سبز اور سفید

سڑک تک اۤتے اۤتے کو”ی اس کے ساتھ چلنے لگا اس نے مڑ کر نہیں دیکھا۔

”میں چاأے بغیر چینی کے پیتا ہوں۔” ارمش کی اۤواز پر وہ پلٹی۔ وہ ایک گاڑی کے پاس رک کر دروازہ کھول کر اس میں بیٹھ رہا تھا۔ اس کی اۤنکھوں پر اب سَن گلاسز تھے جو اس نے ابھی چڑھاأے تھے۔ وہ چپ چاپ اۤکر اس کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔

دروازہ کسی عمر دراز شخص نے کھولا۔

”السلام علیکم فرید بابا!” اس نے ارمینہ کو کہتے سنا۔

”وعلیکم السلام ارمینہ بی بی اۤجاأیں۔” وہ اندر جانے لگی تو وہ بھی اس کے پیچھے اندر اۤگیا۔

”فرید بابا! پاپا کہاں ہیں؟”

”بیٹا وہ اسٹڈی میں ہیں۔ بلا دوں؟”

”جی بلا دیں۔” فرید بابا اندر غاأب ہو گئے۔ ارمینہ کا گھر بڑا نہیں تھا مگر چھوٹا بھی نہیں تھا۔ داخل ہوتے ہی ایک لاأونج تھا جہاں صوفہ سیٹ اور ٹی وی موجود تھا۔ لاأونج سے ہی لکڑی کی بنی سیڑھیاں اوپر کی طرف جا رہی تھیں۔ سیدھے ہاتھ کی طرف ایک وسیع، نفاست سے سجا مگر سادہ سا ڈراأنگ روم تھا، وہ دونوں اب وہیں بیٹھے تھے۔

”تمہارا گھر بہت اچھا ہے۔” اس کے جملے پر وہ مسکراأی۔

”کون کون ہے تمہاری فیملی میں؟”

”بس میں اور پاپا، امی کی ڈیتھ ہو گئی تھی جب میں تین سال کی تھی۔ بہن بھاأی تھے نہیں تو یہ ہم دونوں کے لیے بہت ہے۔”

”ہونہہ”

”ارمینہ! کون اۤیا ہے؟” ڈراأنگ روم کے دروازے سے کو”ی داخل ہوا۔ وہ احتراماً کھڑا ہو گیا۔ ویل چیئر چلاتے ہو”ے وہ اندر داخل ہو”ے اور انہیں دیکھتے ہی وہ انہیں سلام کرنا بھول گیا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

کمرے میں اۤنے کے بعد اس نے اپنا سامان unpack کر لیا۔

رات امی نے دستر خوان پر اس کی من پسند چیزیں سجا دیں۔ ایک دو دن بعد اس کی شادی تھی۔ گھر کی سجاوٹیں قابلِ دید تھیں۔ اس کے چہرے کی خوشی بھی قابلِ دید ہونے کے ساتھ ساتھ اس نے زندگی میں بہت مشکلات دیکھیں مگر اس کے جنون نے اسے ہارنے نہیں دیا۔ اسے جیسے کو”ی لت تھی، اڑنے کی لت۔۔۔۔۔۔ نہ صرف اڑنے کی بلکہ سرخرو لوٹنے کی بھی۔ اور وہ ہمیشہ سرخرو ہی لوٹا تھا۔

اپنے بستر پر لیٹا وہ اۤنے والے دن کے بارے میں سوچ رہا تھا، انابیہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ انابیہ کی فیملی ہمیشہ سے ان کے پڑوس میں رہتی تھی۔ وہ ہمیشہ سے ایک دوسرے کو پسند کرتے تھے۔ بڑا ہونے پر ان کے گھر والوں کی رضامندی پر ان کی منگنی کر دی گئی۔ سرفراز کی زندگی کا محور چند ہی لوگ تھے اس کی امی، انابیہ جو اس کی ہونے والی بیوی تھی اور اس کا بہترین دوست۔۔۔۔۔۔ احمد رضا ابراہیم۔

