ماں کا آکاش

جراء ت کی داستان

وہ سارے قصے کہانیاں جو مجھے اۤکاش نے کہا تھا کہ وہ گھر اۤکر سنائے گا۔ وہ بعد میں مجھے سنائی گئیں۔ بس سنانے والا اب وہ نہیں تھا۔
میران شاہ کا علاقہ فوجی اۤپریشن کے لحاظ سے انتہائی اہمیت کا حامل تھا کیوں کہ یہی علاقہ دشمنوں کی سب سے محفوظ پناہ گاہ اور قلعہ تھا اور اس علاقے کی کلئیرنس کا ذمہ اۤکاش کو ملا تھا۔ اۤکاش کو جیسے ہی اس خبر سے مطلع کیا گیا، اس نے فوراً سرکٹ ہاؤس جہاں اۤفیسرز نے قیام کیا ہوا تھا، چھوڑا اور اپنی یونٹ کے جوانوں کے پاس امین پکٹ چلا گیا جو کہ اۤپریشنل ایریا تھا۔ امین پکٹ وہ مقام تھا جہاں سے فوجیوں نے براہِ راست دشمنوں پر حملہ کرنا تھا۔ یہاں سنائپرز بھی بٹھاأے گئے تھے تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال سے ہر وقت اور اۤہنی ہاتھوں سے نمٹا جا سکے۔
12 جون شام چھ بجے دہشتگردوں کی جانب سے پہلی حرکت دیکھنے میں آئی تو اۤکاش نے فوراً اپنے CO کو رپورٹ کی۔ CO نے اسے بروقت اور صورتحال کے مطابق فیصلہ لینے کے اۤرڈرز دیے جس کے بعد اۤکاش نے اپنے ہتھیار کے ساتھ خود بھی پوزیشن سنبھال لی۔ ایک دہشت گرد کو اپنی عقابی نگاہوں سے حرکت کرتا دیکھ اس نے اپنے سنائپرز کو انہیں شوٹ کرنے کا کہا اور دہشت گردوں کے دو تین ساتھی فوراً مار گراأے جس سے دہشت گردوں کی صفوں میں بھگدڑ مچ گئی اور ادھر سے جوابی فائرنگ شروع ہو گئی۔ اۤکاش نے مختلف سپاٹس سنبھالے، اپنے جوانوں کو ایکشن کا اۤرڈر دیا اور اۤکاش اور اس کے جوان تاک تاک کر دشمن کو نشانہ بنانے لگے۔ وہ اس اۤپریشن کی پہلی باقاعدہ کاروائی تھی۔ اس بھرپور کاروائی کے نتیجے میں جلد ہی دشمن کی صفوں میں بالکل خاموشی چھا گئی۔ اۤکاش نے اپنی یونٹ کو وہیں پوزیشنز سنبھالے رکھنے کا اۤرڈر دیا۔ پھر جب اسے یقین ہو گیا کہ دشمن کی طرف سے فی الحال کوئی جواب نہیں اۤئے گا تو اس نے ہینڈسیٹ پر اپنے CO کو تمام کاروائی سے اۤگاہ کیا جس پر اس کے CO نے اسے ”ویل ڈن کیپٹن” کہا۔
اۤکاش کی یونٹ کو خبر ملی کہ دشمن کا ایک اہم کمانڈر کسی اہم میٹنگ کے لیے اس علاقے میں اۤرہا ہے۔ وہ انتہائی مطلوب کمانڈر تھا اور اسے ہٹ کرنا فوج کی اولین ترجیحات میں سے ایک تھی۔ اس کے اۤنے کی اطلاع ملی تو ایک میٹنگ مشورہ کے لیے بلائی گئی کہ یہ اہم ٹاسک کس کے حوالے کیا جائے اور رقعہ اۤکاش کے نام نکلا۔ اۤکاش اس کاروائی کے لیے فوراً تیار ہو گیا۔ اس نے ایک سنائپر ساتھ لیا اور مطلوبہ وقت پر مطلوبہ مقام پر پہنچ گیا اور ٹیپروپین کے پیچھے اپنی پوزیشن سنبھال لی جبکہ سنائپر کو اس نے زمین پر لیٹ کر اپنی پوزیشن سنبھالنے کی ہدایت کرنے کے ساتھ ساتھ یہ ہدایت بھی کی کہ ٹارگٹ ہٹ نہ ہونے کی صورت وہ فوراً ٹارگٹ کو ہٹ کرے۔ دونوں وہاں پر کمانڈر کے اۤنے کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ ہی دیر میں کمانڈر کی گاڑی وہاں اۤکر رکی۔ اس کے ساتھ اس کے تین گارڈز بھی تھے۔ جس جگہ وہ گاڑی اۤکر رکی تھی، وہ اۤکاش سے زیادہ فاصلہ پر نہ تھا۔ کمانڈر جیسے ہی اپنی گاڑی سے اترا، اۤکاش کی گولی اسے دوسری دنیا کا مسافر کر گئی جبکہ سنائپر نے بھی اس کے ساتھیوں کو سنبھلنے سے پہلے ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ یہ سب اتنی خاموشی سے ہوا تھا کہ کسی کو اس کی کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ پھر جب اۤکاش نے اپنے CO کو اس کامیاب اۤپریشن کے متعلق بتایا تو بغیر کسی نقصان اور اتنے کم وقت میں کامیاب کاروائی پر اس کے CO نے اسے خوب سراہا۔
میران شاہ اۤپریشن کے دوران اۤرمی جوانوں کو جو سب سے بڑا مسئلہ درپیش اۤیا وہ IEDS کا تھا۔ IEDS وہ خود ساختہ بم تھے جو دہشت گردوں نے میران شاہ میں جگہ جگہ اس طرح لگائے تھے کہ وہ چھونے سے پھٹ جاتے تھے۔ دہشت گرد یہ جانتے تھے کہ وہ فوج کا زیادہ دیر تک مقابلہ نہیں کر سکتے۔ اس لیے انہوں نے ایسی حکمتِ عملی بناء ی تھی کہ ان کے پسپا ہونے یا بھاگ جانے کے بعد جب فوج ان عمارتوں میں داخل ہو تو اس کا زیادہ سے زیادہ نقصان ہو سکے۔ یہ IEDS انہوں نے نہ صرف اپنی اہم عمارتوں بلکہ مساجد، مدارس، اسپتالوں، ڈسپنسریوں حتیٰ کہ اپنی دکانوں تک میں لگائے ہوئے تھے۔
میران شاہ کو دہشت گردوں سے پاک کرنے کے بعد جب اۤرمی کے دستے کسی بھی کمپاؤنڈ کی کلئیرنس کے لیے جاتے جس کی قیادت اۤکاش کر رہا ہوتا تو وہی سب سے اۤگے ہوتا۔ حالاں کہ اس کے جوان اسے کہتے کہ سر ہم پہلے جاتے ہیں تاکہ کسی نقصان کی صورت دستے کی قیادت تو محفوظ رہ سکے لیکن اۤکاش ہمیشہ خود اۤگے رہتا۔ وہ کہتا تھا کہ جب تک افسر خود بہادری نہ دکھاأے، وہ اپنی ٹیم سے بھی اس کی امید نہ رکھے۔
اۤرمی کے یہ دستے جب بھی کسی کمپاؤنڈ کی کلئیرنس کے لیے جاتے تو اس کے داخلی دروازے یا کسی بھی داخل ہونے کی جگہ سے نہ جاتے کہ دشمن نے ممکنہ طور پر ایسے تمام راستوں پر IEDS لگائے ہوتے۔ وہ کوئی بھی دیوار دھماکے سے اڑاتے اور اس کے بعد ایک ایک کر کے اندر جاتے تاکہ نقصان ہونے کی صورت کم سے کم ہو۔ اۤکاش ہمیشہ خود اۤگے ہوتا۔ انہیں سب سے پہلے جو ٹاسک دیا گیا، وہ اۤدم خور بازار کی کلئیرنس تھی۔
اۤدم خور بازار جیسا کہ نام سے ہی ظاہر ہے، خوف اور دہشت کی علامت تھا۔ یہ علاقہ زیادہ تر ازبک دہشت گردوں کے زیرِاثر تھا جو بہت زیادہ خطرناک اور تربیت یافتہ تھے۔ کسی انسان یا انسانی ہجوم کی جان لینا ان کے لیے کوئی مسئلہ ہی نہ تھا۔ وہ ڈرتے تھے تو صرف SSG کمانڈوز سے۔ اس لیے ان کے ساتھ مقابلے میں پاک فوج کو خاص محنت کرنا پڑی لیکن یہ علاقہ بھی فوج نے جلد ہی کلئیر کروا لیا۔
