سبز اور سفید

”السلام علیکم۔” پھر وہ ان کے قریب اۤکر کھڑی ہو گئی تھی۔

”اۤپ یہاں پر۔۔۔۔۔۔ کیسے؟”

ارمینہ نے حیرانی سے ان سے پوچھا، انہوں نے نظریں جھکا لیں اور پھر ان کی نظر اس کی دو جلی ہو”ی انگلیوں پر پڑی اور پھر ان پر ٹک گئی تھی۔ وقت لوٹ کر نہیں اۤتا مگر ان کے اۤگے ماضی ہو بہ ہو کھڑا تھا۔ وہ اپنی جگہ سے ہل بھی نہیں پا رہے تھے۔ ان سے سلام کا جواب بھی نہیں دیا گیا تھا۔ انہوں نے اگلے ہی لمحے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا تھا۔ اپنے دونوں ہاتھوں کو منہ پر رکھے وہ روتے چلے گئے تھے۔ ارمینہ انہیں دیکھ کر دم بہ خود سی رہ گئی تھی۔۔۔۔۔۔ حواس باختہ سی۔۔۔۔۔۔

”بڑے بابا۔۔۔۔۔۔” اس نے ایک لفظ ادا کیا اور ان کی ہچکیاں تھم گئیں۔

”مجھے معاف کر دو بیٹا۔۔۔۔۔۔ تم نے میری وجہ سے بہت کچھ برداشت کیا ہے۔ مجھے معاف کر دو۔ میں قصور وار تھا۔ تمہاری کو”ی غلطی نہیں تھی تم ہمیشہ سے معصوم تھیں میں نے ظلم کیا تم پر۔۔۔۔۔۔ تم میرے پاس انابیہ کی اۤخری نشانی تھیں اور میں نے تمہاری قدر نہیں کی، میں نے ناشکری کی۔ اللہ نے مجھ سے انابیہ کو چھین لیا تھا مگر تمہیں تو دے دیا تھا ناں، اگر تم بھی نہ ہوتی تو میں کیا کر لیتا مگر میں نے اس کی رحمت کو ٹھکرا دیا۔۔۔۔۔۔ میں نے ساری زندگی اس کے جانے کا سوگ منایا۔۔۔۔۔۔ جو میرے پاس تھے میں نے ان کے ہونے کی خوشی کبھی نہیں مناأی، کبھی شکر ادا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ میرے بچے میری بیوی، میں خود میں نے انابیہ کے ساتھ اپنے لئے سب کو مار دیا۔۔۔۔۔۔ ارمش میں تم سے بھی معافی مانگنا چاہتا ہوں میں نے تمہیں بھی بہت تکلیف دی تم میں سے کسی کا کو”ی قصور نہیں تھا، قصور میرا تھا۔۔۔۔۔۔ معاف کردو مجھے۔۔۔۔۔۔”

ارمینہ کے اۤنسو پھر سے رواں ہو گئے تھے اس نے ان کے ہاتھوں کو اپنے ہاتھ میں لیا اور انہیں صوفے پر بٹھا دیا۔۔۔۔۔۔

”اۤپ کی طبیعت خراب ہو جاأے گی بڑے بابا ایسے مت رو”یں ۔۔۔۔۔۔ اۤپ بڑے ہیں، بڑے معافی نہیں مانگتے۔۔۔۔۔۔ اۤپ کا قصور بس اتنا ہے کہ اۤپ سے امی کی موت کا دکھ برداشت نہیں ہوا اور معافی مانگنے تو میں اۤرہی تھی اۤپ سے، میں نے اۤپ کو بہت الٹا سیدھا کہا مجھے نہیں کہنا چاہیے تھا ایسا۔۔۔۔۔۔”

”نہیں تم نے جو کہا سچ کہا۔۔۔۔۔۔ میں اس سب کے لاأق تھا۔۔۔۔۔۔”

