سبز اور سفید

”عمر۔” ارمش کی اۤواز پر بھی اس نے ارمش کی جانب نہیں دیکھا تھا۔

”عمر کیا ہوا ہے تمہیں؟ بیمار ہو؟” ارمش اب اس کے قریب اۤگیا تھا۔ اس نے ایک نظر ارمش پر ڈالی اور اٹھ کر بیٹھ گیا تھا۔ پھر اس نے ساأیڈ ٹیبل کی دراز سے ارمینہ کا دیا ہوا لفافہ ارمش کو دے دیا۔

”ارمینہ دے کر گئی ہے اۤپ کو دینے کے لیے۔” ارمش لفافہ دیکھتے ہی سمجھ گیا تھا کہ یہ وہ رقم تھی جو اس نے ارمینہ کو بھجواأی تھی اس نے لفافہ جیب میں ڈالا اور عمر کی جانب ایک بار پھر متوجہ ہو گیا۔

”ارمینہ کہہ رہی تھی کہ مجھے کو”ی بیماری ہے۔ میں شاید اس سال امتحان نہ دے پاأوں۔” ارمش کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔

”کیا مطلب؟ کیا بیماری؟” وہ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ عمر خاموش رہا تھا۔

”چلو اۤءو ڈاکٹر فاروق کے پاس چلتے ہیں۔” وہ عمر کو لے کر ڈسپنسری اۤگیا تھا۔

”ڈاکٹر فاروق عمر کو کیا ہوا ہے؟”

”ارمش اسے شریانوں کی بیماری ہے خون کا دباأو بڑھنے کی وجہ سے اس کی شریانوں میں سے خون رستا ہے اور باریک باریک perforations ہونے لگتی ہیں۔۔۔۔۔۔ اور اس کی وجہ۔۔۔۔۔۔ بہت سی ہیں مگر سب سے اہم ہے چند واأٹمنز کی کمی اور خاندان میں جینز کا ہونا۔۔۔۔۔۔ اور علاج۔۔۔۔۔۔ ممکن ہے مگر لمبے عرصے تک چلے گا۔۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے مگر یہ امتحان نہیں دے پاأے گا۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ ابھی اس کے ہاتھ پاأوں اور سطحی طور پر یہ شریانیں رہتی ہیں اگر خدا نہ کرے دل یا دماغ میں ایسا ہونے لگا تو معاملات بگڑ سکتے ہیں۔” ڈاکٹر فاروق کہہ چکے تو اس نے عمر کی طرف دیکھا جیسے اسے سمجھانا چاہتا ہو مگر الفاظ نہ ہونے کی وجہ سے خاموش تھا۔

”ڈاکٹر فاروق میں نے امتحان نہ دیئے تو میں زیادہ ٹینشن میں رہوں گا اۤپ نہیں جانتے میں نے کتنی محنت کی ہے۔ مجھے کتنی امیدیں ہیں ان تین مہینوں میں میں نے نہ دن دیکھا نہ رات۔۔۔۔۔۔ زندگی میں میں نے اپنے اۤپ کو کسی بھی چیز کے لیے کبھی بھی اس طرح خود کو ختم کر کے اس کے پیچھے بھاگتے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔۔ حد تک کہ رزق کے لیے بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ میں اگر امتحان میں نہ بیٹھ پایا تو شاید یہی سوچتے اپنی بیماری کو بڑھا بیٹھوں گا۔ اگر امتحان دے دیئے تو واقعتا پرسکون رہوں گا۔۔۔۔۔۔ اجازت دے دیں مجھے پلیز۔۔۔۔۔۔” وہ سر جھکاأے بول رہا تھا اور ڈاکٹر فاروق سوچ میں پڑ گئے تھے۔

”ایسا کرتے ہیں ارمینہ سے ڈسکس کرتے ہیں پھر فیصلہ کریں گے۔” انہوں نے مسکرا کر عمر کو کہا تو وہ گردن ہلاتا ہوا اٹھ گیا۔

”عمر۔” ارمش نے اسے اۤواز دی تو وہ پلٹا تھا۔

”جی؟”

