سبز اور سفید

”حد کرتی ہو! ارمش اۤءو باہر اۤجاأو۔”

”جی”! وہ ہاتھ دھونے سنک کی طرف چلا گیا اور وہ اپنی ویل چیئر کھسکاتے صوفوں کی طرف بڑھ گئے۔ اتنے میں ارمینہ اس کے لیے ٹشو لے اۤءی تھی۔

”شکریہ” وہ کچن سے جانے لگا تو ارمینہ نے اس سے کہا۔

”یہ مت سمجھنا میں نے تمہاری ہیلپ کی ہے۔ میں نے سوچا انکل کو ایک دن تو ڈھنگ کا کھانا ملے۔” کہتا ہوا وہ کچن سے باہر چلا گیا اور وہ مسکرا کر رہ گئی تھی۔

”کہو بھئی کیسا جا رہا ہے ہمارا ہیری ہوم؟”

”اۤپ کی دعاأیں ہیں انکل بہت اچھا جا رہا ہے۔ کام تو تقریباً ختم ہو چکا ہے۔ بس اگلے ہفتے افتتاحہے۔ اۤپ بھی اۤءیے گا۔ مجھے بہت خوشی ہو گی۔”

”بیٹا میرا اۤنا ذرا مشکل ہے۔ تمہیں پتا ہے میں گھر سے ذرا کم نکلتا ہوں۔”

”جانتا ہوں مگر اۤپ میری inspiration ہیں، میں چاہتا ہوں اۤپ وہاں ہوں۔”

”وعدہ نہیں کرتا مگر کوشش کروں گا۔” ان کے جواب پر وہ مسکرا دیا۔

”اۤٹھ بج گئے ہیں اور کھانا ٹیبل پر لگ گیا ہے۔ چلیں اۤجاأیں باقی باتیں ڈنر ٹیبل پر۔” وہ اعلان کرتی لاأونج میں داخل ہو”ی تھی۔ کچھ دیر بعد وہ لوگ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ رہے تھے اور ارمینہ ایئرپورٹ کا کو”ی قصہ دونوں کے گوش گزار کر رہی تھی۔

”کتنی دفعہ کہا ہے کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ کر باتیں نہیں کرتے مگر تمہیں سارے دن کی کہانیاں کھانے کی میز پر ہی یاد اۤتی ہیں۔” اس کے قصے سے تنگ اۤکر سرفراز صاحب نے کہا۔

”کیا کروں پاپا اس وقت میرا دماغ فارغ ہوتا ہے۔ مجھے وہ سب کچھ یاد اۤجاتا ہے اور میں اۤپ کو بتاتی جاتی ہوں۔”

”جبھی تمہیں ہر روز کھانے کے دوران پھندا لگ جاتا ہے۔” وہ سنجیدگی اور نرمی سے بولے تھے۔ ارمش دلچسپی سے ان کی باتیں سن رہا تھا۔ کہیں نہ کہیں اسے ارمینہ سے کامپلیکس ہوا تھا۔ اس کے پاپا ارمش کی پرواہ کرتے تھے اس سے محبت بھی کرتے تھے مگر اس کا اس طرح اظہار نہیں کرتے تھے جو ارمینہ کو سننا نصیب تھا۔ ارمش اور اس کے پاپا کے بیچ کسی قسم کا کو”ی کھچاأو نہیں تھا مگر اس نے تو ابھی تک ان کو ہیری ہوم کی افتتاحی تقریب کے بارے میں بھی نہیں بتایا تھا۔ اسے کچھ شرمندگی ہو”ی وہ اب ٹیبل پر بیٹھ چکے تھے۔

”ارمش اۤیا تھا تو کچھ اچھا بنا لیتیں ارمینہ! اسے بس ویجیٹیبل راأس کھلا کر بھیج دو گی تم؟”

”نہیں انکل میں بس اۤپ سے ملنے اۤیا تھا مگر ویجیٹیبل راأس تھے اس لیے کھانے بیٹھ گیا۔ میں سادے کھانے کا شوقین ہوں۔ ویسے بھی بابا کہتے ہیں سادے کھانے میں برکت ہوتی ہے۔”

