ماں کا آکاش


پاکستان واپسی

میری چھوٹی بہن کی شادی اپریل 2000ء میں ہونا طے قرار پائی تھی اس لیے ہم اپنے مقررہ وقت سے کچھ عرصہ پہلے ہی واپس پاکستان اۤگئے۔ میرے تینوں بچے کافی عرصے بعد اپنے تمام کزنز سے مل رہے تھے اس لیے ان کی خوشی دیدنی تھی۔ اپنی چھوٹی خالہ کی شادی سب بچوں نے خوب انجوائے کی۔ اس کے بعد پھر وہی سکول کی روٹین۔ سعودیہ اور یہاں کے ماحول میں کافی فرق تھا لیکن بچوں نے جلد ہی خود کو یہاں ایڈجسٹ کرلیا۔
اۤکاش کا داخلہ چھٹی کلاس میں ہوا تھا۔ جلد ہی یہاں بھی وہ تمام اساتذہ کی نظروں کا مرکز بن گیا۔ پڑھنے والے بچے تو ہر جگہ بہت سے ہوتے ہیں لیکن اۤکاش ان بچوں میں سے تھا جو اپنے اندر ایک غیرمعمولی کشش رکھتے ہیں۔وہ کشش، جو سینکڑوں کے مجمع میں بھی ساری توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی ہے۔ وہ کشش، جو اہلِ نظر کو بتا دیتی ہے کہ یہ بچہ کسی بڑے مقصد اور کسی بڑے سفر کا راہی ہے۔ ایسی ہی کشش رکھتا تھا میرا اۤکاش۔ اس عمر کے بچے جہاں کھیل کود اور تفریح کے دلدادہ ہوتے ہیں، اۤکاش ”اقبال” کو پڑھتا۔ نہ صرف یہ بلکہ کئی موقعوں پر اقبال کا حوالہ دینا میرے اور اۤفتاب سمیت کئی لوگوں کو ورطہء حیرت میں ڈال دیتا کہ اتنی کم عمری میں اتنا فہم، کبھی کبھی تو وہ مجھے کوئی پراسرار سی شے لگتا۔
اپنا فارغ وقت اۤکاش اپنے دادا دادی کے ساتھ ان کی انیکسی میں گزارتا۔ وہاں اس کی دلچسپی کا ایک سامان دادا جی کا کتا ٹومی بھی تھا جس کے ساتھ اۤکاش خوب کھیلتا۔ ٹومی بھی اس کی طرف کھنچا چلا اۤتا۔ وہ جہاں کہیں بھی ہو، اۤکاش کے قدم وہاں پڑتے ہی دوڑ کر اس کے پاس اۤجاتا۔ کبھی اس کے پیروں سے لپٹ جاتا تو کبھی اس کے ساتھ قلابازیاں کھانے لگتا۔ ایسے ہی ایک روز کھیلتے کھیلتے ٹومی کا ایک دانت ہلکا سا اۤکاش کو لگ گیا۔ چوٹ اتنی گہری نہ تھی لیکن میری جان پر بن آئی۔ شاید اس کے لیے ابتداأی طبی معائنہ ہی کافی رہتا لیکن جب تک اۤکاش کا پورا ٹریٹمنٹ نہیں ہوگیا، مجھے چین نہ اۤیا۔ میرے جگر کا ٹکڑا اور ایسے چوٹ اۤئے اسے، یہ خیال ہی مجھے ٹومی سے بدظن کرگیا۔ شاید میں اسے گھر سے ہی نکال دیتی اگر اۤکاش خود اسے گھر رکھنے کی سفارش نہ کرتا۔ اب سوچتی ہوں کہ یہ چوٹیں تو قدرت کی طرف سے اس کی ٹریننگ کا حصہ تھیں۔
سمے کا پہیہ چلتا رہا۔ اۤکاش نے اب چھٹی سے ساتویں جماعت میں جانا تھا۔ چونکہ دانش اب ایبٹ اۤباد سکول اور کالج میں پڑھ رہا تھا، اس لیے اۤکاش نے بھی چھٹی کے سالانہ امتحانات سے پہلے ہی ایبٹ اۤباد سکول اور کالج میں داخلے کے لیے تیاری شروع کردی۔ اس کی روٹین اس سے کافی سخت ہوگئی لیکن اس کی محنت اور جذبہ دیکھتے ہوئے میں نے اس میں خلل نہ ڈالنے کا ہی عزم کیا۔ اۤخر کار وہ دن بھی اۤگیا جب اۤکاش کا داخلہ APSایبٹ اۤباد میں ہوگیا۔ شروع شروع میں تو یہاں بچے بطور day scholarبھی پڑھتے تھے لیکن 2002ء میں یہ اصول تبدیل کردیا گیا اور تمام بچوں کو بورڈنگ میں کروانا لازمی ہوگیا۔ ایبٹ اۤباد میں ہونے کے باوجود بھی اسے بورڈنگ میں داخل کروانا پڑا جہاں اس نے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔ یہ عرصہ میں نے اس کے بغیر کیسے کاٹا، یہ میں ہی جانتی ہوں۔ تب میرے لیے خوشی کے دن صرف وہی رہ گئے تھے جب اۤکاش گھر اۤتا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

