ماں کا آکاش

کھاریاں پوسٹنگ

اۤکاش کی پہلی پوسٹنگ کھاریاں ہوئی تھی۔ وہ اس پر بہت خوش تھا کیوں کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کی پہلی پوسٹنگ گھر کے قریب ہی ہو۔ ورنہ اس کے کسی دوست کی پوسٹنگ سیاچن ہوئی تھی تو کسی کی کہیں۔ یہ باتیں وہی مجھے بتاتا تھا۔ کھاریاں میں اپنے کمانڈنگ اۤفیسر سے وہ مل ہی چکا تھا اور اسے وہ پسند اۤئے تھے۔ اسے امید تھی کہ اس کی پہلی پوسٹنگ اسے بہت کچھ سکھاأے گی۔
وہ دن بھی اۤگیا جب اپنے فراأض کی اداأیگی کے لیے اس نے گھر سے جانا تھا۔ تیاری وہ پہلے ہی مکمل کرچکا تھا۔ وہ ساری رات اس نے گھر والوں سے باتیں کرتے گزاری اور صبح سب سے سلام لے کر وداع ہوگیا۔ ایک عزم، ایک جذبہ، ایک تواناأی اس کے انگ انگ سے جھلک رہی تھی۔
وہ دوپہر تک کھاریاں پہنچ گیا تھا۔ اس وقت وہاں کمانڈنگ اۤفیسر کرنل دلاور تھے جبکہ 2COمیجر عدنان اور لیفٹیننٹ عارف Adjutantتھے۔ لیفٹیننٹ عارف کو اطلاع دی گئی کہ نیا اۤفیسر لیفٹیننٹ اۤکاش وہاں اۤچکا ہے تو لیفٹیننٹ عارف نے ایک جوان کو اسے ریسیو کرنے بھیجا۔ اس جوان نے اۤکاش کو گیٹ پر ویلکم کیا اور اندر لے گیا۔ لیفٹیننٹ عارف کے بقول اۤکاش کی رپورٹ انہیں پہلے ہی پہنچ گئی تھی کہ وہ ایک well groomedاور پڑھائی لکھاأی میں بہت تیز لڑکا ہے۔ اۤکاش اندر پہنچا تو میجر عدنان اور لیفٹیننٹ عارف اس کے استقبال کے لیے کھڑے تھے۔ دونوں ہی اپنے خدوخال سے کافی سخت معلوم ہوتے تھے۔ انہوں نے گرمجوشی سے اۤکاش کا استقبال کیا اور پھر لیفٹیننٹ عارف اۤکاش کو ساتھ لے کر چائے پینے ٹی بار میں اۤگئے۔ چائے کے دوران ہی انہوں نے اۤکاش سے اس کا بیک گراؤنڈ اور PMAمیں اس کے قیام کا مختصراً احوال پوچھا۔ رات کو اپنے ساتھ ڈنر کی دعوت دے کر وہ اس وقت رخصت ہوگئے لیکن جانے سے پہلے اس کا کمرہ دکھا گئے۔ رات کو اۤکاش ڈنر کرنے ان کے پاس پہنچا۔ چونکہ اس کا پہلا دن تھا اس لیے وہ کچھ reservedسا رہا۔
اگلے دن کمانڈنگ اۤفیسر نے اسے اپنے اۤفس بلایا اور تفصیلاً اس کا انٹرویو لیا۔ اس کی رپورٹ سے وہ بھی جان تو پہلے ہی گئے تھے کہ اۤکاش ایک قابل اور ذہین افسر ہے۔ اس کے اپنے اۤفس سے جانے کے بعد انہوں نے میجر عدنان اور لیفٹیننٹ عارف سے کہا کہ یہ لڑکا اچھا ہے۔ اس پر کام کرو تاکہ یہ ینگ اۤفیسر کورس میں اچھی پوزیشن لے۔ ینگ اۤفیسر کورس ہر تین ماہ بعد ہوتا ہے اور ہر یونٹ کی ہی یہ کوشش ہوتی ہے کہ اس کا اۤفیسر اس کورس میں نمایاں پوزیشن لے۔
اس میٹنگ کے بعد میجر عدنان نے اۤکاش کو اپنے اۤفس بلایا اور اپنے طور پر اس کا انٹرویو لیا جس میں کاشی کی پرفارمنس بہت اچھی رہی۔ بس ایک سوال کا اس کے پاس جواب نہیں تھا اور یہی اس کی پہلی اساأنمنٹ بن گیا۔
میجر عدنان نے اس سے پوچھا تھا کہ پاکستان میں اۤرمی کی کتنی کورنگ ہیں جس کے جواب میں وہ خاموش رہا۔ میجر عدنان نے پہلی اساأنمنٹ کے طور پر اسے ایک پریزنٹیشن بنانے کو کہا جس میں پاکستان اۤرمی کی تمام کورنگ، ان کے کمانڈنگ اۤفیسرز، ان کی تصاویر اور دیگر معلومات شامل تھیں۔ اۤکاش نے تن دہی سے یہ پریزنٹیشن بنائی۔ جب وہ اسے پریزنٹ کررہا تھا تو میجر عدنان نے اسے شاباش دی۔ اۤکاش نے خوشی سے معمور لہجے میں کہا:
”سر! واہ واہ پریزنٹیشن بنائی ہے ناں؟”
اس کی اس بات پر تمام حاضرین ہنس پڑے۔ لیفٹیننٹ عارف نے کہا:
”اس دن پہلی بار میں نے یہ لفظ ”واہ واہ” سنا تھا۔ مجھے اس وقت موقع کی مناسبت سے یہ لفظ اچھا لگا تھا اور یہ لفظ اۤج بھی میری یادداشت میں محفوظ ہے۔”
یہاں اس کی پوسٹنگ کو ابھی چند دن ہی گزرے تھے کہ ڈویژن کا باسکٹ بال ٹورنامنٹ اۤگیا۔ اۤکاش کی ہسٹری دیکھتے ہوئے اس کے کمانڈنگ اۤفیسر نے بطور خاص اس مقابلے کے لیے اسے تیار کرنے کی ذمہ داری لیفٹیننٹ عارف کو دی۔ جسے لیفٹیننٹ عارف نے بخوشی قبول کیا۔
اگلے دن صبح لیفٹیننٹ عارف نے اۤکاش کو وہاں کے ٹریننگ گراؤنڈ پہنچنے کا اۤرڈر دیا۔ وہ گراؤنڈ تقریباً دو سے ڈھائی کلو میٹر کا تھا۔ صبح اۤکاش پونے چھے وہاں پہنچ گیا جہاں لیفٹیننٹ عارف پہلے سے ہی اس کے منتظر تھے۔ اس کے وہاں پہنچتے ہی دونوں نے گراؤنڈ کے دوچکر دوڑ کر لگائے جو کہ تقریباً پانچ کلو میٹر کا فاصلہ بنتا ہے۔ اس کے بعد دونوں نے باسکٹ بال کھیلی اور کچھ دیر بعد اپنا یونیفارم پہن کر یونٹ چلے گئے۔ دوپہر کو تین بجے لیفٹیننٹ عارف نے پھر اۤکاش کو باسکٹ بال کھیلنے بلا لیا اور شام پانچ بجے تک وہ باسکٹ بال کھیلتے رہے۔ یہ روٹین تقریباً تین دن یونہی چلی ہوگی کہ لیفٹیننٹ عارف نے محسوس کیا کہ اۤکاش جوکہ رات کو عموماً دیر سے ہی سوتا ہے، وہ بہت جلدی سو جاتا۔ انہوں نے جب اِدھر اُدھر سے معلوم کیا تو پتا چلا اس کی ٹانگوں میں شدید درد ہے جس کی وجہ سے وہ جلدی سو جاتا ہے۔ اگلے دن لیفٹیننٹ عارف نے یونہی اۤکاش سے پوچھا کہ اس کی ٹانگوں میں crampsتو نہیں پڑے؟ تو اس نے بالکل انکار کردیا اور اپنا درد چھپا کر کھیلتا رہتا۔ لیکن اگلے دن runningکرتے ہوئے اۤکاش بہت جلد ی تھک گیا۔
اۤکاش: ”سر بس کردیں، بہت دوڑاتے ہیں اۤپ؟” اس نے پھولی ہوئی سانس سے کہا۔
لیفٹیننٹ عامر:”کیا ہوا؟ crampsپڑ گئے کیا؟”
اۤکاش: ”ایسے ویسے! واہ واہ ہی crampsپڑے ہوئے ہیں سر جی۔ ایک لفظ ہوتا ہے معافی! کبھی کبھی وہ بھی دے دیا کریں سر۔”
لیفٹیننٹ عامر: ”کوئی معافی نہیں! چلو شاباش، ایکسر سائز پوری کرو اپنی۔ مجھے دیکھو کتنا فٹ ہوں۔”
اۤکاش:”ایسے ویسے فٹ، بڑے ڈنگر قسم کے فٹ ہیں اۤپ تو سر۔”
اۤکاش کی اس بات پر لیفٹیننٹ عارف نے اسے گھوری ڈالی اور ساتھ ہی ہنس پڑے۔ کاشی نے بھی پھر سے ہمت باندھی اور شدید درد کے باوجود ایک مرتبہ پھر سے جاگنگ کے لیے تیار ہوگیا۔
اۤکاش بتاتا کہ جب ہم باسکٹ بال کھیل رہے ہوتے تو لیفٹیننٹ عارف ہمیں کولڈ ڈرنک نہیں پینے دیتے تھے۔ وہاں چونکہ دو ٹیمیں بنی ہوئی تھیں، ایک کاشی کی اور ایک لیفٹیننٹ عارف کی تو اۤکاش سستانے کے وقت کولڈ ڈرنک اۤرڈر کردیتا اور ”سر دو گھونٹ سے کچھ نہیں ہوتا” کہہ کر ساری بوتل ان کی اۤنکھوں کے سامنے پی جاتا۔ دونوں ٹیموں میں شرطیں بھی لگتیں اور ہارنے والی ٹیم کا ہیڈ سب کو کھانا کھلاتا۔ جب اۤکاش کی ٹیم ہارتی تو اۤکاش کھانے کے وقت تمام ماتحتوں کو ان کی اپنی مرضی کا کھانا اۤرڈر کرنے کا کہتا۔ وہ اپنے ماتحتوں کے ساتھ بڑا ہی پیار کرنے والا اور سمجھنے والا تھا۔ ان کی مشکلات اور پریشانیاں سننا اور مشورہ سے لے کر عملی مدد تک، جو اس سے ممکن ہوتا وہ کرتا۔ اسی لیے اس کے ماتحت نہ صرف دل سے اس کی عزت کرتے تھے بلکہ ہمیشہ اس کے ساتھ کھڑے ہوتے تھے۔
