ماں کا آکاش

یہ میرے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا؟

”سر آکاش شہید ہو گئے ہیں۔“ خبر دینے والا میرے ردعملِ کا انتظار کررہا تھا۔ یومِ بدر کا روزہ افطار ہونے کوتھا۔ یہ وہ دن تھا جب اللہ تعالیٰ نے مسلمانانِ مدینہ کی دُعاؤں کو قبولیت بخشی تھی۔
یہ میرے ساتھ کیا ہونے جارہا تھا؟
ایک چھوٹے سے گول مٹول شرارتی سے بچے کے وجود میں خوشیوں اور لذتوں کی ان گنت حقیقتوں کو سراب سمجھنا میرے لیے مسئلہ بن رہا تھا۔ خواہشات اور ارمانوں کے مینار بے بنیاد ہونے لگے تھے۔ منطق، فلسفہ اور مذہب عجیب ہولناک امتزاج میں عنقا ہو رہے تھے۔
یہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا؟
اپنی شرارتوں کو مجھ سے چھپانے والا بچہ یوں سرِراہ اپنا سب کچھ لٹا دے گا۔ نام، کامیابی اور عزت کا رسیا، ان کے لیے اپنے وجود کی قیمت یوں آسانی سے دے دے گا۔ اعلیٰ مقصد اور فرض شناسی کی بلندیاں مجھے سنسان و یران بے رحم گھاٹیوں کی طرف دھکیل رہی تھیں۔
یہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا؟
لڑکا میرے سامنے کھڑا میرے ردِعمل کا انتظار کر رہا تھا اور میرا ردِ عمل ہونے، ہو جانے، ہو سکنے، ہوگا کے انتہائی کربناک اور امکاناتی چکروں میں محصور، محلول اور فنا ہو رہا تھا۔
یہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا؟
اپنے ابو کے سامنے کامیابی، کامرانی، افتخار اور جیت کے جھنڈوں کی قطار لگانے والا آکاش آفتاب ربانی مجھے اس دنیاوی گورکھ دھندے کے حوالے کر کے منقطع ہونے لگا تھا۔
یہ میرے ساتھ کیا ہونے جا رہا تھا؟
لڑکا میرے سامنے یومِ بدر اور یومِ فتحِ مکہ کئیاد گاری نشان بنا کھڑا تھا۔
میری کم مائیگی اس سانحے کے لیے لفظ اور ادراک کی کوئی صورت ڈھونڈنے نکل چکی تھی۔ خبروں، بشارتوں، خوش خبریوں میں گھرا ہوا کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کا والد الفاظ سے خالی، خیالات کے مسلسل اڑتے اور بے ہنگم بادلوں اور تار تار دامن کی درزوں میں سے چمکتی جھلکتی جنت میں کچھ ڈھونڈ رہا تھا اور سب کہہ رہے تھے:
یہ اس کے ساتھ کیا ہو رہا ہے؟

پروفیسر ڈاکٹر آفتاب ربانی
والد، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭

لوگو! میرا یار نہ رہا

او کاشی! یہ مجھے کیا لکھنا پڑ رہا ہے۔ جس مہک سے میرے بیڈ روم کی شناخت ہوتی تھی اور جس لمس کے بغیر صبح میری آنکھیں نہیں کھلتی تھیں، اسے کھو کر مجھے اکیلے ہی جینا پڑ رہا ہے۔ میرا یار، میرا بھائی، میرا ہم زاد جس کو دیکھ کر میرے دماغ کے خلیوں سے خیالات کے سوتے اُبل پڑتے تھے، جسے پاس پا کر دل کی دھڑکنوں کو شرارت کیے بغیر چین نہیں آتا تھا۔ جسے دیکھ کر طرح طرح کی ڈھنگی بے ڈھنگی اُمنگیں ابھر آتی تھیں۔ میں کیسے کہہ دوں کہ وہ نہ رہا۔
اس کے ساتھ بیتے ہوئے دنوں کی یادیں، اس کے ساتھ کیے ہوئے تجربات، اس کے ساتھ گزارا ہوا وقت، اس کی شرکت میں کیے ہوئے عہد و پیمان اگر نہ رہیں تو میرا خالی خول کتنا ہولناک لگنے لگتا ہے۔
کاشی! تم نے حقوق و فرائض کی جس گھن چکر میں مجھے ڈال دیا ہے، اس کو میں کس کے ساتھ تقسیم کروں۔ تیری موجودگی نے زندگی کا جو تناسب سیٹ کیا تھا، اس کو میں کیسے resetکروں۔
یہ تیری ہے یہ میری ہے، یہ تم نے کرنا ہے، یہ میں نے کرنا ہے کے agreementکے بعد اسے توڑنے اور violateکرنے میں جو لذت ہمیں آیا کرتی تھی، وہ تو تُو ساری اپنے ساتھ لے گیا ہے۔
تیرا نام سوچتے ہی بے شمار یادیں دماغ میں آجاتی ہیں اور سوچیں کہاں سے کہاں چلی آتی ہیں۔ میری زندگی کا سب سے بہترین اور خوبصورت حصہ تو وہی تھا جو میرا تیرے ساتھ گزرا۔ ہم دونوں twinsکی طرح ہر وقت اتنے ساتھ ساتھ رہتے کہ سب ملنے والے ہمیں اکٹھا پکارتے۔ ہمارے اکٹھے نام لیتے۔ ”دانی کاشی کیسے ہو؟ دانی کاشی آج کل کیا ہورہا ہے؟“ حتیٰ کہ اگر ہم الگ بھی ہوتے، اکیلے بھی ہوتے تو بھی اکثر مجھے ”دانی کاشی“ ہی کہا جاتا۔
بچپن میں جہاں ہم کبھی کبھار لڑتے جھگڑے بھی تھے، وہاں ہماری دوستی اور محبت بھی ایسی تھی کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر زیادہ دیر رہ بھی نہیں سکتے تھے۔ ہم ایک جیسے کپڑے جوتے پہنتے اور خوش ہوتے کہ ہم ایک جیسے لگ رہے ہیں۔ جب بھی ہم کوئی شرارت کرتے اور پکڑے جاتے تو ہم ایک دوسرے کی ڈھال بننے کی کوشش کرتے۔
کبھی کبھی بچپن میں جب کوئی اس سے پوچھتا کہ وہ مجھ سے بڑا ہے، تو وہ بہت خوش ہوتا اور مجھے چڑانے کی کوشش کرتا۔ ہاں! تھا وہ مجھ سے ڈیڑھ سال چھوٹا، لیکن اس کی کوشش ہوتی کہ وہ بڑوں کی طرح گھر کی ذمہ داریاں اٹھائے۔
پھر جب ہم بڑے ہوئے تو میں دیکھتا تھا کہ وہ سب کا بہت زیادہ خیال رکھتا تھا۔ دادا دادی کا، امی ابو کا، میرا اور لویل اور خاندان کے ہر فرد کا۔میں اکثر حیران ہوتا کہ اتنی سخت روٹین کے باوجود بھی وہ گھر والوں کے تمام اہم دن کیسے یاد رکھ لیتا تھا۔
میں جب سوچتا ہوں کہ شہید اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگ ہوتے ہیں اور اس کا خاکہ ذہن میں لاتا ہوں تو پتا چلتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے چنے ہوئے لوگوں میں سے ہی تھا۔ ایک مکمل انسان، برائیوں سے پاک، اپنی ذمہ داریاں سمجھنے والااور کسی کو تکلیف یا نقصان نہ پہنچانے والا۔ ہر ایسی بات جس کو خوبی کہا جاتا ہے وہ اس میں موجود تھی۔
وہ جب بھی گھر میں ہوتا تو کچھ نہ کچھ کام ضرور کرتا۔جب ہمارے گھر میں construction کا کام ہورہا تھا تو وہ فرسٹ ایئر کا سٹوڈنٹ ہونے کے باوجود بڑوں کی طرح ہر کام کو دیکھتا۔ بڑوں کی طرح رائے دیتا اور ایسے خرچے کا حساب کتاب کرتا کہ سب اس کی ذہانت اور سمجھ داری کی تعریف کرتے۔ وہ گھر اور فیملی کے ہر کام اور ہر ذمہ داری میں مجھ سے آگے آگے ہوتا۔ میں اسے روکتا تو وہ کہتا مجھے مت روکو۔ میں چلا جاؤں گا تو تمہیں ہی سب کرنا پڑے گا۔
اب میں سوچتا ہوں کہ کیا اسے پتا تھا کہ اس نے ہم سے بہت جلد بچھڑنا ہے؟
وہ امی ابو کی کوئی تکلیف، کوئی پریشانی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ اسے امی ابو کی اتنی فکر رہتی جیسے والدین اپنی اولاد کی فکر اور خیال رکھتے ہیں۔ وہ اتنا بڑا یا بہت میچور نہیں تھا۔ پھر بھی وہ کوشش کرتا کہ کوئی مسئلہ یا کوئی معاملہ ہو تو وہ خود حل کرلے اور امی ابو کو تکلیف یا پریشانی نہ ہو۔ خاص کر امی کی کوئی بات رد کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ اُسے میرا یا لویل کا امی کے سامنے اونچا بولنا بھی ناگوار گزرتا تھا۔
میں سوچتا ہوں۔ جب اس کی شہادت کی اتنی بڑی خبر اس کے والدین کو سنائی گئی، تو اس وقت اسے کیسا محسوس ہوا ہوگا۔ وہ جو ان کی آنکھوں میں ایک آنسو دیکھنے کا روادار بھی نہیں تھا، تو وہ جب ایک قیامت کی سی کیفیت سے گزر رہے تھے تو اسے بھی شاید ان کی حالت دیکھ کر تکلیف ہوئی ہوگی۔ کیونکہ ہمارا ایمان ہے کہ شہید زندہ ہیں اور سب دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
15جولائی 2014ء کا وہ دن جب لویل اور ابو نے مجھے کال پر کہا کہ فوراً گھر آجاؤ۔ پہلی بار مجھے ان کی آواز روتی اور کانپتی ہوئی لگی۔ میرا وہ پندرہ منٹ کا گھر تک کا سفر اور راستے میں مسلسل اللہ تعالیٰ کی منتیں اور دعا کرتے ڈرائیو کرنا کہ اللہ تو ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے، تو سب کچھ بدلنے کی طاقت رکھتا ہے، جو میں سوچ رہا ہوں، اس کو سچ نہ ہونے دے۔ لیکن میں جب گھر پہنچا تو معلوم ہوا کہ پاؤں کے نیچے سے زمین نکلنا کسے کہتے ہیں۔
مجھے یاد ہے جب آکاش کا چراٹ میں passing outکا دن تھا تو اس نے messکی دیوار پر لگی شہیدوں کی تصویریں مجھے دکھاتے ہوئے کہا کہ یہ سب SSGکے شہید ہیں۔ مجھے لگتا ہے کہ اب یہاں اگلی تصویر میری ہی ہوگی۔ میں نے اسے حیرت سے دیکھتے ہوئے کہاکہ کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس نے اس بات گول مول کردی۔ اب یہ بات ذہن میں لاتا ہوں تو حیرت ہوتی ہے کہ کیسے اس کے الفاظ سچ ثابت ہوئے۔

دانش آفتاب ربانی
بھائی، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید

٭……٭……٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!