یوں تو آپریشن ضربِ عضب کی تیاریاں بہت پہلے سے شروع ہوچکی تھیں لیکن اپریل 2014ء میں اس میں تیزی آئی۔ اس آپریشن کے لیے درجن سے زیادہ انفنٹری یونٹس جن کو توپ خانے اور ٹینکوں کی مدد حاصل تھی، کے علاوہ SSGکی تین بٹالین بھی آپریشن کا حصہ بنی۔ دہشت گردوں کے مضبوط گڑھ بنیادی طور پر میران شاہ اور میر علی کے علاقے تھے، جن کو کلیئر کرنے میں دو ہفتے لگے۔
4کمانڈو بٹالین 2جون 2014ء کو شمالی وزیرستان کے ہیڈ کوارٹر میران شاہ پہنچی اور انہیں وہاں کے چیدہ چیدہ علاقوں کو کلیئر کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ کیپٹن آکاش آفتاب ربانی 4کمانڈو بٹالین کی مٹھا کمپنی کو کمان کررہے تھے۔ آپریشن شروع ہونے سے پہلے انہوں نے اپنی ٹیم ترتیب دی اور انہیں ہر طرح سے آپریشن کے لیے تیار کیا۔ کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کی جواں مردی، اولیت پسندی، اعلیٰ قوتِ برداشت اور پیشہ وارانہ مہارت کی وجہ سے Combatٹیم نمبر 1کی ذمہ داری انہیں سونپی گئی۔ ان کی کمان میں اس ٹیم نے میران شاہ میں موجود شرپسند عناصر کے چار مضبوط ٹھکانوں کے خلاف یکے بعد دیگرے آپریشن کیے۔
سب سے پہلے میران شاہ کے رزمک اڈے کے قریب دہشت گردوں کے ایک پلازہ کو کلیئر کرنے کا ٹاسک ملا جس کو کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اور ان کی ٹیم نے بخوبی دو دن میں سرانجام دیا۔ اس طرح اگلے چند دنوں میں مزید تین ٹاسک دیے گئے جن میں مدینہ ٹاؤن میں ایک مدرسے، تحریکِ طالبان پاکستان کے کمانڈر الیاس کشمیری کے گھر اور مارکیٹ کو کلیئر کرنا تھا۔ کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اور اُن کی ٹیم کی عمدہ کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں میران شاہ کا سب سے مشکل ٹاسک یعنی آدم خور بازار کی کلیئرنس سونپی گئی اور یہ آپریشن بھی بڑی جانبازی سے مکمل کیا گیا۔ ٹیم کی کارکردگی کو نہ صرف ان کی یونٹ بلکہ ڈویژن، کور اور آرمی نے بھی بہت سراہا۔
میران شاہ کے مرکزی حصے میں آپریشن کے بعد اس ٹیم کو شہر کے گردونواح میں موجود دہشت گردوں کے دو اڈوں کو کلیئر کرنے کا ٹاسک دیا گیا۔ اس میں پہلا کمانڈر نیک محمد کے مدرسے کو دہشت گردوں سے پاک کرنا تھا اور دوسرا نگر کلے (گاؤں) کو کلیئر کرنا تھا۔ کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اور اُن کی ٹیم نے یہ دونوں ٹاسک بڑی بہادری اور کمال مہارت سے پایہئ تکمیل کو پہنچائے اور دہشت گردوں کو ٹھکانے لگایا۔
میران شاہ کے بعد آپریشن کا دائرہ مغرب یعنی افغانستان کے بارڈر کی طرف بڑھایا گیا۔ اس سلسلے میں پیش قدمی کے دوران 15جولائی 2014ء کو میران شاہ سے پانچ کلو میٹر مغرب کی جانب علی خیل نامی گاؤں میں 30سندھ رجمنٹ اور دہشت گردوں میں شدید جھڑپ ہوئی جس کے نتیجے میں تین جوان شہید ہوئے۔ بدقسمتی سے دشمن کی طرف سے بھاری فائرنگ کی وجہ سے ان کی نعشیں دریائے ٹوچی کے کنارے موجود تھیں اور وہاں سے نکالنے میں دقت پیش آرہی تھی۔ 4کمانڈو بٹالین کو یہ ٹاسک دیا گیا کہ وہ 30سندھ کی مدد کو پہنچیں اور شہداء کی نعشیں بھی نکالنے کی کوشش کریں۔
