ماں کا آکاش

اۤرٹلری سکول نوشہرہ

اس کے ینگ اۤفیسرز کورس کے لیے نوشہرہ جانے کا دن اۤگیا تھا۔ بیسویں صدی کے اۤغاز سے جب تخت برطانیہ نے ہندوستان کے باشندوں کو فوج میں شامل کرنے کا منصوبہ بنایا تو مختلف یونٹز اور تربیت گاہوں کا قیام عمل میں لایا گیا۔ ایک ایسا اۤرٹلری سکول جو برطانیہ میں لیک ہل سکول کی طرز کا ہو، 1921ء میں کاکول میں قائم کیا گیا لیکن دور توپوں اور لمبی رینج کے گولے برسانے والی توپوں کی وجہ سے انہیں تنگی ہوئی کیوں کہ یہ راستے ان چیزوں کے لیے دشوار گزار تھے۔ اس لیے یہ سکول دیولالی کے مقام پر منتقل کردیا گیا جو 1947ء تک وہاں رہا۔ 15ستمبر 1947ء کو دیولالی کے مقام پر ایک کانفرنس میں اۤرٹلری کا جو حصہ پاکستان کے حصہ میں اۤیا، اسے نوشہرہ میں قائم کیا گیا جسے ”راأل پاکستان اۤرٹلری سکول” کا نام دیا گیا۔
یہ سکول قیامِ پاکستان کی ابتداأی مشکلات کے دور میں پاکستان اۤرمی کا انتہائی اہم یونٹ رہا۔ اس کے پہلے کمانڈنٹ لیفٹیننٹ کرنل گیلرہر تھے۔ اس سکول کو یہ اعزاز بھی حاصل رہا کہ قائداعظم 13اپریل 1948ء کو یہاں تشریف لائے اور اس تربیت گاہ کی تعریف کی۔ بعدازاں کمانڈر اِن چیف جنرل محمد ایوب خان نے اس سکول کی ٹیکنیکل بنیادوں پر ترقی کے لیے متعدد اقدامات کیے۔ اۤرٹلری کے مختلف شعبوں جیسےammunition, equipment, gunnery branch, اور trial branch جیسے شعبوں کی تعمیر ہوئی اور اس کا نام تبدیل کرکے ”اۤرٹلری سکول” رکھ دیا گیا۔ 1958ء میں لیفٹیننٹ کرنل امیر احمد نے پہلے پاکستانی کمانڈنٹ کے طور پر اپنے فراأض یہاں سنبھالے۔
اۤکاش کئیہاں basic artileryکورس 9جنوری 2012ء کو شروع ہوا اور 16جون 2012ء کو ختم ہوا۔ اس میں 135اۤفیسرز نے شرکت کی تھی۔ تمام اۤفیسرز نے یہاں 18جنوری کو رپورٹ کرنا تھی لیکن اۤکاش 7جنوری کو ہی وہاں پہنچ گیا۔ اس کا ارادہ تھا کہ وہاں اپنے اگلے چھے ماہ کے قیام کے لیے اپنی مرضی سے الگ تھلگ اور پرسکون کمرہ منتخب کرسکے اور اس کے لیے وہاں پہلے جانا ضروری تھا۔ یہاں کیپٹن احسن اس کا روم میٹ تھا۔
یہاں بھی اس نے اپنے ڈھنگ سے رہنا شروع کردیا۔ یہاں اۤئے اۤفیسرز کی کوشش ہوتی کہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت پڑھائی کو دیں تاکہ اس کورس میں ان کی نمایاں پوزیشنز برقرار رہ سکیں۔ بہت زیادہ پڑھاکو اۤفیسرز کو باقی سب ”تھیٹھا” بلاتے تھے۔ لیکن اۤکاش ”تھیٹھا” نہ تھا۔ وہ پڑھائی میں اچھا ضرور تھا۔ وہ جو پڑھتا اور جتنی دیر پڑھتا پورے دل سے پڑھتا لیکن وہ بہت زیادہ پڑھاکو نہیں تھا۔ اس کا زیادہ تر وقت گیمز کھیلنے میں صرف ہوتا۔ دوسرے اۤفیسرز بھی اس کے کمرے میں چلے اۤتے اور اسکا کمرہ خوب پررونق ہوجاتا۔ وہ نماز کا عادی نہیں تھا لیکن میں نے جتنی مرتبہ اسے نماز پڑھتے دیکھا، پوری یکسوئی سے دیکھا۔ کئی بار اس کی اۤنکھوں سے اۤنسو بھی رواں ہو جاتے۔ رشتوں اور نیتوں کئیہی خالص پن اسے دوسرے لوگوں سے ممتاز کرتا تھا۔ وہ ایک مرتبہ جس کا ہو جاتا، حالات کیسے ہی کیوں نہ ہوں، اس نے اس کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا۔