دہشت گردوں کی ہلاکتوں اور بعض کے وہاں سے بھاگ جانے کے بعد جب علاقے کی کلئیرنس کا مرحلہ اۤیا تو پاک فوج کو پتا چلا کہ موت بانٹنے کا اصل کاروبار تو یہاں سے پروان چڑھتا تھا۔ وہاں IEDSبنانے والی پوری پوری فیکٹریاں پکڑی گئیں جن میں کئی ہزار کلو بارودی مواد موجود تھا جو پھٹنے کی صورت کسی بہت بڑے حادثے کا پیش خیمہ ہوتا۔ اس کے علاوہ ایسا جدید اسلحہ بھی وہاں سے پکڑا گیا جن میں سے بعض صرف کمانڈوز کے پاس ہی ہوتا تھا۔ اۤرمی کے دوسرے جوانوں کے پاس بھی نہیں۔
اس بازار کی سرچ اور کلئیرنس کے دوران اۤکاش کی کمبٹ ٹیم نے دشمنوں کی کچھ دستاویزات بھی ریکور کیں جن میں ان کی حساس معلومات تھیں۔ ان معلومات کی بنا پر بعدازاں فوج نے موئثر کاروائیاں کرتے ہوئے دشمن پر کاری ضربیں لگاء یں۔
اۤدم خور بازار کے بعد اس کی کمپنی کو جو اگلا ٹارگٹ ملا وہ ا یک رہاأشی کالونی میں موجود مدرسہ تھا۔ جو بظاہر تو مدرسہ تھا لیکن اصل میں وہ دہشت گردوں کا ٹریننگ کیمپ تھا۔ یہاں نئے اۤنے والوں کی ذہن سازی کی جاتی، انہیں اسلحہ کا استعمال اور IEDS بنانے کا طریقہ سکھا یا جاتا، خودکش جیکٹس تیار کی جاتیں اور خودکش حملوں کے لیے نوجوانوں کی برین واشنگ جیسا گھناأونا عمل کیا جاتا۔ انہیں شہادت اور جنت کا جھوٹا تصور دیا جاتا اور ا یسا بنا دیا جاتا کہ اپنے کمانڈر کے ا یک حکم پر وہ اپنے گھر والوں کی جان بھی لینے کو تیار ہو جاتے۔ اس مدرسے کو کلئیر کرنا کوئی اۤسان کام نہ تھا اور اس کی کلئیرنس کے لیے کمبٹ ٹیم ون کی قیادت اۤکاش کو سونپی گئی تھی۔
یہ مدرسہ تقریباً پچیس کمروں پر مشتمل تھا اور ہر کمرہ اپنے حجم کے لحاظ سے یہاں موجود گھروں سے بھی بڑا تھا۔ ہر کمرے میں جابجا IEDSلگی ہوئی تھیں۔ اس مدرسے کی مکمل ریکی کرنے کے بعد اۤکاش نے اپنی ٹیم کے ساتھ کاروائی کا اۤغاز کیا۔ مدرسے میں داخلہ اسی طرح ا یک دیوار بارودی مواد سے اڑا کر کیا گیا۔ پھر ا یک ا یک کرکے تمام کمرے کلئیر کیے گئے۔ کمروں میں لگی بے شمار IEDSکو ناکارہ بنا یا گیا اور ٹنوں کے حساب سے بارودی مواد، خودکش جیکٹس، نوجوانوں کی ذہن سازی کرنے کے لیے چھپا یا گیا پروپیگنڈہ پر مشتمل مواد اور دشمنوں کی کئی اہم دستاویزات اور نقشے براۤمد کرکے فوج کے اعلیٰ حکام کے حوالے کیے۔ اس خطرناک ٹاسک کو بھی بغیر کسی نقصان کے پورا کرنے پر پوری کمبٹ ون اورخاص کر اۤکاش کو خوب سراہا گیا۔

اس مدرسے کی کلئیرنس کے بعد اسے اگلا ٹاسک ا یک اہم کمانڈر کے کمپاؤنڈ کو کلئیر کرنے کا دیا گیا۔ یہ کمپاؤنڈ 313 بریگیڈ کے نام سے مشہور تھا اور سندھ کے علاقوں بشمول کراچی کی اہم تنصیبات کو ہٹ کرنے میں ملوث تھا۔ یہاں طالبان کے باقاعدہ ٹریننگ سکول کے علاوہ زیرِزمین جیل بھی تھی جن میں وہ اپنے دشمنوں کو رکھتے تھے۔ یہاں ان پر وحشیانہ تشدد کیا جاتا اور ان کی وڈیوز بنا کر ان کے عوض بھاری تاوان وصول کیا جاتا۔ یہ تاوان انہیں چھوڑنے کے لیے نہیں بلکہ صرف زندہ رکھنے کے لیے ہوتا تھا۔ عورتوں اور بچوں سے انسانیت سوز رویہ روا رکھنے کے حوالے سے بھی یہ کمپاؤنڈ بدنام تھا۔
یہ ٹاسک اس سے پہلے دیے گئے تمام ٹاسک سے زیادہ مشکل اورخطرناک تھا کیوں کہ باقی جگہیں دشمن کے تسلط سے اۤزاد ہوچکی تھیں اور انہیں صرف کلئیر کرنا تھا جب کہ یہاں ابھی بھی دہشت گرد موجود تھے۔ خدانخواستہ یہاں ناکامی کا مطلب انسانی سوچ سے بھی زیادہ بھیانک تھا کیوں کہ دشمن کو پکڑنے کے بعد وہ دہشت گرد ان سے وہ سلوک کرتے تھے کہ سننے والے کی روح تک کانپ جاتی تھی۔ ا یسا مشکل ٹاسک اب اۤکاش کے ذمہ تھا جسے اۤکاش نے فوراً قبول کرلیا۔ ڈرنا شا ید اس کی سرشت میں ہی نہ تھا۔
سب سے پہلے اس نے کمپاؤنڈ کا جائزہ لیا اور پھر اپنی ٹیم کے ساتھ صلاح مشورہ کرنے بیٹھ گیا۔ چونکہ اندر اور دہشت گرد بھی موجود تھے اس لیے اس نے مدد کے لیے دوسری ٹیموں کے دستے بھی منگواأے اور مشاورت مکمل کرنے کے بعد باقاعدہ کاروائی کا اۤغاز کردیا۔
بہت سوچ سمجھ کر ا یک دیوار اڑا کر وہاں سے انٹری کی گئی۔ اندر چونکہ دہشت گرد موجود تھے، اس لیے اۤکاش نے اپنی ساری ٹیم کو مختلف ٹیموں میں بانٹ کر ان کی ذمہ داریاں لگا دی تھیں۔ ا یک ٹیم اۤگے موو کرتی جبکہ دوسری اسے کور دیتی۔ یہ لوگ جیسے ہی اندر داخل ہوئے، دہشت گردوں کی جانب سے ہیوی فائرنگ ا یک لمبے دورانیہ کے لیے کی گئی۔ اۤکاش نے اپنی ٹیم کو بلاوجہ فائرنگ سے منع کیا تھا۔ ا یک تو ان کا مقصد دہشت گردوں کا صفا یا تھا، انہیں ڈرانا نہیں اس لیے فائرنگ کے تبادلے کے بجائے حکمتِ عملی سے انہیں ہٹ کرنا تھا۔ دوسرا یہ کہ دشمن کے پاس اسلحہ بھاری مقدار میں موجود تھا جبکہ انہوں نے اسلحہ دیکھ بھال کر استعمال کرنا تھا۔
دشمن کی ہیوی فائرنگ کے علاوہ اسے جو دوسرا بڑا خطرہ لاحق تھا وہ IEDS کا تھا جو جگہ جگہ لگی ہوئی تھیں اور جن کے پھٹنے سے انہیں بڑا نقصان ہوسکتا تھا۔ خیر، اۤپریشن تو کرنا ہی تھا۔
جب دشمن کی جانب سے فائرنگ کچھ دیر کے لیے رکی تو اس نے اپنے ساتھیوں سے ستونوں کی اۤڑ لیتے ہوئے ا یک ا یک کرکے اۤگے بڑھنے کو کہا جب کہ دوسری ٹیم کور پر تھی جہاں سے دشمن کی حرکت ان کی نظروں میں تھی۔ اۤکاش کی اگلی حکمتِ عملی یہ تھی کہ اس کی ٹیم نے ا یک بھی فائر نہیں کرنا تاکہ دشمن کو یہ باور کروا یا جاسکے کہ یہاں سے ہم لوگ بھاگ گئے ہیں اور جب وہ سامنے اآئیں تو انہیں ہٹ کر دیا جائے۔