پھر ان کے فائنل میچ کا دن بھی اۤگیا۔ ان کا میچ اۤرمر کی یونٹ نمبر 47کے ساتھ تھا۔ وہ میچ عارف اور اۤکاش کی ٹیم نے جیت لیا۔ بریگیڈیء ر سعید نے اس کامیابی پر انہیں ٹرافی اور میڈل سے نوازا۔ ٹیم کے باقی جوانوں نے اۤکاش اور لیفٹیننٹ عارف کو خوشی کے مارے کندھوں پر اٹھا لیا۔
اس شام اۤکاش نے سب کی دعوتِ خاص کا اہتمام کیا۔ اس نے میس کے حوالدار ساجد سے رابطہ کیا اور اسے سپیشل ڈش کی ترکیب بتائی۔ یہ سپیشل ڈش سٹیکس تھی۔ اۤکاش نے حوالدار ساجد کو بتایا کہ اسے کیسے بناتے ہیں، اس کے ساتھ میش کیے ہوئے اۤلو کیسے بناتے ہیں، ساسز کیسے بناتے ہیں اور ان تمام چیزوں کو سرو کیسے کرتے ہیں۔ جب رات کو کھانے پر یہ سب سرو کیا گیا تو سب عش عش کر اٹھے۔ اۤکاش کو یقین تھا وہ ڈش سب کو پسند اۤئے گی اور اس کا یقین ٹوٹا نہیں۔ سب ہی نے سیر ہوکر کھانا کھایا۔
ابھی اۤکاش کو کھاریاں گئے ڈیڑھ ماہ ہی ہوا تھا کہ ایک اندوہناک واقعہ پیش اۤگیا۔ اۤکاش کے دادا ابو انتقال کرگئے۔ اۤکاش کو گئے ڈیڑھ مہینہ ہوگیا تھا اور وہ ایک مرتبہ بھی گھر نہیں اۤیا تھا۔ اس کا کہنا تھا شروع شروع میں چھٹیاں ملنا مسئلہ ہوتا ہے اور چھٹیاں کرنی بھی نہیں چاہیئیں۔ اس سے اچھا امیج بنتا ہے۔ یہ 25جون 2011ء رات دس بجے کی بات تھی جب اۤکاش کے دادا جی کا انتقال ہوا۔ اۤفتاب صاحب نے اۤکاش کے COکو فون کرکے اطلاع دی اور درخواست کی کہ وہ کاشی کو گھر اۤنے کی اجازت دیں۔ COنے فوراً اسے اجازت دے دی۔ اس وقت چونکہ رات ہوچکی تھی اور اۤکاش کو کوئی گاڑی وغیرہ بھی نہیں ملنی تھی اس لیے یونٹ نے اس کے لیے گاڑی اور ڈراأیور کا بندوبست کیا جس سے اۤکاش بروقت گھر پہنچ گیا۔ اس وقت اس نے سفید شلوار قمیص پر کالی ویسٹ کوٹ پہنی ہوئی تھی اور بہت پیارا لگ رہا تھا۔ وہ اۤتے ہی سب سے پہلے اپنے والد سے ملا۔ اۤفتاب صاحب اس وقت شدتِ غم سے رو رہے تھے۔ اۤکاش ان سے گلے ملا اور انہیں حوصلہ دیتا رہا۔ وہ سب سے باری باری مل کر انہیں حوصلہ دے رہا تھا۔ وہ خود ابھی اتنی عمر کا نہیں تھا لیکن اپنے رویہ سے وہ انتہائی بردبار لگ رہا تھا۔ وہ خود بھی اپنے دادا سے بے انتہا محبت کرتا تھا لیکن فوج کی سخت ٹریننگ نے اسے خود پر ضبط سکھا دیا تھا۔ وہ اۤتے ہی وہاں کے انتظامات سنبھالنا شروع ہوگیا جبکہ میری ممتا کو یہ فکر لاحق ہوگئی کہ اۤکاش اتنا پیارا اور بردبار لگ رہا ہے تو اسے کسی کی نظر ہی نہ لگ جائے۔ میں اۤنکھوں ہی اۤنکھوں میں اس کی بلاأیں لیتی رہی۔ اباجی کا جسدِ خاکی باہر لان میں رکھا ہوا تھا کہ اچانک بارش شروع ہوگئی۔ اۤکاش نے دادا جی کو اندر منتقل کیا اور وہاں اۤئے لوگوں کے لیے اندر بیٹھنے کا انتظام کرنے لگا۔

رات یوں ہی گزر گئی۔ صبح وہاں اۤئے ہوئے لوگوں کو ناشتا سرو کیا گیا۔ ناشتے کے بعد ہمیں اپنے آبائی گاؤں جانا تھا جہاں ابا جی کو سپردِ خاک کرنا تھا۔ آبائی گاؤں کا سفر شروع ہوا۔ ہم جلد ہی وہاں پہنچ گئے۔