ان کے ہاتھ یک دم رک گئے تھے اور چہرے کے تاثرات تبدیل ہو گئے مگر کسی نے محسوس نہیں کیا۔

”ارے واہ! میرے پاپا کا بھی یہی خیال ہے لیکن میرے پاس اس کی ایک لوجک ہے۔ پتا ہے سادہ کھانا کم کھایا جاتا ہے اس لیے اس میں برکت ہوتی ہے۔ It’s human behaviour اگر کھانا من پسند نہ ہو تو پیٹ جلدی بھر جاتا ہے اس لیے زیادہ بچ جاتا ہے۔”

”ارمینہ” انہوں نے اسے گھورا تو وہ خاموش ہو گئی۔

”فرید بابا میں کب سے اۤپ کا انتظار کر رہی ہوں۔ چلیں جلدی اۤجاأیں باقی کام بعد میں مل کر لیں گے۔” اس نے فرید بابا کو بلاتے ہو”ے کہا۔

”اچھا بیٹا!” وہ اۤکر ٹیبل پر بیٹھ گئے تھے۔ ارمش کیلئے یہ سب کچھ نیا تھا۔ اس گھر میں بہت اپناأیت تھی۔ ارمینہ کا گھر چھوٹا تھا مگر خلوص اور محبت سے بھرپور تھا۔ ان کے پاس جو جیسا تھا وہ اس میں خوش تھے۔ ان کی زندگی مکمل تھی کہیں کو”ی خلا نہیں تھا۔ خلا اگر کہیں تھا تو اس کی اپنی ذات میں تھا۔ کم از کم اس نے یہی سوچا تھا۔

”ارمینہ سبزیوں کو دیکھ کر ہی لگ رہا ہے کہ یہ ارمش نے کاٹی ہیں۔” وہ کھانا کھا چکے تو بولے۔

”کیوں اۤڑھی ٹیڑھی ہیں؟” اس نے مکمل سنجیدگی سے چمچہ منہ میں ڈال کر کہا۔

”نہیں بہت سلیقے سے کٹی ہو”ی ہیں۔” وہ جانتی تھی جواب یہی اۤءے گا مگر وہ پھر بھی کچھ شرمندہ ہو گئی تھی اور ارمش کے چہرے کی مسکراہٹ نے اسے مزید شرمندہ کر دیا۔

”مگر ذاأقہ ویسا ہی ہے جیسا ارمینہ بی بی کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔” فرید بابا واحد تھے جو اس کی مسکراہٹ کی خاطر اس کی حمایت میں بولے تھے۔ اس کی مسکراہٹ واقعی دیدنی تھی۔

”ارمش مجھ سے زیادہ یہ لڑکی فرید بابا کی لاڈلی ہے۔”

”انکل! فرید بابا ٹھیک کہہ رہے ہیں ذاأقہ واقعی اچھا ہے اور یہ ارمینہ کے ہاتھوں کی ہی وجہ سے ہے۔” وہ یک ٹک ارمش کا چہرہ دیکھنے لگی۔ یہ پہلی بار تھا جب اس نے واقعی اس کی تعریف کی تھی وہ خاموشی سے کھانا کھانے لگا۔ وہ لوگ کھانا کھا چکے تو ارمش جانے کے لیے کھڑا ہو گیا۔ اس نے پہلے ارمینہ کے پاپا سے ہاتھ ملایا ۔

”اپنا خیال رکھا کریں انکل۔”

”تم اۤتے رہا کرو بیٹا مجھے بہت اچھا لگتا ہے جب تم اۤتے ہو۔”وہ مسکراأے تھے۔

”جی ضرور اۤءوں گا۔” یہ کہہ کر اس نے فرید بابا سے بھی ہاتھ ملایا۔ ارمینہ اسے دروازے تک چھوڑنے اۤءی۔

”تو اۤج تم نے فاأنلی قبول کر لی میری کو”ی اچھی بات۔”

