سبز اور سفید

”نہیں۔۔۔۔۔۔ اس ڈونر کو بھولنا خاصا مشکل ہے۔”

”کیوں؟ ہیرے جڑے ہیں اس میں؟” ارمش نے گردن گھماأی اور اسے غور سے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔ ارمینہ نے نظریں چرا لیں۔

”ارمینہ تم ہیری ہوم کے لیے جتنا بھی کرتی ہو وہ کافی سے بہت زیادہ ہے۔ اب اس طرح اپنے اۤپ کو مشکل میں ڈالنے والے کام مت کیا کرو۔” ارمش سنجیدگی سے کہہ رہا تھا۔ ارمینہ کو شرمندگی ہو”ی، اس کا جھوٹ پکڑا جا چکا تھا اب وہ اپنا نچلا ہونٹ کاٹنے لگی تھی۔ ارمش نے اپنی بات جاری رکھی۔

”جس دن تم نے مجھے وہ پیسے دیئے میں نے اسی دن پتا کروا لیا تھا کہ وہ کہاں سے اۤءے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس ملک میں زیادہ باتیں راز نہیں رہتیں۔۔۔۔۔۔ میں جانتا ہوں ہیری ہوم مشکلا ت سے دوچار تھا اور تمہیں پرواہ ہے، فکر ہے مگر اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہے کہ تم اپنے پیسے بنا سوچے سمجھے دے دو۔” وہ سانس لینے کو رکا تو ارمینہ بولی۔

”تم بھی تو دیتے ہو۔” اس کا لہجہ کچھ مضبوط ہوا تھا۔

”کیوںکہ میرے اخراجات نہیں ہیں۔۔۔۔۔۔ تم ایک پورا گھر چلاتی ہو، میرے اور تمہارے معاملات میں بہت فرق ہے۔” ارمش کا لہجہ اب بہت نرم تھا۔

”مجھے اچھا لگتا ہے ہیری ہوم کے لیے یہ سب کرنا۔” وہ معصومیت سے بولی۔

”تمہیں کسی نے نہیں روکا ہے کچھ بھی کرنے کو، مگر تم اپنے اردگرد کے لوگوں کے بارے میں بھی تو سوچو۔ انکل، فرید بابا، جاوید بھاأی یہ سب تمہاری فیملی ہیں۔ تم انہیں اپنی ترجیحات میں رکھا کرو۔” اس نے نظریں اٹھا کر ارمش کو دیکھا، وہ اس کی کسی ایک بات کو بھی غلط نہیں ٹھہرا سکتی تھی۔

”سوری۔۔۔۔۔۔ میں اۤءندہ خیال رکھوں گی۔” ارمینہ نے معصومیت سے بولا توارمش کے چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ اۤگئی۔

”تھوڑی دیر سو جاأو کب سے جاگ رہی ہو، میں عمر کو بھیج دوں تمہارے پاس؟”

”نہیں اسے مت تنگ کرو اس کے امتحان قریب ہیں۔”

”تو تم اپنے رشتے داروں میں سے کسی کو کیوں نہیں بلا لیتیں؟ کو”ی کزنز وغیرہ؟”

وہ خاموش ہو گئی کہ اس کے کو”ی کزنز تھے ہی نہیں۔ کچھ سوچ کر وہ بولی:

”نہیں میری فیملی میں ایسا کو”ی ہے نہیں جو اس وقت اۤسکے ۔۔۔۔۔۔ لیکن میں ٹھیک ہوں تم جاأو۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔”

”اچھا۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔” وہ متذبذب سا اسے دیکھتا گیا پھر جانے کیلئے اٹھ گیا۔ راہداری کے کونے پر بھی اس نے پلٹ کر ارمینہ کو دیکھا تھا وہ اسے ہی دیکھ رہی تھی۔ پھر ایک ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس نے ارمش کو ہاتھ ہلایا۔ ارمش کا دل جانے پر راضی نہیں تھا۔ مگر وہ رک بھی نہیں سکتا تھا۔ عجیب کشمکش تھی۔ وہ کنفیوزڈ سا اپنی گاڑی تک اۤگیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ پھر کچھ سوچتے ہو”ے اس نے ارمینہ کو کال ملاأی۔