ایبٹ اۤباد پبلک سکول اینڈ کالج

ایبٹ اۤباد سکول اینڈ کالج ایک الگ ہی دنیا تھی۔ یہ ملک کا ایک اعلیٰ اور انتہائی معتبر تعلیمی ادارہ ہے جہاں بچوں کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ ذہنی و جسمانی نشوونما کا بھی بھرپور خیال رکھا جاتا ہے۔ جو طالبِ علم یہاں داخلے کے حصول میں کامیاب ہو جاتا، اس کی ذہنی استعداد، قابلیت اور ذہانت میں کسی قسم کے شک و شبہے کی گنجاأش نہ رہتی۔ میرا اۤکاش تو پھر ”اۤکاش” تھا۔
ایبٹ اۤباد پبلک سکول اور کالج میں طلباء کی رہاأش کے لیے جو ہاسٹلز موجود تھے، انہیں ”ہاؤس” کہا جاتا۔ نشتر ہاؤس، رحمان ہاؤس، لیاقت ہاؤس وغیرہ۔ اۤکاش کو رہاأش کے لیے ”نشتر ہاؤس” الاٹ کیا گیا۔ وہاں سر سلیم اقبال تھے جو کہ ایک سینئر پروفیسر تھے۔ وہ شعبہ اردو سے منسلک تھے۔ انہوں نے اۤکاش کو بہت محبت اور شفقت سے اٹینڈ کیا۔ اۤکاش چونکہ پہلی بار ہاسٹل جارہا تھا تو ہم سب بھی اس کے ساتھ تھے۔ سر سلیم ہمیں اس کے کمرے میں لے گئے۔ سنگل بیڈ، بیڈ شیٹ، ٹیبل، ٹیبل کور اور الماری اس کمرے کا حصہ تھیں اور ان چیزوں کی کلر سکیمنگ ڈارک بلیو تھی۔ سر سلیم ہمیں یہاں چھوڑ کر چلے گئے۔ ہم لوگ کافی دیر وہاں بیٹھے رہے۔ اۤکاش میری نظروں کے سامنے تھا اور میں یہی سوچ رہی تھی کہ کیسے اسے یہاں چھوڑ کر جاؤں۔ جسے دیکھ کر دن طلوع ہوتا تھا اور جسے دیکھ کر شب عیاں ہوتی تھی، وہ نظروں سے اوجھل ہونے کو تھا۔ میرا دل کر رہا تھا کہ اسے اپنے سینے سے لگا کر بیٹھی رہوں لیکن وہ لمحہ اسے مضبوط کرنے کا تھا، کمزور کرنے کا نہیں۔ اور اپنی اۤنکھوں کے سامنے اس سے وداع ہوتے ہوئے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے ہم نے کسی کام سے اسے باہر بھیجا اور اس کی غیرموجودگی میں ہی وہاں سے اٹھ کر چلے اۤئے۔ وہ اۤنسو جو اب تک ضبط کیے ہوئے تھے، راستہ ملتے ہی بہہ نکلے۔ وہ سارا سفر ہی ہم سب نے خاموشی سے طے کیا۔ گھر پہنچے تو وہ طمانیت اور اطمینان نہ تھا جو گھر پہنچنے پر ہوتا تھا۔ گھر کی ہر شے اُداس تھی۔ ٹومی بھی چپ چاپ اسے ڈھونڈنے کی کوشش کررہا تھا۔ جب اۤخر وہ نہ ملا تو تھک ہار کر وہ بھی بیٹھ گیا۔ اۤکاش کو کاٹے جانے کے بعد پہلا دن تھا جب مجھ اس پر پیار اۤیا کیونکہ وہ اۤکاش کی غیرموجودگی سے اُداس اور بے چین تھا۔
یہ تو ہمارے تاثرات تھے۔ ادھر اۤکاش جب کمرے میں واپس اۤیا تو ہمیں وہاں نہ پا کر پریشان ہوگیا۔ پہلے تو اس نے ہمیں اِدھر اُدھر تلاش کرنے کی کوشش کی۔ جب اسے پتا چلا کہ ہم وہاں سے چلے گئے ہیں تو وہ چپ چاپ مسجد میں جا بیٹھا اور وہاں کافی دیر تک بلک بلک کر روتا رہا۔ یہ ساری روداد اس نے اپنی اگلی ملاقات پر ہمیں سنائی تھی۔ اسے ساری زندگی مجھ سے دو ہی گلے رہے۔ ایک ہاسٹل میں اسے ملے بغیر اۤنا اور دوسرے کا ذکر بعد میں کروں گی۔ میں نے اس بات پر اپنے بچے سے کئی دفعہ معافی بھی مانگی جس پر اس نے مجھے معاف بھی کردیا تھا۔ لیکن اب بھی اکثر میرے دل میں یہ خیال اۤتا ہے کہ اس نے مجھے معاف نہیں کیا تھا۔ تب ہی تو وہ بھی ہم سب سے ملے بغیر ہی ہم سے دور چلا گیا۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے!