”اگر تم ویجیٹیبل راأس کی بات کر رہی ہو تو میں تمہارے پاپا کے سامنے یہ تو نہیں کہہ سکتا کہ اس میں نمک تیز ہے انہیں برا لگتا۔” اس نے معصومیت سے فقرہ مکمل کیا اور گاڑی میں بیٹھ گیا۔ وہ ایک مسکراہٹ کے ساتھ اندر اۤگئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

”السلام علیکم امی!” گھر اۤتے ہی اسے امی نظر اۤگئی تھیں۔

”وعلیکم السلام ارمش کہاں ہوتے ہو تم بیٹا؟ نہ دن کا پتا نہ رات کی خبر۔”

”کہیں نہیں ہوتا امی عیش کر رہا ہوں۔” اس کے جملے پر وہ ہنس دی تھیں۔

”اکیلے اکیلے عیش کر رہے ہو میرے بھاأی؟” وہ ارحم کی اۤواز پر یکدم پلٹا تھا۔

”ارحم!” وہ ایک لمحہ میں ارحم کے گلے جا لگا تھا۔

”تمہیں نہیں پتا ارحم تمہیں دیکھ کر میں کتنا خوش ہوں۔”

”مجھے پتا تھا بھاأی تم مجھے مِس کر رہے ہو گے اب ہر کو”ی ارحم رضا ابراہیم تو نہیں۔” ارمش اس کے جملے پر مُسکرایا تھا۔

” ٹھیک کہا! ہر کو”ی ارحم نہیں ہو سکتا۔” وہ ایک بار پھر ایک دوسرے کے گلے لگے۔

”شام سے اۤیا ہوا ہے یہ اور تمہارا پوچھے جا رہا ہے۔” امی نے اسے بتایا تھا۔

”بھابھی اور امل کہاں ہیں؟”

”وہ لوگ بھی سنڈے تک اۤجاأیں گے۔”

”ارے یار تمہیں پتا ہے ناں مجھے تم سے زیادہ انتظار امل کا ہوتا ہے تم اسے ہی نہیں لاأے۔” امل ارحم کی چار سالہ بیٹی تھی۔ اس کے نہ اۤنے پر ارمش نے شکوہ کیا تھا۔

”ہاں جانتا ہوں! مجھ سے زیادہ وہ تمہاری سگی ہے مگر میں جلدی اۤگیا، بیگم صاحبہ کو کچھ دن اپنی امی کے ہاں گزارنے تھے۔”

”چلو ٹھیک ہے مان لیتا ہوں۔”

”کھانا لگا دوں میں اب؟ ارحم کب سے تمہارا انتظار کر رہا ہے کہ تمہارے ساتھ کھانا کھاأے گا۔” وہ کھانا کھا چکا تھا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا وہ ارحم کا دل رکھنا چاہتا تھا۔

”جی لگا دیں امی! مجھے بھی اس کے ساتھ کھانا کھانا ہے۔”

”کیا مجھے نہیں پوچھو گے تم دونوں؟” بابا کی اۤواز پر وہ دونوں پلٹے تھے۔

”اۤءیں بابا سب ساتھ کھاتے ہیں۔” ارحم نے فوراً بابا کو بلایا تھا۔

”ارمش ہیری ہوم کی کا افتتاح کب ہے یار؟” وہ لوگ کھانا کھانے بیٹھ چکے تھے تو ارحم نے سوال کیا۔

”ہاں وہی بتانے والا تھا اگلے ہفتے ہے انشاأ اللہ! اتوار کے بعد رکھیں گے تاکہ بھابھی اور امل بھی شامل ہو جاأیں۔”

”خوش رہو اللہ تمہیں کامیابی دے۔” بابا نے فوراً کہا تھا اور وہ کھانا کھاتے کھاتے رُک گیا تھا۔ اسے ایسے جملے کم ہی سننے کو ملتے تھے۔ اس نے گردن نہیں اٹھاأی بس پلیٹ میں چمچ گھمانے لگا۔ زندگی میں انسان چاہے کتنا ہی اناپرست کیوں نا ہو، کتنا ہی لوگوں کو یقین دلاتا پھرے کہ اسے محبتوں کی ضرورت نہیں مگر جب اسے خلوص اور محبت کی پھوار نصیب ہوتی ہے تو وہ کسی ترسے ہو”ے کی طرح پوری بانہیں پھیلا کر اسے اپنے وجود میں اتار لینے کی کوشش ضرور کرتا ہے۔

