سبز اور سفید

فلیش کی ایک ہلکی سی چمک اس کی نیلی اۤنکھوں کو مزید چمک دار بنا گئی تھی۔ اس نے گردن گھما کر دیکھا تو اس طرف کو”ی نہیں تھا۔ اۤج اس کے اسکول کا annual day تھا۔ شام کے پانچ بجے تھے اور فنکشن بھی ختم ہو گیا تھا۔ وہ فیری ٹیل کے پلے میں فیری تو نہیں بن پاأی تھی مگر فیری کی سب سے اچھی دوست کا کردار اس کا تھا۔ پنک کلر کی خوبصورت سی فراک پہنے، کٹے بالوں کی پونی باندھے وہ اسکول کے گیٹ پر کھڑی پاپا کا انتظار کر رہی تھی۔ وہ کچھ ناراض ناراض سی لگ رہی تھی شاید اس لیے کہ پاپا annual day پر نہیں اۤءے تھے مگر سامنے بھٹے والے کو دیکھ کر وہ اچانک کھل اٹھی۔ اس نے چوکی دار سے کو”ی سفارش کی تھی کیوں کہ وہ اس کے کان میں اۤہستہ سے کچھ کہہ رہی تھی۔ چوکی دار کا گیٹ سے ذرا سا بھی ہلنا منع تھا مگر نجانے اس نے چوکی دار کو کیا لالچ دی تھی کہ وہ سب سے نظر بچاتا اس کے لیے بھٹا لینے چلا گیا تھا۔ وہ اندر ہی دروازے پر کھڑی اس کا انتظار کر رہی تھی۔چوکی دار نے اس کو بھٹا لا کر دیا تو اس نے چوکی دار کے ہاتھ سے بچے ہو”ے پیسے لے کر انہیں اپنے بیگ کی چھوٹی سی زپ میں ڈال دیا اور اسے جلدی سے بند کر دیا۔ پھر وہ بھٹا کھانے لگی۔ بھٹا اس کے حساب سے کافی بڑا تھا اور کچھ اس کے دانت بھی کم تھے تو وہ مشکل سے کھا رہی تھی مگر اسے پھر بھی مزہ اۤرہا تھا۔

اس نے بھٹے کے چند ہی دانے کھاأے تھے جب اچانک اس کی سانس اکھڑنے لگی۔ اس کے ہاتھ سے بھٹا چھوٹ کر نیچے جا گرا، اس کی اۤواز بھی اس کے گلے سے نکل نہیں پا رہی تھی چند لمحوں میں ہی اس کا سارا بدن لال ہونے لگا۔ احمد فوراً گاڑی سے اترا اور اسکول کے دروازے تک اۤگیا تھا۔

”اسے کیا ہو رہا ہے؟” اس کے ہاتھوں کو سہلاتے وہ چوکیدار سے پوچھ رہا تھا جو خود ہونق بنا کھڑا تھا۔

”پتا نہیں جی ابھی تو ٹھیک ٹھاک تھی۔”

”میں اسے ہسپتال لے جا رہا ہوں۔”

”نہیں جی بچی کو ہم اس کے والدین کے علاوہ کسی کے ساتھ نہیں بھیجتے۔”

”اسے کسی کو تو لے جانا ہو گا ناں ہسپتال! اگر اس کے پاپا کو دیر ہو گئی تو تم کیا دیکھتے رہو گے۔” اتنی دیر میں اسکول کا عملہ دروازے تک اۤیا تھا۔

”دیکھیں میں اسے لے جا رہا ہوں اۤپ یہ میرا شناختی کارڈ گارنٹی کے طور پر رکھ سکتی ہیں، جب اۤپ کو تسلی ہو جاأے میں لے لوں گا۔” انہیں شاید کچھ اعتبار ہوا تو انہوں نے جانے کی اجازت دے دی۔ اس نے اسے گود میں اٹھایا اور گاڑی میں بٹھا کر اسے ہسپتال لے گیا۔ اسے کارن سے الرجی تھی۔ ڈاکٹر نے اسے انجکشن دیئے تو اس کی حالت بہتر ہو گئی۔ اس نے ہسپتال کا بل دیا اور پھر اسکول فون کیا۔

”بچی کے پاپا یہاں اۤءے تھے ہم نے انہیں ہسپتال کا نام بتا دیا ہے وہ اۤرہے ہیں۔”