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اۤکاش بھی وہاں ایڈجسٹ کرنے لگا۔ دانش بھی وہیں پڑھتا تھا اور چونکہ day scholarتھا تو روز ہی اۤتا جاتا تھا جسے دیکھ کر بھی کاشی کبھی کبھی اُداس ہو جاتا۔ میں روز ہی اس کے لیے کھانے کو کچھ نہ کچھ بھجواتی رہتی جوکہ وہ دوستوں میں مل بانٹ کر کھاتا۔ شروع شروع میں اسے ایک مسئلہ وہاں یہ بھی پیش اۤیا کہ اس کی چیزیں چوری ہو جاتیں۔ کبھی موزے، کبھی کتابیں، تو کبھی بیلٹس۔ وہ چونکہ خود صاف دل اور صاف عادات کا مالک تھا اس لیے اسے کبھی اپنی چیزیں بطور خاص سنبھال کر رکھنا ہی نہیں آئیں جس کی وجہ سے اسے کافی دقت کا سامنا کرنا پڑا۔ ایک اور بات جو اس کے لیے پریشانی کا باعث بنتی وہ اس کا منہ پر ہر بات کہہ دینا تھا۔ شاید ہر صاف دل کے مالک شخص کی طرح اسے بھی باتیں دل میں رکھنا نہیں اۤتی تھیں۔ ہاں اس کی اس صاف گوئی سے کبھی کسی کی دل اۤزاری نہیں ہوئی تھی۔
ایک واقعہ جو مجھے یاد ہے جس کا اسے کئی دن تک افسوس رہا تھا، جب ایک مرتبہ وہ اپنے دوستوں کے ساتھ ایک باربر شاپ پر بال کٹوانے گیا تھا۔ اس کی بار بار تاکید کے بعد بھی کہ اس کے بال زیادہ چھوٹے نہ کیے جائیں، باربر نے اسے تقریباً گنجا کردیا۔ اس وقت تو وہ کچھ نہ بولا لیکن بعد میں جاکر پتھر سے اس کی دکان کے شیشے توڑ اۤیا۔ اس واقعے کا اسے کئی دن تک پچھتاوا رہا۔
اس واقعے سے پرے اس کی شرارتیں بھی اس کی طرح نفیس تھیں۔ بے ضرر اور معصومانہ، ایک عجیب سی بے چینی اور اضطراب بچپن سے ہی اس کی طبیعت کا حصہ رہے۔ وہ بات کرتے ہوئے مسلسل ہاتھ ہلاتا رہتا۔ کھڑا ہوتا تو اِدھر اُدھر ہلتا جلتا رہتا۔ ٹی وی دیکھ رہا ہوتا تو ریموٹ کے سیل نکال نکال کر تبدیل کرتا رہتا۔ شاید اس کی اضطرابی کیفیت اسے کسی تحریک پر اکساتی رہتی۔ اس طرح کی ایک شرارت مجھے اس کی یاد ہے۔ اس کے سکول کے پاس ایک زیارت تھی جہاں لوگ منتیں مرادیں ماننے کے لیے اۤتے۔ ایسے ہی ایک روز جب اسے اور اس کے ایک دوست کو شدید بھوک لگی تھی اور دونوں کے پاس پیسے بھی ختم ہوگئے تھے، تو کاشی اپنے دوست کو کیفے ٹیریا لے گیا جہاں دونوں نے پیٹ بھر کر کھاناکھایا اور بل بھی کاشی نے ادا کیا۔ پیسوں کے استفسار پر جب کاشی نے اسے بتایا کہ وہ یہ پیسے زیارت سے اٹھا کر لایا ہے تو اس کے دوست کا منہ حیرت سے کھلا رہ گیا۔ دونوں بعد میں کافی دنوں تک اس بات پر ہنستے رہے۔ ہمیں جب اس واقعے کا علم ہوا تو ہم نے اسے اۤئندہایسا نہ کرنے کی تاکید کی۔ لیکن اس کی غیرموجودگی میں ہم بھی اس واقعے پر کافی محظوظ ہوئے۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

ہائر سیکنڈری سکول