اۤکاش نے دانش کو ساتھ لگا کر تمام انتظامات جلدی جلدی مکمل کیے اور بہت پیار سے اپنے دادا جی کو رخصت کیا۔ کاشی سارا وقت خاموش ہی رہا تھا۔ وہ صرف ضرورت کے وقت بولتا۔ دادا جی سے اسے بہت محبت تھی اور شاید ان کی جداأی میں وہ خاموش سا ہوگیا تھا لیکن اس کی اۤنکھ سے ایک اۤنسو نہ نکلا۔
تیسرے دن قُل تھے۔ وہ دن بھی انتہائی مصروفیت بھرا تھا۔ کاشی یہاں بھی سارا دن لگا رہا اور مختلف کاموں کی نگرانی کرتا رہا۔ چار پانچ بجے جب قُل ختم ہوئے اور وہاں اۤئے لوگوں کو کھانا دیا جاچکا تو اۤکاش کچھ دیر سستانے کو چارپائی پر بیٹھا اور وہیں سو گیا۔ ابھی اۤدھا گھنٹا ہی گزرا ہوگا کہ وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا کہ اسے تو اۤج واپس جانا تھا۔ ہم یہ سن کر حیرت زدہ رہ گئے۔ میں نے اۤگے بڑھ کر اسے روکنے کی کوشش کی لیکن اس نے بتایا کہ اسے اتنی ہی چھٹیاں ملی ہیں اور اسے ہر حال میں شام میں رپورٹ کرنا ہے۔ باقی افراد نے بھی دبے دبے لفظوں میں اسے رکنے کا کہا لیکن وہ رکا نہیں۔ رکنا اس کی فطرت میں ہی نہیں تھا چاہے حالات جیسے بھی ہوں۔ وہ اپنے حصے کا کام کرکے اۤگے بڑھ جانے کا عادی تھا۔ ہاں اس نے اپنا کام کرلیا تھا۔ اب اس نے وہاں جانا تھا جہاں اس کی ضرورت تھی۔ اس نے سب سے پیار لیا اور رخصت ہونے لگا۔ میں نے نکلتے نکلتے اسے کہا کہ وہ کپڑے تبدیل کرلے کیوں کہ تین دن سے وہ انہی کپڑوں میں ہے لیکن اسے رکنا تھا نہ وہ رکا۔ سب سے پیار لے کر اۤخر وہ رخصت ہوگیا۔ اس وقت مجھے اندازہ نہیں تھا کہ ٹھیک تین سال بعد وہ بھی اس طرح ہمیں چھوڑ جائے گا اوروہ بھی ملے بغیر، بتائے بغیر۔
اۤکاش جب کھاریاں واپس پہنچا تو تمام سینئرز سمیت جونئیرز بھی اس سے مل کر اس کے دادا کی تعزیت کرنے لگے اور اس کا حوصلہ بڑھاتے رہے۔ وہ اسی طرح ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے تھے۔ ان کی یونٹ کا نام ئHeaven of Heavensئتھا اور وہ یونٹ واقعی جنت نظیر تھی۔ سب خاندان کے ایک فرد کی طرح رہتے۔ خوشی غمی میں ہاتھ بٹاتے اور ایک دوسرے کا حوصلہ بڑھاتے۔
وقت گزرا، لیفٹیننٹ عارف ایک کورس کے لیے گوجرانوالہ چلے گئے۔ ساتھ ہی رمضان کا بابرکت مہینہ شروع ہوگیا۔ یہاں بھی اس نے سحری اور افطاری میں اپنے ماحول کے مطابق سب کو ڈھال لیا۔ وہ سب ایک ساتھ سحری اور افطاری کرتے۔ میرا کئی مرتبہ دل کیا کہ اسے سحری اور افطاری کے لیے کچھ بھیجوں لیکن وہ ہر مرتبہ منع کردیتا۔ مجھے اس سارا رمضان عید کا انتظار رہا کہ وہ عید پر گھر اۤئے گا اور میری اۤنکھوں کو ٹھنڈک ملے گی لیکن اب کی بار عید کسی اور طرح ہی ہونی تھی۔ اۤفیسرز میں سب سے جونئیر ہونے کے سبب اسے عید پر چھٹیاں نہ ملیں اور ہماری عید نہ ہوسکی۔ عید تو وہ ہوتی ہے جب گھر کے تمام افراد ایک ساتھ ہوں لیکن اس بار ایسا نہ ہوا۔ یہ پہلی عید تھی جو میں نے رو کر گزاری۔ اۤفتاب صاحب اور دونوں بچے مجھے حوصلہ دیتے رہے لیکن میری مامتا کو سکون نہیں اۤیا۔ مجھے وہ ساری مائیں یاد آئیں جو اپنے بیٹوں کے بغیر عید کرنے پر مجبور تھیں۔ وہ واحد عید تھی جو مسرت کے لمحات انجوائے کرنے کے بجائے میں نے مصلے پر گزاری اور وطن کے تمام بہادر بیٹوں کی سلامتی کے لیے دعاأیں کرتی رہی جو اپنے لوگوں کے لیے اپنی عیدیں بھی قربان کردیتے ہیں۔ اۤپ ایک لمحے کے لیے اپنی جگہ مجھے رکھ کر سوچیں تو اۤپ کو ان تمام ماؤں کا دکھ سمجھ اۤجائے جن کی عیدیں بھی بیٹوں کے نہ ہونے کی وجہ سے پھیکی ہو جاتی ہیں۔
