سبز اور سفید

جن کے بغیر ہیری ہوم ممکن نہیں تھا۔ میرے تمام بورڈکا جو بہترین میں سے بہترین ہے، میرا بہت پیارا دوست ڈینیل ہیریسن، جس نے اۤسٹریلین ہوتے ہو”ے بھی پاکستان سے ہمیشہ دل سے محبت کی، میں تمہارا شکریہ ادا نہیں کر سکتا ڈینیل، کم از کم لفظوں میں تو بالکل نہیں۔ وہ تمام ورکرز جنہوں نے اپنی محنت اور اپنے دن رات ہیری ہوم کو دیئے، ہمارے تمام اسکول اور ہیلتھ کیئر کے حوالے سے تعلق رکھنے والے افراد اور ہر وہ انسان جس نے کسی بھی طرح ہیری ہوم میں اپنا ہاتھ بٹایا۔ ہیری، جس نے مجھے احساس دلایا کہ زندگی قیمتی ہے، صرف چند ایلیٹ کلاس لوگوں کی نہیں بلکہ ہر انسان کی، سڑک کے بھکاری کی بھی، گاڑی صاف کرنے والے بچے کی بھی زندگی اسی طرح قیمتی ہے اور اسے بچانے کا ذمہ ہمارا ہے۔۔۔۔۔۔۔ ”I will be looking forward to your support and leave towards Harry Home….. Thank you.”

اپنی تقریر ختم کرکے وہ سٹیج سے اتر گیا تھا۔ لوگوں کی تالیوں سے ہیری ہوم کا دالان گونج اٹھا تھا، اس نے دور کونے میں کھڑی ارمینہ کو دیکھا، وہ رو رہی تھی۔ وہ جانتا تھا ہیری ہوم اس کے لیے بھی اتنا ہی خاص اور اہم تھا جتنا خود ارمش کے لیے، ان دونوں کو ہی ہیری کا مسکراتا ہوا چہرہ یاد اۤرہا تھا جس کے گواہ اس پورے مجموعے میں صرف وہی دونوں تھے، اس نے اپنا دھیان بابا کی جانب کیا، انہیں اب ربن کاٹنا تھا۔ وہ انہیں لئے مین گیٹ تک اۤیا ارمینہ بھی کھڑی تھی۔ بابا کے چہرے کی بے چینی واضح تھی، اسے تشویش ہو”ی کہ بابا کو اچانک کیا ہو گیا تھا، اس نے ان کے ہاتھ میں قینچی تھماأی اور انہوں نے ربن کاٹ دیا۔ ارمش نے ان کے ہاتھوں کی لرزش صاف محسوس کی تھی۔ ربن کاٹتے ہی امی بابا چلے گئے اور ان کے اصرار پر ارحم رحمت اور امل بھی چلے گئے۔ صبح اس کے چہرے پر اۤءی چمک ان کے جاتے ہی ماند پڑ گئی۔

تمام کام نپٹاتے ہو”ے انہیں شام ہو گئی تھی۔ وہاں چند کام سمیٹنے والے ملازمین کے علاوہ ارمینہ، ارمش اور عمر ہی تھے۔ تین گھنٹے کی اس تقریب کے پیچھے ان کی تین مہینے کی محنت تھی۔

رات اۤٹھ بجے کے قریب وہ فارغ ہو”ے اور گھر جانے کیلئے نکلے تھے۔

”اۤءو میں تمہیں ڈراپ کر دوں۔”

”نہیں جاوید بھاأی کو بلا لیتی ہوں وہ اۤجاأیں گے۔” کہتے ہو”ے وہ اپنی انگلی سے انگوٹھی اتارنے لگی تھی وہ بہ غور اسے دیکھ رہا تھا۔ اس کی انگلی میں انگوٹھی جا کر پھنس گئی تھی اور اب وہ کوشش کے باوجود اسے نکال نہیں پا رہی تھی۔

”رہنے دو میں چھوڑ دوں گا اور ایسا کرو انگوٹھی کے ساتھ اپنی انگلی بھی نکال لو۔” اس کے طاقت کے مظاہرے پر اس نے کچھ اکتا کر کہا۔

”کیا کروں یہ نکل ہی نہیں رہی ہے اور اتنی ٹاأٹ ہو گئی ہے کہ اب انگلی میں تکلیف دے رہی ہے۔”

”پہنی کیوں تھی؟”

”اس وقت اندازہ نہیں تھا کہ اتنی مشکل ہو گی اسے اتارنے میں۔” وہ اب چلتے چلتے گاڑی تک اۤگئے تھے۔

”دکھاأو۔” اس نے ہاتھ کی پہلی انگلی میں موجود اس انگوٹھی کو دیکھا جو واقعی اس کی انگلی کو تکلیف دے رہی تھی۔ اس نے انگوٹھی کو گھمانا شروع کیا بہت اۤہستہ اۤہستہ، ایسے کہ ارمینہ کو تکلیف نہ ہو۔ وہ اسے گھماتا گیا اور انگوٹھی کی گرفت انگلی پر ڈھیلی پڑتی گئی۔ کچھ لمحوں بعد اس نے نرمی سے اس کی انگلی سے انگوٹھی کو الگ کر دیا اس کی انگلی پر انگوٹھی کا نشان واضح تھا۔

