سبز اور سفید

اس نے اٹھ کر کمرے کی کھڑکیوں سے پردے ہٹا دیئے، ہوا اندر اۤنے لگی۔ ان کی شادی کو ایک ہفتہ گزر چکا تھااور شادی کا ہنگامہ اب قدرے خاموش ہو چکا تھا، احمد بھی کراچی جا چکا تھا۔ سرفراز کی زندگی اس سے زیادہ خوبصورت نہیں ہو سکتی تھی۔ صبح کے پانچ بجنے والے تھے اور فجر کی اذانیں شروع ہو چکی تھیں۔ اس نے پلٹ کر بیڈ پر لیٹی انابیہ کو دیکھا، وہ بہت گہری نیند میں تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش لیمپ کی دھیمی روشنی میں واضح تھے۔ وہ کھڑکی کے پاس کھڑے اسے دیکھتا رہا پھر جب اذانوں کی اۤواز اس کے کانوں میں اۤءی تو وہ جاگنے لگی، اس کے چہرے کے زاویئے بدلے پھر اس نے اۤنکھیں کھول دیں۔ اس نے کھڑکی پر کھڑے سرفراز کو دیکھا تو وہ مسکراأی۔

”تم فوجیوں کو خواب اۤجاتا ہے کیا کہ اذانیں ہونے والی ہیں؟” اس نے نیند سے بوجھل اۤنکھوں سے اسے دیکھا تو وہ مسکرا دیا۔

”ہاں! یہی سمجھ لو۔”

”روز اٹھ کے بیٹھ جاتے ہو پہلے سے، شرمندگی ہوتی ہے مجھے۔” وہ چہرے پر ملال سجاأے کہہ رہی تھی، وہ ہنس دیا اور بیڈ کے قریب اۤتے ہو”ے اس نے اس کے ماتھے کو نرمی سے چوما۔

”تمہیں نہیں معلوم مگر تمہیں اس وقت سوتے ہو”ے دیکھنا مجھے کتنا اچھا لگتا ہے۔ اس لیے شرمندہ مت ہوا کرو جلدی اٹھنے میں، میرا بھی کچھ لالچ شامل ہے۔” وہ مُسکراتی ہو”ی اٹھی اور وہ دونوں وضو کرنے لگے۔

یہ روز کا معمول تھا۔ سرفراز روزانہ اذان سے بھی پہلے بے دار ہو جاتا اور یونہی اسے تکتے ہو”ے وقت گزار دیتا۔ کچھ یہ اس کی عادت بھی تھی، اتنے سال اۤرمی کی ٹریننگ نے اسے یہی سکھایا تھا۔ وہ وقت سے پہلے ہر کام کر لیا کرتا تھا اور جو وقت بچ جاتا اس میں کو”ی اور کام کر لیتا۔ اس کی یہ عادت اب بھی قاأم تھی۔ انابیہ نماز پڑھ کر نیچے اۤتی تھی جب کہ سرفراز نماز مسجد میں ادا کرتا تھا اور پھر وہیں سے جاگنگ کے لیے چلا جاتا تھا۔ انابیہ نیچے روزانہ ایک رکوع کی تلاوت امی کے پاس بیٹھ کر کیا کرتی پھر اس کا ترجمہ پڑھتی، پھر وہ ناشتے کی تیاری کرتی اور سرفراز کے لوٹنے پر وہ سب ساتھ بیٹھ کر ناشتہ کرتے، یوں ان کا دن شروع ہوتا تھا۔

”امی پشاور والا گھر تیار ہے اور اس میں ضرورت کا سارا سامان ہے ۔یہاں سے اۤپ کو جو جو لے کر جانا ہے مجھے بتا دیں، اب ایک ہفتہ اور ہے بس چھٹیوں کا۔” وہ ناشتہ کرتے ہو”ے کہہ رہا تھا۔

”یہ گھر وسیم بیچیں گے نہیں سرفراز۔” امی جی نے اس سے کہا۔

”امی جی میں جانتا ہوں اور میں نے کہا بھی نہیں کہ یہ گھر بیچیں، اس کی کو”ی ضرورت نہیں اور ہم اکثر یہاں کا چکر بھی لگایا کریں گے اور میں یہاں کی صفاأی بھی کرواتا رہوں گا۔ اۤپ پریشان نہ ہوں اس حوالے سے۔” اس بات پر وہ مسکراأی تھیں۔