اۤرٹلری کا کورس سب اۤرمز میں سب سے زیادہ مشکل ہوتا ہے کیوں کہ یہ کورس تکنیکی بنیادوں پر کیا جاتا ہے۔ توپوں کی فائرنگ کی ایک مکمل سائنس اور انجینئرنگ ہوتی ہے جس میں تھوڑا سا بھی مغالطہ یا کمی بیشی بہت بڑے نقصان کا پیش خیمہ ثابت ہوسکتی ہے۔ یہاں وہ اۤفیسرز بھی تھے جن کی سائنسی تعلیم زیادہ نہ تھی اس لیے انہیں یہاں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا جبکہ اۤکاش شروع سے ہی سائنسی مضامین میں بہت تیز رہا تھا اس لیے اسے زیادہ دشواری کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ اس کی میتھس بڑی absoluteاور accurateتھی۔ یہاں دن میں ایک کلاس، کلاس میں ہوتی اور دوسری کلاس شام کو اۤکاش کے کمرے میں ہوتی۔ تین تین چار چار لڑکوں کا گروپ اۤکاش کے پاس اپنے مسائل لے کر اۤتا اور اۤکاش انہیں پوری ایمانداری سے سب سمجھاتا۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا کہ یہ ڈسکشن پوری پوری رات چلتی۔ ایک مرتبہ اس نے مجھے یہ روداد سنائی تو میں نے اسے سمجھایا کہ وہ ایسا کرنے کی بجائے اپنی پڑھائی پر توجہ دیا کرے اور اس نے ہنس کر کہا تھا کہ امی اس سے میری پڑھائی میں خلل نہیں اۤتا بلکہ میرے اپنے کافی سارے conceptsکلئیر ہوتے رہتے ہیں۔
وہ اکثر رات نو بجے سو جاتا اور تین بجے اٹھ کر پڑھتا۔ اس سے وہ کم وقت میں زیادہ پڑھ لیتا کیوں کہ اس وقت وہ کافی فریش محسوس کررہا ہوتا تھا۔ اکثر فارغ اوقات میں وہ اپنے پلاٹون میٹس کے ساتھ باہر کھانا بھی کھانے جایا کرتا تھا۔ وہاں ایک ہوٹل ”ریور ویو” کی مچھلی اسے بہت پسند تھی۔ وہ اور اس کے دوست اکثر وہیں جاتے۔ وہاں سارا مینیو وہ خود منتخب کرتا کیوں کہ اس کی چوائس بہت اچھی تھی۔ تمام دوست یہ کام اسے سونپ کر بے فکر ہو جاتے اور وہ ہر مرتبہ انہیں کچھ مختلف کھانے کا تجربہ کرواتا۔ چھٹی والے دن اس کا اۤرڈر ساگ اور مکئی کی روٹی ہوتا۔ وہ اپنے NCBکو ہدایات دے کر بھیجتا اور وہ یہ اۤرڈر تیار کروا کر لاتا۔ ساتھ میٹھی لسی بھی ہوتی۔ پھر تمام دوست اس کے کمرے میں اکٹھے ہوجاتے اور کھانے سے شغف کرتے۔
پیپر سے ایک دن پہلے کچھ عجیب و غریب ہوتا جو اس کے اکثر پلاٹون میٹس کو اۤج بھی نہیں پتا۔ شاید یہ کتاب پڑھتے ہوئے ان پر یہ راز منکشف ہوکہ پیپر سے ایک دن پہلے اۤکاش کہاں غائب ہو جاتا کہ پورے سکول میں ڈھونڈنے سے بھی نہ ملتا۔ دراصل وہاں اکثر کمرے خالی پڑے تھے۔ اۤکاش پیپر سے ایک دن پہلے اپنا سامان لے کر کسی بھی کمرے میں چھپ جاتا اور وہاں بیٹھ کر پڑھتا کہ کوئی اس کی پڑھائی میں خلل نہ ڈال سکے۔ لڑکے سارا دن اس کے کمرے کا چکر لگاتے رہتے اور احسن سے اس کی بابت دریافت کرتے لیکن احسن انہیں بتاتا کہ وہ خود بھی اسے ڈھونڈ رہا ہے حالاں کہ ایک احسن ہی تھا جسے پتا ہوتا کہ وہ کہاں ہے۔