”اگر یہ سب تم میری وجہ سے کر رہے ہو۔۔۔۔۔۔ تو مت کرو۔” عمر کی اۤنکھ میں ٹھہرا ایک اۤنسو چھلک گیا تھا۔

”نہیں۔۔۔۔۔۔ میں سب اپنے لیے کر رہا ہوں ارمش بھاأی۔” کہہ کر وہ چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد اس نے ڈاکٹر فاروق سے مزید تفصیلی گفتگو کی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ گھر پہنچی تو کسی ٹرانس میں تھی۔ اس کے ذہن پر صرف عمر سوار تھا۔ اس نے دیکھا تھا عمر نے کتنے دل سے امتحانوں کی تیاری کی تھی۔

”ارمینہ اۤگئی۔” پاپا اس کے اۤنے پر کمرے سے باہر اۤگئے تھے۔

”پاپا ایک بات کہوں؟”

”ہاں بیٹے؟”

”ہم شکرپاراں نہیں جاتے۔” وہ اس کے جملے پر یک دم پریشان سے ہو گئے تھے۔

”کیوں کیا ہوا؟”

”عمر ہے ناں۔۔۔۔۔۔ اسے ایک بیماری ہو گئی ہے جس کا اۤج ہی پتا چلا۔۔۔۔۔۔ اس کی طبیعت ٹھیک نہیں اور اس کے امتحان سر پر ہیں۔۔۔۔۔۔ دل عجیب سا ہو رہا ہے۔” صوفے پر بیٹھتے ہو”ے اس نے بہت تھکے ہو”ے انداز میں کہا تھا وہ اپنی بیساکھی کے سہارے چلتے اس کے قریب اۤگئے تھے۔

”اگر تمہارا دل نہیں ہے تو ہم نہیں جاتے۔”

”بلکہ چلتے ہیں۔” وہ اچانک کو”ی خیال اۤنے پر بولی تھی۔

”کیوں کہ پاپا وہاں میری ایک دوست ہے جو ایسی بیماریوں پر ریسرچ کر رہی ہے تو میں اس سے بھی مل لوں گی۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا۔”

”اچھا چلو پھر چلتے ہیں۔” وہ لوگ شام تک شکرپاراں پہنچ گئے تھے وہ شکر پاراں میں ایک گیسٹ ہاأوس میں ایک فلور پر رکے تھے جو پاپا کے کسی فوجی دوست کا تھا۔ انہیں وہاں پہنچے اۤدھا گھنٹہ ہی ہوا تھا جب ڈاکٹر فاروق کا فون اۤیا تھا۔ اس کی سانس تقریباًرک گئی تھی۔ کہیں عمر کو کچھ۔۔۔۔۔۔ اس نے ڈرتے ڈرتے فون کان سے لگایا۔

”ارمینہ ایک بات ڈسکس کرنی تھی تم سے۔” اسے کچھ اطمینان ہوا پھر انہوں نے ساری بات اسے تفصیل سے بتا دی تھی۔ وہ سوچ میں پڑ گئی تھی۔

”ڈاکٹر فاروق۔۔۔۔۔۔ تہمینہ شکرپاراں میں ہے اۤپ کو یاد ہو گی تہمینہ میں اس سے پوچھ کر اور اس سے بات کر کے اۤپ کو بتاتی ہوں۔” تہمینہ ان کی مشترکہ کولیگ تھی اس لیے وہ بھی اس سے واقف تھے۔

اگلی صبح فجر کی نماز کے بعد وہ لوگ قبرستان گئے تھے۔ وہ جب بھی وہاں جاتی بہت دیر تک دل بھر کر رویا کرتی تھی۔ پاپا اس کے برعکس رویا نہیں کرتے تھے۔ وہ بس ایک کونے میں بیٹھ کر ان دونوں قبروں کو دیکھتے رہتے۔ واپس اۤکر وہ تہمینہ سے ملنے گئی تھی۔ تہمینہ نے اسے عمر کے امتحان کی رضا مندی ظاہر کی تھی۔ وہ لوگ اسی دن کے بجاأے اب اگلی صبح واپس اۤرہے تھے۔