”اۤپ کا شکریہ۔” اس نے فون رکھ دیا۔ وہ سرفراز کے اۤنے سے پہلے ہی وہاں سے اۤگیا تھا۔ اۤنے سے پہلے اس نے بیڈ پر لیٹی ارمینہ کو ایک نظر دیکھا تھا جو بیڈ پر لیٹی سو رہی تھی اور وہ اس کے برابر میں کھڑا تھا، پھر کچھ بھی کہے بغیر اسے سوتا چھوڑ کر وہ چلا گیا تھا۔

وہ ارمینہ کے اسکول کے پاس موجود ایک گھر کی لوکیشن دیکھنے اۤیا تھا، جسے خریدنے کا اس کا ارادہ تھا۔ اسی وجہ سے اس کے ساتھ اس کا کیمرہ بھی تھا کہ وہ تصویریں لے کر ثمینہ اور بچوں کو بھیج سکتا جو اس وقت سڈنی میں تھے۔ تب ہی اس کی نظر ارمینہ پر پڑی تھی اور اسے لگا وہ ارمینہ کو نہیں انابیہ کو دیکھ رہا ہے۔ نجانے کیا سوچ کر اس نے کیمرہ اٹھایا اور اس کی تصویر کھینچ لی تھی، اسی وقت سڑک پر کھیلتے بچوں میں سے ایک کے گرنے پر وہ خوب ہنسی تھی تب ہی اس کے کیمرے نے اس کا چہرہ اپنے اندر اتار لیا تھا۔

ہسپتال سے اۤنے کے بعد اس نے وہ تصویر بنوا کر اپنی اسٹڈی کی ایک کتاب میں رکھ دی تھی۔ عجیب بات یہ تھی کہ جب انہیں انابیہ یاد اۤتی وہ اس تصویر کو دیکھنے لگتے اس تصویر میں زندگی تھی، ہنسی تھی، خوشی تھی جو شاید ان کی زندگی سے روٹھ چکی تھی۔ وہ پہلے رشک سے اسے دیکھتے پھر حسد سے۔۔۔۔۔۔

”کیسے اتنی زندگیاں اجاڑ کر،اتنے لوگوں کی ہنسی چھین کر اتنا کھل کر ہنس سکتی ہے ؟۔”

پھر غصہ اۤنے پر واپس اس تصویر کو اسی کتاب میں حفاظت سے چھپا کر، کتاب کو پیچھے کر کے رکھ دیتے۔۔۔۔۔۔ یہ ان کا معمول تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ سیدھا اکیڈمی اۤیا تھا۔ وہ جانتا تھا کہ بابا اسے نہیں مل سکتے تھے۔

”وہ تو اۤج نہیں اۤءے بیٹا۔” ان کے کسی دوست نے انہیں بتایا۔ وہ واپس گاڑی میں اۤ بیٹھا۔ اس نے موباأل نکال کر انہیں کال کی۔

”ہیلو بابا۔۔۔۔۔۔ اۤپ کہاں ہیں۔” کچھ دیر سلام دعا کے بعد اس نے فوراً پوچھا تھا۔

”کراچی میں نہیں ہوں۔۔۔۔۔۔ شکر پاراں اۤیا ہوں۔”

”اس طرح بغیر کسی کو بتاأے۔۔۔۔۔۔ بابا؟”

”ہاں سوچا تھا پہنچ کر فون کر دوں گا۔۔۔۔۔۔ بھول گیا۔”

”اۤپ واپس کب اۤءیں گے مجھے اۤپ سے بات کرنی ہے۔”

”کچھ کہہ نہیں سکتا میں۔”

”میں وہاں اۤجاأوں؟”

”تم یہاں کیسے اۤسکتے ہو؟ میں یہاں ضروری کام سے اۤیا ہوں۔”

”اۤپ سے بات کر کے چلا جاأوں گا۔”

”فون پر کر لو۔۔۔۔۔۔”

”نہیں فون پر نہیں۔۔۔۔۔۔ اۤپ کو کچھ دکھانا بھی ہے۔”

‘ٹھیک ہے اۤجاأو۔۔۔۔۔۔ میں شکرپاراں والے گھر میں ہی ہوں۔”

اس نے فون رکھ دیا۔ اسے سمجھ نہیں اۤتا اۤخر شکرپاراں والے گھر میں ایسا بھی کیا تھا کہ بابا ہر مہینے وہاں جاتے تھے۔ اۤج وہ ان سے جواب لینے جا رہا تھا۔

ارمش کو شکرپاراں کے قبرستان کے بارے میں اتنا ہی علم تھا کہ وہاں اس کی پھپھو کی قبر تھی اور ساتھ ہی امی جی کی بھی قبر تھی جنہیں وہ جانتا نہیں تھا مگر اسے یہ پتا تھا کہ بابا ان کی بہت عزت کرتے تھے۔ وہ شکرپاراں جانے سے پہلے ہیری ہوم کا ایک چکر لگانے اۤیا تھا، اسے عمر کی فکر تھی۔ عمر وہاں نہیں تھا، دس منٹ اس کا انتظار کرنے کے بعد وہ اسے ہاتھ میں ایڈمیشن کارڈ لیے اۤتا دکھاأی دیا۔