”میں نیچے گاڑی میں ہوں۔۔۔۔۔۔ کو”ی مسئلہ ہو تو مجھے بلا لینا۔”

”نہیں ارمش تم گھر جاأو۔۔۔۔۔۔” وہ جلدی جلدی بولی مگر ارمش نے اس کی بات کاٹ دی۔

”میں ہوں ارمینہ۔۔۔۔۔۔ اچھا باأے۔” یہ کہہ کر ارمش نے فون کاٹ دیا ۔ ارمینہ کو کسی کا سہارا تھا اور اسے یہ خیال بہت دلکش لگا۔ جب کو”ی اۤپ کی فکر کرے، اۤپ کی ہر خواہش کو بنا کہے سمجھ لے تو دل کو راحت سی ملتی ہے۔۔۔۔۔۔ اسے بھی ایسا ہی لگا تھا۔ وہ پھر تسبیح میں مگن ہو گئی تھی۔

ارمش گاڑی کی سیٹ کو تھوڑا لٹا کر ٹک گیا۔ اس کا موباأل اس کی جیب میں تھا۔ اس نے گھر پر فون کیا تو فون بابا کے اٹھانے پر اسے حیرانی ہو”ی کیوں کہ وہ جلدی سو جایا کرتے تھے۔

”بابا میں ابھی گھر نہیں اۤسکوں گا۔ ہسپتال کے باہر گاڑی میں ہوں۔۔۔۔۔۔ ارمینہ یہاں اکیلی ہے اسے کسی چیز کی ضرورت پڑی تو کسی کو یہاں ہونا چاہیے۔ امی کو بتا دیجئے گا وہ پریشان۔۔۔۔۔۔”

”ارمش اس لڑکی کے پاپا کیسے ہیں؟” بابا نے اس کی بات کاٹ دی تھی۔

”سرجری ہو گئی ہے۔ لیکن ابھی انہیں ہوش نہیں اۤیا ہے۔” ارمش نے کچھ حیرانی سے جواب دیا۔ انہیں اس کے نہ اۤنے سے کو”ی دلچسپی نہیں تھی، اگر تھی تو ”اس لڑکی” کے پاپا میں۔

”اچھا ٹھیک ہے میں ثمینہ کو بتا دوں گا۔۔۔۔۔۔”

”جی خدا حافظ۔” فون رکھ دیا گیا۔ بابا اۤج کل بہت عجیب طرح behave کر رہے تھے، اس نے موباأل اندر رکھ کر سی ڈی پلیئر اۤن کر دیا۔ بہت دھیمی دھیمی اۤواز گاڑی میں گونجنے لگی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اسے اندازہ نہیں ہوا کہ اس کی اۤنکھ کب لگی؟ وہ صبح چار بجے تک تو جاگ رہی تھی، مگر پھر نیند اۤنے پر اس کی اۤنکھ لگ گئی، اب اٹھی تو اذانِ فجر اختتام پر تھی۔ وہ ایک بار پاپا کو دیکھ کر اۤءی پھر وضو کر کے نماز ادا کی اور راہداری کے اختتام پر موجود بالکونی تک اۤگئی۔ روشنی ابھی نہیں ہو”ی تھی۔ وہ ہسپتال کے چوتھے فلور پر تھی۔ وہاں سے ہوا کا گزر بہت تیز تھا۔ اس کے بالوں اور چہرے کو چھوتی ہو”ی ہوا اسے اندر تک تروتازہ کر گئی تھی۔ شانوں کے گرد شال لپیٹے وہ ہاتھ باندھے کھڑی تھی۔ نیچے بڑا سا لان تھا جہاں نمازِ فجر کی جماعت کھڑی تھی۔ ہسپتال کے عملے سمیت وہاں دیگر بہت سے لوگ نماز ادا کر رہے تھے۔ اس نے دروازے کی طرف سے ارمش کو اۤتے دیکھا، وہ شاید سو گیا تھا، جبھی اسے جماعت کے لیے دیر ہو گئی تھی۔ وہ اۤنے کے بعد خاموشی سے پیچھے کھڑا ہو کر اگلی رکعتوں میں شامل ہو گیا۔ چوتھے فلور سے اس کے نقوش واضح نہیں تھے مگر وہ اسے پہچان سکتی تھی۔