”ارمینہ میرا فون نہیں اٹھا رہی عمر۔۔۔۔۔۔ اسے کیا ہوا کل بھی مجھ سے عجیب طرح بات کر رہی تھی۔” وہ دونوں دالان میں ایک درخت سے ٹک کر بیٹھے تھے جب ارمش نے اس سے پوچھا تھا۔

”اچھا؟ پتا نہیں کل مجھ سے تو پوچھ رہی تھی اۤپ کے بارے میں۔”

”کیا پوچھ رہی تھی؟”

”یہی کہ اۤپ اۤخری بار کب اۤءے تھے میں نے بتایا اۤپ نے فون کر کے چیزیں اور دواأوں وغیرہ کا بتایا تھا۔”

”اب کیا ہو گیا پھر اسے؟”

”رہنے دیں۔۔۔۔۔۔ پریشان ہو گی یا پھر اۤپ نے کچھ کہہ دیا ہو گا جس کی وجہ سے وقتی غصے میں ہو گی۔۔۔۔۔۔”

”نہیں یار۔۔۔۔۔۔ ایک ہفتے سے زیادہ ہو گیا اس سے بات ہی نہیں ہو”ی میری جب سے سڈنی گیا ہوں۔”

”پتا نہیں پھر۔۔۔۔۔۔” عمر نے کندھے اچکا کر کہا تھا۔

”ویسے وہ بہت کیوٹ ہے۔۔۔۔۔۔ نہیں” عمر نے کہا تو اس کی بات پر مسکرا دیا۔

”بہت ضدی بھی ہے۔” ارمش نے ترکی بہ ترکی کہا تھا۔

”اسے سوٹ کرتا ہے۔”

”بہت زیادہ بولتی ہے۔”

”اچھا بولتی ہے۔”

”ضرورت سے زیادہ حساس ہے۔”

”اس کا حق ہے۔”

”ضرورت سے زیادہ معصوم ہے، رکشے والے کو اپنے ایئررنگز اتار کر دے رہی تھی۔”

”ایمان دار اور خوددار ہے۔”

”اتنی تعریفیں کیوں کر رہے ہو اس کی عمر؟”

”deserve کرتی ہے سچ کہہ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس کے منہ پر کروں گا تو اتراأے گی اس لیے چھپ کر کر رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا وہ مغرور ہو جاأے۔” عمر کے اس دل چسپ تبصرے پر ارمش ہنس پڑا تھا۔

”اور اۤپ اس کی براأی کیوں کر رہے ہیں؟” وہ خفا سا ہو کر کہہ رہا تھا۔

”براأی کہاں۔۔۔۔۔۔ میں تو اس کی شخصیت کے حقاأق بتا رہا ہوں۔ جانتے ہو ان ہی حقاأق کی وجہ سے وہ اتنی مکمل سی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ یہ تمام چیزیں اسے ویسا بناتی ہیں جیسی وہ ہے۔۔۔۔۔۔ عزت اور احترام کے قابل۔۔۔۔۔۔ محبت کیے جانے کے لاأق۔” وہ کسی ٹرانس میں کہتا چلا جا رہا تھا۔

”اچھی لگتی ہے وہ اۤپ کو؟” عمر نے اس سے وہی سوال کر لیا تھا جو وہ خود سے بھی اکثر کرتا تھا۔

”ہاں! جیسے تمہیں اچھی لگتی ہے ویسے ہی مجھے بھی اچھی لگتی ہے۔۔۔۔۔۔ وہ ہے ہی اچھی۔”

”اسے بتاأوں گا کہ اۤپ اس کی تعریف کر رہے تھے۔”

”مت بتانا ورنہ وہ اتراأے گی۔۔۔۔۔۔ میں نہیں چاہتا وہ مغرور ہو جاأے۔” وہ دونوں ہنس پڑے تھے۔

