سبز اور سفید

”چلو سیدھے کام میں دے دو۔۔۔۔۔۔ ایسا کرتے ہیں ایگزیبیشن وزٹ کر لیتے ہیں۔ میرے پاس کچھ پاسز ہیں اکیلے جا کر میں بور ہو جاتا ہوں۔۔۔۔۔۔ بولو چلو گی؟”

”میرا حلیہ exhibition والا نہیں ہے ارمش۔”

”تو میرا کون سا ہے۔” وہ واقعی عام سے کپڑے پہنا تھا مگر پھر بھی اچھا لگ رہا تھا۔

”وہ لوگ ہمیں باہر نکال دیں گے ارمش اس حلیے میں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔ ہم کہیں سے visitors نہیں لگ رہے ہیں۔”

”کو”ی بات نہیں بھلے باہر نکال دیں مگر تفریح تو ہو جاأے گی۔” وہ بڑے اۤرام سے وہ باتیں کر رہا تھا جو ارمینہ نے کبھی ارمش رضا ابراہیم سے expect نہیں کی تھیں۔ وہ ہمیشہ ضرورت کے تحت نپا تلا ہی بولا کرتا تھا مگر اۤج وہ بول بھی رہا تھا اور بے تکا بھی بول رہا تھا۔ اسے عجیب مگر اچھا لگا تھا اس کا سٹریس لاشعوری طور پر کم ہونے لگا تھا۔ ارمش نے گاڑی ایگزیبیشن ہال کے سامنے لاکر روک دی۔

”سو چو ارمش۔۔۔۔۔۔ میں نے تو منہ بھی ٹھیک سے نہیں دھویا تھا اۤتے وقت اور یہ سلیپرز بھی بہت عام سی ہیں۔۔۔۔۔۔ وہاں سب گھوریں گے ہمیں۔۔۔۔۔۔ اتنے ایلیٹ لوگوں کے درمیان کارٹون لگیں گے ہم۔”

”ارے یار کچھ نہیں ہوتا اۤجاأو۔” وہ باہر نکل گیا۔ ارمینہ بھی کچھ کنفیوز سی باہر اۤءی تھی۔ وہ اسے لیے مین اینٹرنس تک اۤیا۔۔۔۔۔۔ وہاں کھڑے گارڈ نے انہیں اوپر سے نیچے تک گھورا پھر ارمش کے پاس دکھانے پر انہیں جانے دیا۔ وہ کچھ شرمندگی کے عالم میں اندر اۤءی تھی۔ اس نے ارمش کو دیکھا وہ ہر چیز سے بے نیاز یہاں وہاں دیکھتا اۤگے بڑھ رہا تھا۔ اسے حیرت ہو”ی مگر وہ اس کے پیچھے چل دی تھی۔ وہ کسی یونیورسٹی کے طلبہ کی جانب سے لگاأی گئی اۤرٹ ایگزیبیشن تھی۔ وہ دونوں ایک پینٹنگ پر اۤ کر رک گئے تھے۔

”مجھے ایک بات سمجھ نہیں اۤتی۔۔۔۔۔۔ لوگ ایک ایک گھنٹہ کھڑے ہو کر ایک پینٹنگ کے اندر کیا ڈھونڈتے ہیں۔” ارمش نے شکرپارے کے رنگون کو بغور دیکھتے ہو”ے کہا تھاتو وہ مسکراأی۔

”اۤرٹسٹ سمجھ سکتے ہیں۔۔۔۔۔۔”

”جو چیز اچھی لگنی ہوتی ہے وہ ایک نظر میں اچھی لگ جاتی ہے جو چیز اچھی نہیں لگنی ہوتی اسے کتنی ہی دیر گھورتے رہو وہ اچھی نہیں ہو سکتی۔”

”نہیں! کچھ چیزیں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اچھی لگنے لگتی ہیں۔” ایک خوبصورت مسکراہٹ ارمینہ کے ہونٹوں پر دوڑ گئی تھی۔

”جیسا کہ؟” ارمش سنجیدگی سے پوچھ رہا تھا۔

”جیسا کہ پنک کلر۔۔۔۔۔۔”

”پنک کلر؟” وہ اس کی بات پر حیران ہوا ، پھر محظوظ ہوا تھا۔

”ہاں، مجھے پہلے نہیں پسند تھا اب اچھا لگنے لگا ہے۔”

”کیوں پنک ہی کیوں؟”