”ارمش ساری رات نیچے کار میں رہا، عجیب انسان ہے ۔” اس نے سوچا۔ کچھ دیر بعد جماعت ختم ہو”ی تو سب جانے لگے۔ ارمش اور چند نمازی رہ جانے والی رکعتوں کو ادا کرنے کے بعد دیر سے باہر نکلے تھے، پھر وہ اس کی نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ روشنی اب پھیلنے لگی تھی اور چڑیوں کی اۤوازیں بھی اۤنے لگی تھیں۔

”ٹھنڈ تو نہیں لگی رات میں؟” وہ اچانک مڑی تو وہ اس کے پیچھے کھڑا تھا، وہی کل والی جینز اور شرٹ میں ملبوس اۤستینیں کہنیوں تک موڑے۔

”نہیں۔۔۔۔۔۔ تم گھر کیوں نہیں گئے؟” ارمینہ نے اسے دیکھتے ہو”ے پوچھا۔

”دل نہیں چاہ رہا تھا۔”اب وہ ارمینہ کے برابر کھڑا کہنیاں گِرل سے ٹکاأے نیچے دیکھ رہا تھا۔

”کیوں گھر جانے کا کس کا دل نہیں چاہتا؟”

”میرا۔ کبھی کبھی۔”

”جس کے دماغ کا فیوز اڑا ہوا ہوبس اس کا نہیں چاہتا۔”

”یعنی تمہارا بھی نہیں چاہتا۔” وہ سادگی سے بولا تو ارمینہ نے ہونٹ بھینچ کر اس کی طرف دیکھا پھر مسکرا دی۔

”پرندے وقت کے کتنے پابند ہوتے ہیں ناں۔۔۔۔۔۔ روشنی کی پہلی کرن کے ساتھ ہی اپنا سفر شروع کر دیتے ہیں اور اندھیرے سے پہلے گھر لوٹ اۤتے ہیں۔”

”ہاں کیوں کہ انہیں اپنے رزق کی تلاش ہوتی ہے۔”

”انسان کو بھی تو ہوتی ہے۔” اس کے جملے پر وہ تلخی سے ہنسا۔

”تلاش نہیں۔۔۔۔۔۔ انسان کو ہوس ہوتی ہے اور اپنے حق سے زیادہ رزق جمع کرنا شروع کر دیتا ہے وہ۔ جس سے معاشرے میں بے ربطگی پیدا ہوتی ہے امیر امیر ہوتا چلا جاتا ہے اور غریب غریب تر۔۔۔۔۔۔ اگر ہر کو”ی اپنے اپنے حصے کا رزق اور دوسروں کا حق کھانا چھوڑ دے تو شاید اس ملک میں کسی کو اپنے چھوٹے چھوٹے بچوں سے کام کروانے کی ضرورت نہ پڑے۔۔۔۔۔۔ انسان سیدھے راستے پر تب تک نہیں اۤتا جب تک ٹھوکر نہ کھا لے۔ میں نے بھی کھاأی ہے ۔ مگر سیدھے راستے پر اب بھی مجھے جگہ جگہ دھند نظر اۤتی ہے۔” وہ روانی میں بولتا رہا اور ارمینہ سنتی گئی پھر بولی۔

”مگر اسے ہٹانے کو”ی نہیں اۤتا۔۔۔۔۔۔ یہ انسان کا کام ہے جب تک وہ اس دھند کو خود صاف نہیں کرے گا اسے ان راستوں کی اور ان راستوں کی منزل کی قدر کیسے ہو گی؟ تمہیں جب دھند ملے اور اۤگے کچھ نظر نہ اۤءے تو رکا مت کرو چلتے رہا کرو کیوں کہ رکنے سے صرف وقت ضاأع ہو گا مگر چلتے رہنے سے اۤگاہی ملے گی، پتا چلے گا کہ دھند کے اس پار کیا ہے۔” ارمینہ کہہ چکی تو اس نے گردن گھما کر ارمینہ کو دیکھا۔