پتا نہیں ان تینوں میں ایسا کیا تھا کہ جب عمر اور ارمش اکٹھے ہوتے تو ارمینہ کو نہیں بھولتے تھے۔ وہ جیسے نہ ہو کر بھی ان کے بیچ رہتی تھی، کبھی وہ اس کی خوبیوں کا اعتراف کرتے وقت گزار دیتے اور کبھی یہ سوچ کر اسے کب اور کیا بول کر تنگ کیا جا سکتا ہے۔ مگر کسی نہ کسی طرح وہ ان کے بیچ ہوتی تھی۔ جس طرح ہوا میں خوشبو۔۔۔۔۔۔ اۤنکھوں سے اوجھل مگر محسوس کی جانے والی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

سڈنی جانے سے پہلے ارمش بیمار بھی تھا اور مصروف بھی، اس کے پاس کمپنی کا بھی ڈھیروں کام تھا۔ وہ اسی میں مصروف تھا جب ارمینہ کی کال اۤءی تھی اور اس سے بات کرنے کے بعد اگلی صبح اسے ڈدینیل ہیریسن کی میل موصول ہو”ی تھی۔ ڈینیل کی فیملی جس میں اس کی بیوی اور بیٹی تھے ایک کار ایکسیڈنٹ میں دنیا سے چلے گئے تھے۔ اس سے میل پڑھ کر رہا نہیں گیا اور وہ اگلی فلاأٹ سے سڈنی چلا گیا۔ وہ funeral کے بعد بھی سڈنی میں ہی رہا تھا۔ اس نے ڈینیل کی حالت دیکھتے ہو”ے funeral کے سارے انتظامات خود سنبھالے تھے اور funeral کے بعد بھی وہ سڈنی میں ہی رہا تھا اور چار پانچ دن پھر کر وہ واپس اۤگیا تھا۔ اس کے بعد وہ کمپنی کی مصروفیات میں ایک بار پھر غرق ہو گیا تھا۔ اسے خبر تک نہیں تھی کہ اس کی غیرموجودگی میں بابا نے ارمینہ سے کو”ی ملاقات کی تھی، اسے تو یہ بھی نہیں معلوم تھا کہ ارمینہ اس کے گھر اۤءی تھی۔ وہ سڈنی گیا تھا مگر اس کے جانے کو بہت غلط انداز میں پیش کیا گیا تھا اور اسے خبر تک نہیں تھی۔ اسے لگا تھا ارمینہ کے اس سلوک کی وجہ شاید عمر کی طبیعت تھی، وہ نہیں جانتا تھا ارمینہ نے اس سے ہر تعلق ختم کرنے کا فیصلہ کر رکھا تھا۔

وہ گھر اۤیا تو سیدھا اسٹڈی چلا گیا۔ اسے پتا تھا بابا اس وقت گھر پر نہیں ہوں گے اسی لیے اسٹڈی خالی تھی۔ وہ اس وقت اکیڈمی چلے جاتے تھے۔ اسے بابا کی اسٹڈی سے کسی کتاب کی ضرورت تھی۔ تو وہ وہی ڈھونڈ رہا تھا۔ ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہ ایک شیلف تک چلا گیا تھا جو قدرے پیچھے کی طرف تھا۔ اس نے ان کتابوں کا نام پڑھا تو حیران رہ گیا تھا۔ وہ بہت پرانی مگر اب بہت نایاب کتابیں تھیں جو بابا نے دنیا بھر سے اکٹھی کر رکھی تھیں۔ ان ہی میں سے ایک کتاب کو نکال کر وہ اس کا جاأزہ لینے گا، پھر دوسری، پھر تیسری ایک ایک کر کے اس نے سات کتابیں نکال تھیں اور ان کی دھول اور گرد صاف کرنے لگا۔ ایک کتاب پر اۤکر اس کے ہاتھ ٹھہر گئے تھے۔ اس کتاب پر گرد نہیں جمی تھی۔ اسے حیرت ہو”ی، یہ کتاب بابا بہت پہلے پڑھ چکے تھے پھر اس پر گرد کیوں نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ ”ایک سپاہی کی کہانی۔”اسے یاد اۤیا وہ کتاب بھی ایسی ہی تھی یا شاید یہی تھی اس بات کو بہت سال گزر چکے تھے مگر وہ قصہ اسے اتنی تکلیف پہنچاتا تھا کہ اسے اس رات کی ہر بات پوری تفصیل کے ساتھ یاد تھی۔ یہ وہی کتاب تھی مگر اب بھی اسی طرح یہاں موجود تھی۔ وہ کتاب کھول کر پڑھنے لگا تھا مگر وہ کسی کی کہانی نہیں تھی بلکہ اس میں دنیا کے چند عجاأب گھروں کی تفصیلات تھیں۔ ایسی تفصیلات جو عام لوگوں کو معلوم نہیں تھیں اور اس کے مصنف نے بہت معلومات حاصل کرنے کے بعد اسے لکھا تھا۔

