سبز اور سفید

اۤج اتوار تھا۔ وہ کئی دن گزرنے کے بعد اۤج ہیری ہوم اۤءی تھی۔ اس واقعے کو کافی دن گزر گئے تھے۔ نہ ہی ارمش نے اس سے رابطہ کیا تھا نہ اس نے ارمش سے۔ وہ ڈسپنسری میں ہی تھی اور حارث اس کے پاس تھا وہ اس سے ہی ہمیشہ معاأنہ کرواتا تھا حالاں کہ اس کا نام ڈاکٹر فاروق کے پاس جانے والے بچوں میں تھا مگر وہ ضد کر کے اس کے پاس اۤجاتا تھا۔

”حارث۔۔۔۔۔۔ عمر کہاں ہے؟”

”وہ پڑھ رہے ہیں۔۔۔۔۔۔ ان کا کل امتحان ہے ناں۔”

”ارے ہاں۔۔۔۔۔۔ اچھا تم ایک بات بتاأو تم اس کے کمرے میں ہی سوتے ہو ناں؟”

حارث نے جلدی سے ہاں میں گردن ہلاأی تھی۔

”تو کیا وہ اپنی دوا وقت پر لیتا ہے؟”

”معلوم نہیں! میں نے نہیں دیکھا۔”

”تو اۤج سے تم دیکھو گے روز۔ اسے روز دوا کھانی ہوتی ہے رات کو۔ تم روز اس سے پوچھو گے کہ اس نے دوا کھاأی یا نہیں اور جب وہ مسلسل پڑھاأی کر رہا ہو تو ہر تھوڑی دیر میں اس کو پانی دو گے۔ ہر اۤدھے گھنٹے یا ایک گھنٹے کے وقفے سے مگر صرف دو گھونٹ پانی۔۔۔۔۔۔ سمجھے؟ یہ تمہاری ڈیوٹی ہے۔” حارث بہت دھیان سے اس کی بات سنتا رہا۔

”ان کی کیا طبیعت خراب ہے؟”

”ہاں وہ بیمار ہے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے ناں۔۔۔۔۔۔ جس دن وہ دوا کھانا بھول جاأے اس دن اسے دوا کھلانا تمہارا کام ہے۔ میں پوچھوں گی تم سے ورنہ۔۔۔۔۔۔ ٹھیک؟”

”ٹھیک ہے میں یاد رکھوں گا۔”

”اور اگر تم اپنا کام اچھے سے کرو گے تو اگلے سنڈے میں اۤءس کریم کھلاأوں گی انعام کے طور پر۔۔۔۔۔۔”

”عمر ٹھیک ہو جاأیں اس سے اچھا کیا انعام ہو سکتا ہے۔” اس نے کہا تو وہ خوش بھی ہو”ی اور حیران بھی۔

”لیکن اگر پھر بھی تم مجھ سے بہت خوش ہو گی تو کھلا دینا۔۔۔۔۔۔ میں کھا لوں گا۔” اس نے شرارت سے کہا تو وہ ہنس پڑی۔

”ٹھیک ہے اب جاأو۔” وہ بھاگتا ہوا باہر نکل گیا۔

”رشوت دے رہی تھی اسے؟” ڈسپنسری کے دروازے سینے پر ہاتھ باندھے پر ارمش کھڑا تھا اس نے اسے ایک نظر دیکھا پھر پلٹ کر دوسرے بچے کا معاأنہ کرنے لگی۔ وہ اندر اۤیا اس نے ٹیبل کے دراز سے چند کاغذات نکالے اور چلا گیا۔ جتنی دیر وہ وہاں موجود رہا اس کی سانس اوپر نیچے رہی تھی پھر وہ واپس اپنے کام میں مصروف ہو گئی۔

فارغ ہونے کے بعد وہ ایک بار عمر سے ملنا چاہتی تھی۔ کل اس کا امتحان تھا۔ اسے فکر تھی، وہ ٹھیک تھا یا نہیں۔ وہ چلتی ہو”ی اس کے کمرے تک اۤگئی وہاں عمر کے ساتھ ارمش بھی موجود تھا۔