”ایسے نہیں کہیں بڑے بابا۔۔۔۔۔۔ میں بہت ترسی ہوں رشتوں کے لئے، لوگوں کی محبت کے لئے اۤپ لوگوں کے جیسی ایک مکمل فیملی کے لئے، اب جب مجھے سب کچھ مجھے مل رہا ہے تو اسے رو کر نہیں ہنس کر ویلکم کرنا چاہیے بڑے بابا۔۔۔۔۔۔ یہ اللہ کی طرف سے انعام ہے، صلہ ہے اس صبر کا جو امی کی موت پر ہم سب نے کیا ہے۔۔۔۔۔۔”

انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا اور اس کا ماتھا چوما۔

”تم بالکل انابیہ جیسی ہو۔۔۔۔۔۔ ہر چیز میں محبت ڈھونڈ لیتی ہو۔”

”وقعی! مگر ارمش کہتا ہے کہ میں اۤپ کے جیسی ہوں۔” ان کے ساتھ ساتھ پیچھے کھڑا ارمش بھی اس کی بات پر ہنس پڑا اور پھر چلتا ہوا ان کے قریب اۤگیا۔ارمینہ ان کے ہاتھ تھامے کارپٹ پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی۔

”ہاں بابا۔۔۔۔۔۔ یہ کچھ معاملات میںاۤپ کے جیسی ہے۔”

”جیسا کہ؟” احمد نے تعجب سے ارمش کو دیکھا تھا۔

”جیسا کہ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ یہ بہت ضدی ہے۔” پھر وہ تینوں ہنس پڑے تھے۔ ارمینہ نے پلٹ کر پاپا کو دیکھا،وہ نم اۤنکھوں کے ساتھ ہلکی سی مسکراہٹ لئے اب بھی وہیں کھڑے تھے۔ ارمینہ کی نگاہوں کے تعاقب میں احمد نے بھی سرفراز کی طرف دیکھا تھا۔

”ارمینہ۔۔۔۔۔۔ اس سے کہہ دو کہ میں یہاں اس سے ملنے نہیں اۤیا ہوں۔”

”میرے خیال سے اۤپ لوگ بیٹھ کر باتیں کریں، ارمینہ پکوڑے اۤدھے رہ گئے تھے چلو انہیں پورا کرو چل کر۔۔۔۔۔۔” ارمینہ کے بجاأے ارمش نے کہا تو وہ اٹھ کھڑی ہو”ی۔ وہ دونوں ان کو وقت دینا چاہتے تھے۔ وہ دونوں دوست تھے اور دوستی دنیا کے ان چند رشتوں میں سے ایک ہے جو وقت کی دیمک سے بھربھرا نہیں ہوتا اگر اس میں صداقت ہو تو۔۔۔۔۔۔ اور وہاں موجود چاروں افراد یہ بات جانتے تھے کہ ان کی دوستی میں صداقت کے ساتھ ساتھ اپناأیت بھی تھی۔۔۔۔۔۔ پھر اسے کو”ی طوفان اپنی جگہ سے ہلا نہیں سکتا تھا۔ ارمش اور ارمینہ باہر چلے گئے جب کہ وہ دونوں اب وہاں تنہا بیٹھے رہ گئے تھے۔

”یہ پیروں کے ساتھ کیا کیا تم نے؟”

”تم ساتھ نہیں تھے تو میرے پیراشوٹ نے بھی ساتھ چھوڑ دیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر پیروں نے بھی۔” کچھ دیر وہاں مکمل خاموشی رہی۔

”تم اۤءے کیوں نہیں میرے پاس۔۔۔۔۔۔؟” احمد رضا بکھرنے لگے تھے۔

”تم نے ہر تعلق ختم کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔ کس منہ سے اۤتا”

