سبز اور سفید

پہلے تم کچھ کھاأو گی پھر کو”ی اور کام۔ ”انہوں نے حتمی انداز میں کہا تو وہ مسکرا دی۔ وہ جانتی تھی اس کے پاپا اس کو خود اس سے بہتر طور پر سمجھتے تھے۔ اس نے مزید کچھ نہیں کہااور وہ چپ چاپ ناشتے کی تیاری کرنے لگی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

“ہیری ہوم” تقریباً تیار تھا، بس اس کی عمارت پر رنگ و روغن کا کام جاری تھا۔ ارمش خود اپنی نگرانی میں سارا کام کروا رہا تھا۔ تاکہ کو”ی چیز رہ نہ جاأے۔ کبھی کبھی وہ خود سوچ میں لگ جاتا کہ وہ کیوں اس کام میں اپنے پورے دل کے ساتھ شامل تھا جب کہ اس نے اپنی کمپنی سے متعلق بھی کسی کام میں اتنی محنت نہیں کی تھی۔ جواب وہ خود ڈھونڈ نہیں پاتا تھا۔ وہ پینٹرز کو بلڈنگ کے کلر کے بارے میں بتا رہا تھا جب اُسے دروازے سے کو”ی اندر اۤتا دکھاأی دیا، وہ ارمینہ تھی۔

”تمہیں ایڈریس کیسے ملا یہاں کا؟” اس کے قریب اۤتے ہی اس نے حیرت سے پوچھا۔

”ذرا ٹھہرو، سلام دعا کرتے ہیں پہلے تمہیں شاید عادت نہیں اس کی۔” اس نے کچھ خفگی سے کہا۔

”اچھا چلو وعلیکم السلام! اب بتاأو۔” ارمینہ نے برا سا منہ بنایا۔

”ہیری ہوم کا ایڈریس ڈھونڈنا کیا مشکل ہے؟ وہ بھی اس انٹرنیٹ کے دور میں اور تم نے ہیری ہوم کو ابھی سے کافی مشہور کر رکھا ہے۔”

”اور یہاں اۤنے کی وجہ؟”

”میں نے سوچا تم اکیلے یہ سب ہینڈل نہیں کر پاأو گے تو میں تمھاری مدد کر دوں اور یہ جو تم اس سامنے والی دیوار پر اۤلمنڈ براأون کلر کروا رہے ہو ناں، یہ اولڈ ہوم میں ہوتا ہے یہاں بچے رہیں گے تو ان کے حساب سے کلر کر واأو یعنی اِس پر تم نیلا رنگ کروا سکتے ہو۔” ارمش نے اپنی مسکراہٹ چھپاتے ہو”ے پینٹر کو ہدایات دیں۔

” یہ لو” ارمینہ نے بیگ سے ایک کاغذ نکال کر اس کے حوالے کیا۔

”یہ کیا ہے؟”

”جب تم چلے گئے تھے تو ہیری تمہارا پوچھ رہا تھا۔ اس نے مجھے یہ تمھہیں دینے کیلئے کہا اور تب دیا جب اس کی طبیعت بگڑ رہی تھی۔ کل یہ میرے پاس نہیں تھا ورنہ کل ہی دے دیتی۔” ارمش نے تہہ شدہ کاغذ کھولا۔ اس پہ دو سطریں درج تھیں۔

؎ زمین والوں سے یہ کہہ کر طلوع ہوتا ہے سورج

اجالے بانٹ دینے سے اجالے کم نہیں ہوتے

اسے پڑھ کر کچھ عجیب سا احساس ہوا وہ بہت بکھری بکھری سی لکھاأی تھی جیسے کسی نے نیا نیا لکھنا سیکھا ہو۔

”یہ کہاںسے اۤءی اس کے پاس؟ اور اس نے مجھے کیوں۔۔۔۔۔۔؟”

”ہاں میں نے پوچھا تھا اس سے، اس نے کہا یہ الفاظ اس کے نہیں ہیں اس نے صرف اس صفحے پر انہیں اتارا ہے وہ سیاہ کار والا بندہ تھا ناں اس نے دیا تھا ہیری کو، پھر اُسے اِس کا مطلب بتایا اور اسے لکھنا سکھایا، پھر ہیری نے یہ دو جملے اپنی لکھاأی میں لکھے۔ ہیری نے پورا ہفتہ اسے لکھنا سیکھا تھا اور دیکھو لکھ بھی لیا۔ وہ اتوار کو یہ لکھاأی اس اۤدمی کو دکھانے والا تھا مگر۔۔۔۔۔۔” الفاظ ٹوٹ گئے تھے۔ وہ ایک وقفے کے بعد پھر بولی۔