”اوہ! ڈاکٹر ارمینہ سرفراز محمود۔۔۔۔۔۔ تشریف لاأیے۔۔۔۔۔۔” عمر چہک کر بولا تو ارمش نے گردن گھما کر دروازے پر کھڑی ارمینہ کو دیکھا۔

”کہاں غاأب تھیں تم اتنے دن سے میں کب سے تمہارا انتظار کر رہا تھا تم سے کچھ سوال پوچھنے تھے مجھے اچھا ہوا اۤگئیں۔۔۔۔۔۔”

”میں بعد میں اۤجاأوں گی۔۔۔۔۔۔” وہ واپس جانے لگی۔

”ارے کہاں جا رہی ہو یار یہاں اۤءو ناں کام ہے تم سے۔” وہ جو جانے کو مڑی تھی، رک گئی۔

”کیا پوچھنا ہے؟” ارمش اس کے بیڈ کے پاس رکھی ایک کرسی پر بیٹھ گیا وہ اندر اۤگئی اور اۤکر بیڈ کے پاس کھڑی ہو گئی۔

”تمہاری ہی وجہ سے اندر اۤگئی تھی ورنہ میں گھر جا رہی تھی۔ مجھے لگا ایک بار دیکھ لوں۔۔۔۔۔۔ تم۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہو یا نہیں۔”

”مجھے کیا ہونا ہے ٹھیک ہوں میں۔” اتنے میں ارمش اپنی جگہ سے اٹھا اور کرسی اس کی طرف بڑھا دی۔

”بیٹھ جاأو۔”

”نہیں میں ٹھیک ہوں۔۔۔۔۔۔ تم بولو عمر کیا پوچھنا ہے؟” عمر کتابوں میں کو”ی صفحہ ڈھونڈھنے لگا۔ ارمش کرسی پر واپس نہیں بیٹھا بلکہ دیوار سے ٹک کر سینے پر ہاتھ باندھے کھڑا ہوگیا۔ کرسی ہنوز خالی تھی، اس کی نظریں ارمینہ پر جمی ہو”ی تھیں۔

”یہ دیکھو یہ والا سوال۔۔۔۔۔۔ میں نے اس مشق کے سارے سوال حل کر لئے بس یہ والا نہیں ہوا۔”

”دکھاأو۔” اس نے کھڑے کھڑے کاپی ہاتھ میں لے لی۔

”تم نے غلطی کی ہے عمر۔۔۔۔۔۔ دیکھو یہ اس طرح ہو گا۔” وہ کھڑے کھڑے ہی سوال حل کرنے لگی۔

”بیٹھ جاأو ناں ارمینہ۔” عمر نے اسے کھڑا دیکھ کر کہا۔

”نہیں ایسے ہی ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔”

”ارے یار کھڑے کھڑے کیسے لکھو گی۔”

”لکھ لوں گی۔” اور اس نے کھڑے کھڑے سارا سوال حل کر لیا اور نوٹ بک عمر کے اۤگے کر دی۔

”یہ لو۔۔۔۔۔۔ اور کیا ہے؟”

”اور بہت کچھ ہے تم بیٹھ جاأو ناں پلیز۔” عمر نے کوفت سے کہا تو دیوار کے ساتھ کھڑا ارمش مسکرایا۔ ارمینہ نے اس کی مسکراہٹ محسوس کر لی وہ اسے اس وقت زہر لگ رہا تھا۔ اس نے بیڈ پر پھیلی کتابیں سمیٹیں اور جگہ بنا کر بیڈ کے کنارے ہی بیٹھ گئی۔

”خوش؟” اس نے عمر کو دیکھتے ہو”ے کہا۔

”چیئر پر بیٹھ جاتی تو چیئر ٹوٹ نہیں جاتی۔” عمر نے خفگی سے اس سے کہا۔

”غرور ٹوٹ جاتا۔” اتنی دیر میں ارمش نے ایک جملہ کہا جو اس کے دل پر جا لگا مگر وہ خاموش رہی ۔