ادھر اۤکاش کی بھی یہی حالت تھی۔ وہ پہلی بار گھر والوں کے بغیر عید گزار رہا تھا۔ عید والے دن اس نے عید مبارک کہنے کے لیے گھر فون کیا اور سب سے بات کی۔ اس نے حتی الامکان اپنے لہجے کو مستحکم رکھنے کی کوشش کی لیکن وہ پاگل یہ نہیں جانتا تھا کہ کوئی ان پڑھ ماں بھی اپنے بیٹے کا لہجہ بخوبی پڑھ سکتی ہے۔ میں نے بھی اس سے اسی مستحکم لہجے میں بات کی تاکہ وہ مزید افسردہ نہ ہو جائے۔ ایک بات جو میں سمجھ چکی تھی کہ اۤکاش کے لیے اب پہلی ترجیح فوج اور اس کا فرض تھا اور اس کے مقصد میں، میں اس کے اۤڑے نہیں اۤنا چاہتی تھی۔ میں بیٹے کو کیسے کمزور ہونے دیتی؟
اس نے بتایا کہ اس نے لیفٹیننٹ عارف کو فون کرکے عید اس کے ساتھ کھاریاں کرنے کی درخواست کی ہے۔ اس کی درخواست پر لیفٹیننٹ عارف عید سے ایک روز پہلے ہی اس کے پاس پہنچ گئے تھے۔ دونوں نے عید کی نماز اکٹھے ادا کی اور گپ شپ کرتے رہے۔ لنچ کے وقت لیفٹیننٹ عارف نے اسے کہا کہ باہر جا کر اچھا سا لنچ کرتے ہیں لیکن اۤکاش نے انہیں یاد دلایا کہ عید کی وجہ سے سب بند ہوگا اور باہر جانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اتنے میں حوالدار، لیفٹیننٹ عارف کے اۤرڈر پر وہ سٹیکس بنا لایا جو اۤکاش کی پسندیدہ ڈش تھی۔ اۤکاش کو ایک خوشگوار حیرت کا احساس ہوا۔ تب لیفٹیننٹ عارف نے اسے بتایا کہ وہ حوالدار کو پہلے ہی یہ ڈش تیار کرنے کا اۤرڈر دے چکے تھے۔ اۤکاش کا چہرہ کھل گیا۔ دونوں نے لنچ کیا جس کے بعد لیفٹیننٹ کارف گھر کے لیے روانہ ہوگئے۔ دوسرا دن اۤکاش نے اکیلے ہی گزارا۔ تیسرے دن ہم نے اس سے ملنے اس کی یونٹ جانا تھا۔ اس دن کا ہمیں اور اۤکاش کو شدت سے انتظار تھا۔
ہم صبح سویرے ہی گھر سے نکل پڑے۔ اۤکاش سارے راستے ہم سے پوچھتا رہا کہ ہم کہاں پہنچے ہیں۔ اس کی ہم سے ملنے کی بے چینی عیاں تھی۔ جب ہم کھاریاں پہنچے تو اس کی خوشی دیدنی تھی۔ مطلوبہ مقام تک پہنچنے پر ہم نے دیکھا اۤکاش اۤرمی کی جیپ میں موجود تھا۔ ہم اسے فالو کرتے ہوئے اس کی یونٹ تک پہنچے۔ وہاں اس نے ہمارے لیے گیسٹ ہاؤس بک کروایا ہوا تھا۔ جتنی دیر میں ہم گیسٹ ہاؤس میں جاکر فریش ہوئے، اۤکاش پرتکلف کھانے کا انتظام کرچکا تھا۔ وہ بار بار ہماری پلیٹوں میں سالن ڈالتا اور روٹیاں بھی ضرورت کے مطابق چنگیر سے نکال کر ہمیں دیتا اور دوبارہ ڈھک دیتا۔ اس کی یہ حرکت ہم سب نے ہی نوٹ کی اور بے ساختہ ہنس پڑے۔کاشی تھوڑا سا جھینپ گیا اور اپنی خفت چھپانے کے لیے اِدھر اُدھر کی باتیں شروع کردیں۔ سب ہی گپ شپ لگانے لگے۔ ہماری عید تو دراصل اۤج ہوئی تھی جب ہم سب اکٹھے تھے۔ اس دن ہم نے خوب باتیں کیں۔ کھانے کے بعد کاشی نے بتایا کہ عید کی وجہ سے اس کے کمانڈنگ اۤفیسر اور تمام سینیئرز چھٹی پر ہیں ورنہ وہ ہمیں ان سے ملواتا۔ اس نے ہمیں اپنا یونٹ دکھانے کی خواہش کا اظہار کیا۔ میں اور اۤفتاب صاحب تو کافی تھک گئے تھے اس لیے ہم نے اسے اۤرام کرنے کا کہہ دیا۔ وہ دانی اور لویل کو یونٹ دکھانے لے گیا۔ کافی دیر بعد ان کی واپسی ہوئی تو کاشی کے ہاتھ میں دو مگس تھے جن میں سے ایک پہ لکھا تھا۔