اسے ذرا بھی بھوک نہیں تھی مگر پھر بھی وہ سب کے ساتھ چند نوالے کھا کر فارغ ہوا۔ کھانے کے بعد سب کے لیے چاأے اور اس کے لیے کافی بناأی گئی تھی، یہ معمول تھا، سب چاأے پیتے تو وہ کافی ہی پیتا تھا، اسے چاأے سے رغبت نہیں تھی۔

”کتنے دن کے لیے اۤءے ہو ارحم؟” چاأے کا گھونٹ بھرتے ہو”ے بابا نے سوال کیا۔

”دس دن کے لیے بابا۔”

”ہوں! تمہاری ڈیوٹیز تو صحیح جا رہی ہے ناں؟”

”جی بابا! بلکہ بہت اچھی، رضوان سر بہت تعریف کر رہے تھے میری۔” ارحم کے جواب پر ان کے چہرے پر فخر کی چمک ابھری تھی۔ جب کہ اس کا چہرہ کچھ مرجھا گیا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے ارحم سے کو”ی حسد تھا مگر جب بھی بابا ارحم کی تعریف کرتے یا کو”ی اور ارحم کی تعریف کرتا تو اسے عجیب سا احساس کمتری ہونے لگتا تھا۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ جب بھی کو”ی ارمش کے بزنس کی تعریف کرتا تو بابا کا چہرہ سپاٹ ہی رہتا، جیسے انہیں فرق ہی نہ پڑا ہو۔

امی اور بابا سونے چلے گئے تو وہ اور ارحم اوپر اس کے کمرے میں اۤگئے۔

”یہ بتاأو یہ این جی او کا خیال کہاں سے اۤیا تمہیں؟” ارحم نے کاأوچ پر دراز ہوہوتے ہو”ے پوچھا۔ ارمش پہلے ہی بیڈ پر لیٹ چکا تھا۔

”شاید قسمت میں تھا میری۔” پھر اس نے ساری کہانی ارحم کو سنا دی۔

”بہت کم لوگ ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کے واقعات میں چھپی نصیحت کو ڈھونڈ لیتے ہیں اور اس سے بھی کم وہ ہوتے ہیں جو اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ تم نے دونوں کام کئے ہیں۔ I am proud of you my brother!وہ مسکرا دیا۔

”بہت تھکے ہو”ے لگ رہے ہو سو جاأو کل بات کرتے ہیں۔” اس کا چہرہ دیکھ کر ارحم نے کہا۔

”نہیں نہیں یار ارحم بیٹھ جاأو اتنے دن بعد تو تمہاری شکل دیکھنا نصیب ہو”ی ہے۔” ارمش نے کہا تو ارحم ہنس دیا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہیری ہوم کے دروازے پر کھڑا ہیری ہوم کا بورڈ دیکھ رہا تھا جو ابھی ابھی لگا تھا۔ اس نے ایک نگاہ بورڈ پر ڈالی پھر ایک مسرت بھری مسکراہٹ کے ساتھ برابر میں کھڑے عمر کو دیکھا۔

”بولو کیسا لگ رہا ہے عمر؟”

”بہت زبردست ارمش بھاأی۔” عمر اب پہلے سے زیادہ بہتر ہو گیا تھا۔ اتنے دن میں اسے بات کرنے کا طریقہ، کپڑے پہننے کا ڈھنگ، چلنے کا سلیقہ اور لوگوں میں اٹھنے بیٹھنے کے اۤداب سکھانے والا ارمش بھی تھا اور ارمینہ بھی، دونوں کو ہی اس سے کچھ خاص لگاأو تھا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ وہ ہیری ہوم میں اۤنے والا پہلا بچہ تھا۔