”جو چیز تکلیف دے اسے پھینک دینا چاہیے۔” اس نے اس کی اۤنکھوں میں دیکھ کر کہا۔

”جس چیز سے محبت ہو اسے نہیں پھینکا جاتا، چاہے وہ تکلیف ہی کیوں نہ دے۔” اس نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔

وہ اس کی نیلی اۤنکھوںکو، اس کی ہر حرکت کو محسوس کر سکتا تھا، جب وہ روتی تھی تو اس کی اۤنکھیں سُرخ ہونے میں چند لمحے لگتے تھے، جب وہ زیادہ جاگ لیتی تھی تو اس کی اۤنکھوں کے گرد سیاہ حلقے اور گہرے ہو جاتے تھے، زیادہ دیر لیپ ٹاپ پر کام کرنے سے اس کی اۤنکھیں سوجنے لگتی تھیں، اس نے اتنے مہینوں میں اس کی اۤنکھوں کے تمام رنگ ڈھنگ دیکھے تھے۔ پھر بھی ہر بار اس کی اۤنکھیں اسے پرکشش لگتی تھیں۔ نیلے سمندر جیسی گہری، پراسرار، مگر خطرناک حد تک خوبصورت۔ اس نے ارمینہ کا ہاتھ چھوڑ دیا۔

”چلو اب میں تھک گئی ہوں۔” اس کے جملے پر ارمش نے نظریں جھکا لی تھیں۔۔۔۔۔۔ کو”ی ارمینہ کو بتاتا کہ یہ جاننے کے لیے کہ وہ تھکی ہو”ی ہے، اسے لفظوں کی ضرورت نہیں تھی۔

”بیٹھو۔” کہتا ہوا وہ بھی گاڑی میں اۤ بیٹھا۔

”وہ ایئررنگز تمہیں پسند نہیں تھے کیا جو تم وہ اس رکشے والے کو دے رہی تھیں؟” اسے اچانک خیال اۤیا تو وہ پوچھ بیٹھا۔

”پسند؟۔۔۔۔۔۔ وہ بہت قیمتی ہیں۔ مجھے پاپا نے دیئے تھے جب میرا میڈیکل کالج میں داخلہ ہوا تھا، میں انہیں کان سے نہیں اتارتی۔”

”تو پھر اسے کیوں دے رہی تھیں؟”

”کسی کی روزی سے زیادہ اہم تو نہیں تھے ناں؟ میرے کان میں ایئررنگ ہونے سے زیادہ اہم اس کے گھر میں رزق ہونا ہے۔” وہ ونڈ اسکرین سے باہر دیکھتے ہو”ے بول رہی تھی اور ارمش چہرے پر مسکراہٹ سجاأے سن رہا تھا۔

”تم خوش ہو اۤج؟” اس نے ارمش کی طرف دیکھ کر اس سے سوال کیا۔

”ہاں” کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے جواب دیا، جواب مختصر تھا۔

”نہیں تم خوش نہیں ہو۔” ارمینہ نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔

”کیوں؟” وہ حیران ہوا۔

”کیوں کہ تمہارے چہرے پر شکنیں ہیں اور تم اۤنکھیں ملا کر جواب نہیں دے رہے جھوٹ بول رہے ہو سمپل۔” اس نے کندھے اچکا کر کہا۔

”اۤنکھیں اس لیے نہیں ملا رہا کیوں کہ گاڑی چلا رہا ہوں، شکنوں کی وجہ تھکن ہے۔۔۔۔۔۔ سمپل۔” اس نے اسی انداز میں جواب دیا۔

”تم جھوٹ بول رہے ہو ارمش۔” ارمینہ نے نفی میں گردن ہلاتے ہو”ے کہا۔ اس بار ارمش نے گردن ارمینہ کی طرف موڑی تھی۔

”اتنے یقین سے کیسے کہہ سکتی ہو؟”

”بس کہہ سکتی ہوں۔” وہ سر جھٹک کر ایک بار پھر گاڑی چلانے میں مصروف ہو گیا۔

”ارمش تمہارے بابا جلدی کیوں چلے گئے؟” اس نے سوال کیا تو ارمش کچھ دیر خاموش رہا پھر بولا۔

”معلوم نہیں !شاید ان کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی۔”

”ہاں ان کے چہرے سے لگ بھی رہا تھا جیسے وہ پریشان ہیں۔” ارمش بھی سوچ میں پڑ گیا۔ ان کے جانے کی اصل وجہ جاننے کا اب اسے تجسس تھا۔