”شاید میں غلط سوچ رہا ہوں ہو سکتا ہے یہ کو”ی اور کتاب ہو۔” وہ سوچ کر کتاب رکھنے لگا جب اس میں سے ایک تصویر اس کے قدموں میں اۤگری تھی، اس نے تصویر اٹھاأی تھی اور اس کے پیچھے لکھے نام کو پڑھا۔ جسے پڑھتے ہی اس کے ہوش اڑ گئے تھے۔

”ارمینہ سرفراز محمود۔” اس نے زیرلب دہرایا اتھا اور پھر ساکت ہو گیا۔ اس نے تصویر کو پلٹ کر دیکھا، وہ چھے یا سات سال کی بچی کی تصویر یقینا ارمینہ کی تھی۔ اس کے چہرے کو دیکھ کر یہ بات واضح تھی اور نیلی اۤنکھیں وہ ان نیلی اۤنکھوں سے دھوکا کھا ہی نہیں سکتا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس کی اۤنکھیں نہ پہچانتا۔

”ارمینہ اور بابا کا کیا تعلق ہے۔۔۔۔۔۔؟”

”وہ اسے پہلے سے جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔؟”

”سرفراز۔۔۔۔۔۔”۔۔۔۔۔۔

”ارمینہ سرفراز۔۔۔۔۔۔”۔۔۔۔۔۔

”انکل سرفراز۔۔۔۔۔۔”۔۔۔۔۔۔

” پیراٹروپر سرفراز محمود۔۔۔۔۔۔ کڑیاں ملنے لگی تھیں۔”۔۔۔۔۔۔

پاپا کہتے ہیں ہر پاکستانی کا سب سے پسندیدہ رنگ سبز اور سفید ہونا چاہیے۔۔۔۔۔۔ سبز اور سفید۔۔۔۔۔۔ اسے ہوا میں پھیلا ہوا دھواں یاد اۤیا اور اۤنکھوں کی وہی منفرد چمک یاد اۤءی تھی۔

”تم اۤتے ہو تو اچھا لگتا ہے ارمش۔” شفقت بھری اۤواز اس کے کانوں میں گونجی تھی۔

”مجھے وہ لڑکی پسند نہیں ہے۔” اۤخر میں اس کا ذہن بس اس ایک جملے پر اٹکا تھا۔۔۔۔۔۔ مجھے وہ لڑکی پسند نہیں ہے۔”

”کیوں؟ اۤپ کو ارمینہ پسند کیوں نہیں ہے پاپا؟ جب اۤپ اس کی تصویر اپنے پاس رکھ سکتے ہیں اسے یاد رکھ سکتے ہیں، اس کی ایک جھلک میں اسے پہچان سکتے ہیں تو پھر وہ اۤپ کو پسند کیوں نہیں ہے۔” اس کا دماغ گھوم کر رہ گیا تھا۔ پزل کا ایک ٹکڑا کہیں مسنگ تھا۔ وہ اسے ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ ارمینہ سرفراز محمود کی تصویر کی یہاں موجودگی کی ہر وجہ جاننا چاہتا تھا۔ وہ اگلے ہی پل اپنی گاڑی میں بیٹھنے کے لیے گھر سے باہر کا رخ کر رہا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!