”جو منہ تمہارے پاس ہے اسے ہی لے کر اۤجاتے۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک دفعہ کہہ دیا تو تم کیا واقعی ہر تعلق ختم کر لو گے؟ بیس سال میں ایک بار بھی تم سے کہ نہیں ہوا کہ مجھ سے ملتے، مجھ سے پوچھتے کہ میں کیسا ہوں، مجھے کسی کی ضرورت تو نہیں میں اکیلا تو نہیں میں ٹوٹ تو نہیں رہا۔۔۔۔۔۔ ایک بار بھی نہیں اۤءے تم سرفراز۔۔۔۔۔۔ اچھی دوستی نبھاأی تم نے۔” احمد کے تھمے اۤنسو پھر بہنے لگے تھے۔ سرفراز چلتا ہوا اس کے بالکل قریب اۤکر بیٹھ گیا تھا اور احمد نے ایک لمحہ ضاأع کئے بغیر انہیں سینے سے لگا لیا تھا۔ وہ اۤج بیس سال بعد گلے لگ رہے تھے، شکرپاراں کی گلیاں نہیں تھیں، ٹھنڈے پانی کی بالٹی نہیں تھی، وہ جوان نہیں تھے۔ ان دونوں کے ہی بال اب سفید ہونے لگے تھے، ایک اپنی ٹانگوں سے معذور تھا اور ایک سب کچھ ہوتے ہو”ے بھی خالی ہاتھ وہاں بیٹھا تھا۔ مگر دونوں کے سینے میں ایک دل تھا جس میں موجود ایک دوسرے کے لئے محبت بالکل ویسی ہی تھی۔۔۔۔۔۔ شفاف۔۔۔۔۔۔ کسی ریاکاری اور دکھاوے کے بغیر۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں اۤج بھی ایک دوسرے کے بہترین دوست تھے۔۔۔۔۔۔ درمیان میں بیس سال کا وقفہ تھا، اس فاصلے کو کم اور پھر ختم کرنے میں ایک عمر درکار تھی مگر جو ان کے ہاتھ میں تھا جتنی عمران کے حصے میں تھی وہ اسے ضاأع نہیں کرنے والے تھے۔

زندگی اگر جدا کرتی ہے تو پھر ملانے کے وسیلے بھی بنا دیتی ہے۔ ضرورت ہوتی ہے تو بس اس موقعے کو ہاتھ سے نہ جانے دینے کی۔۔۔۔۔۔ تلخیاں، رنجشیں اور سوچ میں تضاد ہر جگہ موجود ہوتا ہے لیکن اگر اۤپ کے دل میں سامنے والے کے لئے عزت ہے، محبت ہے اور ایک بے لوث جذبہ ہے تو پھر زمانے بھر کی دھوپ کے باوجود زندگی اۤپ کو کہیں نہ کہیں وہ سایہ ضرور دیتی ہے جس کے نیچے اۤپ اپنی ساری عمر کی تھکن اتار سکتے ہیں۔

وہ دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے تھے۔

”بہت دکھ دیکھے ہیں تم نے اور ارمینہ نے ۔مجھے تم دونوں کے ساتھ ہونا چاہیے تھا بڑا بن کر تم لوگوں کے سر پر ہاتھ رکھنا چاہیے تھا مگر۔۔۔۔۔۔ کیا کرتا بے بس ہو گیا تھا۔”

”میں سمجھتا ہوں۔” وہ دونوں اب مسکرانے لگے تھے۔

”سرفراز ایک بات کہوں تم منع نہیں کرنا۔”

”کیا؟”

”ارمینہ اور ارمش ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ میں ارمش کے لئے ارمینہ کا ہاتھ مانگنا چاہتا ہوں۔ ارمش کو اتنے عرصے میں تم سمجھ گئے ہو گے اگر تم مناسب سمجھو تو مجھے بتانا۔۔۔۔۔۔ وقت لے لو سوچ لو پھر۔۔۔۔۔۔”

”مجھے وقت لینے یا سوچنے کی ضرورت نہیں، ارمش سے بہتر ارمینہ کے لئے کون ہو گا احمد۔۔۔۔۔۔ ارمش اسے سمجھتا ہے۔۔۔۔۔۔ جانتے ہو وہ مجھ سے کہتی ہے کہ ارمش اس کی ہر بات بنا کہے سمجھ لیتا ہے۔۔۔۔۔۔ تو مجھے انابیہ یاد اۤجاتی ہے۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔۔۔” وہ کہتے کہتے رک گئے تھے، احمد رضا نے اپنا ہاتھ اس کے کندھے پر رکھا تھا اور مسکرایا تھا۔