”اور اگر دھند میں کسی چیز سے ٹکرا کر گر گیا تو۔۔۔۔۔۔” وہ کسی بچے کی طرح پوچھ رہا تھا۔

”سیدھے راستے پر چلتے ہو”ے تو ہر کو”ی گرتا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر پھر کھڑا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔ یہ اس راستے کا حسن ہے۔”وہ کچھ دیر ارمینہ کو خاموش نظروں سے دیکھے گیا تھا وہ بھی مسکرا کر اسے دیکھ رہی تھی۔

”اتنی سمجھ داری والی باتیں نہ کیا کرو۔۔۔۔۔۔ تم پہ سوٹ نہیں کرتیں۔” ارمش نے شوخی سے کہا تو وہ ہنس دی تھی۔

”کبھی کبھی مزاج سے مختلف بھی انسان کو کچھ کر لینا چاہیے جیسے اۤج تم نے کیا۔”

”میں نے کیا کیا؟” وہ نا سمجھی والے انداز میں پوچھ رہا تھا۔

”رات نیچے بیٹھ کر گزار دی۔”

”تم نے اوپر بیٹھ کر۔۔۔۔۔۔ ایک ہی بات ہے۔”

”مگر میں پاپا کی وجہ سے تھی یہاں۔”

”تو میں بھی ان ہی کی وجہ سے تھا۔۔۔۔۔۔ یہ مت سمجھو تمہاری وجہ سے بیٹھا تھا۔” وہ روکھے سے انداز میں بولا ۔ ارمینہ اپنی مسکراہٹ دباتی رہی۔

”ہاں بالکل۔۔۔۔۔۔ مجھے پتا ہے۔” اس نے سنجیدگی سے کہا تھا۔

”مسٹر سرفراز محمود کے ساتھ اۤپ ہیں؟” ایک زنانہ اۤواز پر وہ اچانک مڑی تھی۔

”جی ہاں میں ہوں۔”

”انہیں ہوش اۤگیا ہے۔” ارمش نے نرس کے جملے پر ارمینہ کے چہرے کی چمک محسوس کی جو بہت منفرد تھی۔ تمام تھکن، تمام خدشات کی جگہ اب ایک دھیمی سی مسکراہٹ تھی۔ وہ اندر چلی گئی جب کہ ارمش راہداری میں ہی رہا۔

”پاپا” اس نے انہیں اۤواز دی تو انہوں نے گردن ہلا کر اسے جواب دیا۔ ڈاکٹر بھی وہیں موجود تھے۔

”ویسے تو تمام چیزیں امیدوں کے عین مطابق ہیں، اب جسم کی حرکت کا اندازہ ہم فزیو تھیراپی سے لگا لیں گے۔ یہ ضرور بہتر ہو جاأیں گے۔”

”انشاأ اللہ۔” اس کے منہ سے بے ساختہ نکلا تھا۔ سرفراز محمود ہلکی غنودگی میں تھے اور ان کی اۤنکھیں بار بار بند ہو رہی تھیں۔

”اب اۤپ اۤرام کرنے دیں انہیں۔” ڈاکٹر نے ارمینہ سے کہا اور وہ سب باہر اۤگئے۔ ارمش اب بھی راہداری میں ہی تھا۔

”کیسے ہیں انکل؟”

”ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔ اللہ کا شکر۔”

”چلو بہتر۔۔۔۔۔۔ اب میں چلتا ہوں۔ اۤفس جانا ہے۔”