”اس نے مجھ سے کہا یہ میں تمہیں دے دوں تاکہ تم یہ اس سیاہ کار والے کو ڈھونڈ کر اسے ایک بار یہ دکھا دو۔۔۔۔۔۔ اس وقت اتنی بھاگ دوڑ مچ گئی تھی پھر میرے ذہن سے نکل گیا اور تمہیں میں کہاں ڈھونڈتی تو میں خود اتوار کے دن اس اسٹاپ پر گئی مگر ہزاروں سیاہ گاڑیاں گزرتی ہیں وہاں سے میں تو جانتی نہیں کہ وہ کون ہے تو واپس اۤگئی۔” وہ خاموش ہو گئی تھی۔ ارمش کی نظر اب بھی اس لکھاأی پر تھی پھر وہ ہلکا سا مسکرایا تو گالوں کے گڑھے نمودار ہو”ے۔

”عجیب تھا وہ بہت۔۔۔۔۔۔نہیں؟” ارمش نے کاغذ تہ کیا اور ارمینہ سے کہا۔

”ہاں کسی پہیلی جیسا بہت پراسرار سا۔”

”ہم اسے ڈھونڈ نا بھی سکےںتو دیکھنا ایک دن وہ خود ہیری کو تلاش کرتا ہوا یہاں ہیری ہوم تک اۤءے گا۔”

”ہوں!” تب ہی ارمینہ کے ہاتھ پہ چند قطرے گرے جو نیلے رنگ کے تھے اس کے چہرے پر مسکراہٹ اۤگئی۔

”لو میں ہیری ہوم کا حصہ بن گئی۔”

”ہاں اچھے کاموں کے درمیان مشکلات تو اۤتی ہیں۔” ارمش نے مسکراہٹ دباتے ہو”ے کہا تو ارمینہ کی مسکراہٹ پل میں ہوا ہو”ی۔ ارمش اسے باتوں میں ہمیشہ مات دے دیا کرتا تھا۔

”ویسے ایک بات بتاأو” وہ پچھلا جملہ بہ ظاہر نظرانداز کر کے بولی۔

”کیا؟”

”تمہارا نام کیا ہے؟” اس نے اب تک ارمش سے اس کا نام تک نہیں پوچھا تھا اسے لگا وہ اس سوال پر حیران ہو گا مگر وہ نہیں ہوا تھا۔

”ارمش احمد رضا ابراہیم۔” بڑے تحمل سے اس نے جواب دیا۔ وہ موباأل کی جانب دیکھتے ہو”ے چند بٹن دبا رہا تھا۔

”بہت لمبا نام نہیں ہے؟ پورا لیتے لیتے ٹرین چھوٹ جاأے۔”

”ہاں اگر گھڑی سات منٹ پیچھے ہو تب بھی ٹرین چھوٹ سکتی ہے۔”اس نے موباأل کی اسکرین دیکھتے ہو”ے برابر جواب دیا۔

”وہ اتفاق تھا ورنہ میری گھڑی بالکل ایکوریٹ ہوتی ہے شاید اس کے سیل ختم ہونے والے تھے۔” ارمش اس کے جواب پر خاموشی سے مسکرایا۔

”ایک اور بات بتاأو” وہ پھر بولی۔

”پوچھو؟”

”تمہیں میں چور لگتی ہوں؟” ارمش نے سر اٹھا کر اس غور سے دیکھا جو معصومیت سے سوال کر رہی تھی۔ پھر دا ہنی طرف مڑ کر چلنے لگا۔ وہ اس کے پیچھے چل دی۔

”میں نے کچھ پوچھا ہے تم سے وہ چڑ کر بولی۔” وہ دیوار کے ساتھ جا کر کھڑا ہو گیا اور دیوار میں لگا نل کھولنے لگا۔

”ہاتھ دھو لو اپنے ورنہ یہ رنگ پکا ہو جاأے گا اور تمھارے ہاتھ خراب ہو جاأیں گے۔” اس نے بے ساختہ اپنے ہاتھوں کو دیکھا اور انہیں نل کے نیچے کر لیا۔ بہتے پانی میں اس کے ہاتھ سے اترتا نیلا رنگ بھی شامل ہونے لگا۔ وہ مشکل سے اس کے ہاتھ سے اتر رہا تھا۔ اگر مزید کچھ وقت رنگ کو یونہی چھوڑ دیتی تو وہ واقعی پکا ہو جاتا اور پھر اسے اسپرٹ سے صاف کرنا پڑتا۔