”میں جانتا ہوں۔”

”مجھے کو”ی اعتراض نہیں ہے مگر ارمینہ سے ایک بار باقاعدہ طور پر پوچھنا چاہتا ہوں۔”

”ضرور۔” وہ دونوں مسکرا دیئے تھے۔

وہ دونوں ڈراأنگ روم سے نکل کر سیدھے کچن میں اۤگئے تھے۔ وہ پکوڑوں کے اۤمیزے میں دوبارہ جت گئی تھی جب کہ ارمش کچن کے شیلف کے پاس ہی کھڑا تھا۔

”شکر اب سب ٹھیک ہو جاأے گا۔” ارمش نے شیلف سے ٹکتے ہو”ے اس سے کہا تھا۔

”ارمش جھوٹے ہو تم۔۔۔۔۔۔” وہ اس کی بات پر سٹپٹا گیا تھا۔

”اب کیا کر دیا میں نے؟”

”جھوٹ بولا تم نے۔”

”کون سا جھوٹ؟”

”تم نے مجھے guzel کے معنی کیا بتاأے تھے؟” لمحے بھر میں ارمش کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔

”ضدی۔”

”اور یقینا یہ اسپنش لفظ ہے۔”

”ہاں۔” اس نے بڑے اطمینان سے کہا تھا۔

”اور C’est bian یقینا اٹالین لفظ ہے۔”

”ہاں۔” اس کی مسکراہٹ گہری ہوتی چلی گئی تھی۔ وہ فریج سے پانی نکال کر پینے لگا۔

”تم نے مجھے خوبصورت کہا تھا ناں اس وقت۔” اس نے پانی پیتے پیتے رک کر اسے دیکھا۔

”اور یہ ٹرکش ورڈ ہے۔”

”نہیں تو! یہ کس نے کہا تم سے۔” بڑے وثوق سے وہ کہہ رہا تھا۔

”انٹرنیٹ پر سرچ کیا میں نے۔” وہ سنجیدہ ہو گئی تھی۔

”ارے یار! انٹرنیٹ پر تو پتا نہیں کیا کیا ہوتا ہے اور ایک لفظ کے کتنے معنی ہو سکتے ہیں تم نے انٹرنیٹ کی بات مان بھی لی؟”

”اور نہیں تو کیا۔۔۔۔۔۔ مجھے لگا تم نے مجھے خوبصورت کہا۔” وہ گلاس خالی کر چکا تھا اور اب اس کی طرف متوجہ تھا۔

”ایک بات کہوں۔” وہ بہت غور سے اس کی اۤنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ نظریں نہیں ہٹا سکی تھی۔

”کیا؟” وہ اسے دیکھتا رہا پھر کچھ پل بعد بولا تھا۔

”پکوڑے جل رہے ہیں۔” ارمینہ نے پہلے ناسمجھی سے اسے دیکھا پھر اسے جی بھر کر کوسا، وہ اب کھل کر ہنس رہا تھا۔ وہ سر جھٹک کر پکوڑوں کی طرف متوجہ ہو گئی۔ اس نے ایک بڑی سی ٹرے میں سب کچھ سیٹ کر دیا۔ وہ کچن کے دروازے سے اب ڈراأنگ روم کا رخ کر رہی تھی۔

”سنو!” ارمش نے کچن کے شیلف پر ٹکے ہی اسے روکا اور ٹرے میں سے ایک پکوڑا اٹھا کر منہ میں ڈال لیا۔

”یہ جب بھی تم مجھ سے لڑ کر اۤتی ہو۔۔۔۔۔۔ روتی، کیوں ہو؟” اپنا منہ چلاتے ہو”ے وہ اس کے جواب کا انتظار کرنے لگا۔