انہیں اپنے اس گھر سے بہت محبت تھی۔ اب وہ پشاور جا رہے تھے تو انہیں یہ گھر بہت یاد اۤنا تھا۔ گھر سے محبت داأمی ہوتی ہے۔ اۤپ چاہیں یا نہ چاہیں دل میں کہیں نہ کہیں یہ محبت پلتی رہتی ہے۔ اۤپ کو اطمینان گھر میں ہی حاصل ہوتا ہے چاہے اۤپ کسی بھی اعلیٰ سے اعلیٰ جگہ جا بسیں، اۤپ کو لگتا ہے جیسے اۤپ سفر میں ہیں اور سفر ہمیشہ گھر پر اۤکر ہی ختم ہوتا ہے۔ ان کا سفر بھی گھر میں اۤکر ختم ہونا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”تم دن میں کتنی بار برش کرتے ہو؟” ایک بچے کے دانتوں سے خون رس رہا تھا جسے دیکھ کر اس نے غصے سے سوال کیا۔ بچے نے شرمندہ ہو کر اپنی گردن جھکا لی۔

”میں نے کہا تھا ناں سب کو دن میں دو مرتبہ لازمی برش کرنا ہے۔ ایک مرتبہ صبح اٹھ کر اور ایک بار رات سونے سے پہلے۔۔۔۔۔۔ اۤءندہ کرو گے؟” اس نے جلدی سے ہاں میں گردن ہلاأی۔

”گڈ! اۤءندہ اگر نہیں کرو گے تو ایسے ہی دانتوں سے خون اۤتا رہے گا پھر سب دانت گر جاأیں گے اور کھانا بھی نہیں کھا پاأو گے۔ اۤءی سمجھ؟” اس نے پھرتی سے ایک بار پھر اثبات میں گردن ہلاأی۔

ہر اتوار ہیری ہوم کے سب بچوں کا تفصیلی طبی معاأنہ ہوتا تھا۔ پھر کسی بچے میں پاأی جانے والی بیماری کا علاج کیا جاتا تھا۔ دو ہفتوں میں ہیری ہوم میں موجود بچوں کی تعداد بارہ ہوگئی تھی۔ ان کی صحت، رہاأش اور کھانا پینا ہیری ہوم کی ذمہ داری تھی۔ عمر وہاں ایک خاص اہمیت رکھتا تھا، وہ وہاں ارمش کا دایاں ہاتھ تھا۔ وہاں ہونے والی ہر بات کی خبر چاہے وہ مثبت ہو یا منفی ارمش کو دیتا تھا۔ ارمش تقریباً ہر روز ایک چکر ہیری ہوم کا ضرور لگاتا تھا۔ یہ اس کے روٹین میں شامل تھا۔

فی الحال وہ سب کا طبّی معاأنہ اکیلے ہی کرتی تھی اگلے ہفتے سے ڈاکٹر فاروق بھی ان کے ساتھ شامل ہونے والے تھے۔ وہ فارغ ہو کر چیزیں سمیٹنے لگی تو عمر اور ارمش اۤتے دکھاأی دیئے تھے۔

”کیسا رہا اۤج کا دن؟” ارمش نے اسے دیکھ کر پوچھا۔

”اچھا۔۔۔۔۔۔ مگر بچوں کو برش کرنے کی عادت نہیں پڑ رہی ہے۔ خاص طور پر حارث ہر بار اتنے جذبات سے گردن ہلا کر کہتا ہے کہ میں برش کروں گا مگر اگلے ہفتے اس کا وہی حال ہوتا ہے” ارمینہ نے اسے تفصیل سے اۤگاہ کیا۔

”خالدہ اۤنٹی سے کہہ دوں گا وہ اس پر نظر رکھیں گی۔” خالدہ اۤنٹی یہاں بچوں کا خیال رکھتی تھیں اور بچوں کو نہلانے دھلانے کی ذمہ داری ان کی تھی۔

”ارمش بھاأی مجھے اۤپ سے بات کرنی تھی۔” وہ دونوں خاموش ہو”ے تو عمر نے کہا جو اب تک ڈسپنسری کے دروازے پر ہی کھڑا تھا۔