وقت کا پنچھی پَر لگا کر اُڑتا رہا اور دو سال گزر گئے۔ اب کاشی نویں جماعت میں اۤچکا تھا۔ ان دو سالوں میں اس کے کافی سارے دوست بھی بن گئے۔ وہ اپنے سارے دوستوں کا پسندیدہ تھا۔ اپنی سادہ مزاجی اور helping natureکی وجہ سے اس کے سب ہی دوست اسے پسند کرتے تھے۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کے باعث اپنے اساتذہ کا مرکزِ نگاہ تو وہ پہلے ہی تھا۔ نوویں جماعت میں اپنے بڑے بھائی دانش کے منتخب کردہ سائنسی مضامین ہی اس نے سلیکٹ کیے۔ ان مضامین میں ویسے بھی اس کی دلچسپی تھی تو اسے کوئی مشکل پیش نہ آئی اور یہاں جب دوسرے طلباء کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا، کاشی اۤرام سے اپنا کورس مکمل کرتا رہا۔ اسے کرکٹ اور فٹبال سے بھی کافی شغف تھا۔ وہ جب بھی گھر اۤتا تو اپنے بھائی اور کزنز کے ساتھ یہی دو گیمز کھیلتا جس کی بدولت اسے سکول کی ٹیمز میں بھی نمایاں مقام حاصل رہا۔ یوں میرا کاشی نصابی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ غیرنصابی سرگرمیوں میں بھی سب کا اولین انتخاب ٹھہرا۔ اور ٹھہرتا بھی کیوں نہ؟ وہ میرا ”کاشی” تھا۔
کاشی سمیت میرے تینوں بچوں کی شخصیت سازی میں اۤفتاب صاحب کا سب سے بڑا ہاتھ ہے۔ اپنے میڈیکل کیرئیر کے دوران انہوں نے میڈیکل کی اتنی کتابیں نہیں پڑھیں ہوں گی جتنی فلسفہ اور شاعری پر پڑھیں۔ یہ ان کے کردار کا ہی اثر تھا کہ میرے تینوں بچے ہی کم عمری سے فلسفہ کے مشتاق اور شاعری سے لگاأو رکھتے تھے۔ سچ کہتے ہیں، والدین کے کردار اور گھر کے ماحول کا بچوں پر براہِ راست اثر پڑتا ہے۔
یہ تربیت کا ہی اثر تھا کہ دانش اور اۤکاش، چھوٹی عمروں سے ہی ایک ٹاأم ٹیبل بنا کر چلتے۔ وہ روز کا جتنا ٹاسک منتخب کرلیتے، اسے کیے بغیر نہیں اُٹھتے۔ کاشی چونکہ دانی سے زیادہ ذہین اور حافظے کا تیز تھا، اس لیے کبھی ان کے کزنز اۤجاتے تو دانی تو اپنا کام مکمل کرنے میں لگا رہتا لیکن کاشی انہیں وقت دیتا۔ پھرجب وہ چلے جاتے تو کاشی اپنا کام کسی پریشانی کے بغیر مکمل کرلیتا۔ یہ روزمرہ کی محنت کا ہی ثمر تھا کہ کاشی کے نوویں کلاس کے امتحانات بہت اچھے ہوئے اور اللہ نے اسے نمایاں کامیابی سے سرخرو کیا۔

کاشی دسویں جماعت میں اۤگیا۔ چہ جائیکہ اس نے نوویں جماعت میں بہت اچھے نمبرز لیے تھے لیکن اس نے مصمم ارادہ کیا کہ دسویں جماعت میں وہ نوویں سے بھی زیادہ نمبرز لے گا اور یہی چیز اسے چین سے بیٹھنے نہ دیتی۔ اس کی ازلی بے چینی اس پر غالب اۤگئی تھی اور اس نے دن رات پڑھائی میں ایک کردیے۔ مجھے اکثر اس پر حیرانی بھی ہوتی کہ اتنی سی عمر میں وہ اتنا سب manageکیسے کرتا ہے۔ اس کی عمر کے بچے یا صرف پڑھائی میں وقت صرف کرتے یا پھر صرف کھیل کود میں جبکہ کاشی کا حساب الٹ تھا۔ وہ پڑھائی کو بھی زیادہ وقت دے رہا تھا اور کرکٹ اور فٹبال بھی باقاعدگی سے کھیل رہا تھا۔ پتا نہیں وہ سوتا کس وقت تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ کلاس میں کئی بار اسے سونے پر ڈانٹ بھی پڑی، لیکن اس کی ایک بات جس کے سب استاد معترف تھے وہ یہ کہ اس سے کلاس میں کبھی بھی کوئی سوال کرلو، وہ اس کا نہایت معقول جواب دیتا۔