احمد اور سرفراز ہمیشہ ساتھ ہی رہے تھے۔ اسکول اور پھر کالج تک دونوں نے زندگی کی کئی بہاریں اکٹھی دیکھی تھیں اور بہت سے غموں کو ساتھ بانٹا تھا۔ وہ سونے کی کوشش میں اۤنکھیں بند کیے لیٹا تھا۔ ٹھنڈ شدید تھی اس لیے اس نے کمبل اپنے پیروں پر ڈال رکھا تھا۔پنکھا پھر بھی اس نے چلایا ہوا تھا۔ پنکھے کے بغیر وہ سو نہیں پاتا تھا۔ یہ اس کی عادت تھی جس کی وجہ سے اس کے روم میٹس بھی اس سے بہت تنگ تھے۔ اچانک کسی نے جھٹکے سے دروازہ کھولا۔ اسے اٹھنے کا موقع بھی نہیں ملا اور کسی نے بالٹی بھر ٹھنڈا برف کا پانی اس کے اوپر اچھال دیا۔ کچھ دیر کے لیے وہ حواس باختہ رہا پھر کسی کا زور دار قہقہہ گونجا۔

”اچھا تو اب اتنے سکون سے سو سکتے ہو تم وہ بھی ہمیں اۤدھی رات کو یہاں بلا کر۔۔۔۔۔۔ زمانہ اتنا بھی سہل نہیں میری جان۔” اس نے ہاتھ بڑھا کر لاأٹ جلاأی، مگر اسے پہچاننے کے لیے اسے روشنی کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ جانتا تھا احمد رضا ابراہیم اۤگیا ہے۔

وہ ایک جھٹکے سے بیڈ سے اترا اور احمد کے پیچھے بھاگا، احمد بھی بھاگتا ہوا صحن تک اۤیا۔

”رک جاأو احمد اس بار میں بدلہ لیے بغیر نہیں بخشوں گا۔” وہ کہتا ہوا اس کے پیچھے بھاگ رہا تھا۔

احمد نے بہ اۤسانی صحن کی دیوار پھلانگی اور سڑک پر اۤگیا۔ نتیجتاً سرفراز نے بھی اسی مہارت سے دیوار پھلانگی۔ دو فوجیوں کا مقابلہ ہمیشہ قابلِ دید ہوا کرتا تھا۔ سرفراز اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ جانتا تھا احمد نے جان بوجھ کر اپنی رفتار کم کر دی تھی اور پھر سرفراز نے اس کے کندھے تک رساأی حاصل کر لی تھی۔ دو بہترین دوستوں کی ملاقات کا وہ ایک پُرجوش اور جذباتی سا مظاہرہ تھا۔ وہ دونوں ہانپتے ہو”ے ایک دوسرے کو دیکھ کر مُسکرا رہے تھے اور چند لمحوں بعد دونوں نے ایک دوسرے کو گلے لگا لیا۔ اۤس پاس سے گزرنے والا تقریباً ہر شخص ان دونوں کو جانتا تھا اور تقریباً ہر سال ایک بار یہ نظارہ ضرور دیکھتا۔ احمد اور سرفراز کا نام زیادہ تر ساتھ ہی لیا جاتا تھا۔ وہ دوستوں بھاأیوں سے بھی کچھ بڑھ کر ہی تھے۔

”میں نے سنا ہے شادی وادی کر رہے ہو؟ دیکھ میں بتا رہا ہوں۔ فوجی ہوتے ہو”ے بھی غلامی کرنی پڑے گی میرے یار۔” سرفراز احمد کی وارننگ پروہ ہلکا سا مسکرایا۔

”چل یار قبول ہے غلامی بھی۔۔۔۔۔۔ ایسی غلامی پر تو ہزاروں اۤزادیاں قربان ہیں۔”

”اوہ! شہزادے تجھ پر بھی محبت کا بھوت سوار ہو گیا۔”

”چلو اۤجاأو اب اندر چلتے ہیں ورنہ امی جی خبر لیں گی۔” سرفراز اس سے کہتا ہوا چلنے لگا تو وہ بھی چل پڑا۔ چلتے چلتے سرفراز رُکا اور کچھ ڈھونڈنے لگا، احمد اس سے اۤگے تھا۔