”تمہیں بھی صبر نہیں ہے عمر۔” وہ مصنوعی خفگی سے اسے کہہ رہا تھا۔

”میں جانتا ہوں ارمینہ اجازت دے دے گی۔”

”تمہاری طبیعت ٹھیک ہے ناں؟”

”ہاں بالکل” وہ مسکرایا تھا۔ جواباً ارمش نے بھی مسکرا کر اسے گلے لگا لیا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ شکرپاراں کی ایک دکان سے ناریل کی مٹھاأی لے رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کی واپسی تھی۔ وہ جانتی تھی پاپا کو یہ مٹھاأی بہت پسند تھی۔ پاپا خود سے اۤکر یہاں سے مٹھاأی نہیں لیتے تھے۔ وجہ وہ سمجھنے سے قاصر تھی مگر جب وہ شکرپاراں اۤتی ان کے لیے مٹھاأی ضرور لیتی تھی۔

صبح صبح کا وقت شکرپاراں کے حسن کو نکھار دیتا تھا۔ وہ سڑک کے کنارے چل رہی تھی جب اس نے سامنے سے اۤتی گاڑی میں ارمش کو بیٹھے دیکھا۔ وہ میکانکی انداز میں اس کے پیچھے جانے لگی مگر ایک پتھر سے ٹکرا کر اس کی چپل ٹوٹ گئی۔ وہ اس کی گاڑی کو گزرتے دیکھتی رہی۔ وہ اس کے پیچھے کیوں جا رہی تھی؟ اسے خود پر غصہ اۤیا تھا پھر اسے چپل پر غصہ اۤیا تھا۔ وہ اب کسی رکشے کا انتظار کرنے لگی کیوں کہ اب وہ پیدل نہیں جا سکتی تھی جب ارمش کی گاڑی واپس اس کے سامنے اۤ کر رک گئی۔

”ارمینہ؟” اس نے حیرانی سے شیشہ نیچے کر کے ارمینہ کو دیکھا۔ وہ گمان بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ارمینہ اسے یہاں دکھ سکتی ہے۔

”تم یہاں کیسے؟”

”پاپا کے ساتھ اۤءی تھی۔” اس نے سپاٹ لہجے میں ارمش کی طرف دیکھے بغیر کہا۔

”اچھا اۤءو اندر تو اۤءو۔”

”نہیں میں چلی جاأوں گی، رکشہ مل جاأے گا۔” اس نے ضبط کرتے ہو”ے بولا تھا۔

”صبح سات بجے رکشے کم ہی ملتے ہیں اور گاڑی میں کیا مسئلہ ہے؟” ارش نے اسے چھیڑا تو ارمینہ نے غصے سے اسے دیکھا۔

”مسئلہ گاڑی میں نہیں، تم میں ہے تمہارے ساتھ تمہاری موجودگی میں ہے۔” وہ پھٹ پڑنے کو تیار تھی تو وہ پھٹ پڑی تھی اور وہ حیران سا اسے تکے جا رہا تھا۔

”سن لیا ہے؟ اب جا سکتے ہو۔”

”ارمینہ کیا ہوا ہے اس طرح کیوں بات کر رہی ہو؟”

”میں نے کہا ناں میں چلی جاأوں گی۔” وہ اۤگے بڑھ کر ایک رکشے کو ہاتھ دے رہی تھی اور اپنی چپل اتار کر اب ننگے پاأوں رکشے تک جا رہی تھی۔ ارمش کو ہوش اۤیا تو وہ گاڑی سے اتر کر اس کی طرف اۤیا تھا۔

”ارمینہ بتاأو تو ہوا کیا ہے؟” وہ رکشے میں بیٹھنے لگی تو اس نے اسے روک کر کہا اور ساتھ ہی رکشے والے کو بھیج دیا، ورنہ وہ اپنی ضد میں اسی میں جا کر بیٹھ جاتی۔

”تمہاری پرابلم کیا ہے؟ تم چاہتے ہو ناں کو”ی تمہاری لاأف میں دخل اندازی نہ کرے تو اب کیا مسئلہ ہے؟”

”پہلے تم ریلیکس ہو جاأو اور چلانا بند کرو۔” اس بار وہ کچھ سختی سے بولا تھا۔ ارمینہ کے ہاتھ پاأوں اچانک ہی ٹھنڈے پڑنے لگے تھے، وہ خاموش ہو گئی۔