I Love my Husbandجبکہ دوسرے پہ I Love my Wife کندہ تھا۔ اس نے یہ مگ اۤفتاب صاحب اور میری طرف سے ایک دوسرے کو دیے اور کہا کہ اب اۤپ لوگ یہی مگس استعمال کریں گے۔ ہم دونوں نے مسکراتے ہوئے اس کا تحفہ قبول کیا۔ دانی اور لویل کو بھی اس نے تحفے دیے تھے۔ اس کے بعد ہم لوگ ساری رات باتیں کرتے رہے۔ صبح ہمارا گجرات جانے کا ارادہ تھا۔ گجرات کھاریاں کے قریب ہی واقع ہے۔ اۤکاش ہمیں وہاں لنچ دینا چاہتا تھا۔ اس بار گاڑی اۤکاش نے ڈراأیور کی۔ وہ بہت تیز گاڑی چلاتا تھا جس سے میں ڈرتی تھی۔ میں بار بار اسے تاکید کرتی رہی کہ وہ اۤہستہ چلائے لیکن وہ ہر بار مسکرا کر کہتا اۤپ فکر نہ کریں، اۤپ کا فوجی بیٹا گاڑی چلا رہا ہے اور اسے اپنے سے زیادہ ہماری فکر ہے۔خیر ایسے ہی باتوں میں ہم گجرات کے ایک مشہور ریسٹورنٹ رکے۔ اۤکاش ہمیں یہاں کی سپیشل چانپیں اور بٹیر کھلانا چاہتا تھا۔ یہ کھانا اتنا ہی مزے دار تھا جتنا کاشی نے تعریف کی تھی۔

کھانے کے دوران بھی ہم باتیں کرتے رہے۔ اچانک کاشی نے کہا کہ ہمیں اب دانی کی شادی کردینی چاہیے۔ میں نے چونک کر اس کی طرف دیکھا کیوں کہ یہ بات میرے لیے بالکل غیرمتوقع تھی۔ میں نے جواب دیا کہ دانی کی شادی میں ابھی وقت ہے۔ MBBSکے بعد وہ پارٹ ون کرے گا تو اس کی شادی ہوگی۔ پھر میں نے اسے چھیڑنے کے لیے کہا کہ کہیں تم جلدی اس لیے تو نہیں کررہے کہ تم اپنی شادی کی خواہش رکھتے ہو؟
”امی میری تو ایک ہی خواہش ہے کہ میں اللہ کی راہ میں اپنے وطن کی حفاظت کرتے ہوئے شہید ہو جاؤں۔” اۤکاش نے سرد اۤہ بھرتے ہوئے کہا۔
”اللہ نا کرے!” برجستہ نکلے گئے الفاظ پر وہاں بیٹھے سب لوگوں نے پہلے میرا اورپھر کاشی کا چہرہ دیکھا جوکہ اتر گیا تھا۔
”میرا مطلب اتنی کیا جلدی ہے؟ ہو جانا شہید ستر اسی سال کی عمر میں۔” میری بات پر وہ مسکرا دیا لیکن اس نے کچھ کہا نہیں۔ اۤفتاب صاحب نے بات بدلنے کے لیے کوئی اور موضوع چھیڑ دیا۔ ماحول کچھ ہلکا پھلکا ہوگیا لیکن میری نظریں کاشی کے چہرے کا طواف ہی کرتی رہیں جوکہ بجھا بجھا سا تھا۔ کھانے کے بعد ہم لوگ واپس کھاریاں اۤئے۔ اۤکاش بضد تھا کہ ہم اۤج بھی اسی کے پاس رکیں لیکن اۤفتاب صاحب کو اگلے دن ایک ضروری کام تھا تو انہوں نے اسی وقت نکلنے کا ارادہ کیا۔ کاشی بہت محبت سے سب سے ملا۔ مجھ سے ملنے اۤیا تو میں کافی دیر اسے گلے سے لگائے کھڑی رہی اور اس کا دل بڑا کرنے کے لیے میں نے سرگوشی کے سے انداز میں کہا:
”اللہ تمہیں ہر ارادے میں کامیاب کرے کاشی!” اس بات پر اس کا چہرہ کھل گیا اور اس نے مضبوطی سے مجھے گلے لگا لیا۔
وہ سارا راستہ بھی ہم سب خاموش ہی رہے۔ درمیان میں کہیں دانی اور لویل باتیں شروع کردیتے۔ انہیں اۤکاش کی یونٹ بہت پسند آئی تھی۔ ایک چیز جو میں نے وہاں نوٹ کی وہ اۤکاش اور اس کے ماتحتوں کا اۤپسی رویہ تھا۔ اۤکاش ان کے ساتھ روایتی فوجی افسروں کی طرح سخت بھی تھا اور ایک بڑے کی طرح مہربان بھی۔ اۤکاش کی وجہ سے اس کے ماتحتوں نے ہمیں بھی بڑی عزت سے نوازا تھا۔ ایک جگہ سے گزرتے ہوئے جب اس کے کچھ ماتحت کھانا کھا رہے تھے اور اسے بھی اۤفر کی تو اس نے وہ اۤفر قبول کرتے ہوئے ان کے ساتھ چند نوالے کھاأے۔ فوج میں عموماً ایسا نہیں ہوتا اور سینئر اور جونئیر میں ایک فاصلہ برقرار رکھا جاتا ہے لیکن اۤکاش خود پر یہ لاگو نہیں کرتا تھا۔ بدلے میں اس کے ماتحت بھی اس کی بہت عزت کرتے تھے جس کا عملی مظاہرہ ہم دیکھ چکے تھے۔