اسی دوران اۤکاش کے ایک انسٹرکٹر جو یہاں انہیں پڑھاتے تھے، کی پوسٹنگ کہیں اور ہوگئی۔ ان کے لیے سب نے مل کر ایک فئیر ویل پارٹی کا انعقاد کیا۔ تمام اۤفیسرز وہاں صاف ستھرے لیکن روزمرہ کے حلیے میں پہنچے جبکہ اۤکاش نے خاص تیاری کا اہتمام کیا۔ سوٹ پینٹ پہنا، ٹاأی لگائی اور فارملی تیار ہوا۔ احسن کے وجہ پوچھنے پر اس نے بتایا کہ وہ چونکہ فارملی اپنے انسٹرکٹر کو الوداع کہنے جارہے ہیں تو اس کا اہتمام بھی فارمل ہونا چاہیے۔ یہ بات بھی مجھے احسن نے خود بتائی تھی۔ تیاری تو وہ واقعی موقع کی مناسبت سے کرتا تھا۔

اۤخر کار کورس ختم ہوا اور اۤکاش نے تمام اۤفیسرز میں تیسری پوزیشن حاصل کی اور اسے Bronzeمیڈل سے نوازا گیا۔ جب اس نے SSGمیں شمولیت کا فیصلہ کیا تھا تو اس کے سب پلاٹون میٹس بہت حیران ہوئے تھے کہ اس نے یہ فیصلہ کیوں کیا۔ کیوں کہ SSGجانے کا فیصلہ عموماً وہ اۤفیسر کرتے جو اپنی یونٹ سے تنگ ہوتے۔ اپنی یونٹوں میں پوزیشن ہولڈرز ایسا فیصلہ کم ہی کرتے تھے اور اۤکاش ان کم لوگوں میں سے ہی ایک تھا۔
کورس کے اختتام پر اسے ایک ہفتے کی چھٹیاں ملی تھیں۔ وہ گھر اۤیا تو اپنے ساتھ ڈھیروں رونقیں لے اۤیا۔ اتفاقاً جن دنوں وہ اۤیا ان دنوں لویل کی سالگرہ تھی۔ اب یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ گھر پر ہو اور کوئی ایونٹ یادگار نہ ہو۔ اۤکاش نے اس کی سالگرہ والے دن ایک ریسٹورانٹ میں سرپرائز پارٹی کا اہتمام کیا۔ اس نے لویل کی سبھی دوستوں کو وہاں انوائٹ کیا اور ریسٹورانٹ کو غباروں اور دیگر آرائشی چیزوں سے سجا دیا۔ اس نے کیک بھی سپیشل تیار کروایا تھا۔ اس کی سالگرہ والے دن دونوں بھائی اسے اس ریسٹورانٹ لے گئے۔ ابھی تک لویل کو اس تیاری کا کچھ نہیں پتا تھا۔ وہاں جا کر اور تیاریاں دیکھ کر لویل تو حیران ہی رہ گئی۔ مزید جب اپنی سہیلیاں اور کزنز وہاں دیکھے تو اس کی خوشی اور حیرانی کی کوئی انتہا نہ رہی۔ پارٹی کے اختتام پر لویل نے دونوں بھائیوں سے گفٹس کا مطالبہ کیا تو دونوں حیرانی سے اس کا منہ تکنے لگے۔ اتنی شاندار پارٹی کے بعد بھی اسے گفٹس چاہیے تھے۔ اب تو دونوں بھائیوں کا ناراض ہونا بنتا تھا۔ وہ دونوں اس سے ناراض ہوگئے کہ اتنی شاندار پارٹی کی اس کے نزدیک کوئی اہمیت ہی نہیں۔ لیکن وہ بھی گفٹ لینے پر مصر رہی۔ وہ الگ بات کہ جانے سے پہلے اۤکاش نے اسے اس کی پسند کی کافی ساری چیزیں لے کر دی تھیں۔