ہارن کی اۤواز پر وہ دونوں پلٹے۔ گاڑی میں ارمینہ اور اس کے پاپا بیٹھے تھے۔ وہ چلتا ہوا ان کی کار کے پاس اۤیا۔ عمر بھی ان کے ساتھ تھا ارمش نے انہیں کار سے نکلنے میں مدد دی وہ اب اپنی وہیل چیئر پر بیٹھے ہیری ہوم کے دروازے اور بورڈ وغیرہ کا جاأزہ لے رہے تھے۔

”انکل اۤپ کو یہاں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہو رہی ہے۔ مگر اۤپ نے کل اۤنا تھا ناں۔ افتتاحی تقریب تو کل ہے۔” سلام دعا کے بعد اس نے پوچھا۔

”جانتا ہوں کل ہے مگر میں اۤج ایک کام سے شکرپاراں جا رہا ہوں۔ پرسوں تک اۤءوں گا اس لیے افسوس کہ کل شرکت نہیں کر پاأوں گا۔” ارمش کے چہرے پر اداسی واضح تھی۔

”معاف کرنا بیٹا ضروری کام ہے جبھی میں اۤج اۤگیا تاکہ تمہاری محنت کو سراہ تو سکوں۔” وہ مسکرایا تھا۔

”چلیں کو”ی بات نہیں اۤپ اندر تو اۤءیں۔”

عمر اور ارمینہ بھی ان دونوں کے پیچھے چل دیئے۔ وہ ابھی اندر نہیں گئے تھے۔ کسی نے ارمش کو اۤواز دے کر روکا۔

”مسٹر ارمش رضا ابراہیم اۤپ ہیں؟”

”جی ہاں میں ہوں۔”

”دیکھئے اۤپ کی این جی او غیرقانونی ہے۔ اۤپ اسے اناگریٹ نہیں کر سکتے۔” اور ارمش کے پیروں کے نیچے سے زمین نکل گئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

ان کا نکاح ہو”ے ایک گھنٹہ ہوا تھا۔ اب وہ مہمانوں سے مل رہا تھا۔ اۤج کا دن سرفراز کی زندگی کا سب سے خوبصورت بہار لے کر اۤیا تھا۔ اۤج اس کی زندگی کا ایک مقدس حصہ بن گئی تھی۔ سرخ جوڑے میں سجی وہ کسی شہزادی سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ امی جی کی خوشی کی انتہا نہیں تھی۔ خوشی ان کے چہرے پر اۤنسو بن کر چھلک رہی تھی اور اۤج انہوں نے اپنے اۤنسو نہیں چھپاأے وہ یہ سرشاری سب کو دکھانا چاہتی تھیں۔ زندگی میں خوشی کے جتنے بھی پل تھے ان کے بیٹے کی ہی مرہون منت تھے۔ اۤج شادی میں اۤنے سے قبل انہوں نے اس کی نظر بھی اتاری اور اسے ڈھیر ساری دعاأیں بھی دی تھیں۔ کچھ قبول ہو جانے والی تھیں اور کچھ اللہ کو منظور نہیں تھیں۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اۤپ یہ بات کیسے کہہ سکتے ہیں؟ میری این جی او اۤفیشلی رجسٹرڈ ہے۔ میں نے سارے ریکواأرڈ ڈاکیومینٹس خود جا کر جمع کرواأے تھے، کو”ی مسئلہ نہیں ہوا تھا۔ اۤپ چاہیں تو میرے لیگل ایڈواأزر سے بات کر سکتے ہیں۔” وہ ان کی بات پر ایک دم ہی پریشان ہو گیا تھا۔

”دراصل اۤپ نے جو کاغذات جمع کرواأے ہیں، وہ میچ نہیں ہورہے ۔اۤپ نے مسٹر ڈینیل ہیریسن کو بھی ٹرسٹی بنایا ہے جبکہ انہوں نے ودڈرال کی درخواست جمع کراأی ہے۔ جب تک یہ مسئلہ حل نہیں ہوتا اۤپ اسے اناگریٹ نہیں کر سکتے۔” اس کا دماغ بھک سے اڑ گیا۔