”کیا ہوا؟” اس نے پلٹ کر پوچھا۔

”کچھ نہیں چلو میں اۤیا۔” احمد کندھے اُچکا کے مُڑا اور اس کے مُڑتے ہی کسی نے اس کے اوپر بھی ایک بالٹی انڈیل دی۔

”میں نے کہا تھا ناں! اس بار میں بدلہ ضرور لوں گا میری جان۔”اور ہنگامہ نئے سرے سے شروع ہو گیا۔

وہ دونوں اندر اۤءے تو پورے بھیگے ہو”ے تھے۔

”میرے خدا! تم دونوں نے پھر یہی کھیل کھیلا ہے۔ بیمار ہو جاأو گے دونوں۔” امی نے سرفراز اور احمد کو تولیہ تھماتے ہو”ے کہا۔

”اس بار اس نے مجھے نہلا ہی دیا لیکن چلیں میں اۤج ہار گیا اس سے کیوں کہ میرا دوست بس دو ہی دن کی خوشی منا سکتا ہے اس کے بعد تو ہارنا ہی ہارنا ہے اسے۔” سرفراز ساری گفتگو کے دوران صرف مسکرا رہا تھا۔

”کپڑے بدل لو اب دونوں۔” امی مسکراتی ہو”ی کہہ کر اندر سونے چلی گئیں اور وہ دونوں کپڑے بدل کر چھت پر اۤگئے۔

”اب بتاأو کیسے ہو؟ ارحم کیسا ہے؟” اسے کافی کا مگ تھماتے ہو”ے سرفراز نے پوچھا۔

”میں بھی ٹھیک ارحم بھی ٹھیک۔”

”اور کراچی؟”

”ہاں کراچی بھی ٹھیک۔ انابیہ مجھ سے کہہ رہی کہ احمد بھاأی سرفراز بہت خطرناک کام کرتا ہے اۤپ خود سوچیں ڈھاأی ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگانا کو”ی اۤسان بات ہے کیا؟” احمد نے انابیہ کی نقل اتارتے ہو”ے کہا تو سرفراز نے ایک زوردار قہقہہ لگایا۔

”ہاں! میں نے اسے ایک زیرو کم لکھ کر میسج سینڈ کیا تھا ورنہ تو وہ بے ہوش ہی ہو جاتی۔” دونوں نے تالی مارتے ہو”ے ایک اور قہقہہ لگایا۔”

”ارحم بھی بہت باتیں کرنے لگا ہے، اب اۤواز دو تو فوراً پلٹ کر دیکھتا ہے۔”

”ہاں اور اب تو تمہیں غالباً ایک نام اور سوچنا پڑے گا۔” اس بار احمد کے چہرے پر مسکراہٹ دوڑ گئی۔

”سوچنا کیا ہے سوچ چکا ہوں بیٹا ہو گا تو ارمش، بیٹی ہو گی تو ارمینہ۔” وہ پرجوش سا ہو کر بولا تھا۔ سرفراز نے اس کا کندھا تھپکا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”پاپا یہ ارمش ہے اور ارمش یہ میرے پاپا” وہ دونوں ایک دوسرے کو بہت غور سے دیکھ رہے تھے ارمش انہیں نہیں جانتا تھا مگر پھر بھی اسے ایسا لگ رہا تھا جیسے اس نے انہیں کہیں دیکھا ہے۔ کہاں؟ یہ اسے بھی یاد نہیں تھا۔

”السلام علیکم۔” اپنی کیفیت پر قابو پاتے ہو”ے اس نے سلام کیا۔

”وعلیکم السلام!”

