی اس سے بات ہوتی، اس کی گرم جوشی کا وہی عالم ہوتا۔
میں گورنمنٹ کالج لاہور سے فارغ ہوا تو پتہ چلا کہ آکاش کو ایس ایس جی فورس کے لیے منتخب کر لیا گیا ہے۔ مجھے یہ جان کر خوشی ہوئی کہ آکاش ترقی کی منزلیں طے کر رہا ہے۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کے خوشی اس بات کی ہوئی کہ آکاش اپنے پروفیشن سے مکمل طور پر کمٹڈ تھا اور اسے اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی میں مزہ بھی آ رہا تھا۔ وہ فوج کو نوکری نہیں سمجھتا تھا۔ نوکری آپ دماغ سے کرتے ہیں لیکن کیپٹن آکاش کا دل بھی اپنے کام میں مگن تھا۔
شہادت سے چند روز پہلے آکاش سے میسجز پہ بات ہوئی۔ تب وہ میران شاہ کے علاقے میں ضربِ عضب کے پہلے مرحلے کی قیادت کر رہا تھا۔ فون میسجز کا تبادلہ ہوا اور باتوں ہی باتوں میں کیپٹن آکاش نے شہادت کی خواہش کا اظہار کر دیا۔ تب میرے گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کی خواہش کے پورا ہونے میں چند دن ہی باقی ہیں۔
کچھ ہی دن بعد میں اپنے گھر میں بیٹھا ٹی وی دیکھ رہا تھاکہ ایک نیوز چینل نے میری توجہ سمیٹ لی۔ نیوز اینکر ِچلا چِلا کر کہہ رہا تھا:
”ابھی ابھی اطلاع ملی ہے کہ ضربِ عضب میں دہشتگردوں کے خلاف پاک فوج نے کامیاب کارروائی کی ہے جس کے نتیجے میں بہت سا علاقہ کلیئر کروا لیا گیا ہے۔ ہم آپ کو یہ بھی بتاتے چلیں کہ اس کامیاب آپریشن میں ایک ایس ایس جی کمانڈو بھی شہید ہوئے ہیں۔ ہماری اطلاعات کے مطابق شہید ہونے والے کمانڈو کا نام کیپٹن آکاش ربانی ہے۔“
کچھ دیر کے لیے میرا پورا جسم لرز اٹھا اور ایک دم سے ساکت ہو گیا۔ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت دم توڑ گئی۔ ذرا سنبھلا تو آنکھوں کے کنارے نم ہو چکے تھے۔ دھندلائی آنکھوں سے اپنے فون سے آکاش کا آخری میسج پڑھنے لگ گیا جس میں لکھا تھا۔
“I would love to die for Pakistan”
عبیداللہ ساہی
دوست، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

آکاش ”منتخب“ تھا!