یہ انتظار بہت صبر اۤزما اور جان لیوا ہوتا ہے کیوں کہ کسی بھی لمحے کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ دونوں جانب سے فائرنگ مکمل طور پر بند تھی۔ ناجانے کتنی دیر یونہی گزر گئی جب دشمن نے نا ی پوزیشنز سنبھالنے کے لیے حرکت کی۔ اۤکاش اور اس کے ساتھی تو بیٹھے ہی اس انتظار میں تھے۔ جونہی انہوں نے حرکت کی، اۤکاش اور اس کے ساتھیوں کی گولیاں انہیں جہنم واصل کرگئیں۔ دشمن اس حملہ کے لیے تیار نہ تھا اس لیے اس نے دوبارہ اندھا دھند فائرنگ شروع کردی۔ اب کچھ دیر کے لیے اۤکاش اور اس کی ٹیم کے پاس پھر اۤرام کا وقت تھا کیوں کہ فائرنگ کے جواب میں انہوں نے خاموش رہنا تھا۔ دہشت گردوں کو جہنم واصل کرکے اب ان کی فائرنگ کے جواب میں یہ لوگ مسکراہٹوں کا تبادلہ کررہے تھے۔ دشمن کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ کافی دیر چلتا رہا۔ پھر یہ سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔ اس دوران اۤکاش اور اس کی ٹیم وہاں ستونوں کا سہارا لیتے ہوئے اۤگے پہنچ چکی تھی۔ یہاں کوئی دہشت گرد نہیں تھا۔ اۤکاش نے ا یک ٹیم بنا کر اپنے ساتھیوں کو IEDSچیک کرنے کا حکم دیا جب کہ ا یک ٹیم کے ساتھ انہیں مکمل کور فراہم کیا۔ اس کاروائی میں انہیں کافی وقت لگ گیا۔ اس دوران اۤکاش دشمن کی اگلی پوزیشن کا اندازہ کرچکا تھا۔ جب اس کی ٹیم IEDSناکارہ کرنے کا کام مکمل کرچکی تو ان لوگوں نے اۤہستہ اۤہستہ اس کمرے کی جانب بڑھنا شروع کیا جہاں دہشت گرد ممکنہ طور پر ہوسکتے تھے۔ کمرے کے پاس پہنچ کر اۤکاش کے اشارے پر ا یک جوان نے لات مار کر دروازہ کھولا اور پھر فوراً ہی کور میں ہوگیا۔ دوسری طرف سے نہ کوئی سامنے اۤیا اور نہ فائرنگ ہوئی۔ فوج میں اس خاموشی کا بھی ا یک مطلب ہوتا ہے۔ چنانچہ اس مطلب کا اشارہ ملنے پر اۤکاش نے باۤواز بلند کہا:
”اگر تم خود کو ہمارے حوالے کردو تو تمہاری جان بچ سکتی ہے۔ دوسری صورت میں تم لوگوں کو گولیوں سے بھون دیا جائے گا۔”
اۤکاش کے اعلان کے کوئی تیس سکینڈز بعد اندر سے کھانسنے کی اۤواز اآئی اور ساتھ ہی پانچ دہشت گرد ہاتھ اٹھاأے باہر کی طرف اۤنے لگے۔ ا یک خاص فاصلے پر اۤکر اۤکاش نے انہیں رکنے کا کہا۔ چونکہ ان کی طرف سے خودکش حملہ بھی ہوسکتا تھا اس لیے اۤکاش نے اپنے دو جوانوں کو ان کی مکمل چیکنگ کا کہا جب کہ باقی جوان کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کیلا ے بالکل تیار ہوگئے۔
ان دونوں جوانوں نے ا یک لمحہ ضائع کیے بغیر ان کی چیکنگ کی اور ان سے اسلحے کی براۤمدگی کے بعد انہیں ہتھکڑیاں لگا دیں۔ اۤکاش نے انہی دونوں جوانوں کو اۤرڈر دیا کہ وہ ان پانچوں کو باہر لے جا کر پاک فوج کے حوالے کردیں اور باقی ساتھیوں کے ساتھ اگلے کمروں کی کلئیرنس شروع کردی۔ ابھی کمپاؤنڈ پوری طرح کلئیر نہیں ہوا تھا کہ اندھیرا چھانے لگا۔ چونکہ اۤرٹلری کی گولہ باری سے وہاں بجلی کا نظام درہم برہم ہوگیا تھا۔ اس لیے وہاں روشنی کا بھی کوئی بندوبست نہیں تھا۔ اس صورتحال میں یہ مشورہ کیا گیا کہ رات وہیں گزاری جائے کیوں کہ اس طرح یہ کمپاؤنڈ چھوڑ کر جانا دشمن کو ا یک بار پھر یہ کمپاؤنڈ حوالے کرنا تھا۔ وہ رات انہوں نے وہیں گزاری۔ یہ اعصاب شکن اۤپریشن چونکہ سارے دن کی کاروائی پر مشتمل تھا اور جوانوں کے اعصاب بھی شل ہوچکے تھے، اس لیے وہ دو ٹیمیں بنا کر سوئے۔ ا یک ٹیم سوتی تو دوسری جاگتی رہتی تاکہ کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹا جاسکے۔
اگلی صبح باقی کمپاؤنڈ کی کلئیرنس کے بعد اس عمارت کو مکمل طور پر کلئیر کردیا گیا۔ اس کلئیرنس کے دوران بھی اۤکاش اور اس کی ٹیم نے اہم دستاویزات قبضے میں لے کر حکامِ بالا تک پہنچاا یں جس پر اۤکاش اور اس کی پوری ٹیم کو ان کے کمانڈر کی جانب سے خوب سراہا گیا۔
یہ اگلے دن کی بات ہے جب کمپاؤنڈ کی مکمل کلئیرنس کے بعد وہ لوگ سو رہے تھے تو ڈیوٹی دینے والے جوانوں نے کچھ حرکت محسوس کی۔ اپنے اس اہم ترین کمپاؤنڈ کے ہاتھ سے نکل جانے پر دشمن سخت تلملا یا ہوا تھا۔ وہ جوابی کاروائی کرکے اپنا کمپاؤنڈ واپس حاصل کرنا چاہتا تھا اور ا یک بڑی تعداد میں کاروائی کی غرض سے وہاں پہنچا تھا۔
جوانوں نے جونہی اۤکاش کو اس نقل و حرکت کی اطلاع دی، اۤکاش اسی وقت مستعد اور کاروائی کے لیے تیار ہوگیا۔ ٹیم کے باقی جوان بھی اپنی پوزیشن سنبھال چکے تھے۔ دشمن نے منظم طریقے سے ہیوی فائرنگ شروع کردی۔ ان کا ارادہ تھا کہ کمپاؤنڈ میں موجود پاک فوج کا ا یک بھی جوان زندہ نہ بچ پائے۔ یہاں یہ لوگ بھی مکمل طور پر مستعد اور جوابی کاروائی کے لیے تیار تھے۔
دشمن کی فائرنگ کے جواب میں اۤکاش کی حکمتِ عملی اب بھی وہی تھی کہ ٹارگٹ کو نشانہ بنائے بغیر وہ کوئی اضافی فائر نہ کریں۔ اس حکمتِ عملی پر عمل کرتے ہوئے اۤکاش کی ٹیم اب تک کئی دہشت گردوں کو جہنم واصل کرچکی تھی جس سے دشمن کی صفوں میں بے چینی پھیلی ہوئی تھی۔ وہ اور شد و مد سے فائرنگ کررہے تھے کہ اۤکاش کے ا یک جوان کی ٹانگ پر گولی لگ گئی۔ اۤکاش کو جونہی پتا چلا، وہ گولیوں کی بوچھاڑ میں سے سہارے لیتا ہوا اس تک پہنچا اور اسے محفوظ مقام تک منتقل کرنے کے بعد اسے ابتدائی طبی امداد فراہم کی۔ اس کی ٹانگ سے اتنا خون بہہ رہا تھا کہ اگر اسے ابتدائی طبی امداد فراہم نہ کی جاتی تو وہ زیادہ خون بہنے کی وجہ سے بے ہوش بھی ہوسکتا تھا اور یہ ان کے لیے ا یک بڑا مسئلہ ثابت ہونا تھا۔

اس کام سے فارغ ہوکر اس نے دو جوانوں کو زخمی ہونے والے جوان کو باہر موجود میڈیکل سٹاف تک لے جانے کا اۤرڈر دیا اور خود باقی جوانوں کے ساتھ مل کر دشمن کا پھر سے مقابلہ کرنے لگا۔ اب تک وہ کافی سارے دہشت گردوں کو جہنم واصل کرچکے تھے اور باقی دہشت گرد جان بچا کر بھاگنے پر مجبور ہوگئے تھے۔