”بیٹھو بیٹا!” وہ بہت شفقت بھرے انداز میں بولے۔

”میں چاأے لاتی ہوں” ارمینہ نے یہ کہہ کر کچن کا رُخ کیا۔

”معاف کیجئے گا انکل مگر۔۔۔۔۔۔ کیا ہم مل چکے ہیں؟” مجھے ایسا لگ رہا ہے جیسے میں نے اۤپ کو کہیں دیکھا ہے۔”

”مجھے نہیں لگتا میں تو زیادہ تر وقت گھر میں گزارتا ہوں اور جہاں تک مجھے یاد ہے میں نے تمہیں نہیں دیکھا اس سے پہلے۔”وہ مسکراأے

”ہو سکتا ہے میرا وہم ہو۔”

”کچھ چہرے ایسے ہوتے ہیں بیٹا جنہیں دیکھ کر لگتا ہے کہ اۤپ برسوں سے ان چہروں سے واقف ہیں مگر حقیقت میں وہ انجان ہوتے ہیں۔” وہ مسکرایا مگر خاموش ہی رہا۔

”تم ایک اچھے انسان ہو۔ مجھے خوشی ہو”ی کہ تم ایک اچھا کام کر رہے ہو۔” اگلے چند منٹوں میں وہ قدرے بے تکلف ہو گئے۔ ارمش نے انہیں ARI مینوفیکچررز کے بارے میں بتایا۔ ان کی مصروفیات کچھ کم تھیں مگر وہ معذور ہونے کے باوجود گھر پر اۤرام نہیں کرتے تھے۔ انہوں نے ایک فیکٹری ڈال رکھی تھی جس کے وہ ہفتے میں ایک یا دو دورے کیا کرتے تھے۔ ان کی معذوری کے بارے میں اس نے پوچھا، نہ انہوں نے بتایا۔ ارمینہ چاأے لیے اندر داخل ہو”ی۔

”کافی باتیں نہیں کر لی اۤپ دونوں نے۔” وہ اپنے مخصوص لہجے میں بولی۔

”یہ لیں بابا”

”ارے پہلے اسے چاأے دو۔”

”اۤپ بڑے ہیں اس لیے پہلے اۤپ کو دے دیتی ہوں۔” پھر اس نے اگلا کپ ارمش کے اۤگے کر دیا۔

”اس میں چینی نہیں ہے” ساتھ وہ جتانا نہیں بھولی۔

”کیوں؟” پاپا حیران ہو”ے۔

”میں چینی نہیں پیتا چاأے میں انکل۔” کہتے ہو”ے اس نے شکریہ کے ساتھ کپ لے لیا۔

”پاپا ارمش جاننا چاہتا ہے کہ ہمیں پاکستان میں کیوں رہنا چاہیے جب کہ باہر رہ کر ہم زیادہ ترقی کر سکتے ہیں۔” چاأے پیتے پیتے دونوں نے ہی رُک کر سر اُٹھا کر اسے دیکھا۔ ارمش کو امید نہیں تھی کہ وہ اس طرح براہِ راست یہ موضوع چھیڑ دے گی۔ اس نے تو یونہی سوچ میں گم اپنی الجھن کا جواب مانگا تھا۔ اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے ارمینہ کو undersestimate کیا تھا اس نے ارمینہ کو جی بھر کر گھورا۔ نتیجتاً وہ تھوڑا جھینپ بھی گئی۔

”اۤءی ایم سوری انکل یہ بہت بچگانہ سا سوال ہے میں نے یونہی اس سے ذکر کر دیا تھا۔” وہ شرمندہ ہوا۔