آکاش کے ساتھ گزرا ہوا وقت آج بھی میری یادوں میں محفوظ ہے۔ وہ خلا کبھی پُر نہیں ہوسکتا۔
آکاش اور میری دوستی مثالی تھی۔ ہم دونوں ایک ہی بورڈنگ اسکول (ایبٹ آباد پبلک اسکول) میں تھے۔ بس فرق یہ تھا کہ وہ میرے وہاں جانے کے ایک سال بعد آیا تھا۔
مجھے وہ دن یاد ہے جب آکاش اپنی امی کے ساتھ ایبٹ آباد پبلک اسکول پورے ساز و سامان کے ساتھ آیا تھا۔ میں اُس کو نشتر ہاؤس ملنے گیا۔ اُس کے کمرے کی ہر چیز اپنی جگہ پر موجود تھی۔ سب ماؤں کی طرح آکاش کی ماں کا دل بھی بہت نرم تھا۔ وہ اسے روتا ہوا نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ وہ یہ کہہ کر چلی گئیں کہ کچھ ضروری چیزیں لے کر وہ جلدی واپس آئیں گی۔ جب انتظار طویل ہوگیا تو اُس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ میں نے اُس کو گلے لگایا اور حوصلہ دیا۔ اس ایک واقعہ سے ہٹ کر میں نے ہمیشہ اسے ہنستے مسکراتے ہی دیکھا۔
آکاش ہمیشہ دوسروں کی حوصلہ افزائی کرتا تھا۔ ہر کام کو بہترین طریقے سے سرانجام دیتا اور یہی عادت سب کوبہت متاثر کرتی تھی۔ اُس کی یہی کوشش ہوتی کہ اُس کے تجربے اور علم سے زیادہ لوگ استفادہ کرسکیں۔
اُس نے خود کو کبھی بھی اپنوں کے فرائض اور ذمہ داری سے الگ نہیں کیا۔ اُس کو اپنے دادا سے بہت پیار تھا۔ اکثر ایسا ہوتا کہ رات بھر ہم لوگ اکٹھے ہوتے۔ ساری رات جاگنے کے باوجود آکاش صبح جلدی اٹھ کر اپنے دادا کی خدمت میں پیش پیش ہوتا تھا۔ وہ اپنے ماں، باپ کا تابعدار تھا۔ وہ ایک مجسمہئ کمال تھا۔ دوستوں پر جان چھڑکتا تھا۔ اپنے پرائے کی مدد میں آگے آگے ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ جانوروں تک سے محبت اور شفقت کا برتاؤ رکھتا تھا۔
اس کی شخصیت میں پہلے بھی کوئی جھول نہ تھا۔ لیکن آرمی، خاص کر کمانڈو ٹریننگ کے بعد اس میں ایک عجیب سا ٹھہراؤ آگیا تھا جو عموماً اُس کی عمر کے لڑکوں میں نظر آنا مشکل ہوتا ہے۔ میری شادی دسمبر2013ء میں ہوئی۔ مجھے یاد ہے آکاش اپنی ٹریننگ کی وجہ سے تین دن اور تین راتیں نہ سوسکا تھا۔ باوجود اس کے آکاش نے اپنا وعدہ وفا کیا اور میری شادی میں بھرپور شرکت کی۔ کوئی اسے دیکھ کر اندازہ بھی نہیں لگا سکتا تھا کہ یہ شخص تین دن اور تین راتوں کا جاگا ہوا ہے اور کمانڈو ٹریننگ کی جاں گسل مشقیں کرکے یہاں پہنچا ہے۔ کبھی میں سوچتا ہوں کہ اگر اُس کی جگہ پر میں ہوتا تو یہ کبھی نہ کر پاتا۔ کسی کو اس جیسے بھائی، اس جیسے دوست کی کمی کیوں نہ محسوس ہوگی۔
میری اُس کے ساتھ آخری ملاقات بنوں میں ہوئی جہاں وہ اپنے تعیناتی کے حکم کا انتظار کررہا تھا۔ میں نے اُس کو ہر خطرے سے دور رہنے کا کہا تو وہ مسکرا کر بولا تھا: ”کمانڈوز خطرے سے دور رہنے کے لیے نہیں، بلکہ خطروں میں کودنے کے لیے بنائے جاتے ہیں۔“
ایک بار ایبٹ آباد سکول میں سوئمنگ کے دوران اسے غوطہ لگا تو میں نے اسے آگے ہوکر بچا لیا تھا۔ اب سوچتا ہوں کہ کاش اس کے وقتِ شہادت بھی میں اُس کے ساتھ ہوتا تو اس کی جگہ خود کو آگے کردیتا۔ لیکن نہیں! یہ عزت، یہ مقام، یہ مرتبہ ”منتخب“ لوگوں کو ہی ملتا ہے اوروہ ”منتخب“ تھا۔
15جولائی 2014ء آکاش نے شہادت کو گلے لگایا۔ دنیا کی بھیڑ چال میں کوئی فرق نہیں آیا۔ لیکن وہ خلا جو ایک دوست، بھائی اور ایک ہمدم کا ادھورا رہ گیا ہے، وہ پُر نہیں ہوسکتا۔

ارسلان خان تنولی
کزن،کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!