”شکل سے تو تم چور نہیں لگتیں مگر جس سچویشن میں اور جس طرح تم نے مجھ سے چوتھا گیئر ڈال کر اپنی بات کہی تھی تو ہر عقل مند یہی سوچے گا۔”

”ایسا تو نہیں ہے۔ اگر میں تمہاری جگہ ہوتی تو تمھارے ساتھ جاتی تمھاری مدد کرنے کیلئے۔”

”ہاں تو میں نے عقل مند انسان کی بات کی ہے۔” وہ ہاتھ دھو چکی تو اس نے نل بند کر دیا۔

”اندر جا کر بلڈنگ دیکھ لو اگر چاہو تو۔”

”ضرور!” ارمش کو باہر چھوڑ کر وہ اندر اۤگئی۔

بلڈنگ بلاشبہ بہت وسیع تھی اور اس کی لوکیشن بھی شہر کے بیچوں بیچ تھی تاکہ کو”ی سہولت دور نہ رہے۔ وہ ایک تین منزلہ عمارت جس کی ایک چھت بھی تھی اور اۤگے کے حصے میں باغ تھا جہاں ابھی پودے لگنے باقی تھے۔ اس میں شک نہیں تھا کہ ارمش نے بلڈنگ بہت سوچ سمجھ کر خریدی تھی، ضرورت کے حساب سے زیادہ نا کم۔ وہ دوبارہ باہر اۤءی تو ارمش چبوترے پر بیٹھا عمارت کا جاأزہ لے رہا تھا۔ وہ اس سے کچھ فاصلے پر اۤکر بیٹھ گئی۔ ارمش اب اس کی طرف متوجہ نہیں تھا۔ وہ بلڈنگ کو پینٹ ہوتے دیکھ رہا تھا۔ لاشعوری طور پر وہ اسے دیکھتی رہی۔ اس کے بال سیاہ تھے۔ اۤنکھیں چھوٹی تھیں مگر سیاہ تھیں جن میں ذہانت نمایاں تھی۔ اس کے چہرے کے خدوخال منفرد سے تھے۔ مغرور سی ناک، مسکرانے والے ہونٹ، قدرے سنجیدہ سا چہرہ، لمبا قد اور مضبوط کندھے وہ ہر طرح سے ایک وجیہہ مرد کی تعریف پر پورا اترتا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کسی بہت امیر خاندان سے تھا پھر بھی اس کے اندر سادگی واضح تھی۔ اس نے ہمیشہ اس کا لباس سادہ ہی دیکھا تھا۔ ہاتھ میں سادہ مگر قیمتی گھڑی پہنتا تھا۔ شاید یہ اس کا واحد شوق تھا۔ شرٹ کی اۤستینوں کو کہنیوں تک موڑے، جینز کا پاأنچہ ایک انچ اوپر چڑھاأے، مٹی سے اٹے جوتے پہنے گارڈن کے چبوترے پر بہ اۤسانی بیٹھا وہ ارمش رضا ابراہیم بہت عام سا انسان لگتا تھا جس کی بہت عام سی خواہشات تھیں۔ سکون اور خوشی۔۔۔۔۔۔ اس نے ارمش کے چہرے سے نظریں ہٹا لی تھیں۔

”سر! ہال میں کون سا کلر کرنا ہے؟” پینٹرز میں سے ایک نے اس سے پوچھا۔

”اۤلمنڈ براأون!” اس نے بنا رُکے جواب دیا۔

”پھر اۤلمنڈ براأون!تمہیں اتنا کیوں پسند ہے اۤلمنڈ براأون؟”

”نہیں ایسا کریں اۤپ اندر ہال میں اۤف واأٹ کریں۔ اس سے کمرہ زیادہ روشن اور ٹھنڈا ٹھنڈا لگتا ہے۔” ارمینہ نے اس کی ساری تعریفیں ساأیڈ پر رکھ دی تھیں۔

”ٹھیک ہے! اۤف واأٹ ہی کر لیں۔”اس نے کندھے اچکا کر جواب دیا۔

”بہت بُرا ٹیسٹ ہے تمہارا رنگوں کے حوالے سے۔”

”ہاں مجھے ہمیشہ سے ہی کلرز میں اتنی دلچسپی نہیں رہی۔”