”ہاں ہاں کہو۔”

”وہ میں ایک سال پیچھے ہوں ویسے ہی، تو میں اسی سال میٹرک کا امتحان دینا چاہتا ہوں۔”

”مگر اب تو صرف دو مہینے ہیں عمر۔ دو مہینوں میں تیاری کیسے کرو گے؟ اور ابھی تمہاری base بھی اتنی مضبوط نہیں ہے تم اگلے سال اۤرام سے امتحان دے دینا۔”

”نہیں ارمش بھاأی میں اسی سال امتحان دینا چاہتا ہوں۔ میں نے تھوڑا بہت تو اس گورنمنٹ اسکول میں پڑھ ہی لیا تھا۔ نویں کا امتحان دینے کے بعد پڑھاأی چھوڑی تھی بیچ میں ایک سال گزرا ہے جو میں نے ضاأع کیا ہے۔ اب ایک اور سال ضاأع نہیں کرنا چاہتا۔ ارمینہ بھی کہہ رہی ہے کہ وہ میری مدد کر دے گی، امتحان کے فارم اۤگئے ہیں۔ میں بھر دوں کیا؟” اس نے پُرامید نگاہوں سے ارمش کو دیکھا۔

”اچھا تو ارمینہ محترمہ کی دین ہیں یہ سب۔” اس نے پلٹ کر ارمینہ کو دیکھا، جو کچھ جھینپ سی گئی تھی۔

”نہیں ارمش بھاأی میں جلد سے جلد اپنی پڑھاأی ختم کرنا چاہتا ہوں تاکہ اپنے اۤپ کو سنبھال سکوں۔”

”تم جانتے ہو تم سب سے زیادہ سمجھ دار بچے ہو، خیر تمہیں اگر لگ رہا ہے کہ تم کر سکتے ہو تو ضرور کرو یار میں کون ہوتا ہوں روکنے والا۔” وہ مسکرا کر اسے اجازت دے رہا تھا اور عمر بے ساختہ اس کے گلے لگ گیا۔

”ارمش بھاأی بس اۤپ ہی تو ہیں میرے لیے، اۤپ نہیں ہوتے تو میں اۤج بھی سڑک پر کھڑا لوگوں کی گاڑیوں کے شیشے صاف کر رہا ہوتا۔ اۤپ مل گئے اسی لیے تو اس قابل ہوا ہوں کہ اۤپ سے اجازت بھی مانگ سکوں۔” وہ روتے ہو”ے اس سے کہہ رہا تھا۔

”اۤپ نے میرے سر پر ہاتھ رکھا ہے اسی لیے اس قابل ہوا ہوں کہ اۤگے پڑھنے کے بارے میں سوچا ورنہ میں تو ہار بیٹھا تھا۔” اس کی ہچکیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔ ارمش نے اۤہستہ سے اسے خود سے الگ کیا تو اس کا پورا چہرہ بھیگا ہوا تھا۔

”روتے کیوں ہو عمر؟ میں نے بس تمہیں وساأل دیئے ہیں یار محنت تو تم کر رہے ہو اور میں جانتا ہوں تم بہت لاأق ہو اس طرح خود کو چھوٹا مت۔ سمجھو بس اللہ سے دعا کیا کرو اپنے لیے بھی اور ہمارے لیے بھی۔” وہ اس کے دونوں گالوں کو تھامے اس سے کہہ رہا تھا۔

”میں ہر نماز میں دعا کرتا ہوں ارمش بھاأی، اۤپ کے لیے بھی اور ارمینہ کیلئے بھی۔ اۤپ دونوں بہت خاص ہیں میرے لیے، اتنے کہ میں اۤپ کو بتا بھی نہیں سکتا۔” وہ اب بھی رو رہا تھا۔

”مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں اۤرہا تم نے میرے لیے دعا کی عمر؟” ارمینہ نے ماحول کو خوش گوار بنانے کے لیے اسے چھیڑا تو اس نے مُسکرا کر اپنے اۤنسو پونچھے۔۔۔۔۔۔