دسویں کے امتحانات سے پہلے سردیوں کی چھٹیاں ہوگئیں اور کاشی گھر اۤگیا۔ اس کا گھر پر اتنا لمبا قیام اس سمیت ہم سب کے لیے ہی خوشی کا باعث ہوتا لیکن ان چھٹیوں میں کاشی کا معمول ہی الگ تھا۔ وہ سوچ کر اۤیا تھا کہ ان چھٹیوں میں زیادہ سے زیادہ پڑھے گا اور وہ واقعی اپنی پڑھائی کو زیادہ وقت دے رہا تھا۔ اس نے پہلے کی طرح براۤمدے میں اپنی نشست سنبھال لی تھی۔ اس کی دسویں کے ساتھ ساتھ دانی کے بھی فرسٹ ائیر کے امتحانات ہونا تھے اس لیے دونوں بھائی ساتھ بیٹھ کر پڑھتے رہتے جس کا ایک فائدہ ہوتا تو ایک نقصان۔ فائدہ یہ کہ ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے چکر میں دونوں بھائی ایک دوسرے سے زیادہ پڑھتے اور نقصان یہ کہ وہ تھوڑی تھوڑی دیر بعد باتیں شروع کردیتے۔ کبھی تو میں انہیں ڈپٹ کر دوبارہ پڑھائی پر لگا دیتی اور کبھی وہ مجھے اپنی باتوں میں مشغول کرلیتے تو کافی دیر تک ہماری باتیں جاری رہتیں۔ جب مجھے احساس ہوتا کہ یہ وقت ان کی پڑھائی کا ہے تو میں اچانک اٹھ کر پھر سے خفگی کا اظہار کرتی جس پر دونوں بھائی کھلکھلا کر ہنستے تو میری بھی ہنسی چھوٹ جاتی۔ پھر مجھے وہ دن بھی یاد اۤئے جب کاشی بورڈنگ میں ہوتا اور موبائل کا رواج نہ ہونے کی وجہ سے وہ باقاعدگی سے دانی کو خط لکھ کر مجھے دینے کے لیے کہتا۔ یہ اس کا روز کا معمول تھا۔ یہ یاد اۤنے پر میں خود کو روک نہ پاتی اور پھر سے بیٹھ کر اپنے بچے کے ساتھ باتیں شروع کردیتی۔
ایک مرتبہ اس نے ایسا بھی کیا کہ ہم سے موبائل لے کر دینے کی ضد کی۔ چونکہ اس کے ہاسٹل میں موبائل رکھنے کی اجازت نہ تھی اس لیے اۤفتاب صاحب نے اسے منع کردیا۔ پھر اس کے بار بار اصرار پر اسے اس شرط پر موبائل لے کر دیا گیا کہ وہ موبائل صرف گھر پر بات کرنے کے لیے استعمال کرے گا اور باقی اوقات میں وہ اسے بند رکھے گا۔ وہ راضی ہوگیا۔ اۤفتاب صاحب نے اسے موبائل لے کر دے دیا، لیکن میں نے بتایا ناں میرے اۤکاش کو چالاکی اۤتی ہی نہ تھی۔ وہ خلافِ قانون کسی کام کے لیے بنا ہی نہیں تھا۔ اس لیے زیادہ دیر وہ موبائل کی حفاظت نہ کرسکا اور پرنسپل کی نظروں میں اۤگیا۔ پرنسپل نے مجھے اور اۤفتاب صاحب کو طلب کرلیا۔ معاملہ چونکہ تھوڑا گھمبیر تھا اور اۤفتاب صاحب بھی اسے موبائل لے کر دینے کے حق میں نہیں تھے، اس لیے انہوں نے سکول جانے سے صاف انکار کردیا کہ تم جانو اور تمہارا بیٹا۔ مرتی کیا نہ کرتی، جانا تو تھا۔ اۤفتاب صاحب نے جانے سے قبل مجھے کہا کہ تم پرنسپل سے ملتے ہی ان کی تعریف کرنا کہ کس ذمہ داری کا ثبوت دیتے ہوئے انہوں نے ان کے بچے پر کڑی نظر رکھی جس کے لیے وہ تہہ دل سے ان کی شکر گزار ہیں۔ ایسی ہی چند مزید تعریفوں کی نصیحت لیے میں پرنسپل صاحب کے پاس پہنچی اور جاتے ہی تعریفوں کا پنڈورا بکس ان کے سامنے کھول دیا۔ پرنسپل صاحب جن کی تیوریاں شروع میں تھوڑی چڑھی ہوئی تھیں، اۤہستہ اۤہستہ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیلنے لگی اور وہ جنہوں نے مجھے کاشی کی شکایت کرنے بلایا تھا، اسی کی تعریفیں کرنے لگے۔ خیر کچھ دیر کی اس میٹنگ کا اختتام یہ ہوا کہ انہوں نے کاشی کی ڈھیر ساری خوبیاں گنوانے کے بعد یہ بتایا کہ اس جیسے بچوں پر انتظامیہ کی خاص نظر ہوتی ہے کہ ان کی شخصیت میں کوئی چھوٹا سا جھول بھی نظر نہ اۤئے۔ میں ان کے شکریہ کے ساتھ وہاں سے چلی آئی۔ سچ تو یہ تھا کہ میں واقعی سکول انتظامیہ اور اُن پرنسپل کی دل سے ممنون ہوئی جو واقعی بچوں پر کڑی نظر رکھتے ہیں۔ دل مزید مطمئین ہوگیا۔ جب بعد میں یہ واقعہ میں نے اۤکاش اور اس کے والد صاحب کو سنایا تو دونوں ہنستے رہے۔ اس کے بعد ایک مرتبہ یہ موقع پھر اۤیا کہ اس کی کسی شرارت پر سکول سے ہمارا بلاوا اۤیا، لیکن یہ اۤخری مرتبہ تھا۔ اۤکاش کو یہ بات اتنی محسوس ہوئی کہ اس نے پھر کبھی ایسا موقع نہیں اۤنے دیا کہ اس کی وجہ سے اس کے والدین کا سر جھکے۔

یہ یادوں کی ڈوریاں بھی ناں، بات کہاں کی کہاں نکل گئی۔ اس کی باتیں کرتے ہوئے میں ایسے ہی کہیں کی کہیں نکل جاتی ہوں۔ ہر یاد سے جڑی یاد، ہر بات سے جڑے پہلو۔ خیر، سردیوں کی چھٹیاں گزر گئیں۔ اس کے دسویں کے بورڈ کے امتحانات ہوئے جسے اس نے بہت اچھے نمبرز سے پاس کرلیا۔ نہ صرف اچھے نمبرز بلکہ تیسری پوزیشن سے بھی۔ اگر وہ تھوڑی محنت کر لیتا تو اول بھی اۤجاتا۔ اسے اس بات کا ادراک تھا کہ وہ لاأق فاأق ہے۔ اپنی غیرنصابی سرگرمیوں کے ساتھ بھی وہ اس مقام تک پہنچا تھا اور یہی بات اس کی ذہانت کے ثبوت کے طور پر کافی ہے۔ امتحانات کے بعد چھٹیوں کا ایک دور پھر شروع ہوا۔ ان چھٹیوں میں اس نے فیصلہ کرنا تھا کہ اۤگے اس نے کیا پڑھنا ہے۔ وہ کئی مرتبہ فوج میں اپنی شمولیت کا ارادہ ظاہر کرچکا تھا لیکن اۤفتاب صاحب اسے بھی باقی دو بچوں کی طرح میڈیکل جوائن کرنے کا مشورہ دیتے جس پر وہ چپ کر جاتا۔ وہ اپنے والد سے اکثر ہی ان کے زمانہء طالب علمی کی باتیں پوچھتا۔ ایک بار اس نے پوچھا کہ ابو اۤپ نے MRCPکتنے عرصے میں مکمل کی تھی اور ان کے جواب پر وہ خاموش سا ہوگیا تھا۔ شاید اندازہ لگا رہا تھا کہ اس کے والد کو اتنا وقت لگا ہے تو اسے کتنا لگے گا۔ اۤفتاب صاحب اس کی یہ باتیں یاد کرکے اۤج بھی اکثر دکھی ہو جاتے ہیں اور میں۔۔۔۔۔۔ ہاں! مجھ سے بھی وہ پوچھا کرتا تھا کہ وہ کون سا ڈاکٹر بنے۔ ہارٹ سپیشلسٹ یا اپنے والد کی طرح میڈیکل سپیشلسٹ؟ اور میرا ہمیشہ ایک ہی جواب ہوتا۔ ”بیٹا! تم جو کرنا چاہو کرو، تمہاری ماں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہے۔” ماں تو اۤج بھی ہے، لیکن اۤکاش ساتھ نہیں۔ میں نے ایک بار ایسے ہی مذاق میں کہہ دیا کہ اۤکاش تم پلاسٹک سرجن بننا۔ تو اس بات پر وہ بہت ہنسا کہ امی اۤپ نے اپنے دل کی بات کہی۔ میں پلاسٹک سرجن بنوں تاکہ اۤپ کبھی بوڑھی نظر نہ آئیں۔
8اکتوبر2005ء کو اۤکاش گھر پر ہی تھا۔ چونکہ رمضان کا مہینہ تھا اسی لیے کاشی اور دانی سحری کرکے سو جاتے اور دس بجے تک اُٹھتے جبکہ لویل صبح سکول چلی جاتی۔ ڈاکٹر صاحب ابھی اسپتال جانے کی تیاری ہی کررہے تھے کہ زمین اپنی پوری شدت سے ہلی۔ یہ اتنا اچانک اور زوردار تھا کہ پہلا خیال دل میں یہی اۤیا کہ شاید ہمارا اۤخری وقت اۤگیا ہے، لیکن زلزلے کے یہ جھٹکے جب طویل ہوئے اور ذہن نے کچھ کام کرنا شروع کیا تو ہم بچوں کے کمرے کی طرف بھاگے جو خود بھی اس افتاد پر باہر کی طرف اۤرہے تھے۔ ہم سب لان کی طرف بڑھے کہ عمارت کو کوئی نقصان بھی ہو تو کم از کم ہمیں کوئی نقصان نہ پہنچے۔ یہاں ہم لان میں پہنچے، وہاں سے انیکسی سے اۤکاش کے دادا دادی اور چاچا چاچی جوکہ ان دنوں یہیں ٹھہرے ہوئے تھے، بھی لان کی طرف اۤرہے تھے۔ دادا اور دادی دونوں دوڑتے ہوئے ان کے پاس پہنچے۔ حالانکہ میں انہیں زلزلے کے دوران بھاگنے سے منع کررہی تھی لیکن ان دونوں کو اپنے دادا دادی کے علاوہ کسی کی پروا نہیں تھی۔ وہ دونوں ان کے پاس پہنچے اور انہیں بحفاظت لان تک لے اۤئے۔
قیامت آئی اور گزر گئی۔ لیکن اس کے اثرات اۤج بھی ترو تازہ ہیں۔ ہزاروں افراد لقمہء اجل بن گئے۔ پتا نہیں کتنے ہی گھر زمین بوس ہوگئے۔ کتنے پھولوں کے سروں سے سایہ دار درختوں کا سایہ اٹھ گیا۔ دلوں کے دہلا دینے والی اۤہیں اور سسکیاں، وہاں کے باسی اۤج بھی محسوس کرتے ہیں۔
اس زلزلے کے after shocks کئی دن تک اۤتے رہے جس سے سب پر ہی ایک خوف کی کیفیت طاری رہتی۔ ہم نے تو ڈراأنگ روم سے ملحقہ براۤمدے میں ہی بستر لگا لیے اور مرد حضرات وہاں سونے لگے تاکہ کسی بھی قسم کی ہنگامی صورتحال سے نمٹا جاسکے۔ اۤکاش جس ہاسٹل میں رہاأش پذیر تھا، اس عمارت کو کافی نقصان پہنچا تھا لیکن اللہ کا شکر ہے کہ تمام بچے چھٹیاں گزارنے اپنے گھروں کو گئے ہوئے تھے جس سے کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔ ہاسٹل کی کئی دوسری عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا تھا جس کی وجہ سے دوسرے شہروں سے اۤئے بچوں کو ان عمارتوں میں شفٹ کردیا گیا جنہیں نقصان نہیں پہنچا تھا۔ اور جو ایبٹ اۤباد کے ہی رہاأشی تھے، انہیں ڈے سکالر کردیا گیا۔ اس طرح کاشی ایک بار پھر ہمارے ساتھ رہنا شروع ہوگیا۔