اس ساری کاروائی میں دشمن نے ا یک بار پھر بھاری نقصان اٹھا یا تھا جبکہ اۤکاش کی ٹیم کا صرف ا یک جوان زخمی ہوا تھا اور وہ بھی خطرے کی حالت سے باہر تھا۔ اس کمپاؤنڈ کی کلئیرنس اۤکاش کی بڑی کامیابی تھی۔ تین اہم اور خطرناک مقامات کی کلئیرنس سے اس کی قیادت کا اس پر اعتماد بڑھ گیا تھا۔ دوسری جانب اۤکاش کے زیرِنگرانی اۤپریشنز میں حصہ لینے والے جوانوں کا بھی اۤکاش پر اعتماد بڑھا تھا اور وہ زیادہ جوش و خروش سے اگلے ٹاسک کے لیے تیار ہورہے تھے۔
اۤکاش کی کمپنی کو اگلا دیا جانے والا ٹاسک ا یک بہت بڑی زیرِ زمین لیبارٹری کی کلئیرنس تھی جس میں جدید اسلحہ اور IEDSکی تیاری کے ساتھ ساتھ خودکش جیکٹس اور میزاأل تک تیار ہوتے تھے۔ 313بریگیڈ کمپاؤنڈ کی کلئیرنس کے بعد دو دن اس اۤپریشن میں حصہ لینے والے کمانڈوز کو اۤرام کے بعد اس لیبارٹری کی کلئیرنس کا اۤرڈر دیا گیا۔ کمپنی کمانڈر کا اۤرڈر ملتے ہی اۤکاش نے اپنی ٹیم ترتیب دی اور ضروری صلاح مشورے کے بعد اپنے اگلے ہدف کے لیے روانہ ہوگیا۔ ہر اگلا ہدف پچھلے ہدف سے مشکل تھا۔ 313بریگیڈ کمپاؤنڈ میں جہاں دہشت گرد موجود ہونے کا خطرہ تھا تو یہاں یہ خطرہ موت بن کر سر پر منڈلا رہا تھا کہ زیرِزمین لیبارٹری بارودی مواد سے بھری پڑی تھی اور کوئی بھی غیرمعمولی واقعہ اسی لیبارٹری کو تمام جوانوں کی قبر بنا دیتا۔ اۤکاش نے اپنے تمام جوانوں کو سخت ہدا یت کی تھی کہ چاہے کچھ بھی ہو جائے، وہ کسی صورت اس سے اۤگے نہیں بڑھیں گے۔ یہ لیبارٹری بظاہر اسپتال تھی مگر اصل میں یہاں دہشت گردوں کے لیے تمام تر بارودی مواد تیار کیا جاتا تھا۔ اۤکاش نے اپنی ٹیم کے ساتھ مل کر لیبارٹری کا چپہ چپہ کلئیر کرنا شروع کیا۔ وہ ہر قدم پھونک پھونک کر رکھ رہے تھے۔ یہ کافی محنت طلب اور صبر اۤزما کام تھا جس میں انہیں رات ہوگئی لیکن لیبارٹری مکمل طور پر کلئیر نہ ہوئی۔ اس رات انہوں نے اسی لیبارٹری میں قیام کیا۔ ابھی وہ لوگ لیٹے ہی تھے کہ اۤکاش کو وہاں کوئی حرکت محسوس ہوئی۔ اس نے اپنا ہتھیار سنبھالا اور ا یک دیوار کی اوٹ سے باہر کا جائزہ لینے لگا۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر اس کے باقی جوان بھی مستعد ہوچکے تھے۔ اۤکاش کو باہر کچھ ساأے حرکت کرتے نظر اۤئے تو اۤکاش نے ان پر فائر کھول دیا جس کے جواب میں دوسری طرف سے گولیوں کی بوچھاڑ شروع ہوگئی۔
دشمن دراصل اندھیرے سے فائدہ اٹھانے اۤیا تھا لیکن اسے اندازہ نہیں تھا کہ یہاں پاک فوج کے جوان ان کے کسی بھی عمل کے ردِعمل کے طور پر تیار کھڑے ہیں۔ یہاں سے بھرپور جوابی فائرنگ دیکھ کر دشمن پیچھے ہٹنے لگا۔ اۤکاش ان کے تعاقب میں اۤگے بڑھ رہا تھا۔ جب اۤکاش تھوڑا زیادہ اۤگے ہوا تو کسی جوان نے اۤگے بڑھ کر انہیں پیش قدمی روکنے کا مشورہ دیا جس کے جواب میں اۤکاش نے دو جوانوں کو اسے کور دینے جبکہ باقی کو لیبارٹری کسی بھی صورت نہ چھوڑنے کا حکم دیا اور اۤگے بڑھ گیا۔ اس نے کچھ گرنیڈز بھی ساتھ لیے۔ اب اۤکاش اور اسے کور دینے والے جوانوں کی جانب سے مختلف سمتوں میں یوں فائرنگ ہوئی کہ انہیں لگا پاک فوج کے نہ جانے کتنے سپاہی اندر ہیں اور وہ پسپا ہوکر بھاگنے لگے۔ اۤکاش نے ا یک گرنیڈ اۤگے بڑھ کر ان کی طرف پھینکا جس سے زور دار دھماکہ ہوا اور لیبارٹری کے اندر موجود جوان یہ سوچ کر گھبرا گئے کہ باہر اۤکاش اور باقی دو جوانوں کو کچھ ہو نہ گیا ہو لیکن وہ اۤرڈرز کے مطابق اپنی پوزیشن چھوڑ نہیں سکتے تھے۔
جب انہیں یقین ہوگیا کہ دشمن بھاگ چکا ہے تو وہ اپنے باقی ساتھیوں سے جاملے جنہیں دیکھ کر ان کی جان میں جان اآئی۔
”سر! اۤپ نے ہماری جان ہی نکال دی تھی۔” ا یک جوان اۤکاش سے ملتے ہوئے بولا۔
”ابھی جان نکلی نہیں تو یہ حال ہے۔ جب جان نکل گئی تب کیا کرو گے؟” اور اس جملے پر سب ہنس پڑے۔ وہ خطرناک ترین اۤپریشنز میں بھی اپنے برجستہ جملوں سے ماحول بنائے رکھتا تاکہ اس کے جوان کسی بھی ذہنی دباأو کا شکار ہوئے بغیر کام کرسکیں۔
پھر وہ لوگ باہر کا جائزہ لینے نکلے۔ کوئی دہشت گرد ہلاک نہیں ہوا تھا لیکن وہاں پڑا خون بتا رہا تھا کہ ان میں سے زخمی کافی ہوئے ہیں۔
اگلے دن انہوں نے لیبارٹری مکمل کلئیر کرکے اس کی رپورٹ اور دستاویزات حکامِ بالا تک پہنچاا یں تو اس بار نہ صرف اس کے کمانڈر بلکہ فوج کی انتہائی کمانڈ کی طرف سے بھی اسے شاباش موصول ہوئی۔ یہ تین چار انتہائی اہم کلئیرنس کے بعد اۤکاش کی بدولت کمانڈو 4، بالخصوص مٹھا شاہین کمپنی کو خوب عزت سے نوازا گیا۔
جیسے جیسے اۤکاش کامیابی سے اپنے ٹاسک کلئیر کرتا جارہا تھا، ویسے ویسے اس کے کمانڈرز کی توقعات اس سے بڑھتی جارہی تھیں۔ ہر نیا ٹاسک پچھلے ٹاسک سے زیادہ مشکل تر ہوتا جارہا تھا۔ ا یسا ہی ا یک ٹاسک بٹ مارکہ تھا۔

بٹ مارکہ دشمن کا ٹریننگ ا یریا، فائرنگ رینج، بارود رینج اور روم کمبٹ تھا۔ یہ ابھی تک دشمن کے زیرِتسلط تھا اور اسے کلئیر کرنا کوئی اۤسان کام نہ تھا۔ ظاہر ہے دشمن اپنا یہ ا یریا اۤسانی سے حوالے کرنے والا نہ تھا۔ اس ا یریا کی کلئیرنس کا ٹاسک میٹھا شاہین کمپنی کو ملا جس کی کمانڈ میجر طارق نعیم کے پاس تھی۔ یہ ٹاسک ملتے ہی میجر طارق نے اپنے سب سے قابلِ اعتماد کمانڈو کیپٹن اۤکاش کو بلا یا اور اسے یہ ا یریا کلئیر کرنے کا ٹاسک دیا۔ اۤکاش تو تھا ہی خطروں کا کھلاڑی۔ اس نے فوراً سرِتسلیم خم کیا اور اس کی تیاریوں میں لگ گیا۔ اس نے ٹارگٹ کی بذات خود ریکی کی اور پھر اس کے حساب سے منصوبہ بندی عمل میں لا یا۔ یہ ا یریا ابھی تک چونکہ دشمن کے زیرتسلط تھا اس لیے وہاں اسے کور کرنے کے لیے باقی کمبٹ ٹیموں کی بھی ضرورت تھی۔ اپنا پلان تیار کرکے اس نے اپنے کمانڈر میجر طارق کو دیا اور میجر طارق نے اسے پاس کردیا۔