”کیوں کہ میں تم سے محبت کرتی ہوں۔۔۔۔۔۔ اور جس سے محبت ہو، وہی ہمیں رلاتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مگر پھر۔۔۔۔۔۔ چپ بھی کرا دیتے ہیں۔” یہ کہتی ہو”ی وہ ڈراأنگ روم کی طرف بڑھ گئی اور ارمش کا چلتا ہوا منہ رک گیا ۔۔۔۔۔۔

اگر اسے لگتا تھا کہ صرف وہی اسے خاموش کرا سکتا تھا یا اسے چِت کر سکتا تھا تو ایسا نہیں تھا، اس نے کبھی ارمینہ سے اظہارِ محبت کی امید نہیں کی تھی مگر اس ایک سال میں وہ اتنے اتنا تو جانتا تھا کہ وہ بہت صاف گو تھی۔ جو اس کے دل میں تھا وہی زبان پر اور وہی چہرے پر بھی۔۔۔۔۔۔ اسے جذبات چھپانے کبھی اۤءے ہی نہیں تھے اور ارمش سے تو کبھی نہیں۔ وہ اس اۤرٹ گیلری میں ہی اس کی کیفیات اور حال دل سے واقف ہو گیا تھا وہ جانتا تھا ارمینہ اس سے محبت کرتی تھی مگر ان کے درمیان جو حالات رہے تھے۔ انہوں نے اس محبت کو کبھی بھی پورے حسن سے کھلنے نہیں دیا تھا۔

اس کے جانے کے بعد بھی وہ وہاں کھڑا ان چیزوں کو دیکھتا رہا۔ جنہیں وہ ابھی استعمال کر رہی تھی۔ وہ ایک ایک چیز سمیٹ کر اسے اس کی جگہ پر رکھ کر گئی تھی۔ ارمش بے ساختہ مسکرا دیا تھا۔

”اس کی عادت ہے۔۔۔۔۔۔ چیزوں کو ان کی جگہ پر رکھنے کی۔” اس نے دل میں سوچا پھر ڈراأنگ روم کی طرف بڑھ گیا۔

”یقینا سب کو بھوک تو لگ رہی ہو گی۔” اس نے اندر اۤتے ہی ٹرے ٹیبل پر رکھ دی تھی۔

”ارمش کہاں ہے؟” پاپا کے سوال پر وہ بلاوجہ گلابی ہو گئی تھی۔

”اۤرہا ہو گا۔۔۔۔۔۔ کچن میں ہی تھا شاید پانی پی رہا تھا۔” اس کے کہتے ہی ارمش اندر اۤگیا تھا۔

”صدمے سے باہر اۤنے میں وقت تو لگتا ہے۔” اس کا جواب ہمیشہ کی طرح تباہ کن تھا۔ ارمینہ نے نظریں نیچی ہی رکھی تھیں۔

”کون سا صدمہ؟”

”اس کے ہاتھ کے پکوڑے کھانے کا صدمہ۔۔۔۔۔۔ اصل میں میں نے ایک کچن میں ہی کھا لیا تھا۔” احمد اور سرفراز ایک اۤواز ہو کر ہنسے تھے۔ ارمینہ تب بھی خاموشی سے چاأے بنانے میں مصروف رہی تھی۔ ارمینہ ارمش کے سامنے والے صوفے پر بیٹھی ہو”ی تھی وہ اس کی طرف نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کا سارا دھیان سرفراز اور احمد کی فوج کی باتوں پر تھا جیسے اسے فوج سے بڑی دل چسپی تھی۔

وہ نہیں جانتی تھی کہ ایک ”پاگل” کی محبت میں گرفتار ہونے والے کو کیا کہتے ہیں اور وہ اس ”پاگل” کی محبت میں بہت بری طرح گرفتار تھی۔۔۔۔۔۔

”ارمینہ وہ سیاہ گاڑی والے کا پتا چلا کچھ جس نے ہیری کو وہ دو سطور لکھ کر دی تھیں۔” سرفراز نے اچانک ہی بہت پرانا ذکر نکال لیا تھا۔ ارمش اور ارمینہ کو اچانک وہ سیاہ کار والا انسان یاد اۤیا تھا۔