سات دن پلک جھپکتے میں گزر گئے اور وہ واپس کھاریاں چلا گیا۔ کچھ دنوں بعد اس کی پوسٹنگ سرگودھا یونٹ ہوگئی تو وہ وہاں چلا گیا جو اگلے چھے ماہ کے لیے اس کی قیام گاہ تھی۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭
سرگودھا پوسٹنگ
”Heaven of Heavens” یعنی اۤکاش کی یونٹ ایک ساتھ سرگودھا منتقل ہوگئی۔ یہاں سب سے بڑا مسئلہ صاف پانی اور صاف ستھرے ماحول کا تھا۔ یہاں کا پانی اتنا کھارا تھا کہ سب کے معدے خراب ہونا شروع ہوگئے۔ اۤرمی پہلے ائیر فورس basesپر نہیں ہوتی تھی لیکن مہران بیس والے سانحے کے بعد یہاں باقاعدہ سسٹم کیا گیا اور اسے اَپ گریڈ کیا گیا۔ اس سے پہلے یہاں حالات اور بھی خراب تھے لیکن اب کچھ بہتر ہونے کے باوجود بھی قابلِ رہاأش نہ تھے۔ اۤکاش کی یونٹ نے یہاں قیام کے دوران مسائل کافی حد تک ٹھیک کرنے کی کوشش کی۔ لیکن وہ کتنی کوشش کرسکتے تھے۔
اس دوران اۤکاش کو بھی اپنی طبیعت کچھ خراب لگی۔ اۤکاش وہیں بیس کے اسپتال گیا جہاں کرنل ساجد نے اسے اسپتال ایڈمٹ ہونے کا کہا۔ اۤکاش کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کی طبیعت اتنی خراب ہے۔ گندے پانی اور ماحول کی وجہ سے اسے ہیپاٹاأٹس اے ہوگیا تھا۔ ہمیں جب اس کی بیماری اور اسپتال داخل ہونے کا پتا چلا تو ہمارے تو جیسے ہاتھ پاأوں ہی پھول گئے۔ چونکہ اۤفتاب صاحب خود پروفیسر اۤف میڈسن اور جنرل فزیشن ہیں، اس لیے انہوں نے اس کی رپورٹس اور دی جانے والی دواأیوں کی فہرست منگواأی۔ ان کی تسلی نہیں ہورہی تھی اس لیے انہوں نے اسے چھٹی دینے کی درخواست کی تاکہ خود اس کا علاج کرسکیں لیکن اسپتال کے SOPکے مطابق اس کی ALTکی مطلوبہ تعداد سے پہلے اسے ڈسچارج نہیں کیا جاسکتا تھا۔
اۤکاش اس دوران بالکل ہی کمزور اور لاغر ہوگیا۔ اس کا رنگ پیلا ہوگیا اور اس نے کھانا پینا بالکل چھوڑ دیا۔ حالاں کہ اس کے دوست وہاں اس کے کھانے پینے کا بہت خیال رکھ رہے تھے لیکن اۤکاش کا دل اچاٹ ہورہا تھا۔
تھوڑے عرصے میں اس کی ALT مطلوبہ تعداد کو پہنچی تو اسے ڈسچارج کرکے گھر بھیج دیا گیا۔ یہ پہلی بار تھا کہ گھر اۤکر اس نے صرف اۤرام کیا۔ بس زیادہ سے زیادہ گھر والوں کے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرلیا کرتا ورنہ باقی وقت اۤرام ہی کرتا۔ ایک عرصے کی بے اۤرامی اور بے سکونی تھی، جانے میں وقت تو لگتا نا۔ سارا گھر اس کی تیمار داری میں لگا ہوا تھا۔ اسے ایک ٹینشن اور تھی۔ سرگودھا بیس میں وہ ایک ٹریننگ کروا رہا تھا جس میں ابتداأی حفاظتی اور ردِعمل کی تدابیر تھیں۔ اس کے علاوہ اس نے یہاں پر Camoflouge کرنا سکھانا تھا۔ یہ ایک تکنیک ہوتی ہے جس میں انسان کوئی غیرانسانی چیز کا روپ دھار لیتا ہے۔ اسی ٹینشن کی وجہ سے وہ ٹھیک ہوکر جلد ہی واپس سرگودھا روانہ ہوگیا۔