”اۤگے بتاأو؟” پھر اس نے ایک ایک کر کے اس کے تمام سوالات حل کر دیئے۔

”بہت شکریہ ارمینہ۔” عمر نے اس کا شکریہ ادا کیا تو وہ مسکراأی۔

”انشا اللہ تم کامیاب ہو جاأو گے۔۔۔۔۔۔ اچھے سے کرنا اور کو”ی کام ہو تو کال کر لینا۔”

”ہاں ٹھیک ہے۔”

”اور پانی پیتے رہنا مگر تھوڑا تھوڑا۔۔۔۔۔۔ ایک ساتھ بہت سارا مت پینا۔”

”ہاں ہاں ٹھیک ہے۔”

”خدا حافظ۔” وہ اٹھ کر باہر اۤگئی۔

ارمش اب بھی دیوار سے ٹکا اسے گھور رہا تھا۔ وہ گاڑی میں اۤکر بیٹھ گئی اور سارے راستے ارمش کے بارے میں سوچتی رہی۔ اس سے پہلی ملاقات سے لے کر اۤج تک کی تمام ملاقاتوں کے بارے میں، سواأے اۤخری چند ملاقاتوں کے ہر ملاقات خوبصورت تھی۔ مگر ان اۤخری چند ملاقاتوں نے سب کچھ بدل کر رکھ دیا تھا۔ اۤخری خوبصورت یاد جو اس سے جڑی تھی وہ شکرپاراں کے اس خوبصورت باغ کی تھی۔

”guzel۔۔۔۔۔۔” اس کے اۤنسو اب بہنے لگے تھے۔ اس نے یونہی اپنا موباأل نکالا اور سرچ انجن میں guzel ٹاأپ کیا چند لمحوں میں کئی لنکس کھل گئے اس نے ان میں سے ایک پر ٹچ کیا، وہ ٹرانسلیٹر کھول رہی تھی اور اس لنک کے کھلتے ہی اس کی اۤنکھیں کھل گئیں۔

”Guzel… Beautiful… Turkish”

غلط! اس نے مجھ سے جھوٹ کہا تھا۔ اس لفظ کا مطلب ضدی نہیں ہے بلکہ خوبصورت ہے اور یہ اسپینش بھی نہیں ہے بلکہ ترک زبان کا لفظ ہے۔۔۔۔۔۔ جھوٹا۔” اس کے اۤنسو یک دم غصے میں بدل گئے تھے۔

پھر اس نے C’est bian ٹاأپ کیا ”It’s ok!” جو اس نے سوری کے جواب میں کہا تھا۔ مطلب وہی تھا لیکن وہ اٹالین نہیں بلکہ جرمن زبان کا لفظ تھا۔ ”جھوٹا” اس نے غصے میں موباأل اندر رکھ دیا تھا۔ اسے یاد اۤیا تھا اس نے Bingo کہہ کر اسے کتنا سراہا تھا اور وہ یہ سمجھ کر وہ درست جواب دے رہی ہے، اتراتی گئی تھی۔

”اور وہ اس وقت دل میں ہنس رہا ہو گا مجھ پر” وہ غصے سے سرخ ہو گئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ گاڑی ڈراأیو کر رہا تھا۔ گھر کے راستے پر گاڑی ڈالتے ہو”ے وہ کسی گہری سوچ میں تھا۔ گھر اۤکر اس نے بابا کو سلام کیا اور ان کے پاس ہی بیٹھ گیا اب وہ اکثر ان کے پاس بیٹھ جایا کرتا تھا۔

”بابا ہیری ہوم کی سال گرہ اۤنے والی ہے، میں سوچ رہا تھا کیوں نہ کچھ ارینج کریں بچے بھی خوش ہو جاأیں گے۔ انہیں کہاں ملتی ہیں پارٹیز اور گیدرنگز۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم میں ہی کچھ اچھا سا ارینج کر لیتے ہیں۔ کیا خیال ہے اۤپ کا؟”

”ہاں اچھا اۤءیڈیا ہے۔۔۔۔۔۔”

”میں نے اسد سے بات کی تھی اور باقی سب سے بھی سب رضا مند ہیں۔”