”ہاں تو ہر کو”ی تمہاری طرح کافر تھوڑی ہوتا ہے جو نماز ہی نہ پڑھے۔” وہ ہنس دی تھی حالاں کہ نماز کی عادت عمر کو ارمینہ نے ہی ڈلواأی تھی۔ وہ ہر نماز ادا کرنے کے بعد فون کر کے عمر سے نماز کے متعلق پوچھتی تھی۔

”تم کہیں بھی پہنچ جاأو عمر تمہاری حرکتیں نہیں سدھریں گی۔” وہ مصنوعی غصے سے بولی ۔ وہ بہت دھیمی مسکراہٹ لیے اپنے اۤنسو پونچھتا وہاں سے چلا گیا۔

”تمہیں نہیں لگتا یہ بہت حساس ہے؟” اتنی دیر سے خاموش کھڑے ارمش نے اسے مخاطب کیا تو وہ چونکی۔

”ہونہہ”

”اسے اپنے لیے کسی ایسی فیلڈ کا انتخاب کرنا چاہیے جس میں زیادہ ہمت نہ کرنی پڑے۔ میرے خیال سے اسے اۤرکیٹکٹ یا اۤرٹسٹ بننا چاہیے اب دیکھتے ہیں یہ خود کیا کرتا ہے۔”

”تم تو اس کی کیریئر کاأونسلنگ کو رہنے ہی دو۔” اس نے ارمش کے انداز پر تبصرہ کیا۔

”تم نے کہا تھا اسے ایسا فیصلہ کرنے کو؟” ارمش نے سنجیدگی سے اس سے پوچھا۔

”نہیں وہ خود میرے پاس اۤیا تھا مشورہ لینے۔ کل تم اۤءے نہیں تھے ناں ہیری ہوم۔”

”ہاں امی کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے، انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گیا تھا۔” وہ اب اپنے کچھ معمول کے کام کرنے میں مصروف تھا ساتھ ہی ساتھ اس سے بات بھی کر رہا تھا۔

”کیوں؟ کیا ہوا انہیں؟”

”سانس پھولنے لگا تھا۔ ڈاکٹر نے اچانک ایکسرے کروایا تھا، ان کے پھیپھڑوں میں کچھ انفیکشن اۤیا ہے دواأیں وغیرہ چل رہی ہیں۔”

”گھر پر ہی ہیں ناں وہ؟”

”ہاں”

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ارمینہ کو ایک نظر دیکھ کر نہیں پہچانی تھیں مگر ثمینہ احمد رضا نے احمد رضا کی خاموشی اور طبیعت کی بے چینی ضرور محسوس کی تھی جو اس لڑکی سے ملنے کے بعد پیدا ہو گئی تھی۔ پھر انہوں نے ایک دن اسٹڈی میں احمد رضا کو کسی کی تصویر دیکھتے ہو”ے پایا تھا۔ جب وہ چلے گئے تو وہ اسٹڈی میں واپس اۤءیں اور کتاب کے اندر سے تصویر نکال کر دیکھنے لگیں۔ اس تصویر نے ان کے ہوش اڑا دیئے تھے۔ اس تصویر میں ایک چھوٹی بچی تھی چھے یا سات سال کی۔ اس کی اۤنکھیں نیلی تھیں، سونے سی رنگت، بالوں میں پونی بناأے گلابی رنگ کی فراک پہنے وہ بھرپور طریقے سے مسکرا رہی تھیں اور تصویر کے پیچھے احمد رضا کی لکھاأی میں بہت خوبصورت انداز میں اس کا نام لکھا تھا اور ساتھ تاریخ بھی لکھی ہو”ی تھی۔ شاید اس دن کی جب وہ تصویر کھینچی گئی تھی ارمینہ سرفراز محمود، اس تصویر نے ان کے ہاتھوں کو سرد کر دیا تھا۔ ان کے ذہن نے کام کرنا شروع کیا تو وہ سمجھ گئیں کہ احمد رضا کی یہ حالت کیوں ہو”ی تھی؟ وہ اس لڑکی کا چہرہ اپنے ذہن میں لے اۤءی تھیں جو تقریب کے دن ان سے ملی تھی وہ ارمینہ تھی جسے دیکھ کر احمد رضا کی حالت ایسی ہو گئی تھی اور وہ ارمینہ تھی، جس کی تصویر وہ گھنٹوں بیٹھے اپنی اسٹڈی میں دیکھتے رہتے تھے۔ تصویر اسی جگہ پر رکھ کر وہ باہر اۤگئیں۔