وقت کی خاصیت یہی ہے کہ اچھا ہو یا برا، گزر ہی جاتا ہے۔ سو یہ قیامت کی گھڑی بھی گزر گئی اور زندگی رفتہ رفتہ معمول پر اۤنے لگی۔
اۤکاش اب فرسٹ ائیر میں اۤچکا تھا۔ اس دوران اسے ایک نیا شوق چڑھا۔ گھر کے نزدیک ایک گیم زون تھا جہاں بچے جا کر وڈیو گیمز کھیلا کرتے تھے۔ اۤکاش بھی وہاں جانا شروع ہوگیا۔ جب مجھے اس بات کا پتا چلا تو میں نے اسے ڈانٹا کہ وہاں اچھے لڑکے نہیں جایا کرتے۔ اس لیے اسے بھی وہاں نہیں جانا چاہیے۔ وہ تھوڑے دن تو باز رہا لیکن اس نے پھر وہاں جانا شروع کردیا۔ جب مجھے اس بات کا پتا چلا تو مجھے بہت دکھ ہوا کہ اۤکاش نے میری بات ان سنی کردی۔ ایسا بہت کم ہوتا تھا اس لیے مجھے بہت دکھ ہوا۔ ایک دن جب اۤکاش گھر سے نکلا تو چپکے سے اس کا پیچھا کرتے کرتے میں بھی وہاں پہنچ گئی۔ میں نے اسے کچھ کہا نہیں، بس چپ کرکے گیم زون کے باہر سے کھڑی اسے دیکھتی رہی کہ اچانک اس کی نظر مجھ پر پڑ گئی۔ وہاں موجود لڑکے اور بچے بھی مجھے دیکھ چکے تھے۔اۤکاش کی مجھ پر نظر پڑتے ہی اس کے ہاتھ پاأوں پھول گئے۔ نہ میں نے کچھ کہا نہ اس نے۔ بس وہ خاموشی سے باہر اۤگیا۔ سارے راستے بھی اس کی میری کوئی بات نہ ہوئی۔ لیکن گھر اۤکر اس کا دبا ہوا غصہ باہر اۤنے لگا۔ بجائے میں اس سے کچھ پوچھتی، وہ مجھ سے جراح کرنے لگا کہ میں وہاں کیوں آئی تھی۔ وہاں اور بھی لڑکے تھے اور اسے یہی بات کھاأے جارہی تھی کہ اس کی ماں وہاں کیوں آئی۔ میں کچھ نہ بولی۔ میں نے جو کرنا تھا وہ میں کرچکی تھی اور اب اۤکاش نے کیا کرنا تھا، یہ بھی مجھے پتا تھا۔ وہ انتقاماً گیم زون میں واپس چلا گیا اور کافی دیر وہیں رہا۔ میں جانتی تھی کہ ایسا ہوگا لیکن مجھے یہ بات بھی معلوم تھی کہ ایسا اۤخری بار ہی ہوگا۔ اۤج کے بعد اۤکاش وہاں نہیں جائے گا اور یہی ہوا۔ اس دن اپنا تمام تر غصہ نکال کر وہ گھر اۤیا اور پھر کبھی ادھر کا رخ نہیں کیا۔
ساری زندگی اسے مجھ سے دو ہی شکایتیں ہوئیں۔ ایک کا میں نے پہلے بھی ذکر کیا تھا کہ جب ہم اسے ہاسٹل بتائے بغیر اور ملے بغیر چھوڑ اۤئے تھے اور دوسری یہ کہ میں اس کے پیچھے گیم زون کیوں گئی۔ وہ کئی دن تک مجھ سے خفا رہا تھا۔ حالانکہ میں جانتی تھی کہ میرا کاشی بہت صاف اور حساس دل کا ہے جو زیادہ دیر ماں سے ناراض نہیں رہ سکتا، پھر بھی میں نے اس سے کئی بار ان دو باتوں پر معافی مانگی تو وہ ہنس کر مجھے گلے لگا لیتا اور کہتا کہ وہ مذاق کررہا ہے۔
میں اۤج بھی اس بات پر اس سے معافی مانگتی ہوں لیکن اب وہ مجھے گلے کیوںنہیں لگاتا؟ کیوں پاس اۤکر نہیں کہتا کہ وہ مذاق کررہا ہے۔ اتنا کٹھور دل تو نہیں تھا میرا اۤکاش۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!