کھاریاں میں پوسٹنگ کے دوران بھی اۤکاش کی ٹریننگ کا سلسلہ جاری رہا۔ اکثر فون پر وہ بتاتا، کبھی کوئی کورس چل رہا ہوتا تو کبھی کوئی ٹریننگ۔ میں اکثر سوچتی کہ ہمارے جوان اتنی سخت ٹریننگ کیسے کرلیتے ہیں۔ پھر خیال اۤتا کہ پاکستان کی افواج یونہی تو دنیا بھر میں اول نہیں۔ ہمارے جوان اس اعزاز کی خاطر بہت بھاری رقم چکا رہے ہوتے ہیں۔ گھروں سے دور، تپتے صحراأوں میں تو کبھی خون جما دینے والی برف سے ڈھکی پہاڑیوں میں۔ بھوک پیاس کے عالم میں تو کبھی انتہائی درد اور تکلیف کی حالت میں۔
جب عارف گجرانوالہ سے کورس مکمل کرکے اۤیا تو کیپٹن کے عہدے پر اس کی ترقی ہوگئی۔ اس موقع پر کھاریاں یونٹ میں ایک تقریب کا انعقاد کیا گیا جس میں عارف کی فیملی کو بھی مدعو کیا گیا۔ اس ساری تقریب کا انتظام اۤکاش نے کیا تھا۔ اس نے عارف کی فیملی کو اس طرح entertainکیا جیسے یہ اس کی اپنی فیملی ہو۔ حتیٰ کہ ان کے بچوں کو بھی۔ وہ بچوں کے ساتھ بچہ بن گیا تھا جوکہ عموماً وہ کرتا نہیں تھا۔ ان کے کھانے پینے سے لے کر ان کا کہیں اۤنا جانا اور ان کے بچے سنبھالنا، اس نے کسی چیز میں کمی نہ اٹھا رکھی جس سے عارف اور اس کی دوستی مزید پکی ہوگئی۔ اتنی کہ کبھی عارف اور اس کی منگیتر میں ناراضی ہوجاتی تو اۤکاش ان کی ناراضی ختم کرواتا۔ وہ دونوں ایک دوسرے کی شکایتیں اۤکاش کو لگاتے اور اۤکاش دونوں کو سمجھاتا۔
یہ اۤکاش کے ینگ اۤفیسر کورس پر جانے سے پہلے کی بات ہے۔ وہ orienteeringکا کورس کررہا تھا جس میں runningاور accuracyدونوں چاہیے ہوتے ہیں۔ یہ کورس کھاریاں سے باہر گل لیانہ میں تھا۔ گل لیانہ دریاأے جہلم کے ساتھ ایک نیم صحراأی علاقہ ہے اور بہت ریتیلا ہے۔ یہاں سات سو میٹر میں 180ڈگری پر کچھ پواأنٹس بنا کر وہاں کچھ چیزیں چھپا دی جاتی ہیں جنہیں ڈھونڈنا ہوتا ہے۔ اۤکاش وہاں اس کی پریکٹس کررہا تھا۔ عارف بھی چھٹی سے واپسی پر گل لیانہ اۤگیا تھا۔ یہ ٹریننگ سارا دن چلتی تھی۔ رات وہیں پر ٹینٹ لگا کر قیام کرنا ہوتا اور اس دوران کھانا وغیرہ بھی مٹی کے چولہے پر خود بنانا ہوتا تھا۔ دن بھر کی سخت ٹریننگ کے بعد رات جب اۤکاش ٹینٹ میں واپس اۤتا تو وہ دونوں دیر تک گپ شپ لگاتے۔ قدرت نے ان دونوں کو قریب ہونے کا بہت موقع دیا اور عارف نے ہر قدم پر اۤکاش کا بہت ساتھ بھی دیا۔ اس ٹریننگ کے بعد اۤکاش نے ینگ اۤفیسرز کورس کے لیے نوشہرہ جانا تھا۔ وہاں جانے سے پہلے وہ چند دنوں کے لیے گھر اۤیا تھا۔
اب ملک کے حالات کافی خراب ہوگئے تھے۔ ملک کے ہر کونے میں دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ اور بم دھماکے معمول کی کاررواأی ہوچکے تھے۔ کوئی عبادت خانہ، کوئی عوامی مقام اس کی زد سے محفوظ نہیں تھا۔ لوگ گھروں سے نکلتے تو گھر والے ان کی محفوظ واپسی کی دعاأیں کرتے۔ یہ سب دیکھ کر اۤکاش کا دل بہت دکھتا تھا۔ وہ ان سب عناصر کا جڑ سے خاتمہ کردینا چاہتا تھا۔ اپنی اس خواہش کا اظہار وہ وقتاً فوقتاً کرتا رہتا تھا اور اس وقت ایک عزم اس کی اۤنکھوں سے جھلک رہا ہوتا تھا۔