ٹیموں کی تشکیل کے بعد اب عمل کا وقت تھا۔ اۤکاش نے اس اۤپریشن میں حصہ لینے والے تمام جوانوں کو اکٹھا کیا اور انہیں اس اہم اۤپریشن کے تمام خدشات بتاتے ہوئے پوچھا کہ ان میں سے کون اس اۤپریشن میں حصہ لینا نہیں چاہتا۔ تمام جوان اس کی بہادری اور قائدانہ صلاحیتوں کے معترف تھے چنانچہ سب نے اۤخری سانس تک اس کے ساتھ لڑنے کا عزم کیا۔ اۤکاش نے ان کے حوصلے کو سراہا اور ضروری ہدا یات کے بعد وہ لوگ ٹارگٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔
اپنے مطلوبہ مقام تک پہنچ کر اۤکاش نے ا یک مرتبہ پھر سب کو ان کی پوزیشنز بتاا یں اور ضروری ہدا یات دے کر اپنی پوزیشن سنبھال لی۔ دشمن چونکہ اس کاروائی سے اۤگاہ تھے، لہٰذا پاک فوج کی طرف سے نقل و حرکت پر وہ مزید چوکس ہوگئے اور انہوں نے بھرپور فائرنگ شروع کردی۔ وہ تمام اطراف سے حملہ کررہے تھے جس کے جواب میں یہاں سے بھی فائرنگ کا تبادلہ ہوا لیکن اۤکاش نے اپنی ٹیم کو زیادہ فائرنگ سے باز رہنے کا اۤرڈر دیا۔
یہاں اس نے کیپٹن ہارون، جوکہ اسے کور دینے والی ٹیم کے کمانڈر تھے، انہیں مستعد رہنے کا کہا اور اپنے چند ساتھیوں سمیت اس عمارت میں جہاں دشمن نے قیام کیا ہوا تھا، بڑھا۔ عمارت کے قریب پہنچ کر انہو نے دستی بموں سے عمارت کی کئی دیواریں منہدم کردیں جہاں سے انہوں نے عمارت میں داخل ہونا تھا۔ اب اۤکاش اپنی ٹیم کے ساتھ عمارت میں داخل ہوا جہاں دشمنوں سے اۤمنے سامنے مقابلہ متوقع تھا۔ یہ ا یک خطرناک کام تھا کیوں کہ وہ نہیں جانتے تھے کہ دشمن نے کہاں اور کس جگہ سے انہیں نشانے پر رکھا ہوا ہے اور وہ کسی بھی اندھی گولی کا شکار ہوسکتے تھے، لیکن اۤکاش خود ڈرا نہ اس کی ٹیم۔

وہ دیواروں کی اوٹ سے اۤگے بڑھتے جاتے اور دستی بموں سے اگلی دیواریں گراتے جاتے۔ دشمن اس دانش مند حکمتِ عملی پر بوکھلا گیا۔ کیوں کہ پاک فوج کے جوان بغیر کسی نقصان کے ان کے بہت قریب پہنچ چکے تھے۔ ان کی جانب سے فائرنگ کا سلسلہ مزید شد و مد سے شروع ہوگیا۔ کئی گولیاں اۤکاش اور اس کے ساتھیوں کے قریب سے گزر گئیں لیکن وہ محفوظ رہے۔ اۤکاش نے اب اپنی ٹیم کو فائرنگ سے منع کیا تاکہ دشمن پر یہ تاثر جاسکے کہ ان کے پاس گولیاں ختم ہوگئی ہیں۔ دشمن کی جانب سے کافی دیر فائرنگ کا سلسلہ جاری رہا۔ پھر جب انہیں یقین ہوگیا کہ واقعی ان کے دشمن کے پاس اسلحہ ختم ہوگیا ہے تو وہ ا یک ا یک کرکے اۤگے بڑھنے لگے۔ یہی وقت تھا جب اۤکاش نے اپنے ساتھیوں کو پوری شد و مد کے ساتھ فائرنگ کا اۤرڈر دیا۔ دشمن اس وقت کے لیے تیار نہ تھا۔ اسے کاری ضرب لگی اور اس کے کئی افراد یکدم ہی لقمہا اجل بن گئے۔ اس ساری کاروائی کے ساتھ ساتھ اۤکاش اپنی ا یک ٹیم کے ساتھ عمارت میں اۤگے بڑھتا رہا اور دستی بموں سے عمارت کی دیواریں گراتا رہا۔ پیچھے سے اس کے جوان تابڑ توڑ فائرنگ کرتے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے عمارت میں گھس رہے تھے۔ بہت سے دہشت گرد جہنم واصل ہوچکے تھے جبکہ کچھ نے خفیہ راستوں سے بھاگ کر اپنی جان بچاا ی۔ اس اۤپریشن میں اۤکاش کے تین جوان بھی شدید زخمی ہوئے۔ چونکہ ان لوگوں کے پاس ابتدائی طبی امدادی باکس موجود ہوتا ہے تو اۤکاش نے انہیں ابتدائی طبی امداد دے کر اسپتال بھیج دیا تھا۔ پھر اس کی باقی ٹیم نے عمارت میں بچھے IEDSناکارہ بنائے اور اسلحہ اپنے قبضے میں لے کر اس عمارت کی کلئیرنس دے دی۔ اپنی اہمیت اور دشمن کی نفری کے حساب سے یہ عمارت جوکہ شا ید کئی دنوں کے اۤپریشن کی متقاضی تھی، چند گھنٹوں میں کلئیر کر دی گئی تھی۔ اس کامیابی پر جب اۤکاش اپنے جوانوں کے ساتھ اپنے باقی یونٹ کے پاس پہنچا تو وہاں باقاعدہ جشن منا یا گیا۔ اۤکاش بہت بہادری اور دلیری سے اپنا نام بنا رہا تھا۔ کلئیرنس میں اگلی باری حقانی نیٹ ورک کے زیرِاستعمال کمپاؤنڈز تھے پھر میران شاہ کا بازار رزمک اڈا، اۤکاش ا یک کے بعد ا یک اۤپریشن لگاتار کررہا تھا۔ اس لیے اس کے کمپنی کمانڈر نے اسے کچھ دن اۤرام دینے کا سوچا اور یہ ٹاسک کسی اور کمانڈو کو دینے پر غور کرنے لگا۔ اۤکاش کو جب اس بات کا پتا چلا تو وہ کمپنی کمانڈر کے پاس جا پہنچا اور اس سے درخواست کی کہ وہ ا یسا نہ کرے اور اگلے اۤپریشنز کے لیے بھی اس کا نام فائنل کردے۔

”لیکن اۤکاش تم پے در پے پانچ بڑے اۤپریشن کرکے اۤئے ہو۔ ا یسے تھک جاؤ گے تم۔ کچھ دن اۤرام کرلو پھر دوبارہ سے تازہ دم ہوکے اپنے ارادوں کی تکمیل کرلینا۔”
”سر! یہ دن اۤرام کے نہیں ہیں۔ میری فوج نے اتنی محنت مجھ پر اس لیے نہیں کی کہ میں اس کڑے وقت میں میدانِ عمل میں جانے کے بجائے اۤرام کو ترجیح دوں۔ جب تک میں اۤخری دہشت گرد سے بھی اپنی سرزمین پاک نہیں کردیتا، میں وعدہ کرتا ہوں میں نہیں تھکوں گا۔ اۤپ پلیز مجھے اگلے اۤپریشنز پر جانے کی اجازت دے دیں۔”
کمپنی کمانڈر نے اسے سمجھانے کی تھوڑی اور کوشش کی لیکن اس کے عزم اور حوصلہ کی بدولت انہوں نے اسے اگلے اۤپریشن کی قیادت کرنے کی بھی اجازت دے دی۔ اس اجازت پر اۤکاش نے ان کا شکریہ اد کیا اور بھاری فوجی سیلیوٹ کرکے وہاں سے نکل اۤیا۔ اسے اگلے اۤپریشن کی تیاری کرنی تھی۔
حقانی نیٹ ورک کے زیرِاستعمال کمپاؤنڈ کو کلئیر کرنے میں اسے زیادہ دقت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ وہ دشمن کی جنگی حکمتِ عملی سمجھ چکا تھا اور اسی کے مطابق اپنی حکمتِ عملی ترتیب دیتا جس کے باعث ابھی تک بغیر کسی جانی نقصان کے اس نے اہم عمارتیں کلئیر کی تھیں۔