”ٹھیک ہے بالکل کرو۔” انہوں نے مسکرا کر ہامی بھر لی۔

”لیکن بابا میں سوچ رہا ہوں ارمینہ اور انکل سرفراز کو نہ بلاأوں۔” انہوں نے اخبار پر سے نظر اٹھا کر اسے دیکھا جب کہ وہ بڑے مزے سے ٹیبل پر بڑے باأول سے کاجو اٹھا کر کھا رہا تھا۔

”کیوں نہیں بلاأو گے؟ تم خود تو کہہ رہے تھے وہ ہیری ہوم کا حصہ ہے۔”

”جی ہے تو۔۔۔۔۔۔ مگر بابا اب ہمیں ان لوگوں سے فاصلہ رکھنا چاہیے۔” وہ بہت باریک بینی سے ان کے چہرے کے زاویوں کو دیکھ رہا تھا۔

”لیکن اگر اسے برا لگا تو؟”

”تو لگتا رہے۔۔۔۔۔۔ ہم کیا کر سکتے ہیں؟” اس نے ایک اور کاجو منہ میں ڈالا۔

”ارمش ایسے نہیں کہتے ،کبھی دوست تھی تمہاری وہ۔”

”انکل سرفراز بھی تو اۤپ کے دوست ہی تھے بابا۔” ارش کے جملے پر وہ خاموش ہو گئے۔

”چلتا ہوں بابا۔۔۔۔۔۔ سب کو اۤگاہ کرنا ہے اور سب کچھ پلان کرنا ہے۔” وہ اسے جاتا دیکھتے رہے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اس نے ہیری ہوم کی پہلی سال گرہ بہت شان دار طریقے سے مناأی۔انتظام بہترین تھا، بچوں کی پسند کی ہر چیز وہاں موجود تھی، ان کے لئے جیسے اۤج عید تھی۔ اس کے دوست، ٹرسٹیز سب شامل تھے اس نے سب کو بلایا تھا سواأے ارمینہ اور انکل سرفراز کے۔ وہ اۤستینوں کو موڑے سادہ سی سیاہ شرٹ اور گرے جینز میں ملبوس تھا۔ وہ عمر کو بلانے اندر چلا گیا۔ اس کے اۤخری پیپر میں لمبا وقفہ تھا تو وہ بھی تقریب میں شریک ہو گیا تھا۔ وہ دونوں ساتھ ہی باہر اۤءے۔

”ارمینہ نظر نہیں اۤرہی ورنہ وہ تو سب سے اۤگے ہوتی ہے۔”

”وہ نہیں اۤءے گی اۤج۔” ارمش نے سادگی سے کہا۔

”کیوں؟” عمر حیران ہوا، وہ کبھی ایسی تقریبات مِسں نہیں کرتی تھی جیسے ترسی ہو”ی ہو۔

”بس ایسے ہی۔۔۔۔۔۔ چلو اۤءو۔” وہ بابا کا منتظر تھا اور وہ اسے نظر بھی اۤگئے تھے۔ وہ ثمینہ کے ساتھ گیٹ سے اندر داخل ہو رہے تھے۔ وہ دروازے سے انہیں لے کر اندر اۤگیا اور ایک مناسب جگہ ڈھونڈ کر انہیں بٹھا دیا۔

”ارمش؟” انہوں نے اسے پکارا تو وہ رکا۔

”جی؟”

”تم نے واقعی ان لوگوں کو نہیں بلایا؟”

”نہیں بابا۔۔۔۔۔۔” ان کی بے چینی واضح تھی، وہ محظوظ ہوا۔ پھر وہ واپس بچوں کے بیچ اۤگیا جہاں سب داأرہ بنا کر اسے گھیرے بیٹھے تھے۔ وہ سب سے باتیں کر رہا تھا، بہت عام سی باتیں۔ زیادہ تر سوالات اس سے اردگرد کی چیزوں کے بارے میں کئے جا رہے تھے۔ کلاأون کے بارے میں، کیک کے بارے میں، گفٹس اور چاکلیٹس کے بارے میں، کو”ی اس کو اپنے نئے کپڑے دکھا رہا تھا پھر وہ جی بھر کر ان کی تعریف کرتا اور پھر ان کے ساتھ تصویریں کھنچواتا۔ اسے ارمینہ شدت سے یاد اۤءی۔ وہ ہوتی تو خوشی سے تتلیوں کی طرح یہاں وہاں منڈلاتی رہتی۔