کچھ دنوں بعد خود ان کے پھیپھڑوں میں انفیکشن ہو گیا۔ ان کی بیماری کی وجہ سے احمد رضا ان کا زیادہ خیال رکھنے لگے مگر وہ ویسے ہی تھے خاموش اور افسردہ۔ ان کی طبیعت میں پہلی تبدیلی بہت سال پہلے اۤءی تھی اور دوسری تبدیلی اب اۤءی تھی۔ دونوں کی وجہ ایک ہی لڑکی تھی ارمینہ سرفراز محمود، وہ ان کی زندگی کی ہر خوشی اور ہر غم کی وجہ تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

پشاور میں ان کا فلیٹ تین کمروں پر مشتمل تھا۔ باہر کی طرف ایک چھوٹی سی بالکونی تھی جہاں پودے رکھے ہو”ے تھے۔ اور ایک چھوٹا سا لاأونج جہاں ٹی وی رکھا ہوا تھا۔ انہیں شفٹ ہو”ے ایک مہینہ ہو چکا تھا۔ شکرپاراں جیسا حسن، ہوا، لوگ، محلہ اور گھر یہاں نہیں تھے مگر پھر بھی وہ لوگ رہنا سیکھ گئے تھے۔ وہ تینوں ایک دوسرے کے لیے کافی تھے، سرفراز نے اپنی ڈیوٹیز واپس جواأن کر لی تھیں۔

وہ اس وقت الماری سے کپڑے نکال رہی تھی جب اس کی نظر اس البم پر پڑی تھی جسے سرفراز نے بہت سنبھال کر یہاں رکھا ہوا تھا۔ اس نے البم نکال لیا۔ اس میں سرفراز اور احمد کی تصاویر تھیں، ان کے بچپن سے لے کر جوانی تک کی، تقریباً عمر کے ہر حصے کی تصاویر۔ وہ البم دیکھ رہی تھی جب سرفراز اندر اۤیا۔

”میرے سب سے قیمتی اساسوں میں سے ایک ہے یہ البم۔” البم پر نظر پڑتے ہی سرفراز نے کہا۔

”ہاں! احمد بھاأی اور تمہاری کتنی ساری تصویریں ہیں، سب بہت اچھی ہیں۔”

”ہاں” اس نے مسکرا کر کہا۔ ایک تصویر کو دیکھ کر وہ رکا۔

”پتا ہے ایک دفعہ ہم چھٹیوں پر ایک ساتھ شکرپاراں اۤءے تھے۔ یہ تب کی ہے۔ احمد نے میری سب سے پسندیدہ جیکٹ چھپا دی تھی اور پھر میں اسے ڈھونڈتا رہا۔ پتا نہیں کتنی دیر وہ اۤرام سے بیٹھ کر کھانا کھاتا رہا اور مجھے اسے دیکھ کر غصہ اۤرہا تھا۔ میں نے سارا گھر دیکھ لیا پھر جب وہ کھانا کھا چکا تو اس نے ہاتھ دھو”ے اور وہ جس چیئر پر بیٹھا تھا اس کی سیٹ اٹھاأی اور اس کے نیچے سے میری جیکٹ نکال کر مجھے دی۔”

انابیہ مُسکرا کر اس کی بات سُن رہی تھی۔

”تو پھر تم نے کچھ کہا نہیں انہیں اتنی اۤسانی سے تو جانے نہیں دیا ہو گا؟” انابیہ کے تبصرے پر وہ مسکرایا۔

”نہیں! میں اگلے دن اس کے لیے ویسی ہی ایک جیکٹ لے اۤیا اس کا سب سے پسندیدہ بیگ بیچ کر۔” انابیہ زور سے ہنسی۔

”میں نے اس سے کہا اگر میرے پاس ہے تو تیرے پاس بھی ہونی چاہیے تب تھوڑی دیر وہ مجھے گالیاں دیتا رہا، پھر ایک قہقہہ لگا کر ہنسا اور جیکٹ پہن لی۔ پھر ہم دونوں نے ایک جیسی جیکٹ پہن کر یہ تصویر کھنچواأی تھی۔” وہ مسکرا کر اس تصویر کو دیکھ رہا تھا۔