یہ ٹاسک بھی کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اور اُن کی ٹیم کی کارکردگی کو دیکھتے ہوئے انہیں ہی سونپا گیا۔ دشمن کی طرف سے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں کا شدید فائر آرہا تھا۔ جب دشمن کی طرف سے فائر اور بھی تیز ہوگیا تو کیپٹن آکاش آفتاب ربانی نے اپنی ٹیم کو فائر اور موو کی شکل میں تشکیل دیا، جس میں ایک پارٹی فائر کرتی ہے اور دوسری پارٹی اس فائر کی آڑ میں آگے بڑھتی ہے۔ اسی دوران کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کو دشمن کی گولی سینے کے اوپر آلگیں۔ پہلی کے بعد دوسری اور تیسری گولی بھی یکے بعد دیگرے چھاتی اور پیٹ کے اوپر آلگی۔ آپ زخمی ہوگئے لیکن اپنے حواس میں تھے اور ابھی سنبھل ہی رہے تھے کہ ایک سنائپر کی ایک گولی ہیلمٹ کو چیرتے ہوئے آپ کے سر پر آکر لگی اور آپ گر گئے۔ 15جولائی 2014ء بروز منگل سہ پہر 3بج کر 10منٹ پر کیپٹن آکاش آفتاب ربانی اپنے خالقِ حقیقی سے جاملے اور شہادت کا جام نوش کیا۔ آپ کے ساتھ آپ کی ٹیم کے جانباز وقار حسین بھی اس آپریشن میں شہید ہوئے۔ آپ کے جسدِ خاکی کو وہاں سے نکالا، باقیوں نے فائر کور مہیا کیا۔ مٹھا کمپنی نے اپنا مشن بعد میں رات کو مکمل کرلیا۔
کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید نے اپنی جان کا نذرانہ دے کر وطن دشمنوں کو واضح پیغام دیا ہے کہ جب تک ان جیسے بہادر بیٹے مادرِ وطن کی رکھوالی کررہے ہیں، تب تک کوئی پاکستان کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھ سکتا۔ کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کی اپنے مشن سے لگن، سرفروشی اور قربانی ہمارے لیے مشعلِ راہ ہے اور زندہ قومیں اپنے شہیدوں اور غازیوں کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔ بے مثال جرأت اور بہادری کے اعتراف میں حکومتِ پاکستان نے کیپٹن آکاش آفتاب ربانی کو بعد از شہادت ستارہئ بسالت سے نوازا۔
لیفٹیننٹ جنرل (ر) خالد ربانی
کور کمانڈر 11کور
٭……٭……٭
وہ ”گولُو“ سا لڑکا!
آکاش میرا ایک بہت پیارا،ذہین اور ادب کرنے والا شاگرد تھا۔ وہ چونکہ جماعت ہفتم میں اس سکول میں آیا تھا اور میرے ذمے تمام بچوں کئیونیفارم وغیرہ چیک کرنا تھا، تو روز ہی اس روشن چہرے والے بچے سے ملاقات ہوتی۔ میں کبھی کسی بچے کی ٹائی ٹھیک کروارہا ہوتا تو کبھی شرٹ، لیکن آکاش کے لیے کبھی مجھے یہ تردد نہ کرنا پڑا۔ بالوں اور ناخنوں کی تراش خراش سے لے کر سکول یونیفارم اور جوتوں تک، اس کا ہر کام نفاست سے ہوا ہوتا۔ حالانکہ دوسرے بچے گھروں سے آرہے ہوتے جبکہ آکاش وہیں ہوسٹل میں رہتا تھا، پھر بھی اس کا سلیقہ اور ڈسپلن دیکھنے کے لائق ہوتا۔ اس کے چہرے پر ہمیشہ ایک مسکراہٹ، دیکھنے والے کو بے ساختہ اپنی طرف متوجہ کرلیتی۔ ایک مرتبہ سکول اسمبلی میں، میں نے پوچھا کہ کوئی لڑکا ہے جو تقریر کرنا چاہے؟ ایک گول مٹول سا ہاتھ کھڑا ہوا۔ میں نے اسے سٹیج پر آنے کے لیے کہا تو ایک پیارا سا گولُو سا لڑکا چلتا ہوا آیا اور مائیک پر آکے فی البدیہہ ایک موضوع پر تقریر کی۔ وہ پیارا اور گولُو سا لڑکا آکاش تھا۔ مجھے خوشگوار حیرت ہوئی۔ اس واقعہ کے بعد نشتر ہاؤس کی جانب سے جب بھی کوئی تقریر ہوتی تو وہ آکاش ہی کرتا۔
ان تمام سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ وہ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی نمایاں رہتا۔ وہ کرکٹ، فٹبال اور باسکٹ بال کا اچھا کھلاڑی تھا۔
آکاش جیسے شاگرد کم کم ہی دیکھنے میں آتے ہیں اور دراصل ایسے ہی شاگرد، استادوں کا اصل فخر، سرمایہ اور پہچان ہوتے ہیں۔ جس طرح اس نے وطنِ عزیز کا دفاع کرتے ہوئے کم عمری میں جامِ شہادت نوش کیا، صرف مجھے ہی نہیں، پوری قوم اور خود ارضِ پاک کو اس پر فخر ہے۔
سلیم اقبال
استاد، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