”نہیں! معلوم نہیں کون تھا وہ۔”

”سیاہ گاڑی تھی ناں؟” سرفراز نے پھر پوچھا تھا۔

”جی۔”

”وہ ہر سنڈے کو ہیری سے ملتا تھا؟”

”جی اور اسے لکھنا بھی سکھایا تھا انہوں نے، ہیری انہیں وہ واپس دینا چاہتا تھا۔ جو اس نے لکھا تھا۔۔۔۔۔۔ وہ اب بھی میرے پاس ہے۔”

”تو لاأو دو۔”سرفراز محمود نے کہا تو ارمینہ نے حیرانی سے اپنے پاپا کو دیکھا تھا۔

”زمانے بھر کی سیاہ گاڑیاں دیکھ چکی ہو اپنی گاڑی نہیں دیکھی۔” وہ حیران پریشان سی ان کا چہرہ دیکھتی رہ گئی وہ ارمش کے چہرے کے تاثرات بھی یہی تھے۔ وہ کتنی کم عقل تھی، اس نے سوچا اس کے اپنے گھر کی گاڑی بھی تو سیاہ تھی۔ پاپا ہر سنڈے باہر جاتے تھے۔ وہ سمجھ نہیں سکی تھی کیوں؟ پھر انہوں نے جانا بند کر دیا اور اس نے غور بھی نہیں کیا۔

”پاپا اۤپ نے ہیری کو۔۔۔۔۔۔”

”وہ بچہ بہت خاص تھا ارمینہ، ایک بہت ذہین اور سمجھ دار بچہ۔۔۔۔۔۔ جانتی ہو اس کی سب سے بڑی خوبی کیا تھی؟ وہ ہار نہیں مانتا تھا ۔چاہے جو ہو وہ اپنے حوصلے سے ”ہار” کو پیروں کے نیچے دبا کر چلتا تھا۔۔۔۔۔۔ ساری دنیا کو اپنی تکلیفیں نہیں دکھاتا تھا بلکہ دنیا کے اۤگے مسکراتا تھا اور دنیا سے چھپ کر محنت کرتا تھا۔ البتہ اس کی محنت بہت مختصر تھی دنیا کی نظروں میں مگر اس کے حساب سے وہ محنت تھی۔۔۔۔۔۔ جس دن میں اس سے پھر ملنے والا تھا اس سے ایک رات پہلے وہ چلا گیا۔۔۔۔۔۔ یقین کرو جب تم نے مجھے سارا قصہ سنایا تھا میں ٹوٹ گیا تھا مگر جس دن تم نے مجھے ہیری ہوم کے بارے میں بتایا اس دن مجھے بہت خوشی ہو”ی۔۔۔۔۔۔ یاد ہے تم مجھ سے اکثر پوچھتی تھی کہ ہیری کا کیا قصور تھا ارمش تم بھی پوچھتے تھے کہ ایک معصوم کی جان کے چلے جانے سے دنیا کا کیا بھلا ہو سکتا ہے؟ اس وقت میں اس بات کا جواب تم لوگوں کو نہیں دے سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ اۤج دے سکتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس ایک بچے کی وجہ سے کتنے سارے بچوں کا مستقبل سنور گیا اس کا اندازہ ہے تم لوگوں کو۔۔۔۔۔۔ اس ایک کے جانے کا دکھ اتنا بڑا تھا کہ اسے ہرانے کے لئے اس سے بھی بڑی خوشی ڈھونڈ لی ارمش نے۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم۔۔۔۔۔۔ اللہ کے کاموں میں صرف خیر ہوتی ہے ہمیں اس کے اۤگے سوال نہیں کرنا چاہیے، بس۔۔۔۔۔۔ سر جُھکا دینا چاہیے۔۔۔۔۔۔ اس ایک کے وسیلے سے اۤج کتنی زندگیاں نشوونما پا رہی ہیں۔ کیا معلوم اس کے دنیا میں اۤنے کا مقصد یہی ہو۔۔۔۔۔۔ اس نے اپنا کام بہ خوبی نبھایا اور تمہیں تمہارے کام کے لئے راہ دکھا دی۔۔۔۔۔۔ یہی ہوتے ہیں اللہ کے فیصلے۔۔۔۔۔۔ وہ خیر ہی خیر ہے۔۔۔۔۔۔ سوچو ارمش اگر اس وقت تم یہ ملک چھوڑ کر چلے جاتے تو ان سب بچوں کی زندگیاں رلتی رہتیں۔۔۔۔۔۔ اس ملک کو قابل لوگوں کی ضرورت ہے ارمش۔ یہ جو سبز رنگ ہے ناں اس کی چمک ماند پڑتی جا رہی ہے اور اس کی چمک تم جیسے لوگ ہیں جو بہت کچھ کر سکتے ہیں مگر انہیں راستے میں کو”ی روشنی دکھانے والا نہیں ملتا۔ اسی لئے وہ اپنی راہ خود چن لیتے ہیں سوچے سمجھے بغیر۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ گلیمر انہیں اپنی جانب کھینچتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر یہ سب کچھ صرف سراب ہے۔۔۔۔۔۔” انہوں نے کچھ سوچتے ہو”ے اپنی بات جاری رکھی۔