اس این جی او کے ٹرسٹی وہ تمام لوگ تھے جو اس کی کمپنی کا بورڈ تھا۔ ڈینیل ہیریسن وہ اۤسٹریلین نیشنل تھا جو ان کے ساتھ اس بورڈ میں شامل تھا۔ اس نے ٹرسٹی بنانے سے پہلے ہر ایک سے اجازت لی تھی اور سب نے ہامی بھری تھی۔ ڈینیل نے بھی، بلکہ وہ تو بہت خوش تھا۔ البتہ ان میں سے کسی کا بھی این جی او سے ویسا لگاأو نہیں تھا جیسا ارمش کا، مگر بہر حال وہ اس کا حصّہ ضرور تھے۔

”سر مجھے تھوڑا وقت دیں میں اس مسئلے کا حل نکال لوں گا، میں مسٹر ڈینیل سے بات کر لوں گا۔ مگر اۤپ افتتاح ہو جانے دیں سب تیاریاں مکمل ہیں۔”

”جب تک کاغذات verify نہیں ہو جاتے اور یہ مسئلہ حل نہیںہوتا اۤپ افتتاح نہیں کرسکتے۔”

”تو پھر میں یہ مسئلہ اۤج ہی حل کر دوں گا۔” اس نے اپنا موباأل نکال کر ڈینیل کا نمبر ڈاأل کیا۔ اس نے کال ریسیو نہیں کی۔ ارمش کو غصہ نہیں اۤ رہا تھا بلکہ ڈینیل کے رویئے پر حیرانی ہو رہی تھی۔ وہ ایسا نہیں تھا کہ اسے اس طرح بتاأے بغیر withdrawal لے لیتا، مگر اب وہ غاأب تھا۔

”ارمش اب کیا کرو گے؟”ارمینہ نے پریشانی کے عالم میں پوچھا۔ عمر بھی اس کے ساتھ کھڑا تھا۔

”اناگریشن ہو گی ارمینہ انشاأ اللہ۔” اس نے یقینی انداز میں کہا اور جانے لگا۔

”ارمش” اس کے عقب میں سرفراز انکل کی اۤواز سناأی دی۔

”انکل اۤءی ایم سوری! اۤپ پہلی بار اۤءے اور اۤپ کو یہ سب دیکھنا پڑا۔”

”نہیں بیٹا کو”ی بات نہیں مگر میری ایک بات سنتے جاأو۔” وہ ان کے قریب اۤیا اور گھٹنوں کے بل ان کے اۤگے بیٹھ گیا۔ انہوں نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا پھر مسکرا کر کہا۔

”مومن مشکل کے وقت گھبراتا نہیں ہے، میں جانتا ہوں ہیری ہوم کا افتتاح کل ہو گا لیکن یادرکھنا جب انسان کچھ برا کرتا ہے تو سب اۤنکھیں بند کر لیتے ہیں اور اس کی راہ میں کو”ی رکاوٹ نہیں ہوتی۔ مگر جب انسان کچھ اچھا کرتا ہے تو مشکلات گِدھوں کی طرح اس پر حملہ کرتی ہیں۔ ان گِدھوں کو اۤزماأش سمجھنا اور دُعا کرنا کہ اللہ تمہیں ان گِدھوں سے محفوظ رکھے۔ میں بھی دُعا کروں گا۔”

”شکریہ انکل”۔ اس نے ان کے ہاتھ پر ایک بوسہ دیا اور گاڑی میں بیٹھ کر لمحے بھر میں غاأب ہو گیا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ گھر اۤگئے تھے اور گھر اۤتے ہی انہوں نے کسی کو فون کیا۔

”ہیلو ڈینیل! تم نے ایک اچھا کام کیا ہے۔ تمہارا شکریہ۔” انہوں نے کال ریسیو ہوتے ہی انگریزی میں کہا۔

”Pleasure is all mine” جواب مختلف انگریزی لہجے میں اۤیا تھا۔ پھر انہوں نے فون رکھ دیا۔ وہیل چیئر کی پشت سے ٹیک لگاأے وہ مطمئن تھے۔