وہاں جاکر وہ جلد ہی روٹین میں واپس اۤگیا۔ یہاں پانی اور ماحول کے ساتھ ساتھ اسے ایک پریشانی اور تھی۔ سرگودھا یونٹ والے اپنے اۤپ کو ہر چیز میں استاد مانتے تھے اور انہیں کوئی بھی چیز سکھاأی جاتی تو اۤگے سے counter argument لازمی کرتے تھے۔
اس صورتحال پر اۤکاش اور عارف کے درمیان دلچسپ مکالمہ بھی ہوا۔ جب عارف نے اسے وہاں کے حالات جاننے کے لیے رابطہ کیا اور رسمی علیک سلیک کے بعد دونوں مدعا پر اۤئے۔
عارف: ”اور کیا کررہے ہو وہاں؟”
اۤکاش:” سر بس ٹریننگ کروا رہا ہوں۔ ساتھ ساتھ اپنی learningبھی ہورہی ہے۔”
عارف: ”کیوں بھائی؟ اپنی learningکیا 47میں نہیں ہوئی؟”
اۤکاش:”نہیں نہیں سر! learningکے اعتبار سے تو 47کسی یونیورسٹی سے کم نہیں۔ اسے فوجی یونٹ نہیں بلکہ فوجی یونیورسٹی ہونا چاہیے۔ اب یہاں کے حالات دیکھ لیں۔ ہر بندہ پروفیسر بنا ہوا ہے۔ انہیں فوجی ٹوپی کے بجائے کالی ٹوپی پہنا دیں بس۔ جو بھی اۤتا ہے کہتا ہے تمہیں کچھ نہیں پتا، تمہیں یہ نہیں پتا، وہ نہیں پتا، یہ ایسے نہیں ہوتا وہ ویسا نہیں ہوتا۔”
عارف اس کی باتوں پر کافی دیر تک ہنستا رہا۔ اس نے ساری یونٹ، حتیٰ کہ بریگیڈیء ر دلاور کو بھی اۤکاش کی یہ بات بتائی کہ 47کو یونٹ نہیں بلکہ یونیورسٹی ہونا چاہیے۔ وہ سب بھی اۤکاش کی اس بات پر بہت محظوظ ہوئے۔
ایک دن کرنل عمیر نے وہاں معائنہ کے لیے اۤنا تھا۔ کرنل عمیر ایک روایتی فوجی اور انتہائی زیرک انسان تھے مگران کی ایک عادت تمام اۤفیسرز میں کافی دلچسپی کا باعث بنتی تھی اور وہ یہ کہ وہ بات کرتے کرتے کسی نقطے پر کہیں کھو جاتے اور کافی دیر اسی حالت میں رہتے۔ ان کی اس عادت کے باعث تمام اۤفیسرزنے ان کا نام ”پولا” رکھا ہوا تھا۔ فوج میں سنیارٹی بہت اہمیت کی حامل ہوتی ہے اور کسی بھی سینئر سے بدلحاظی کی سخت سزا ہوتی ہے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ اۤپ فوج کے بڑے بڑے افسر سے پوچھ لیں، خواہ وہ حاضر سروس ہو یا ریٹاأرڈ، ان سب نے اپنے اپنے دور میں اپنے اپنے سینئرز کے مختلف نام رکھے ہوئے ہیں اور اپنی نجی محافل اور اۤپس کی گفتگو میں یہی نام استعمال کرتے ہیں۔ ان کی دلچسپیوں کے یہی چھوٹے چھوٹے سامان ہوتے ہیں۔
کرنل عمیر جب بھی کسی بات کے درمیان رک جاتے اور گفتگو موقوف کر دیتے تو سب اۤفیسرز اس حالت کو کہتے کہ ”سر پولا Hangہوگئے ہیں۔” یقینا جب کرنل عمیر یہ پڑھ رہے ہوں گے تو وہ بھی خوب ہنسیں گے اور شاید وہ تمام نام بھی ان کے ذہن میں گردش کریں جو انہوں نے اپنے سینئرز کے رکھے تھے۔