جانتے ہو جب کبھی تنہا بیٹھ کر اپنی زندگی پر غور کرو گے تو یہ گلیمر بہت حقیر لگے گا۔ ہم اس وقت عمر کے اس حصے میں ہیں تو جانتے ہیں کہ اس وقت کیا سوچ کر اچھا لگتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ سوچ کر کہ ہم نے دوسروں کے لئے کیا کیا۔۔۔۔۔۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کے لئے اپنے گھر والوں کے لئے پھر رشتے دار دوست احباب اور پھر۔۔۔۔۔۔ اپنے ہم وطنوں کے لئے۔۔۔۔۔۔ اس زمین کے لئے جس پر ہم پیدا ہو”ے ہیں اور جس کی خاک میں ہمیں واپس مل جانا ہے، تو جس زمین نے ہماری پرورش کی ہمیں پروان چڑھایا، اس قابل بنایا کہ ہم بڑے فخر سے اسے پاک سرزمین کہتے ہیں، ہم نے اس کے لئے کچھ کیا بھی ہے یا نہیں۔۔۔۔۔۔ اور تب اس پل اگر ایک بھی نیکی انسان کو ایسی یاد اۤجاأے تو اسے بڑا سکون مل جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ اور تم نے تو ایک بڑی نیکی ویسے ہی کر دی ہے۔۔۔۔۔۔ انشا اللہ اۤگے ترقی بھی کرو گے اور اللہ نے چاہا تو وہ گلیمربھی تمہارے قدموں میں ہو گا مگر تب۔۔۔۔۔۔ تم اس گلیمر پر حکمرانی کرو گے اس کے غلام نہیں بنو گے۔۔۔۔۔۔ بس تمہیں ہیری کی طرح کبھی ہار نہیں ماننی۔۔۔۔۔۔”

وہ خاموش ہو”ے تو ارمش بہت گم صم سا بیٹھا تھا۔ احمد اپنی جگہ سے اٹھے تھے اور ارمش کو اپنے گلے سے لگا لیا۔

”میں اس زمین پر سب سے خوش قسمت باپ ہوں ارمش۔۔۔۔۔۔ تم جیسا بیٹا ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتا اللہ مجھ پر بہت مہربان ہے۔” ارمش کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔

ارمینہ باقاعدہ رونے لگی تھی مگر اس بار اۤنسو خوشی کے تھے۔ اس نے کبھی نہیں سوچا تھا وہ ہیری کو یاد کر کے خوشی کے اۤنسو بھی بہاأے گی۔ اسے سمجھ اۤگیا تھا وہ کیسا جادو کر گیا تھا، کتنی زندگیاں اس نے بدل دی تھیں جس میں سے ایک زندگی خود ارمینہ کی بھی تھی۔ وہ ساری عمر اس کی احسان مند رہنے والی تھی۔