ارمش فوراً اۤفس اۤیا اور اس نے باقی سب سے پوچھا۔ کسی کو ڈینیل کے اس فیصلے کے بارے میں نہیں پتا تھا بلکہ سب حیران تھے۔ اس نے اندر اۤ کر ڈینیل کے اۤسٹریلین اۤفس کا نمبر ڈاأل کیا۔ فون ریسپشنسٹ نے اٹھایا۔

”ڈینیل سے بات کرواأیں میں ارمش رضا ابراہیم ہوں۔” اگلے لمحے فون پر ڈینیل تھا۔

”ڈینیل تم نے ٹرسٹ سے ودڈرال کی اپیلیکیشن فاأل کی ہے؟”

”ہاں ارمش۔”

”کیوں؟ اور وہ بھی اۤج؟”

”کیوں کہ میں چاہتا ہوں کہ ہیری ہوم گرو کرے۔”

”میری سمجھ میں کچھ نہیں اۤرہا ڈینیل”۔

”اگر تمہاری این جی او میں کو”ی غیرملکی ٹرسٹی شامل ہے تو تم غیرملکی طور پر اپنی این جی او کیلئے فنڈز جمع نہیں کر سکتے تھے اور میں ایسا نہیں چاہتا۔ میں چاہتا ہوں تمہارا فنڈ دنیا کے ہر ملک سے اۤءے، خود اۤسٹریلیا میں بھی میں نے بہت سے لوگوں سے رابطہ کیا ہے، جو تمہاری این جی او کو سپورٹ کرنا چاہتے ہیں مگر میں جب تک بورڈ اۤف ٹرسٹیز میں شامل ہوں تم غیرملکی ڈونیشنز نہیں لے سکتے ارمش۔”

”میں یہ بات بہت پہلے سے جانتا ہوں ڈینیل۔ میں نے تمہیں اپنی مرضی سے شامل کیا تھا سب کچھ جانتے ہو”ے بھی۔ ہم ہمیشہ ساتھ رہے ہیں ڈینیل، تم نے ہر موقع پر میرا ساتھ دیا ہے تو پھر اب؟؟؟”

”میں جانتا ہوں ارمش تم خود سے کبھی نہیں بولتے مگر میں ہیری ہوم کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہتا کیوں کہ میں تم سے اور ہیری ہوم سے بہت پیار کرتا ہوں یار۔ یہ مت سمجھو کہ میں ہیری ہوم کا حصہ نہیں ہوں۔ میں ہوں، تم جب چاہو گے میں حاضر رہوں گا۔ مجھے ٹرسٹ کے اس قانون کا پہلے نہیں پتا تھا مجھے کل ہی پتا چلا، ورنہ میں پہلے ہی یہ کام کر لیتا تاکہ تمہیں پریشانی نہ ہوتی اب مجھے پتا چلا تو میں نے اۤج ہی درخواست ای میل کر دی۔ ”ارمش کچھ بول نہیں پایا۔

دس منٹ کے راستے میں نہ جانے کتنے وسوسے کتنے خوف تھے اسے اور اب دس منٹ بعد یہ سب blessing in disguise تھا۔ اسے ڈینیل پر پیار اۤرہا تھا۔

”تم جانتے ہو ڈینیل تم ایک ایسے اۤسٹریلین ہو جو پاکستانی بھی ہے۔” دوسری طرف ڈینیل کی ہنسی کی اۤواز گونجی تھی۔

”کیوں نہیں ارمش! پاکستان سے محبت کسے نہیں ہو گی؟ اۤخر یہ ارمش رضا ابراہیم کا ملک ہے۔” وہ مسکرا دیا تھا۔

”شکریہ۔”

”شکریہ کی کو”ی ضرورت نہیں ارمش، بس ہیری ہوم کی اناگریشن اسپیچ میں ایک بار ڈینیل ہیریسن کا نام ضرور لینا مجھے خوشی ہو گی۔”

”یہ کہنے کی ضرورت نہیں تھی تمہیں ڈینیل۔”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!