حقانی نیٹ ورک کمپاؤنڈ کے بعد وہ رزمک اڈا بازار کی طرف بڑھا۔ اب تک پاک فوج اور 4 کمانڈو بٹالین کی دھاک وہاں بیٹھ چکی تھی اس لیے جب خارجی کتوں کو پتا چلا کہ 4کمانڈو بٹالین کا اگلا ہدف وہ ہیں، وہ پہلے ہی وہاں سے فرار ہوگئے۔ یہ وہی علاقہ تھا جہاں سزا کے طور پر کسی کو جان سے مار کر وہیں چوک میں لٹکا دیا جاتا تھا۔ طالبان کے اپنے بنائے قوانین تھے جو انسانی اۤبادی تو کیا، کسی جنگل پر بھی لاگو نہیں ہوسکتے تھے۔
دشمن وہ علاقہ چھوڑ کر بھاگ چکا تھا لیکن اۤکاش نے پھر بھی وہاں پیش قدمی نہا یت سمجھ داری سے کی تھی کہ دہشت گردوں کے وہاں موجود ہونے کی صورت میں کوئی جانی نقصان نہ ہو۔ تمام جوانوں کی جانیں اس وقت اس کی ذمہ داری تھیں تو اس لیے وہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا رہا تھا۔
یہ کوئی عام بازار نہ تھا بلکہ یہاں اسلحہ کے پورے پورے ڈپو موجود تھے۔ یہ مارکیٹ مشہور ہی اسلحہ کی فراہمی کے لیے تھی۔ اۤکاش جب اپنی ٹیم کے ساتھ اس بازار کی کلئیرنس کے لیے پہنچا تو تمام دکانوں کو شٹرڈاأون کرکے بند کیاہوا تھا۔ اب ان کے لیے ا یک چیلنج یہ بھی تھا کہ دکانیں توڑ کر کھولیں تو اندر دہشت گرد نہ موجود ہوں اور بارودی مواد سے اڑا کر کھولیں تو اندر اور بارودی مواد نہ ہو جس سے زیادہ نقصان کا خدشہ تھا۔ پھر ا یک ا یک دکان کو الگ الگ حکمتِ عملی سے کلئیر کیا گیا۔ کچھ دکانوں کے تالے توڑے گئے، جبکہ کچھ کو فائرنگ کرکے کھولا گیا۔ ا یک دکان کے شٹر پر جب فائرنگ کرکے اسے کھولا گیا تو اندر گیس سلنڈرز بڑی تعداد میں پڑے تھے۔ اگر ان میں سے ا یک بھی پھٹ جاتا تو باقی بھی اس کی زد میں اۤکر پھٹتے اور ان کی تعداد اتنی تھی جو پوری مارکیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیتی لیکن اللہ نے انہیں بچانا تھا تو ا یسا کچھ نہ ہوا۔ ا یک بھاری تعداد میں اسلحہ اور بارودی مواد یہاں سے قبضے میں لے کر فوج کے حوالے کیا گیا اور یوں یہ مارکیٹ بھی کلئیر قرار دے دی گئی۔
پوری بٹالین اس پر فخر کررہی تھی لیکن وہ عجز و انکسار کا پیکر اللہ کا شکر ادا کرتے نہیں تھک رہا تھا کہ اللہ نے اتنے بڑے بڑے علاقوں کی کلئیرنس کے لیے اسے چنا تھا۔
اس کے بعد اسی علاقے میں رزمک چوک پر واقع ا یک مدرسہ بھی اسی کی زیرِ کمان کلئیر کیا گیا جو دہشت گردوں کا ٹریننگ کیمپ بھی تھا۔ یہاں اسلحہ کے علاوہ دہشت گردوں کی خفیہ دستاویزات اور نقشے اس کی کمپنی نے اپنی تحویل میں لے کر فوج کی اعلیٰ کمانڈ کے حوالے کیے جو بعدازاں ان کے دیگر ٹھکانوں پر حملے میں بہت کارگر ثابت ہوئے۔
اب میران شاہ مکمل طور پر کلئیر قرار دے دیا گیا تھا۔ وہاں نہ صرف دہشت گردوں کا مکمل صفا یا کیا جاچکا تھا بلکہ وہاں پاکستانی پرچم بھی لہرا دیا گیا تھا۔ وہ علاقہ جس کو پاکستان مخالف قوتیں زیربحث لاکر پاکستان کا امیج عالمی برادری میں خراب کرتی تھیں، پاک فوج نے اسے پرامن علاقہ بنا دیا تھا۔ یہ سب کاروائی اور بڑے بڑے کمپنیوں کی کلئیرنس ان سترہ دنوں کے قلیل عرصہ میں کی گئی تھی جس دوران اۤکاش گھر پر فون نہیں کر سکا تھا۔ اس اعصاب شکن اۤپریشن کے بعد اۤکاش اور اس کی کمپنی کے کمانڈر میران شاہ میں قائم اپنے کمپاؤنڈ میں واپس اۤگئے تھے تاکہ کچھ دن اپنی تھکن اتار سکیں۔ ان کا بھرپور استقبال کیا گیا تھا اور داد و تحسین کا سلسلہ تھمنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔
کمپاؤنڈ میں واپسی پر اۤکاش نے سب سے پہلے گھر فون کیا تھا اور سب سے بات کی تھی۔ جب تک پاک اۤرمی نے یہ علاقہ پوری طرح کلئیر نہیں کر لیا، تب تک یہاں فوج کے علاوہ کسی کو جانے کی اجازت نہ تھی۔ لیکن اس خطرناک علاقے کی کلئیرنس کے بعد میڈیا کو وہاں جانے کی اجازت دے دی گئی تھی۔ یہ ذمہ داری بھی اۤکاش کو سونپی گئی تھی کہ وہ میڈیا کے سامنے ریکور کیا گیا تمام اسلحہ دکھا کر فوج کی کارکردگی بتائے۔
میران شاہ اۤپریشن چونکہ رمضان المبارک میں ہورہا تھا، تو کبھی اۤکاش روزہ کی حالت میں ہی اۤپریشن میں مصروف رہتا اور کبھی قضا کردیتا۔ روزے کی حالت میں نہ ہونے کے باوجود بھی اکثر سارا سارا دن سوائے پانی پینے کے کچھ کھانے کی نوبت نہ اۤتی۔ وہ تمام جوان اکثر ہنستے تھے کہ شا ید ہی اب باقاعدہ کھانا نصیب ہو۔ لگتا ہے یوں ہی چنے اور پانی سے پیٹ بھرنا ہوگا۔
پھر جو چار پانچ دن اۤکاش اپنے کمپاؤنڈ میں رہا، اس نے باقاعدگی سے گھر بات کی۔ اس دوران وہ اپنے قریبی دوستوں سے رابطہ میں رہا۔ یہ چار پانچ دن وہ تمام جوانوں نے ا یسے گزار دیے گویا عید ہو۔ وہ ہنستے کھیلتے، ناچتے گاتے، ا یک دوسرے کو ”رگڑا” لگاتے اور اۤپریشن کا احوال یوں ہنستے ہوئے ا یک دوسرے سے شیا ر کرتے گویا اۤپریشن سے نہیں بلکہ کسی میلے سے اۤرہے ہوں۔ جہاں کہیں سنجیدہ بات کا ذکر اۤتا تو وہ پوری دلجمعی سے سنتے اور جہاں کسی کو داد دینا ہوتی تو اس میں بھی فراخ دلی سے کام لیتے۔ ابھی تک جتنے بھی اۤپریشنز ہوئے تھے، ان میں 4کمانڈو بٹالین اور 7کمانڈو بٹالین نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی اۤرمی کی دیگر تمام یونٹس مثلاً انفنٹری، اۤرٹلری اور اۤرمر سپلائی یونٹ نے بھی انتہائی مستعدی سے اپنے فراأض سرانجام دیے تھے۔ لیکن اس میں بھی کوئی شبہ نہ تھا کہ SSGکمانڈوز کے پاس جو اۤپریشنز اۤتے، وہ سب سے اہم اور خطرناک ہوتے تھے۔ کمانڈوز کو دراصل تیار ہی ان ہی چیزوں کے لیے کیا جاتا ہے۔ اۤگ، خون، اونچائی، گہرائی، تاریکی، طوفان، کمانڈوز کے لیے یہ معمولی باتیں ہوتیں۔ SSG کمانڈوز علاقے کلئیر کرکے فوج کے ہینڈ اوور کرتے جاتے۔ کیپٹن اۤکاش ان کمانڈوز میں اب ا یک نما یاں نام بن چکا تھا جس نے بلا تکان پر خطر مہمات سر کرے پاک اۤرمی کے حوالے کی تھیں۔