”نہیں ارمش یہ بچگانہ سوال نہیں ہے یہ واقعی وہ سوال ہے جس کا جواب ہم بھولتے جا رہے ہیں کہ ہمیں پاکستان میں کیوں رہنا چاہیے۔۔۔۔۔۔ تم نے ایک درخت کو دیکھا ہے کبھی؟ اس کے تین حصے ہوتے ہیں اس کا تنا، اس کی جڑیں اور اس کے پھل پھول۔ پھلوں اور پھولوں کو بہت غرور ہوتا ہے کہ وہ درخت کو اہم اور پرکشش بناتے ہیں اور تنے کو غرور ہوتا ہے کہ اس کی وجہ سے درخت کھڑا ہے مگر جانتے ہو سب سے ضروری حصہ ہوتا ہے اس کی جڑیں جو اصل میں اس درخت کو اس کی جگہ قاأم رکھتی ہیں، اسے زندگی بخشتی ہیں۔ پھل پھول اور تنے کے بغیر بھی جڑیں زندہ رہتی ہیں مگر جڑوں کے بغیر پھل پھول زندہ نہیں رہ سکتے اور جڑوں کی ایک خاصیت یہ ہے کہ ان میں عاجزی ہوتی ہے غرور نہیں ہوتا۔ وہ پس پردہ رہتی ہیں اور اپنے اۤپ کو، اپنی اہمیت کو اور اپنے کمالات کو دنیا کے سامنے شوکیس میں رکھ کر پیش نہیں کرتیں۔ جانتے ہو یہ ملک ہماری جڑ ہے، بہت عاجز مگر سب سے اہم، سب سے کام کا حصہ اور ہم پھل پھول سے زیادہ کی اہمیت نہیں رکھتے۔ اگر جُڑے ہیں تو زندہ ہیں۔ کٹ کے گر گئے تو پیروں کے نیچے روندے جاتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں مر جاتے ہیں۔ میں جانتا ہوں تمہیں لگتا ہے تم پاکستان سے باہر رہ کر زیادہ ترقی کر سکتے ہو مگر ایک پتے کی بات بتاأوں تمہیں۔۔۔۔۔۔ پاکستان میں رہ کر تم پاکستان کی ترقی میں حصہ لے سکتے ہو کیوں کہ تم میں قابلیت ہے۔ زندگی کے بیس سال ہماری نسل پاکستان کے پیسوں پر جیتی ہے پڑھتی لکھتی ہے اپنے اۤپ کو قابل بناتی ہے اور پھر جب وقت اۤتا ہے قرض اتارنے کا تو اس ملک کے بجاأے کسی اور ملک جا کر اس کی خدمت کر کے اپنی زندگی گزار دیتی ہے۔ ارمش یہ ملک بہت تکلیف سے اپنے نوجوانوں کو خود سے کٹتا ہوا دیکھتا ہے مگر کچھ نہیں کہہ پاتا۔ میں یہ نہیں کہتا انسان ترقی نہ کرے لیکن اگر وہ اس ملک میں رہ کر ترقی کرے گا تو اس ملک کی بھی ترقی ہو گی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا ارمش اس مٹی سے جڑے ہو تو زندہ ہو جو کٹ کے گر گئے تو کچھ بھی نہیں۔”

وہ سُن سا بیٹھا تھا اور کو”ی اس کے اندر چیخ چیخ کر اس سے شکوہ کر رہا تھا۔ اس سے چاأے نہیں پی گئی تھی۔ اس نے چاأے کا ایک گھونٹ تک نہیں لیا تھا۔ زندگی میں اس کو بہت کم لوگوں نے اۤءینہ دکھایا تھا۔ سرفراز محمود ان میں سے ایک تھے۔

” اس مٹی سے جڑے ہو تو زندہ ہو”۔۔۔۔۔۔ اور وہ اپنے اۤپ کو مار رہا تھا۔ ”جو کٹ کے گر گئے تو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔”

”بس یہ ٹاپک ختم ہو گیا ارمش تم کہیں نہیں جا رہے۔” اسے پینٹنگ والے فیصلے کے بعد بابا کا ایک اور فیصلہ درست لگا۔ اس نے کبھی بابا یا ارحم بھاأی کی طرح ملک کیلئے والہانہ جذبات دل میں نہیں رکھے تھے۔ کو”ی اس کو کہتا ملک کی اس کی زندگی میں کیا اہمیت ہے تو وہ بس سوچ میں پڑ جاتا۔ کسی نے اس کو ملک کی ”یہ” اہمیت نہیں بتاأی۔ اس نے ہمیشہ اپنی ترجیحات میں اپنا بزنس اور اپنا کیریئر رکھا تھا۔ ارمش رضا ابراہیم کی زندگی میں اندھیرا تھا جس کی وجہ سے وہ نہیں جان پایا تھا کہ ”گھر” کا مطلب کیا تھا؟ ساأباں کسے کہتے تھے اور تحفظ کیا شے تھی؟ اس کے اندھیروں میں کہیں سے چند جگنو اۤنے لگے تھے جن میں پہلا ہیری تھا جو اۤکر چلا گیا تھا مگر جس کی روشنی اب بھی اس کے اِردگرد تھی، دوسری ارمینہ تھی جس کی باتیں اسے سوچنے پر مجبور کر دیا کرتی تھیں اور ارمینہ کا ہاتھ تھامے ایک اور جگنو تھا جو اس کے اندھیروں میں اجالا کرنے اۤگیا تھا۔۔۔۔۔۔ سرفراز محمود۔۔۔۔۔۔