”ایسے کیسے؟رنگوں میں تو ہر ایک کو انٹرسٹ ہوتا ہے۔ پسندیدہ رنگ کون سا ہے تمہارا؟ اۤلمنڈ براأون؟” اس نے شرارتی سی مسکراہٹ کے ساتھ پوچھا۔

”بلیک”

”کیوں؟”

”گہرا ہوتا ہے ناں ہر رنگ اس میں سما جاتا ہے۔ سب سے خوبصورت، سب سے پرکشش۔” ”ارمینہ کو لگا وہ یک دم بہت سنجیدہ ہو گیا ہے۔ کسی سوچ میں گم۔”

تمہارا پسندیدہ رنگ کون سا ہے ویسے؟ غالباً پنک کیوں کہ میں نے تمہیں جب بھی دیکھا ہے پنک کا ہی کو”ی شیڈ پہنے دیکھا ہے۔” وہ ایک لمحے میں پہلے جیسا ہو گیا تھا۔ ارمینہ کو لگا اسے غلط فہمی ہو”ی تھی۔

”نہیں میرے پسندیدہ رنگ دو ہیں۔ سبز اور سفید۔”

“You mean Green and White?”

”نہیں سبز اور سفید۔”

”کیا فرق ہے دونوں میں؟ میں نے انگریزی میں کہا تم نے اُردو میں۔”

”بس یہی فرق ہے۔ میرے بابا کہتے ہیں ہر پاکستانی کو سب سے زیادہ محبت انہی دو رنگوں سے ہونی چاہیے کیوں کہ یہ دو رنگ ہمیں بہ حیثیت قوم دنیا میں ہر ایک سے منفرد بناتے، ہماری پہچان ہیں۔ یہ سینکڑوں کی بھیڑ میں بھی اگر سبز اور سفید الگ الگ ساتھ نظر اۤجاأے تو سب سمجھ جاتے ہیں کہ یہ پاکستانی ہے اس لیے مجھے بھی اپنے بابا کی طرح سب سے زیادہ محبت سبز اور سفید رنگ سے ہے اور رہا سوال اُردو کا، تو سبز اور سفید میں محبت ہے۔ مٹھاس ہے، جذبہ ہے، گرین اور واأٹ یہ تو اپنی زبان ہی نہیں تو اپنا کیسے ہو سکتا ہے؟” وہ چپ ہو”ی تو ارمش نے ایک گہری سانس لی۔

”ٹھیک ہے” وہ بس اتنا ہی کہہ پایا تھا۔

وہ ہمیشہ اپنے بابا کے نظریات سے اختلاف کرتا اۤیا تھا۔ ارمش کی فیلڈ ڈیمانڈ کرتی تھی کہ وہ بیرونِ ملک چلا جاأے۔ اس کے بورڈ کا ایک ممبر اۤسٹریلین تھا، اس نے کئی بار ارمش کو اۤسٹریلیا اۤنے کی اۤفر بھی کی اور اس اۤفر نے ارمش کو بہت اٹریکٹ کیا اور تب اس نے پہلی بار بابا سے اس بارے میں بات کی تھی۔

”نہیں! تمہیں بزنس کرنا ہے، وہ تم کر رہے ہو مگر تم پاکستان سے باہر نہیں جا سکتے۔”

”کیوں بابا؟ میں اۤپ لوگوں کو فورس نہیں کر رہا اۤپ لوگ یہیں رہیں کیوں کہ میں جانتا ہوں اۤپ لوگ یہاں رہنا چاہتے ہیں مگر میں وہاں زیادہ excel کر سکتا ہوں بابا میری کمپنی ترقی کرے گی اور میں اۤگے بڑھنے کے زیادہ مواقع حاصل کر سکوں گا۔”

”میں نے کہا ارمش یہ ٹاپک ختم ہوا! تم یہیں رہو گے پاکستان میں۔”

اس کے بعد اس نے کچھ نہیں کہا تھا اور کچھ مہینوں کے بعد یہ بحث دوبارہ ہوتی اور ارمش کو ہر بار بابا کے اۤگے ہار ماننی پڑتی۔ باپ اور بیٹے کے درمیان تلخیاں بڑھتی گئیں۔ وہ ہر بحث کے بعد ایک دوسرے سے دور ہوتے چلے گئے۔