”ارے رکو شاید یہ والی اسٹریٹ بند ہے یہاں کنسٹرکشن ہو رہی ہے، تم یہیں روک دو گاڑی میں چلی جاأوں گی یہاں سے زیادہ دور نہیں ہے۔” اس نے گاڑی روک دی تھی۔ کام جاری ہونے کی وجہ سے گاڑی گلی کے اندر داخل نہیں ہو سکتی تھی۔

”کیا میں تمہارا شکریہ ادا کروں؟” اس نے شوخ انداز میں پوچھا تھا۔

”ضرورت نہیں۔” وہ مسکرا دیا۔

”بہت بہتر! تم کہتے تب بھی میں نہ کرتی۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔” وہ باہر نکل گئی تھی اور وہ اسے جاتے ہو”ے دیکھتا رہا۔ ارمینہ سڑک کے کنارے چلنے لگی اس نے کسی کے قدموں کی اۤہٹ محسوس کی وہ جانتی تھی ارمش گیا نہیں تھا۔ ارمینہ نے پلٹ کر دیکھا اس سے چند قدموں کے فاصلے پر ارمش خاموشی سے اس کے پیچھے چل رہا تھا۔ وہ اچانک رک کر پلٹی۔

”تم گئے کیوں نہیں؟”

”سوچا تم کہیں راستے میں ہی سو نہ جاأو بہت تھکی ہو”ی ہو ناں۔” اس نے شرارت سے کہا۔

”فضول باتیں کروانی ہوں تو تم حاضر ہو۔ ہے ناں؟” اس نے جواب میں کندھے اچکاأے تھے جیسے ہاں ہی تھی۔ اب وہ برابر برابر چل رہے تھے۔

”تم پر سیاہ شلوار قمیص سوٹ کرتا ہے۔” کچھ لمحوں کے وقفے کے بعد اس نے کہا۔

”تمہیں میری تعریف کا خیال کیسے اۤیا؟”

”کیوں کہ تمہاری طرح کنجوس نہیں ہوں میں تعریف کے معاملے میں، جو اچھا لگے اس کی تعریف کر دیتی ہوں۔”

”تو میں اچھا لگتا ہوں تمہیں؟” اس نے معصومیت چہرے پر سجاأے پوچھا۔

”میں تمہاری نہیں، شلوار قمیص کی تعریف کر رہی ہوں۔”

”اچھا” مسکراتے ہو”ے جواب دے کر ارمش خاموش ہو گیا تھا۔ اگر اسے امید تھی کہ ارمش کچھ شرمندہ ہو کر بدلے میں اس کی تعریف کر دے گا تو یہ خوش فہمی ثابت ہو”ی تھی۔

”تمہارے پاپا کب اۤءیں گے؟”

”کل صبح۔” چلتے چلتے اب وہ گھر کے سامنے اۤگئے تو اس نے چابی سے گھر کا دروازہ کھول لیا۔

”خدا حافظ۔” دروازے پر کھڑے ہو کر اس نے کہا۔

”تم روتے ہو”ے اچھی لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ خدا حافظ۔” کہہ کر وہ پلٹ گیا۔ یہ اس کا تعریف کرنے کا انداز تھا اور وہ سوچ میں پڑ گئی کہ اسے ہنسنا چاہیے کہ سلگنا چاہیے۔ کبھی کبھی وہ بہت حساس سا انسان بن جاتا تھا کہ اسے اس پر ترس اۤتا کہ اس سے معصوم کو”ی ہے ہی نہیں اور کبھی اسے اس پر اتنا غصہ اۤتا کہ وہ اسے بے بس ہو کر دیکھتی رہ جاتی۔ ارمش اسے کبھی سمجھ نہیں اۤیا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ اپنے کمرے میں اۤءے تو ان کی حالت خراب تھی۔ ثمینہ انہیں دواأیں دینے کے بعد خود بھی سونے کے لیے لیٹ گئی تھیں۔ اور وہ بستر پر لیٹے اۤج ہونے والے واقعات کے بارے میں سوچ رہے تھے۔ نیند ان کی اۤنکھوں سے کوسوں دور تھی وہ اسے بھلا نہیں پا رہے تھے۔ اس کا چہرہ، اس کی اۤواز انہیں مسلسل ہانٹ کر رہی تھی۔ انہوں نے اسے بس کچھ دیر ہی دیکھا تھا پھر بھی وہ اس کے چہرے کے خدوخال پوری تفصیل کے ساتھ بیان کر سکتے تھے۔ انہوں نے اس پوری تقریب کے دوران اسے وقفے وقفے سے دیکھا تھا وہ بیچ میں چند لمحوں کے لیے رو”ی بھی تھی، ہنسی بھی تھی اور اسے غصہ بھی اۤیا تھا۔ انہیں اس کے ہر جذبے میں کسی کی جھلک نظر اۤرہی تھی۔ وہ چہرہ جو ان کی زندگی میں ہر چہرے سے زیادہ خاص تھا، وہ نام جو انہیں ہر نام سے زیادہ پیارا تھا۔ وہ نام، وہ چہرہ ان کے ذہن سے کبھی محو نہیں ہوا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!