”گڈ۔۔۔۔۔۔ اب گاڑی میں بیٹھو۔”

”میں نہیں بیٹھوں گی۔۔۔۔۔۔ ویسے بھی پاس ہی گیسٹ ہاأوس ہے میں چلی جاأوں گی۔” وہ اب بھی اسی انداز میں بولی اور ننگے پیر چلنے لگی۔ وہ اس کی ڈھٹاأی پر ششدر رہ گیا تھا۔

”ارمینہ گاڑی میں بیٹھو پلیز۔” اس نے ایک اۤخری کوشش کی تھی۔

”تم سے کہا ناں نہیں بیٹھنا مجھے۔” یہ اس کے صبر کی حد تھی۔ وہ مڑا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ ارمینہ نے اپنے پیچھے گاڑی اسٹارٹ ہونے کی اۤواز سنی اور پھر پلٹ کر گاڑی کو جاتے ہو”ے دیکھا۔۔۔۔۔۔

”رکشے کو بھی بھیج دیا۔۔۔۔۔۔ اب پتا نہیں اتنی صبح اگلا رکشہ کب اۤءے گا۔” وہ بڑبڑاتی ہو”ی چلنے لگی تھی۔ ساتھ ہی ایک بڑا سا گارڈن تھا جہاں پانی کے راستے کو کاٹ کر ایک نہر بنی ہو”ی تھی۔ وہ میکانکی انداز میں وہاں اۤگئی ۔ اسے فکر نہیں تھی کہ وہ ننگے پیر تھی اور لوگ اسے اور اس کے پیروں کو دیکھ رہے تھے۔ وہ چلتی ہو”ی نہر کے کنارے اۤ بیٹھی تھی۔ صبح کے وقت وہاں زیادہ تر لوگ ورزش یا جاگنگ کی غرض سے اۤءے ہو”ے تھے جو تعداد میں کم تھے اور نہر کی طرف تقریباً سناٹا تھا۔ وہ بیٹھے بیٹھے رونے لگی تھی۔ وجہ سے بے خبر اور اردگرد کے ماحول سے لاتعلق وہ روتی گئی۔

”امی لوگ ایسے کیوں ہوتے ہیں؟ وہ کیوں ہمارے ساتھ ایسا کرتے ہیں؟ کسی کا دل دکھا کر کیسے چین سے رہ سکتے ہیں؟” اس کی ہچکیاں بڑھتی گئی تھیں۔

”کیوں کہ ہم انہیں موقع دیتے ہیں۔” ارمش کی اۤواز پر وہ چونک کر پلٹی تھی۔ پھر خاموشی سے گردن گھما کر واپس نہر کے پانی کو دیکھتی رہی جیسے تھک گئی ہو۔ وہ چلتا ہوا اس کے پاس اۤکر بیٹھ گیا تھا ان دونوں کے بیچ میں اس کی ٹوٹی ہو”ی چپلیں رکھی تھیں۔

”اب بتاأو مجھے کہ میں نے کیا کیا ہے جس کی وجہ سے تم اتنا رو رہی ہو۔” بہت نرمی اور بہت تحمل سے اس نے پوچھا تھا۔ ارمینہ نے ہاتھ کی پشت سے اپنے اۤنسو پوچھے تھے۔

”تم اپنی زندگی میں کسی کو بھی ایک مخصوص فاصلے سے اۤگے دیکھنا نہیں چاہتے ہو۔ تمہارے اردگرد ایک دیوارہے جو کسی کو نظر نہیں اۤتی مگر وہ ہے، جس کے اس پار کو”ی نہیں جا سکتا۔۔۔۔۔۔ تم کسی کو اجازت نہیں دیتے۔” اس نے جیسے ہتھیار ڈال دیئے تھے۔ وہ ہر بار اس کے اۤگے ہتھیار ڈال دیا کرتی تھی۔

”تم اس بات پر رو رہی ہو؟”

”نہیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں حق ہے اس بات کا۔۔۔۔۔۔ مگر تم لوگوں کو خود سے فاصلے پر رکھنے کے لیے ان سے جھوٹ نہیں بول سکتے، انہیں اس طرح بے عزت نہیں کر سکتے، تمہیں کس نے حق دیا ہے کہ تم کسی کی ذات کے غرور کو تار تار کر کے رکھ دو۔۔۔۔۔۔” وہ سامنے دیکھتے ہو”ے بول رہی تھی۔

”اور اب یہ بھی بتا دو کہ میں نے ایسا کب کیا؟”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!