”ارمش بھاأی ارمینہ کہاں ہے؟” حارث نے اس سے وہی سوال پھر پوچھ لیاجس کا جواب اسے تکلیف پہنچا رہا تھا۔ حارث ارمینہ کا یہاں سب سے زیادہ لاڈلا تھا۔

” اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اس لیے وہ نہیں اۤءی۔”

”وہ تو خود ڈاکٹر۔۔۔۔۔۔”

”ہاں تو۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر ز کی بھی تو طبیعت خراب ہو سکتی ہے۔”

”میں اس کو فون کر لوں؟” وہ ارمینہ کا پکا دوست تھا۔

”نہیں وہ سو گئی ہو گی۔ اب تک تو۔ ویسے بھی کل سنڈے ہے کل اۤءے گی ناں کل بات کر لینا۔”

”کل اس کی طبیعت ٹھیک ہو جاأے گی؟”

”ہاں۔۔۔۔۔۔ اگر نہیں بھی ہو”ی تو اۤجاأے گی کیوں کہ تم لوگوں کی طبیعت اس کے لئے زیادہ ضروری ہے ناں۔۔۔۔۔۔ اور سنو اس سے ملو تو اسے مت بتانا کہ ہم سب نے انجواأے کیا اور اتنا گرینڈ سیلبریشن کیا۔ کہنا بس کیک کاٹا تھا ورنہ اسے دکھ ہو گا کہ اس نے اتنا سب کچھ مس کر دیا۔۔۔۔۔۔”

”ہاں ٹھیک ہے۔۔۔۔۔۔ وہ بہت اچھی ہے۔” ارمش نے شرمندگی کے مارے گردن جھکا لی تھی۔

”ہاں وہ بہت اچھی ہے۔” کیک کٹا اور اس کے بعد کھانا لگ گیا۔ وہ خود بھی بابا اور باقی بچوں کو کھانا سرو کروا کر بابا کے پاس اۤکر بیٹھ گیا۔

”کھانا نہیں کھا رہے؟” اسے خالی ہاتھ دیکھ کر احمد رضا نے اس سے پوچھا۔

”نہیں بھوک نہیں ہے۔” اس نے پرسکون لہجے میں جواب دیا کھا وہ بھی نہیں رہے تھے بس پلیٹ میں چمچ گھما رہے تھے۔ اس کا فون بجا تو اسکرین پر ڈینیل کا نام چمک رہا تھا، اس کے لبوں پر مسکراہٹ اۤگئی۔

”کیسے ہو ڈینیل؟”

”میں ٹھیک ہوں ارمش۔”

”رکو میں باہر جا کر بات کرتا ہوں یہاں بہت شور ہے۔” ہیری ہوم کا اۤگے والا دروازہ سب مہمانوں کے اۤنے کے بعد اس نے بند کروا دیا تھا کہ ان کو کو”ی ڈسٹرب نہ کرے لہٰذا وہ پیچھے والے دروازے سے باہر اۤیا یہاں قدرے سناٹا تھا اور زیادہ تر پیڑ درخت اور کچی مٹی تھی۔

”کہو ڈینیل۔”

”بہت مبارک ہو ہیری ہوم کو اۤج ایک سال ہو گیا۔”

”اور اس میں تمہارا بہت بڑا ہاتھ ہے ڈینیل! تھینک یو سو مچ۔”

”کہاں یار۔۔۔۔۔۔ تم یہ سب ڈیزرو کرتے ہو تم نے ان بچوں کو بہت بہتر زندگی ہے۔”

”یہ کمال تمہارا بھی ہے۔”

”اب کی بار اۤسٹریلیا اۤءو تو بھولنا مت تمہیں مجھے ہیری ہوم کی ٹریٹ دینی ہے۔”

”وعدہ ہے۔”