”تھک گئے ہو گے ناں؟” وہ موباأل کی طرف دیکھ کر کسی کو کال ملانے میں مصروف تھا۔

”نہیں تو۔۔۔۔۔۔خدا حافظ۔” کہتا ہوا وہ چلا گیا۔

ارمینہ نے ایک نظر شیشے کے اس پار بیڈ پر لیٹے اس وجود پر ڈالی جو اس کی ساری کاأنات تھا۔ اۤنسو”وں کا ایک ریلا بہ گیا تھا۔ وہ ہاتھ منہ دھونے کی غرض سے واش روم کی طرف چلی گئی۔ واپس اۤءی تو اس نے کاریڈور میں شیشے کے سامنے کسی شخص کو کھڑے دیکھا۔ روشنی کم تھی تو وہ چہرہ نہیں دیکھ پاأی مگر اسے لگا وہ ارمش کے بابا تھے۔ وہ حیران تھی۔ ”وہ یہاں کیسے ہو سکتے ہیں۔” وہ اۤگے بڑھ رہی تھی جب اس وجود میں حرکت ہو”ی، وہ راہداری کی دوسری طرف یوں مڑ گئے تھے کہ ارمینہ کی طرف ان کی پشت تھی اور تیز تیز قدم اٹھاتے نیچے چلے گئے۔ وہ بھاگتی ہو”ی ان کے پیچھے اۤءی مگر ان کا تعاقب نہیں کر سکی کیوں کہ ان کے درمیان کافی فاصلہ تھا۔ پھر جب وہ اس کی اۤنکھ سے اوجھل ہو گئے تو وہ رک گئی تھی۔

”کیا وہ ارمش کے پاپا تھے؟” نہیں وہ کیسے ہو سکتے ہیں شاید میری نظر کا دھوکا تھا کو”ی اور ہو گا پاپا کی فیکٹری سے کو”ی ہو گا یا کو”ی جاننے والا۔”

اس نے خود ہی اپنے سوال کا جواب دیا اور واپس مڑ گئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

انہیں ڈراأیور نے اس ہسپتال کا نام بتا دیا تھا جہاں ارمش کی گاڑی جا کر رکی تھی۔

”اسی ہسپتال چلو اور۔۔۔۔۔۔ ارمش کو پتا نہ چلے۔” ڈراأیور کو ہدایت دیتے وہ گاڑی میں بیٹھ گئے تھے۔ سارا راستہ وہ دھڑکتے دل کے ساتھ بیٹھے رہے تھے۔ انسان کے پاس رشتے ہوں اور پھر وہ انہیں کھودے تو ان کی کمی زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ گاڑی پارکنگ تک چلی گئی۔ ریسیپشن پر سرفراز کا کمرہ پوچھنے کے بعد وہ چوتھے فلور کی اس راہداری میں اۤگئے تھے۔ وہ شاید اۤگے بڑھ جاتے مگر شیشے کے اس پار لیٹے سرفراز پر ان کی نظر ٹِک گئی تھی۔ پہلی نگاہ میں وہ اسے پہچان تو گئے تھے مگر انہیں یقین نہیں اۤیا تھا کہ یہ سرفراز ہے۔ انہیں اۤج بھی وہی سرفراز یاد تھا جو چونتیس سال کی عمر میں اپنے فیلوز اور بیچ میٹس میں سب سے زیادہ ایکٹو اور پھر تیلا جانا جاتا تھا۔ چہرے پر بظاہر ہلکی ڈاڑھی تھی اور بال ہمیشہ کسی نفیس طریقے سے کٹے ہو”ے تھے۔ حلیہ ہمیشہ اس کاشاندار رہا ۔ وہ کسی بہت خوبصورت چہرے کا مالک نہیں تھا مگر اس کی عادتوں، کردار اور شخصیت کے سادہ پہلو”وں نے ہمیشہ اسے بہت پرکشش بنایا تھا۔ اور اب۔۔۔۔۔۔ وہ ایک لاغر سا وجود تھا۔ بیڈ پر بے سدھ لیٹا، بال بھی بکھرے ہو”ے تھے سیاہ اور سفید ملے ہو”ے، اس کی صحت بہت متاثر ہو”ی تھی۔ اس وقت اس میں اتنی بھی طاقت نہیں تھی کہ وہ اپنی مرضی سے اپنے ہاتھ پیروں کو حرکت بھی دے سکتا۔

” ہواأوں میں اڑنا میرا جنون ہے احمد۔” اسے کئی سال پہلے اس کا کہا ہوا جملہ یاد اۤیا تھا۔ ایک اۤنسو ان کی اۤنکھ کے کنارے سے بہ گیا ۔ انہوں نے اسے بہہ جانے دیا۔ وہ اۤج بالکل بے بس تھے۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!