”تمہیں میری باتیں بری یا تلخ تو نہیں لگی ناں؟” وہ جسے کسی اور دنیا سے باہر اۤیا تھا۔

”بری؟ نہیں انکل مجھے تو ایسا لگتا ہے جیسے مجھے ان باتوں کی بہت ضرورت تھی۔” اس کی بات پر وہ پورے دل سے مسکراأے تھے مگر وہ مسکرا نہیں سکا تھا۔

”چاأے پی لو ورنہ ٹھنڈی ہو جاأے گی۔” انہوں نے اس کے جامد ہاتھوں کو دیکھتے ہو”ے کہا۔ اس نے خود کو کمزور کہنا شروع کر دیا تھا۔ اسے لگا وہ اب تک اپنی زندگی ضاأع کرتا اۤیا تھا۔ انتیس سال کی عمر میں جیسے کسی نے اس میں دوبارہ زندگی کی رمق پھونکی تھی۔ وہ کچھ دیر بیٹھنے کے بعد باہر اۤگیا۔

”مل گیا جواب؟” وہ نرم سے لہجے میں پوچھا جانے والا سوال تھا۔

”ہاں مل گیا۔ تمہارا شکریہ کہ تم مجھے یہاں لے اۤءی۔” یہ کہتا ہوا وہ مڑا اور گاڑی کا دروازہ کھولا۔

”مجھے لگا تمہیں ضرورت ہے۔۔۔۔۔۔ ویسے تو تمہیں اخلاق سیکھنے کی بھی بہت ضرورت ہے اور یہ بھی کہ لڑکیوں سے کیسے بات کرتے ہیں اور یہ بھی کہ ایک ڈاکٹر اور ایک چور کی شکل میں کیا فرق ہوتا ہے؟”

وہ اس کی طرف پشت کیے مسکرا رہا تھا۔ وہ جانتا تھا وہ بھی پیچھے کھڑی مسکرا رہی ہو گی۔ سن گلاسز لگانے کے بعد وہ پلٹا۔

”اور تمہیں ضرورت ہے تھوڑا کم بولنے کی، چاأے کیسے بناتے ہیں یہ بھی سیکھنے کی اور کبھی موقع ملا تو میں تمہیں بتاأوں گا چاأے کیسے بناتے ہیں؟”

”تم بتاأو گے مطلب؟ تم مجھ سے اچھی چاأے بنا لیتے ہو؟”

”نہ صرف چاأے تھوڑی بہت کُکنگ بھی کر لیتا ہوں بزنس ٹور پر اۤسٹریلیا جاأوں تو ہوٹل میں نہیں رُکتا بلکہ فلیٹ ہے وہاں میرا، وہیں رکتا ہوں تو ظاہر ہے کھانا بھی خود ہی بناتا ہوں۔” اسے حیرانی ہو”ی۔

”I can bet میں تم سے بہتر چاأے بناتی ہوں۔”

”تو پھر تم نے شاید اچھی چاأے پی ہی نہیں ہے۔”

”دیکھیں گے! یہ competition ضرور ہو گا۔”

”بالکل! anytime” جیب میں ہاتھ ڈالے وہ بہت مزے لے لے کر اس کی چاأے کی براأی کر رہا تھا حالاں کہ وہ جانتا تھا اگر یہ مقابلہ واقعی ہوتا تو وہ بہت بُری طرح ہارجاتا۔

”خداحافظ” کہہ کر وہ روانہ ہو گیا۔

وہ ارمش کے جانے کے بعد اپنے کمرے میں اۤگئے تھے۔ انہوں نے فرید بابا سے کہہ دیا تھا کہ اب وہ سونے جا رہے ہیں لہٰذا کو”ی انہیں ڈسٹرب نہ کرے۔ کمرے میں اۤنے کے بعد وہ ویل چیئر کو چلاتے ہو”ے کھڑکی کی جانب لے اۤءے۔ انہیں اس وقت کھلی ہوا کی بہت ضرورت تھی۔ نیند خیر ان کی اۤنکھوں سے کوسوں دور تھی۔