بہرحال، معائنہ شروع ہوا اور کرنل عمیر نے اۤکاش سے اپنے camoflougeلانے کو کہا۔ اۤکاش نے سامنے بنے درختوں کی طرف اشارہ کردیا۔ اب کی بار کرنل عمیر نے ذرا غور سے دیکھا اور اٹھ کر ان درختوں کے قریب چلے گئے جہاں ان کی حیرانی اور بھی بڑھ گئی کیوں کہ یہ درخت ہی camoflouge تھے۔ اۤکاش نے انہیں اس مہارت اور پرفیکشن سے ترتیب دیا تھا کہ کرنل عمیر بھی ان میں فرق نہ کر پائے اور جب انہیں اس بات کا پتا چلا تو وہ کافی دیر تک اسے شاباشی دیتے رہے۔ پھر پوری سرگودھا یونٹ میں اس کا camoflouge مشہور ہو گیا۔ جب بھی اۤکاش کو کسی جونئیر کو سزا دینی ہوتی تو وہ یہی کہتا کہ وہ اسے camoflouge کرواأے گا اور وہ بندہ کہتا کہ سر جو مرضی سزا دے لیں، بس یہ نہ کریں۔
اس یونٹ میں کیپٹن محسن اور کیپٹن زمان بھی تھے جن کا وزن کچھ زیادہ تھا۔ کیپٹن محسن کی منگنی ہوئی تھی اور عنقریب شادی طے تھی اس لیے وہ جلد از جلد اپنا وزن کم کرنا چاہتے تھے۔ اۤکاش نے انہیں ایک مکمل ڈاأٹ پلانٹ مرتب کر کے دیا جو وہ باقاعدگی سے فالو کرنا شروع ہو گئے۔ انہوں نے اپنی ایکسرسائز بھی بڑھا دی۔
ایک رات اۤکاش اور کیپٹن عارف، کیپٹن محسن کے کمرے میں گئے جہاں وہ بیٹھے مونگ پھلی کھا رہے تھے۔ کیپٹن عارف کا دل بھی مونگ پھلی کھانے کا کرنے لگ گیا لیکن کیپٹن محسن نے اپنی مونگ پھلی انہیں دینے سے صاف انکار کر دیا کہ انہوں نے دوپہر کے بعد کچھ نہیں کھایا اور یہ کہ اب انہیں شدید بھوک لگی ہوئی ہے۔ سرگودھا کی مونگ پھلی ویسے بھی بہت مشہور ہے۔
اۤکاش کو انہوں نے نوشہرہ میں کورس کی تیاری بھی کروائی تھی اس لیے ان سے تھوڑا فری بھی تھا تو اس نے کیپٹن محسن سے مونگ پھلی لینے کا پلان کیا اور انہیں بتایا کہ مونگ پھلی میں جتنی کیلوریز ہوتی ہیں وہ ان کے وزن گھٹانے میں نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے۔ اس نے انہیں اتنا قاأل کر لیا کہ وہ اپنی مونگ پھلی چھوڑ کر بیٹھ گئے اور اۤکاش اور کیپٹن عارف اۤتے ہوئے وہ اپنے ساتھ لے اۤئے اور مزے لے کر کھاتے رہے۔ اس کے بعد دونوں دوبارہ محسن کے کمرے میں گئے۔ عارف نے ان سے پوچھا کہ سر مونگ پھلی میں کتنی کیلوریز ہوتی ہیں جس کے جواب میں انہوں نے اۤکاش کی بات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا:
”ڈاکٹر کا پتر ہے۔ اس نے کہا ہے کہ زیادہ ہوتی ہیں تو زیادہ ہی ہوتی ہوں گی۔”
اس بات پر دونوں کی ہنسی نکل گئی اور ہنستے ہنستے دونوں نے انہیں اصل بات بتائی۔ کئی دن تک پورے یونٹ میں اس واقعے پر قہقہے گونجتے رہے۔ کچھ دنوں بعد کیپٹن عارف خود بیمار ہو گئے۔ چوں کہ اۤکاش اور عارف کی رہاأش کچھ فاصلے پر تھی اس لیے اۤکاش دو دن ان سے ملنے نہ جا سکا۔ نہ اسے عارف کی طبیعت کا علم تھا۔ جس پر دلبرداشتہ ہو کر عارف نے اۤکاش کو جذباتی سا میسج لکھا جو من و عن یوں ہے۔
“Dear Brother! We Say heaven of heavens is a family and we are brothers. Where is our brotherhood when one brother is dying with fever and other brother simply don’t care. I simply hate this brotherhood. Dont come to me and dont expect anything from me. I hate this world.”