”جلد ملیں گے ارمش۔” اور پھر چند الودانئیہ کلمات کہہ کر اس نے فون رکھ دیا، وہ واپس جانے لگا جب اس نے ارمینہ کو گاڑی سے اترتے دیکھا۔ اس کی سانس ایک لمحے کو اٹک گئی۔

”یہ یہاں کیا کر رہی ہے؟ اس وقت تو کبھی نہیں اۤءی یہ ہیری ہوم۔۔۔۔۔۔ خدایا اب کیا ہو گا۔” اس نے ہونق ہوتے ہو”ے خود سے کہا۔ اسے سب کچھ سنبھالنا تھا اس نے ہمت باندھی، وہ ایک طوفان کے اۤگے جا رہا تھا۔

”ارمینہ اس وقت کیسے؟” وہ شکل سے بہت پریشان لگ رہی تھی۔

”ہاں ارمش! حارث کا فون اۤیا تھا وہ مجھے کہہ رہا تھا اس کی طبیعت بہت خراب ہو گئی ہے۔ مجھے اس سے ملنا ہے اور یہ سب کیا ہے؟ اتنا شور یہ روشنیاں کیا ہو رہا ہے یہ۔۔۔۔۔۔؟” اس نے ضبط کے مارے اۤنکھیں بند کر لیں۔ اسے حارث پر اس وقت واقعی غصہ اۤیا تھا جس نے اندر ابھی کیک کے دو بڑے بڑے ٹکڑے اپنے اندر انڈیلے تھے اور اس کی طبیعت خراب تھی۔

”یہ ہیری ہوم کی سال گرہ کی سیلیبریشن اور حارث نے تم سے مذاق کیا تھا۔ وہ جھوٹ بول رہا ہے۔ اس کی طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ وہ بس تمہیں یہاں دیکھنا چاہتا تھا اس لیے فون کر دیا ہو گا۔” حیرت کے مارے اس کی اۤنکھیں پھٹتی چلی گئی تھیں۔ اس کے چہرے پر مایوسی، دکھ اور تکلیف واضح تھی۔

”سال گِرہ منا رہے ہو تم؟” وہ اب بھی بے یقین تھی۔

”ہاں وہ جلدی جلدی پلان بن گیا اور سب اۤ بھی گئے۔۔۔۔۔۔ اۤءو، اۤجاأو اندر۔”

ایک، دو تین، چار! اس کے اۤنسو”وں کی تعداد بڑھتی ہی چکی گئی اۤہستہ اۤہستہ وہ ایک چشمے کی طرح بہ رہے تھے۔

”تم نے ۔۔۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔ بتایا بھی۔۔۔۔۔۔ نہیں؟”

”وہ اصل میں۔۔۔۔۔۔” وہ جملہ پورا نہیں کر پایا تھا۔ اس کی ساری ہمت اس کے اۤنسو”وں نے توڑ دی تھی۔ وہ ارمینہ کو اس وقت کچھ بھی سمجھا نہیں سکتا تھا، اسے کچھ بھی بتا نہیں سکتا تھا۔

”رو مت تم ارمینہ پلیز۔۔۔۔۔۔ اندر تو چلو۔”

”تمہارے بابا تو ہوں گے اندر۔” اس نے بہت عجیب سے لہجے میں سوال کیا تھا۔

”ہاں ہیں۔”

”میں اندر نہیں اۤءوں گی۔۔۔۔۔۔ یہ تمہاری فیملی گیدرنگ ہے، میں ڈسٹرب نہیں کروں گی تم انجواأے کرو۔”

”ارمینہ ایسے مت کہو ایسی بات نہیں ہے۔”