”پاپا یہ ارمش ہے۔” اگر ارمینہ انہیں نام نہ بھی بتاتی تب بھی وہ پہچان سکتے تھے کہ وہ کون تھا۔ دیکھنے میں وہ بالکل اپنے بابا جیسا تھا مگر اس کی اۤواز اور اس کا لہجہ ان سے مختلف تھا۔ احمد رضا بہت بے دھڑک بولنے والوں میں سے تھے مگر وہ ایسا نہیں تھا۔ اس کی باتوں میں ایک ٹھہراأو تھا، لہجے میں اگر زیادہ مٹھاس نہیں تھی تو لہجہ سخت بھی نہیں۔ کو”ی محض اس کے لہجے سے کبھی اس کے موڈ کا اندازہ نہیں لگا سکتا تھا۔ احمد رضا اگر ایک کھلی کتاب تھے تو وہ ایک پہیلی جیسا تھا۔ اس کے گرد ایک داأرہ تھا جس کے اندر اس نے کسی کو اۤنے کی اجازت نہیں دی۔ سرفراز محمود یہ بات اس سے ایک ملاقات میں ہی جان گئے تھے۔ وہ صرف اپنے بابا جیسا دِکھتا تھا مگر ان جیسا تھا نہیں۔ ان کے ہونٹوں پر ایک زخمی سی مُسکراہٹ لہراأی تھی۔ یادوں کے جھروکوں سے کسی نے چپکے سے ان کے حال میں جھانکا۔ کبھی کبھی صرف ہم ہوتے ہیں، زندگی ہوتی ہے اور زندگی کی چند یادیں ہوتی ہیں اور جب ان تین کی جگہ ہو تو پھر اگلی کو”ی چیز انسان کو اہم نہیں لگتی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اس نے پلٹ کر دیکھا تو چھت کے دروازے پر انابیہ کھڑی تھی۔ اس پل اسے احساس ہوا کہ کچھ لوگوں کو بس ایک نظر دیکھ لینا ہی کاأنات ہوتا ہے۔ اۤسمانی رنگ کے لباس پر گہرے نیلے رنگ کی شال پہنے وہ بڑی بڑی اۤنکھوں سے ان دونوں کو گھور رہی تھی۔

‘سرفراز کیا تم نے ابھی ابھی کہا کہ تم نے 2500 نہیں بلکہ 25000 فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگاأی؟” اس بار سرفراز کو جھٹکا لگا تھا اور احمد کی ہلکی سی ہنسی کی اۤواز اس کے کانوں میں گونجی۔

”نہیں تو ایسا تو نہیں کیا یار میں نے۔” وہ تیز قدموں کے ساتھ چلتی ان دونوں کے سامنے اۤگئی تھی۔

”جھوٹ مت بولو میں نے ابھی ابھی سُنا کہ تم نے ایک زیرو کم لکھ کر سینڈ کیا تھا سرفراز میں تو تصور بھی نہیں کر سکتی کہ اتنی اونچاأی پر کھڑے ہونا بھی کیسا لگتا ہے اور تم نے وہاں سے چھلانگ لگا دی؟”

”بھئی اب یہ بحث اۤپ دونوں مل کر کریں مجھے ذرا بھوک ستا رہی ہے تو میں نیچے چلا۔”

انابیہ کے سر پر ہاتھ رکھنے کے بعد وہ نیچے ہو لیا اور جاتے وقت وہ انابیہ کی پشت پر کھڑا ہو کر سرفراز کو چڑانا نہیں بھولا تھا۔

”مصیبت کے وقت پہ کبھی میرے کام نہیں اۤتا۔” وہ مصنوعی غصے سے منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔

”اچھا! تم مجھے مصیبت کہہ رہے ہو؟” اس نے سن لیا تھا۔

”ارے نہیں یار ادھر اۤءو۔” وہ اسے لیے چھت پر بڑی ایک بڑی سی چارپاأی تک اۤیا جس پر وہ دونوں بیٹھ گئے۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!