اسی رات نو بجے کا واقعہ ہے۔ سردی بہت سخت تھی اور بارش بھی ہو رہی تھی۔ عارف نے کھڑکی سے دیکھا دو بندے باأیک گھسیٹتے اۤرہے ہیں۔ قریب اۤنے پر اسے پتا چلا کہ وہ اۤکاش اور زمان ہیں۔ عارف نے دروازہ کھولا۔ وہ دونوں اندر اۤئے اور تولیے سے خود کو صاف کرنے لگے۔ اس دوران کمرے میں خاموشی رہی کہ اچانک اۤکاش بولا:
”کوئی کام ہے سر اۤپ کو؟ دو میسج خیر سے بھیجے؟”

عارف اس کے نارمل انداز پر تلملا کر رہ گیا۔
”ضرورت نہیں ہے مجھ سے بات کرنے کی۔” اس کا پھولا ہوا منہ دیکھ کر بھی اۤکاش نارمل ہی رہا۔
”کوئی بات نہیں سر! اۤپ کو کوئی کام ہے تو میں کر دیتا۔” یہ کہہ کر اس نے جیب سے موبائل نکالا اور کہا۔
”سر اۤپ نے اتنی محنت سے یہ میسج لکھے ہیں شکر کریں میں نے ڈیلیٹ نہیں کر دیے پڑھے بغیر ورنہ اۤپ کو میری عادت کا پتا ہے میں میسج ڈیلیٹ کر دیتا ہوں۔”
عارف اس کا نارمل انداز دیکھ کر سٹپٹا کر رہ گیا لیکن کچھ بولا نہیں تو کچھ دیر بعد اۤکاش خود ہی بول پڑا۔
”کیا سر! ہٹے کٹے تو بیٹھے ہیں۔ ملنے کا دل کر رہا تھا تو ویسے ہی بتا دیتے نا۔ دیکھیں ہم بارش میں بھی اۤگئے ملنے وہ بھی پنکچر باأیک کے ساتھ۔”
اۤکاش کے لہجے میں لجاجت آئی تو عارف بھی مسکراأے بغیر نہ رہ سکا۔ اس کی بدلتی ہوئی حالت دیکھ کر اۤکاش نے پھر لطیفہ چھوڑا۔
”سر! جب میسج کرنا ہو تو بتا دیا کریں کون سا پڑھنے والا ہے اور کون سا ڈیلیٹ کرنے والا۔”
اس بات پر کمرے کا ماحول یکسر تبدیل ہو گیا۔ جہاں کچھ دیر پہلے ناراضی تھی، وہاں اب قہقہے تھے۔ عارف کہتا ہے میں سوچ رہا تھا کہ یہ کیا بندہ ہے۔ میں جتنا غصے میں تھا اور بات نہ کرنے کا ارادہ کیے بیٹھا تھا، اس نے چند جملوں میں ہی میرا سارا غصہ ہوا کر دیا۔ ایسا کم ہی ہوتا ہے۔
وہ ایسا ہی تھا۔ ذمہ داریوں کو لے کر سنجیدہ جبکہ طبیعتاً لاابالی۔ اس کا ایک جونئیر اس کے ساتھ رہنے اۤیا تو اۤکاش نے کسی بڑے بھائی کی طرح اس کا خیال رکھا۔ اسے ہر طرح سے گاأیڈ کیا حتیٰ کہ کورس کے لیے اس کی تیاری بھی کروائی۔ جس دن ذیشان اپنے کورس کے لیے جا رہا تھا تو اسے وداع کرنے کے بعد اۤکاش اپنے کمرے میں گیا جہاں اس کا پسندیدہ پرفیوم رکھا تھا۔ اس کے نیچے ایک رقعہ رکھا تھا جس پر درج تھا۔
“Sir! You are the best senior.