وہ اپنے بابا سے بہت محبت کرتا تھا۔ ایسا نہیں تھا کہ دونوں کے دل میں ایک دوسرے کے لیے احترام اور پیار کم تھا مگر بس ان کے نظریئے مختلف تھے، ان کی سوچ کسی بھی راہ پر اۤکر نہیں ملتی تھی۔ بچپن سے ہی ارمش کے ہاتھوں میں ہنر تھا۔۔۔۔۔۔ اۤرٹ کا۔۔۔۔۔۔ وہ اسکیچنگ اور پینٹنگ بہت خوبصورت کرتا تھا اور اپنے پروفیشن کے طور پر اختیار کرنا چاہتا تھا مگر بابا نے اس معاملے میں کبھی اس کی حوصلہ افزاأی نہیں کی تھی۔ یوں بھی وہ چھوٹا تھا تو بابا کی بات مان گیا تھا۔ بابا نے ایک بار اس کو پینٹنگ سے منع کیا تو اس نے رنگوں کو ہاتھ لگانا بھی چھوڑ دیا۔ وہ بس اس کو فوج میں دیکھنا چاہتے تھے۔ ایک سچے محب وطن پاکستانی کے طور پر۔ مگر جب بڑا ہوا تو اس نے ان کی بات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ یہ ان کے لیے صدمہ بھی تھا اور ایک جھٹکا بھی۔ سوچ اور شوق کا یہ فرق ان کے درمیان فاصلے لے اۤیا۔

”کیا سوچنے بیٹھ گئے؟” وہ ارمینہ کی اۤواز پر چونکا تھا۔

”نہیں کچھ نہیں۔”

”تم سارا دن یہیں رہتے ہو؟”

”نہیں کو”ی ضروری میٹنگ ہو تو چلا جاتا ہوں۔ اۤج کل میں نے اپنے ساتھیوں کو کہا ہوا ہے وہ سنبھال لیتے ہیں۔”

”اس دن ایئرپورٹ پر کہاں جانے کے لیے اۤءے تھے تم؟”

”نیروبی”

”کیوں؟ یونہی گھومنے؟”

”نہیں GES اٹینڈ کرنے پر جا نہیں سکا۔”

”GES کیا ہے؟”

”Global Enterpreneuship Summit”

”اوہ!” پھر وہ دونوں خاموشی سے دیوار کو رنگ ہوتا دیکھنے لگے۔ فرنٹ وال کا کافی حصہ رنگ ہو چکا تھا اور اندر ہال میں بھی رنگ شروع ہو چکا تھا۔ نیلا رنگ واقعی سامنے کی دیوار پر کھل رہا تھا۔

”مجھے واقعی کلرز کا بالکل سینس نہیں۔ بابا نے ٹھیک ہی کیا کہ پینٹر نہیں بننے دیا۔ ” اس نے دل ہی دل میں سوچا اور مسکرایا۔ ارمینہ نے بہت غور سے اس کی خاموشی کا جاأزہ لیا۔ اس بار اس نے اس سے کچھ نہیں پوچھا۔

”ایک بات بتانا اپنے پاپا سے پوچھ کر مجھے۔”

ارمش نے اسے مخاطب کیا ۔

”کیا؟”

”ہمیں پاکستان میں کیوں رہنا چاہیے؟”

”اس میں پاپا سے پوچھنے کی کیا ضرورت ہے۔ میں بتا دیتی ہوں۔ کیوں کہ یہ ہمارا ملک ہے ہمارا گھر، اپنے گھر سے تو سب کو محبت ہوتی ہے۔ ہر ایک اپنے گھر میں رہنا چاہتا ہے۔”

”لیکن اگر میں یہاں نہ رہنا چاہوں تو؟”

”تم یہاں نہیں رہنا چاہتے؟”

”مجھے نہیں پتا! مجھے یہاں گھٹن کا احساس ہوتا ہے لگتا ہے۔ جیسے کو”ی قیدخانہ ہو یہاں میں grow نہیں کر سکتا۔ اپنی کمپنی اپنا بزنس ویسا نہیں بنا سکتا جیسا باہر رہ کر بنا سکتا ہوں۔”

”تمہیں چاأے پینی ہے؟” وہ اس کے اچانک سوال پر حیران ہوا تھا۔

”چاأے؟”

”ہاں میں اچھی چاأے بناتی ہوں۔ جاوید بھاأی چلے گئے ہیں تو تم مجھے ڈراپ بھی کر دینا اور چاأے بھی پی لینا” وہ بیگ اُٹھاتے ہو”ے بولی۔

”تم نے مجھے ڈراأیور رکھ لیا ہے کیا؟ ایک دفعہ ڈراپ کر دیا اب میں بار بار تو نہیں کروں گا۔” اس نے سنجیدگی سے جواب دیا۔

”تمہاری مرضی” یہ کہہ کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!