اۤرام کے دن ختم ہونے کے بعد ان کا اگلا ٹارگٹ کوٹ کلے گاؤں تھا۔ یہاں صوفی نیک محمد کا مدرسہ ان کا اصل ٹارگٹ تھا جس کو کلئیر کرنے کا ذمہ مٹھا شاہین کمپنی کے حصے میں اۤیا تھا اور اس وقت مٹھا شاہین کمپنی کا مطلب تھا کیپٹن اۤکاش ربانی۔۔۔۔۔۔
اۤکاش کو جونہی یہ ٹاسک کلئیر کرنے کا اۤرڈر ملا، اس نے اپنی ٹیم سے ضروری صلاح مشورہ کیا اور ا یک اور اہم ٹاسک کی کلئیرنس کے لیے روانہ ہوگیا۔ ان کی حکمتِ عملی چونکہ پہلے معرکوں میں تفصیل سے زیربحث اۤچکی ہے، اس لیے اب یہاں اس کا ذکر کیے بغیر بس اتنا بتا دوں کہ یہ ٹاسک بھی بغیر کسی جانی نقصان کے پا یہا تکمیل کو پہنچا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اۤخری معرکہ

وہ 14اور 15جولائی کی درمیانی شب تھی جب اۤکاش اپنے کمپنی کمانڈنٹ میجر طارق اور کیپٹن ہارون کے ساتھ بیٹھا گپ شپ لگا رہا تھا۔ میجر طارق نے رات کے کھانے کے لیے خصوصی طور پر مٹن تیار کروا یا تھا اور اب وہ تینوں اکٹھے بیٹھے کھانا کھا رہے تھے۔ یہ موقع بہت دنوں بعد اۤیا تھا۔ کھانے کے دوران ہلکی پھلکی گپ شپ ہوتی رہی اور قہقہے لگتے رہے۔ اس کے بعد کیپٹن ہارون اپنی کمبٹ ٹیم لوکیشن پر جانے کے لیے اٹھ گئے جب کہ میجر طارق، اۤکاش سے اگلے اۤپریشن کی تفصیلات ڈسکس کرتے رہے جس کے بعد اۤکاش بھی اپنی کمبٹ ٹیم لوکیشن پر جانے کے لیے کھڑا ہوگیا۔
ان کی اگلی منزل علی خیل تھی جوکہ میران شاہ سے تقریباً دس کلو میٹر کے فاصلے پر ہے۔ سفر کے دوران اۤکاش، کیپٹن ہارون اور میجر طارق وائیرلیس کے ذریعے رابطے میں تھے۔ وہ جس منزل کی طرف بڑھ رہے تھے، وہاں کے حالات زیادہ کلئیر نہیں تھے اور اس اۤپریشن کی حکمتِ عملی اۤکاش نے وہاں پہنچ کر ہی جائزہ لینے کے بعد بنانی تھی۔ جلد ہی وہ لوگ علی خیل پہنچ گئے۔ وہاں شدید فائرنگ ہورہی تھی۔ ا یسے کہ گولیاں ان کے سروں کے اوپر سے گزر کر جارہی تھیں۔
میجر طارق، کیپٹن ہارون اور اۤکاش ابھی بھی وائیرلیس کے ذریعے ا یک دوسرے سے رابطے میں تھے۔ کیپٹن ہارون نے اپنی پوزیشن سنبھالی اور اپنی ٹیم لے کر اۤگے بڑھنے لگے۔ اۤکاش نے انہیں ابھی اۤگے جانے سے منع کیا جس پر کیپٹن ہارون نے تھوڑا برہمی کا اظہار بھی کیا۔
اۤکاش ہمیشہ کی طرح اپنی کمبٹ ٹیم کے ساتھ اۤگے بڑھا۔ دشمن کی گولیاں ان کے بالکل پاس سے گزر رہی تھیں لیکن وہ مردانہ وار اۤگے بڑھتے ہوئے اپنی لوکیشن پر پہنچ گئے۔ حکمتِ عملی اۤکاش یہاں پہنچ کر پہلے ہی ہنگامی طور پر بنا چکا تھا کیوں کہ دشمن کی جانب سے حملہ شدید تھا۔
اس سے پیشتر کچھ یوں ہوا کہ 30سندھ کی ا یک کمپنی صبح اس علاقے سے گزر رہی تھی۔ یہاں ان پر اچانک کسی گھر سے فائرنگ شروع کردی گئی جس پر ہنگامی حکمتِ عملی کے طور پر کمپنی کے جوانوں نے جوابی فائرنگ شروع کی۔ وہ دشمن کا پیچھا کرتے کرتے ا یک گھر میں گھسے جہاں بہت سے دہشت گرد پہلے ہی موجود تھے۔ دونوں طرف سے فائرنگ کا تبادلہ ہوا جس کے نتیجے میں دشمن وہاں سے فرار ہوکر ٹوچی دریا کی طرف بھاگا۔ کمپنی کے جوانوں نے ان کا پیچھا کرتے ہوئے دو دہشت گرد مار گراأے۔ لیکن دشمن کے تعاقب میں دو جوان کافی اۤگے چلے گئے تھے جہاں دشمن بڑی تعداد میں موجود تھا۔ انہوں نے بھرپور فائرنگ کرتے ہوئے دو جوان شہید کردیے جن کے جسدِ خاکی تاحال دریا کنارے تھے۔ اب دہشت گرد وہ باڈیز ریکور کرنے نہیں دے رہے تھے۔ 7کمانڈو بٹالین ان سے پہلے وہاں پہنچی تھی مگر وہ بھی باڈیز ریکور کرنے میں اب تک ناکام رہی تھی۔ 7کمانڈو بٹالین اپنے شہداء کے جسدِ خاکی واپس لانے کے لیے اۤگے گئی جہاں حوالدار مصطفی دشمنوں کی گولیوں کا نشانہ بن گئے۔ بعدازاں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے CMHپشاور میں شہید ہوگئے۔

اۤکاش کو جب صورتحال کا اندازہ ہوا تو اس نے میجر طارق سے عہد کیا کہ وہ اپنے دونوں جوانوں کی باڈیز لانے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگا دے گا کیوں کہ دشمن ان لاشوں کی بے حرمتی کرتے تھے۔ میجر طارق نے اۤکاش کو اس مقصد کے لیے کسی اور کمانڈو کی ڈیوٹی لگانے کا کہا کیوں کہ اۤکاش کو وہ اور اہم ٹاسک دینا چاہتے تھے لیکن اۤکاش پر اس وقت دونوں جوانوں کا جسدِ خاکی ریکور کروانے کا جنون سوار تھا جس پر میجر طارق نے اسے بہ مشکل اجازت دے دی۔
یہ ٹاسک انتہائی مشکل تھا کیوں کہ ا یک تو اۤرمی کے یہ جوان اس علاقے سے واقف نہیں تھے جبکہ دشمن اس علاقے کا چپہ چپہ جانتا تھا۔ دوسرا یہ کہ دشمن کو یہاں کافی عددی برتری حاصل تھی۔ مزید یہ کہ یہ کسی عمارت کا محاصرہ نہیں تھا کہ جس کی حکمتِ عملی بنانے کا اۤکاش ماہر ہوچکا تھا۔ یہ کھلا میدان تھا اور کوئی بھی کسی بھی وقت کسی بھی اندھی گولی کا نشانہ بن سکتا تھا لیکن اۤکاش کے سر پر صرف یہی جنون سوار تھا کہ اسے اپنے جوانوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں ہونے دینی اور انہیں واپس لانا ہے۔
اۤکاش نے دو سنائپرز اور چند جوان ساتھ لیے، انہیں تمام تر صورتحال سمجھا کر ہدا یات دیں اور اۤگے کی طرف بڑھنا شروع کردیا۔ گولیوں کی بوچھاڑ اتنی تھی کہ کسی کسی مقام پر اۤکاش اور اس کی ٹیم کو کرالنگ کرتے ہوئے اۤگے بڑھنا پڑا۔ وہ اسی طرح کرالنگ کرتے ہوئے اۤگے بڑھ رہے تھے کہ انہیں قریب جھاڑیوں میں کچھ حرکت محسوس ہوئی۔ دشمن غیرمحسوس طریقے سے ان کے پاس پہنچ گیا تھا اور اگر اۤکاش نے یہ خطرہ محسوس نہ کرلیا ہوتا تو وہ سب کے سب مارے جاچکے ہوتے۔ لیکن چونکہ اۤکاش انہیں دیکھ چکا تھا لہٰذا وقت ضائع کیے بغیر اس نے ان پر فائر کھول دیا اور وہاں موجود دہشت گردوں کو جہنم واصل کردیا۔ اب اۤکاش ٹوچی دریا کے کنارے پہنچ چکا تھا لیکن یہاں دشمن کی بہت بڑی تعداد موجود تھی جب کہ اۤکاش کے پاس چند جوان اور دو سنائپرز۔ اب چالیس سے پچاس میٹر کے فاصلے پر اۤمنے سامنے شدید ترین فائرنگ کا تبادلہ ہورہا تھا۔ وہاں اتنی گولیاں چل رہی تھیں کہ اس جگہ پر روشنی کا گمان ہوتا۔ پاک اۤرمی کے جوان چونکہ تربیت یافتہ تھے اور کم اسلحہ میں بھی بہتر حکمتِ عملی سے بہترین نتاأج نکالنے کے ماہر تھے لہٰذا جلد ہی ان کی فائرنگ اور سنائپرز کے نشانوں سے دشمن کا کمانڈر اور اس کے چند ساتھی ہلاک ہوگئے۔ اپنے ساتھیوں کی ہلاکتوں پر دشمن پسپا ہوکر پیچھے ہٹا جہاں دشمن کی اور نفری موجود تھی۔ پیچھے جا کر انہوں نے اپنی پوزیشنز سنبھال کر ا یک بار پھر شدید فائرنگ شروع کردی۔ یہاں دشمنوں کو ایک فائدہ حاصل رہا کہ یہ پورا گاؤں چونکہ ان کے تسلط میں تھا لہٰذا وہ یہاں بہت بڑی تعداد میں موجود تھے۔ جتنے مرتے، اس سے کئی گنا زیادہ اۤکر ان کی پوزیشنز سنبھال لیتے لیکن یہاں بھی فوج کے بہادر سپاہی تھے، کیسے پیچھے ہٹتے۔ دشمن جیسے ہی تھوڑا پسپا ہوکر پیچھے ہٹا، اۤکاش اپنے ساتھیوں سمیت اۤگے کی طرف بڑھ گیا۔ اس وقت اس کے سر پر صرف ا یک ہی جنون سوار تھا کہ اس نے اپنے ساتھیوں کی لاشیں ہر حال میں واپس لانی ہیں۔ اس جنون کے علاوہ اسے کچھ نظر نہیں اۤرہا تھا۔ نہ دشمن کی بڑی تعداد اور نہ گولیوں کی بوچھاڑ۔ شا ید اس لمحے اسے ماں کا وہ چہرہ نظر اۤیا ہو جو گھر پر بیٹھی اس کے لیے دن رات دعا مانگ رہی تھی۔ جو اس کے کہنے پر اس کے لیے عید کی تیاریاں کرکے ہر دم اس کی راہ تک رہی تھی۔ اسے باپ کا چہرہ بھی یاد اۤیا ہو جن کے بڑھاپے کا اسے سہارا بننا تھا۔ اسے اس بہن کا چہرہ بھی یاد اۤیا ہو جس نے اس کے انتظار میں اپنی ہر خوشی سے منہ موڑ لیا تھا اور بس اسی کا انتظار کررہی تھی۔اسے شا ید وہ اپنا جوڑی دار بھائی بھی یاد اۤیا ہوکہ جو اس کے لیے دوستوں سے بڑھ کر تھا۔ لیکن اس سب میں اسے کچھ بہت وضاحت سے یاد تھا تو وہ حلف جو اس نے کمانڈو بنتے ہوئے اپنے خون سے لیا تھا کہ اپنے فرض کی ادائیگی کے لیے وہ کسی چیز کو اۤڑے نہیں اۤنے دے گا۔ وہ ارضِ پاک سے ا یک ا یک دشمن کا صفا یا کردے گا۔ ماں کی گود اجڑتی ہے تو اجڑ جائے، باپ کا سہارا چھنتا ہے تو چھن جائے، بہن کا انتظار اس کی ساری زندگی پر مشتمل ہوتا ہے تو ہو جائے، اس کے بھائی کی جوڑی ٹوٹتی ہے تو ٹوٹ جائے لیکن وہ دشمن کو اپنے ناپاک عزاأم میں کبھی کامیاب نہیں ہونے دے گا اور یہی عہد باقی تمام یادوں پر حاوی ہوگیا۔ وہ دشمن کی تاک میں اۤگے بڑھ گیا۔ اس کے پیچھے اس کے جوان اپنے نڈر کمانڈر کی تقلید میں اۤگے بڑھے تو ا یک جوان، وقار کو دشمن کی گولی چاٹ گئی۔ وہ زمین پر گر گیا۔ اۤکاش نے اور کچھ نہ دیکھا، اسے کور دینے کے لیے اۤگے بڑھ گیا۔ یہی وہ وقت تھا جب دشمن کی ا یک نہیں، دو نہیں، تین نہیں بلکہ پوری نو گولیاں اس کے سینے میں پیوست ہوگئیں۔ کبھی جو اسے کانٹا بھی چبھتا تو میں بے چین ہو جاتی۔ کیسے نو گولیاں اس نے سینے میں سمیٹی ہوں گی۔ کاش میں اس کے پاس ہوتی تو اس کے اۤگے ڈھال بن کر وہ گولیاں اپنے دامن میں سمیٹ لیتی لیکن اُن گولیوں کا رزق میں نہیں، اۤکاش تھا۔ اۤکاش۔۔۔۔۔۔ جو اس وقت دشمن کی ہٹ لسٹ پر تھا کیوں کہ اس نے ان کے مستحکم علاقوں میں گھس کر ان کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ دشمن یہ کب گوارا کرسکتا تھا اس لیے موقع ملتے ہی اس نے اپنی تمام نفرت اس کے سینے میں اتار دی۔ وہ گولیاں کھا کر مڑا تو ساتھ ہی ا یک سنائپر نے اس کے سر کا نشانہ لے کر دو گولیاں عین اس کے دماغ میں اتار دیں۔ زندگی کی تمام رمق ختم ہوگئی۔ اۤکاش گر پڑا۔ اسے ہر کام کی جتنی جلدی رہتی تھی، وہ خالقِ حقیقی سے بھی اسی عجلت میں جا ملا۔ اگلی سانس تک نہ لی۔
اۤکاش کے باقی ساتھی ان تک پہنچے اور وقار کو چیک کیا۔ اس کی سانسیں ابھی ہلکی ہلکی چل رہی تھیں لیکن اۤکاش جو اسے بچانے گیا تھا، وہ اپنی سانسیں اپنے ساتھیوں اور اپنے وطن عزیز کو دے چکا تھا۔ اۤکاش ساکت تھا۔ وہ شہادت کے عظیم مرتبے پر فائز ہوچکا تھا۔ اس کا پاکیزہ لہو بہہ کر رزقِ زمیں ہورہا تھا اور سر سے سفید مادہ باہر کو نکل رہا تھا۔ اس کے چہرے کی وہ ازلی مسکراہٹ اب بھی قائم تھی جو جوانوں میں حوصلہ بھر دیتی تھی۔ لیکن اب یہی مسکراہٹ ان کا دل چیر رہی تھی۔ ان کا سب سے بہادر لیڈر اس مرتبے پر فائز ہوچکا تھا جس کی تمنا خالد بن ولیدؓ جیسے معتبر اور رسول اللہؐ کے پیارے صحابی اور سپہ سالار نے کی تھی۔ اس کے جوان کور دے کر اسے پیچھے کی جانب لا رہے تھے۔ اس کا ہتھیار ہنوز اس کے ہاتھ کی مضبوط گرفت میں تھا۔ لیکن زندگی پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ چکی تھی۔ وہ اپنا عہد پورا کرچکا تھا۔ جب اس کے جوان اس کی لاش لے کر یونٹ پہنچے تو کسی کو یقین ہی نہیں اۤرہا تھا کہ یہ دم سادھے لیٹا شخص وہی اۤکاش ہے جس کا قہقہہ اس کی یونٹ کی جان ہوا کرتا تھا۔ سب پر سکتہ طاری تھا۔ فوج میں دورانِ اۤپریشن شہادتیں معمول ہوتی ہیں لیکن کچھ اۤفیسرز کی شہادت پورے یونٹ پر سوگ کی کیفیت طاری کردیتی ہے اور اۤکاش انہی اۤفیسرز میں سے ا یک تھا۔ جیسے جیسے اس کے ساتھیوں اور دوستوں کو اس کی شہادت کی اطلاع مل رہی تھی، وہ کہہ رہے تھے خدا کرے ان کی سماعتوں کو مغالطہ ہوا ہو۔ خدا کرے وہ بھیانک خواب دیکھ رہے ہوں جس کی کبھی تعبیر نہ ہو۔ لیکن سماعتیں برقرار تھیں۔ حقیقت خوابوں کا پردہ چاک کیے پوری سچاا ی کے ساتھ کھڑی تھی۔
شہید ہونے والا کوئی اور نہیں، SSGکمانڈو اۤکاش اۤفتاب ربانی ہی تھا۔
٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

بلتستانی لوک کہانی | ماس جنالی

Read Next

چنبیلی کے پھول (قسط نمبر ۱)

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!