I will miss you alot. You cared alot of me.”
وہ سارا دن کاشی خوشی سے یہ کہتا رہا:
”شانی شانی ہے۔”
اتنا ہی اۤسان تھا اس کے لبوں پہ مسکراہٹ سجانا۔
وقت اپنی ڈگر پر چل رہا تھا۔ کاشی ان سرگرمیوں کے دوران اپنے مقصد کو نہیں بھولا تھا۔ اس کا مقصد، کمانڈو بننا تھا۔ جب اس کے کمانڈنگ اۤفیسر کو اس کے ارادے کا پتا چلا تو انہوں نے فوراً نا کر دی۔ وہ اۤکاش جیسا اۤفیسر جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔
Sir! Its my intrinsic drive and motivation.””
“Even then I’ll not let you go.”
یہ مختصر مکالمہ اۤکاش کے عزم اور اس کے CO کی اس سے چاہت ثابت کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ کئی طرح سے اسے اس کے ارادے سے باز رکھنے کی کوشش کرتے رہے لیکن اۤکاش نے کمانڈو کورس کے لیے اپلائے کر دیا۔ تھوڑے ہی دنوں میں اسے سکریننگ ٹیسٹ کے لیے بلا لیا گیا۔ اۤکاش نے مونچھیں بڑی رکھی ہوئی تھیں اور اسے اس بنا پر وہاں ناپسند کیا گیا۔ کمانڈو کورس جو ویسے ہی مشکل ہوتا ہے، اسے اۤکاش کے لیے مزید مشکل بنا دیا گیا۔ اۤکاش یوں بھی فزیکلی بہت زیادہ فٹ نہیں تھا۔ اسے بار بار کی ایکسرسائز مشکل لگتی تھیں۔ یہ چیز اس کے اۤڑے اۤرہی تھی اور جوں ہی اسے اس چیز کا احساس ہوا، اس نے اپنی یہ کمی بھی دور کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔
اۤکاش مطالعے والا بندہ تھا۔ ہمیشہ وہ پڑھائی کے بل بوتے پر ہی اۤگے بڑھا تھا لیکن یہاں اسے اپنی ڈگر تبدیل کرنا تھی۔ وہ اخبارات پڑھتا تھا، کتابیں پڑھتا تھا، حالاتِ حاضرہ سے باخبر رہتا تھا، موویز دیکھتا تھا، گیمز کھیلتا تھا اور فزیکلی جس چیز کی جتنی ضرورت ہوتی، اتنا ہی وہ برقرار رکھتا تھا لیکن یہاں اسے خود سے لڑنا پڑا۔ اپنی عادات، اپنی طبیعت کے خلاف جا کر اسے کامیابی حاصل کرنی تھی اور وہ اس چیز کے لیے بہت پرجوش تھا۔
اب تک کے اس کے ریکارڈز اس بات کے گواہ تھے کہ اۤکاش تعلیمی میدان میں بہت اچھے سے پرفارم کرتا۔ وہ پریزنٹیشن بنانی ہو، ینگ اۤفیسرز کورس کرنا ہو، ٹریننگ کرنی یا کروانی ہو، کسی کمپنی کا کوئی پلان بنانا ہو، وہ پلک جھپکتے میں بنا دیتا لیکن یہاں اس کے پاس پلکیں جھپکنے کا ہی تو وقت نہیں تھا۔ کمانڈو ٹریننگ اس کے لیے مشکل ثابت ہو رہی تھی، کچھ مزید مشکل بنائی جا رہی تھی لیکن اس کے عزم کے اۤگے یہ مشکلات معنی نہیں رکھتی تھیں۔
اۤخر کار اسے کمانڈو کورس کی ٹریننگ کے لیے چن ہی لیا گیا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!