ایک دن وہ لیپ ٹاپ پر کچھ کام کررہا تھا۔ میں اس کے پاس جا کر بیٹھ گئی تو وہ مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اس دوران وہ اپنی فیس بک وال بھی چیک کررہا تھا کہ ایک خاتون کی تصویر پر اس کی انگلی کی حرکت رک گئی۔

”امی! یہ شہید کرنل ہارون اسلام کی Proud Motherہیں۔” میں چپ کرکے وہ تصویر دیکھنے لگی کہ پھر اس کی اۤواز آئی۔
”امی! جب میں بھی شہید ہوں گا نہ، تو اۤپ بھی مجھ پر فخر کریں گی۔ پھر اۤپ کو میرا یونیفارم اور جھنڈا دیا جائے گا اور وہ تمام باقیات جو میری ہوں گی۔ وہ چیزیں لیتے ہوئے اۤپ کی اۤنکھ میں جو اۤنسو ہوں گے، ان میں دکھ کے ساتھ ساتھ ایک فخر بھی ہوگا کہ میرے بیٹے نے وطن کے لیے جان دی ہے۔” ابھی وہ مزید بول رہا تھا کہ باہر سے مغرب کی اذانوں کی اۤوازیں اۤنا شروع ہوگئیں۔ مجھ میں مزید سننے کی سکت نہ تھی۔ میری برداشت ختم ہوچکی تھی۔ اۤنسو پہلے ہی اۤنکھوں کے کنارے نم کرچکے تھے اور جذبات سے میرا رواں رواں کھڑا ہوچکا تھا۔
”بس کرو اۤکاش! مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرو۔ نہیں دیکھ سکتی ایک ماں اپنے جوان بیٹے کی لاش خواہ وہ کفن میں ہو یا جھنڈے میں لپٹی ہوئی۔ نہیں دیکھ سکتی۔ تمہاری ان باتوں سے دل بند ہو جاتا ہے میرا۔ خدا کے واسطے مجھ سے ایسی ہمت والی باتیں مت کیا کرو۔ نہیں ہے مجھ میں ہمت۔” میں اونچا اونچا بول رہی تھی۔ میری سانس پھول چکی تھی اور الفاظ گڈ مڈ ہوکر منہ سے نکل رہے تھے۔ اۤکاش یہ دیکھ کر گھبرا گیا۔
”امی! امی میں تو مذاق کررہا تھا۔ اۤپ پریشان نہ ہوں۔ کچھ نہیں ہوتا اۤپ کے بیٹے کو۔” وہ مجھے تسلی دیتے ہوئے جھوٹ بول رہا تھا کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ وہ اس وقت صرف ماں کا دل رکھ رہا تھا اور بس۔ اس نے مجھ روتی ہوئی کو اپنے ساتھ لگا لیا اور چپ کروانے لگا۔
”یہ مذاق نہیں ہوتا اۤکاش۔ ماؤں کا دل چڑیا جتنا ہوتا ہے۔ایسی بڑی بڑی باتیں ان کا دل دہلا دینے کے لیے کافی ہوتی ہیں۔ تم کبھی یہ کیفیت نہیں سمجھ پاأو گئے کیوں کہ تم ماں نہیں ہو ناں۔ بس مجھ سے ایسی باتیں مت کیا کرو۔”
”اچھا آئی ایم سوری امی! وعدہ اۤئندہایسی باتیں نہیں کروں گا۔”
اور پھر اس نے مجھ سے ایسی بات کبھی کی بھی نہیں۔ ہاں اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں سے اکثر دعا کا کہتا کہ اللہ اسے شہادت کے رتبے پر فائز کرے۔ ایک مرتبہ ٹی وی پر کسی شہید کی بہن کا انٹرویو اۤرہا تھا کہ اۤکاش نے لویل کو مخاطب کرکے کہا کہ جب میں شہید ہو جاؤں گا نا تو تمہارا بھی ایسے ہی انٹرویو اۤئے گا جس پر لویل نے برا سا منہ بنا کر کہا کہ اسے ایسا کوئی شوق نہیں۔ تب اسے نہیں پتا تھا کہ میں پیچھے کھڑی اس کی باتیں سن رہی ہوں۔
اس کے شوق کا دفاع میں اپنی دعاأوں سے کرنے کی کوشش کرتی لیکن اس کا شوق، ماں کی دعاأوں سے زیادہ پُراثر تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!