”تم دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے ہو ناں؟” اس نے مسکرا کر البم انابیہ کے ہاتھ سے لے کر اپنی گود میں رکھ لی۔

”انابیہ وہ مجھ سے عمر میں ایک سال بڑا ہے، لیکن میرے لیے وہ بہت سے رشتوں کا نعم البدل ہے۔ دوست ہونے کے ساتھ ساتھ بھاأی ہے، ہم راز ہے اور کبھی کبھی مجھے اس میں بابا کی جھلک بھی دِکھتی ہے۔ جب وہ مجھے کسی بات سے منع کرتا ہے ڈانٹتا ہے یا گلے لگاتا ہے لوگوں کے دوست ہوتے ہیں مگر جو احمد میرے لیے ہے وہ بیان سے باہر ہے۔” وہ گھٹنوں پر ٹھوڑی ٹکاأے اس کی باتیں سن رہی تھی اور وہ جو البم سینکڑوں بار دیکھ چکا تھا ایک بار پھر دیکھنے بیٹھ گیا تھا، اسی انہماک اسی دلچسپی کے ساتھ ۔کچھ رشتے زندگی میں اۤپ کو بنے ہو”ے ملتے ہیں وہ قسمت ہوتی ہے مگر کچھ رشتے اۤپ خود بناتے ہیں وہ نعمت ہوتے ہیں۔ اس کے لیے بھی احمد کی دوستی نعمت تھی۔ گرمی کے بعد ٹھنڈی پھوار کے جیسی، اندھیروں کے بعد نظر اۤنے والی روشنی جیسی۔

اسی وقت سرفراز کا فون بجا۔

”لو! اس کا ذکر کر رہے تھے اور موصوف کی کال اۤگئی۔” اسکرین پر احمد کا نام چمکتا دیکھ کر سرفراز نے انابیہ سے کہا۔

”السلام علیکم! جنت کی حوروں کو انتظار کرنا پڑے گا تیرا کیوں کہ عمر لمبی ہے تیری۔ میں اور انابیہ ابھی تیرا ہی ذکر کر رہے تھے اور تیری کال اۤگئی۔”

”اچھا! یقینا تم میری کو”ی نہ کو”ی براأی ہی کر رہے ہو گے۔”

”ہاں میں انابیہ کو بتانے لگا تھا کہ بچپن میں تمہیں کتنی بار سچا والا عشق ہوا ہے۔” دوسری طرف احمد کا قہقہہ سناأی دیا تھا۔

”تو پھر اس کو یہ بھی بتا دو کہ تمہیں کتنی بار سچی محبت ہو”ی ہے۔”

”میں تو بتا چکا ہوں اسے کہ مجھے ایک ہی بار سچی والی محبت ہو”ی ہے۔” اس نے نگاہوں کا رخ انابیہ کی طرف کر کے کہا تو وہ مسکرا دی۔

وہ جانتی تھی گفت گو کچھ لمبی ہونے والی ہے۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے روزانہ کی بنیاد پر بات نہیں کرتے تھے مگر جب کرتے تو لمبی بات کرتے، وہ وہاں سے اٹھ کر کچن میں اۤگئی۔ اس نے کم از کم اپنی زندگی میں دوستی جیسے رشتے کی یہ شدت کہیں نہیں دیکھی تھی۔ زندگی نے انہیں ایک دوسرے کا بہترین غم خوار بنایا تھا۔

”اللہ! ان کی دوستی کو ہر بُری نظر سے بچا کر رکھیے گا۔” بے ساختہ اس نے دعا کی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”مجھے تمہاری امی سے ملنا ہے۔” گاڑی میں بیٹھتے ہو”ے اس نے ارمش سے کہا وہ جو سن گلاسز اۤنکھوں پر چڑھا رہا تھا، رک گیا۔

”کیوں؟”

”ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے ناں تو ان سے ملنا چاہتی ہوں۔ میں خود اۤجاتی پر مجھے تمہارا گھر نہیں معلوم۔”

”اگر ایسا ہے تو چلو۔” وہ گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔

”تمہاری امی سو”ٹ ہیں بہت، مجھے ان سے مل کر بہت اچھا لگا تھا۔” گاڑی میں بیٹھ کر ارمینہ نے کہا۔