”پلیز ارمش پلیز۔۔۔۔۔۔ کم از کم مجھے یہ تو یقین تھا کہ ہماری فیملی میں چاہے کچھ بھی ہو جاأے، ہمارے اۤپس میں جو بھی اختلافات ہوں مگر تم کسی بھی صورت مجھے ہیری ہوم سے الگ نہیں کرو گے۔ تم جانتے ہو ہیری ہوم میرے لئے کیا ہے؟ میں مانتی ہوں میں نے ہیری ہوم کی مالی طور پر کچھ زیادہ مدد نہیں کی، کچھ قابل ذکر کام بھی نہیں کئے ہیں مگر پھر بھی۔۔۔۔۔۔ میں ان بچوں سے اتنی ہی محبت کرتی ہوں جتنی کہ تم، کم از کم جذبات اور پیار کے معاملے میں ہم دونوں برابر رہے ہیں ارمش۔۔۔۔۔۔ اس ایک سال میں میں نے بھی ہیری ہوم سے اتنی ہی محبت کی ہے جتنی کہ تم نے۔ پھر تمہیں کس نے حق دیا تھا کہ تم مجھے اس طرح ماأنس (minus)کر دو۔۔۔۔۔۔ تم ایسا کیسے کر سکتے ہو ارمش؟ تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو؟” روتے ہو”ے اس نے اپنا سر اس کے سینے پر ٹکا دیا تھا اور ہچکیاں لینے لگی تھی۔ ارمش کو لگا اس نے ارمش کی دھڑکن اپنے قابو میں کرلی ہو پھر وہ اۤہستہ اۤہستہ گھٹنوں کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔ ارمش بھی گھٹنوں کے بل اس کے قریب بیٹھ گیا۔ اس میں اتنی ہمت بھی نہیں تھی کہ وہ اسے چپ کرواتا یا اسے کو”ی بھی تسلی بخش بات کہہ پاتا۔ وہ بس اسے دیکھے گیا تھا وہ چپ چاپ چہرہ ہاتھوں میں گراأے رو رہی تھی۔

”ارمینہ۔۔۔۔۔۔ میں بس اتنا چاہتا ہوں کہ سب پہلے جیسا ہو جاأے۔۔۔۔۔۔ سب ٹھیک ہو جاأے۔”

”سب پہلے جیسا ہو گیا ہے ارمش۔۔۔۔۔۔ تم سے صرف ہیری ہوم کے حوالے سے میرا تعلق تھا تو اب وہ بھی نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ اۤج کے بعد میں تمہیں یہاں بھی نظر نہیں اۤءوں گی۔۔۔۔۔۔ اور میں جو کل سے یہ سوچنے لگی تھی کہ شاید زندگی میں کبھی تمہارے بابا کے دل میں میرے لئے تھوڑی سی جگہ بن جاأے۔ یا وہ کبھی نہ کبھی مجھے اپنی بھانجی ماننے پر مجبور ہو جاأیں گے تو یہ بھی غلط تھا۔ سب سراب تھا، سب خواب تھا۔۔۔۔۔۔ سب ٹوٹ گیا ارمش۔ تم نے مجھ پر حقیقت واضح کر دی۔ مجھے میری جگہ بتا دی۔۔۔۔۔۔ تم نے۔۔۔۔۔۔” وہ کہتے کہتے رکی اور پھر اپنی بات جاری رکھی۔۔۔۔۔۔

”تم بس اپنے بابا کو یہ ضرور بتا دینا کہ ۔۔۔۔۔۔ کہ وہ پاپا کے علاوہ میرا واحد خونی رشتہ ہیں اور اگر وہ یہ چاہتے ہیں ناں کہ میں اپنی ماں کی موت کی سزا بھگتوں تو میں بھگتوں گی۔۔۔۔۔۔ ساری زندگی۔” اس نے اۤنسو پونچھے اور اٹھ کھڑی ہو”ی وہ جانے کے لئے پلٹی تھی، جب ارمش نے اس کا ہاتھ مضبوطی سے پکڑ لیا۔

”اۤءی ایم سوری۔۔۔۔۔۔” اس نے اتنا کہہ کر نرمی سے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔ وہ کچھ بھی کہے بنا گاڑی کی طرف بڑھ گئی اور ارمش وہیں گھٹنوں کے بل بیٹھا رہ گیا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ بہت تکلیف میں تھی۔

زندگی کبھی کبھی اتنی ظالم ہو جاتی ہے کہ وہ اۤپ کو کُھل کر رونے بھی نہیں دیتی۔ وہ واپس اندر اۤگیا۔ بابا اٹھ کر اس کے پاس اۤگئے۔

”ارمش؟ کیا ہوا؟”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!