”میں ہمیشہ سوچتا تھا کہ سرفراز مجھ سے چھوٹا ہے، نا سمجھ ہے، اپنے چھوٹے سے کام کے لئے بھی مجھ سے اۤکر پوچھتا ہے مگر اۤج میں سمجھ گیا ہوں کہ اللہ نے مجھ سے کہیں زیادہ عقل، سمجھ اور لوگوں کو پرکھنے کا ہنر اسے دے رکھا ہے۔ میں یونہی ترم خان بنا پھرتا تھا۔۔۔۔۔۔ سرفراز تم نے مجھے میری دوستی، میری بھانجی اور میرا بیٹا تینوں چیزیں لوٹا دی ہیں۔۔۔۔۔۔ میں تمہارا مشکور ہوں۔”

”اب تم مجھے شکریہ کہو گے احمد رضا ابراہیم۔۔۔۔۔۔ مجھے یقین نہیں اۤءے گا۔۔۔۔۔۔”

”مجھے بھی نہیں اۤءے گا۔۔۔۔۔۔ چلو پھر رہنے دو۔” سرفراز اور احمد دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

بہار ایسی ہی تو ہوا کرتی ہے۔ جتنے پھول بنے ہوتے ہیں سب ایک ساتھ کھل جاتے ہیں تبھی تو اس کا لطف اۤتا ہے۔۔۔۔۔۔ اس دن وہاں کئی پھول ایک ساتھ کھلے تھے۔ سبز رنگ میں چمک لوٹ رہی تھی، سفید رنگ کی سفیدی مزید گہری ہو رہی تھی۔ کہیں کسی درخت کا بہت خوبصورت پھول گرنے سے بچ گیا تھا اور اس پھول نے بہت سے دوسرے پھولوں کو گرنے سے بچا لیا تھا اور بہار اپنے جوبن پر تھی۔۔۔۔۔۔

شاید وقت کے ساتھ کبھی پھر کہیں سے خزاں لوٹ اۤءے مگر ہر درخت کو یقین ہوتا کہ کہیں سے پھر بہار لوٹ اۤءے گی اور اس کے پھول پھر کھل اٹھیں گے۔۔۔۔۔۔ شاید یہی قدرت کا قانون ہے۔۔۔۔۔۔ خزاں نہ ہو تو بہار کی خوبصورتی کی قدر کیسے اۤءے؟ مگر کون سمجھے؟ بس درخت کو یہ راز معلوم ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔

وہ دونوں گھر جانے کے لئے گاڑی میں اۤ بیٹھے۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”ارمش میں نے سرفراز سے تمہارے اور ارمینہ کے رشتے کی بات کی ہے۔”

”یہ تو ہونا ہی تھا بابا۔۔۔۔۔۔” مسکراہٹ دباتے ہو”ے وہ بولا تھا۔

”اچھا ہوا تم فوج میں نہیں گئے۔۔۔۔۔۔ تمہارا فیصلہ درست تھا۔”

”اچھا ہوا میں نے ارمینہ سے قطع تعلق نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ میرا یہ فیصلہ بھی درست تھا۔۔۔۔۔۔” ارش نے مسکراتے ہو”ے کہا تو احمد رضا نے حیرانی سے اس سے پوچھا:

”مطلب؟ تم نے تو میرے کہنے پر ارمینہ سے رابطے ختم کر دیئے تھے ناں۔۔۔۔۔۔” وہ ہلکا سا ہنسا تھا۔

”بابا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا تھا میں وہ کروں گا جو اۤپ چاہیں گے۔۔۔۔۔۔ میں نے بس اۤپ کی چاہت کو بدل دیا ۔۔۔۔۔۔ ارمینہ کو چھوڑنے کا میرا کبھی ارادہ تھا ہی نہیں۔”

وہ مزے سے بول رہا تھا اور وہ اپنے بیٹے کو دیکھ رہے تھے۔

”تم بہت کمینے ہو ارمش۔” اس بار وہ کھل کر ہنس پڑا تھا۔۔۔۔۔۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!