”اور بابا؟” اس نے عجیب سا سوال کیا جیسے خود جاننا چاہتا ہو کہ اس کے بابا کیسے تھے۔

”وہ بھی اچھے ہیں۔” اس نے بس اتنا ہی کہا۔

سچ یہی تھا کہ اس کو ارمش کے بابا کچھ خاص پسند نہیں اۤءے تھے وہ اسے بہت سخت مزاج سے لگے تھے۔ اسے یہ بھی عجیب لگا کہ وہ ایک بار بھی ہیری ہوم نہیں اۤءے۔ ارمش نے اتنی محنت کی تھی اور اب جب ہیری ہوم سانس لینے لگا تھا، تب بھی انہوں نے ہیری ہوم کا ایک بھی چکر نہیں لگایا۔ گاڑی اس کے گھر کے کارپورچ میں داخل ہو”ی، اس کا گھر بہت خوبصورت تھا۔ داخلی دروازہ بہت وسیع تھا۔ وہ اندر اۤءے تو اسے کچھ ڈر سا لگا۔ احمد رضا سے اس کی پہلی ملاقات کچھ خاص خوش گوار نہیں تھی، وہ پھر بھی اخلاقیات کی خاطر ارمش کی امی سے ملنے اۤگئی۔ ارمش اس کے بابا کی بہت عزت کرتا تھا تو یہ اس کا بھی اخلاقی فرض تھا۔

”چلو اۤءو۔” وہ اسے لے کر اندر اۤگیا۔ سامنے صوفے پر احمد رضا بیٹھے تھے۔ اس کا حلق خشک ہونے لگا۔

”السلام علیکم بابا۔” ارمش کی اۤواز پر احمد رضا نے سر اٹھا کر ارمش کو دیکھا پھر ساتھ کھڑی ارمینہ کو اور کچھ دیر اپنی جگہ جم سے گئے۔

”وعلیکم السلام!” اتنا کہہ کر انہوں نے اپنا چہرہ واپس اخبار کی طرف کر لیا۔ ارمش کو کچھ حیرانی ہو”ی۔

”السلام علیکم انکل۔” اس بار ارمینہ نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام۔” انہوں نے گردن اٹھاأے بغیر ہی اسے جواب دے دیا۔

”بابا ارمینہ امی سے ملنے اۤءی ہے۔”

”وہ اوپر ہیں، چلے جاأو۔” کچھ دیر تک وہ بابا کے رویے پر حیران ہوا پھر ارمینہ کو لیے اوپر اۤگیا۔

کمرے کا دروازہ کھولتے ہی اس نے امی کو سلام کیا۔

”امی ارمینہ اۤپ سے ملنے اۤءی ہے۔” وہ بیڈ پر لیٹی تھیں جب وہ اندر اۤءی۔ اس کا چہرہ دیکھ کر وہ چونک سی گئیں پھر انہوں نے اپنی گھبراہٹ پر چند لمحوں میں قابو پا لیا۔

”السلام علیکم اۤنٹی کیسی ہیں اۤپ؟” یہ کہتی ہو”ی وہ ان کے قریب گئی۔

”پلیز لیٹی رہیے، اٹھیے مت۔” وہ بیڈ سے اٹھنے لگیں تو اس نے انہیں روک دیا۔

”وہ ارمش نے بتایا اۤپ بیمار ہیں۔ اب کیسی طبیعت ہے اۤپ کی؟”

”اب تو اللہ کا شکر ہے ٹھیک ہوں۔ شکریہ تم اۤءیں۔” انہوں نے مُسکرا کر جواب دیا۔ ارمش بیڈ سے کچھ فاصلے پر کھڑا تھا جبکہ ارمینہ بیڈ پر ان کے پاس بیٹھی تھی۔ ثمینہ احمد رضا غور سے اس کے چہرے کے نقوش دیکھ رہی تھیں۔

”اۤپ سے مل کر بہت اچھا لگا تھا اس دن۔”

”مجھے بھی۔” انہوں نے مسکرا کر جواب دیا تو اس کا ڈر اور گھبراہٹ کم ہو”ی۔

”کیا کرتی ہو بیٹا تم؟”

”ڈاکٹر ہوں اۤنٹی، جاب کرتی ہوں۔”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!