”پتہ نہیں بس ایسے ہی human behaviour۔ کیوں تمہارے ساتھ کبھی ایسا نہیں ہوا؟”

”مجھے تو جو اچھا لگتا ہے لگتا ہے۔۔۔۔۔۔جو نہیں لگتا وہ نہیں لگتا۔” ارمش نے اگلی پینٹنگ کی طرف بڑھتے ہو”ے کہا۔۔۔۔۔۔ اس کا چہرہ کچھ بجھ سا گیا تھا۔

”بلا کا بے باک ہے۔” ارمینہ نے سوچا تھا۔

”کیا ہوا؟ چپ کیوں ہو گئیں؟” اسے خاموش کھڑا دیکھ کر وہ پلٹا تھا۔

”نہیں کچھ نہیں۔” وہ دونوں اگلی پینٹنگ دیکھ رہے تھے جب کسی نے ارمش کے کندھے پر ہاتھ رکھا تھا۔ وہ چونک کر مڑا اس کے پیچھے چالیس پینتالیس سال کی عمر کا ایک شخص کھڑا تھا، ارمینہ انہیں نہیں پہچانی۔

”زوہیب انکل!” ارمش نے فوراً انہیں پہچان لیا تھا۔

”ارمش تم یہاں کیسے؟ تمہیں تو اۤرٹ ایگزیبیشنز سے چڑ ہے۔۔۔۔۔۔ میں حیران ہوں تمہیں یہاں دیکھ کر۔” وہ سنجیدگی سے بولے تھے۔

”ارادہ نہیں تھا بس یونہی راستے سے گاڑی موڑلی۔”

”ہاں وہ تو نظر اۤ رہا ہے کہ ارادہ نہیں تھا۔” ان کا ارادہ ان کے کپڑوں اور حلیے کی طرف تھا۔ ارمینہ کو شرمندگی ہو”ی جب کہ ارمش ڈھیٹ بنا مسکرا دیا۔

”انکل یہ ارمینہ ہے۔۔۔۔۔۔جانتے ہوں گے اۤپ۔”

”ہاں اناگریشن والے دن دیکھا تھا۔ ”اب وہ ارمینہ کی طرف دیکھ رہے تھے۔

”ارمینہ یہ اسد کے والد ہیں۔۔۔۔۔۔ انکل زوہیب۔” ارمش نے تعارف مکمل کیا تو وہ سمجھی کہ وہ کون تھے۔ اس نے انہیں سلام کیا تھا۔

”ارمش میرے خیال سے اۤٹھ بجے تم لوگوں کو ایئرپورٹ پہنچنا ہے اور تم یہاں گھوم رہے ہو؟”

”جی انکل جانتا ہوں میں پہنچ جاأوں گا وقت پر۔” وہ مضبوط لہجے میں بولا تھا۔

”تمہاری کو”ی منطق میری سمجھ میں تو نہیں اۤتی ہے۔۔۔۔۔۔ خیر مجھے یہ بھی پتا ہے کہ تم پہنچ جاأو گے۔” وہ مسکرایا۔ انکل زوہیب ان لوگوں سے مزید باتیں کیے بغیر اۤگے بڑھ گئے تھے اور ارمینہ زبردستی اس کا اۤستین پکڑ کر اسے باہر لے اۤءی تھی۔

”ارے کیا ہوا؟ اچھی نہیں لگی ایگزیبیشن۔۔۔۔۔۔؟ جبھی میں بھی ایسی exhibitions میں بور ہو جاتا ہوں۔” ارمش کی لاپرواأی کی انتہا تھی۔

”ارمش میں جبھی ڈر رہی تھی کہ کو”ی جاننے والا نہ ٹکرا جاأے اور وہی ہوا۔”

”ارے وہ تمہارے جاننے والے تھوڑی ہیں میرے جاننے والے ہیں۔”

”ہاں تو تمہیں شرمندگی نہیں ہو”ی۔۔۔۔۔۔ سوساأٹی میں تمہارا ایک اسٹیٹس ہے اور تم اس طرح گھوم رہے ہو وہ بھی ایسی جگہ پر تمہارا امیج تباہ ہو گا۔”

”ارمینہ انسان کو جس چیز سے خوشی ملتی ہے جو چیز اسے اچھی لگتی ہے وہ کرنی چاہیے۔” اس کے انداز میں بلا کا اطمینان تھا۔

”پھر بھی مجھے بُرا لگ رہا تھا اس طرح اندر جانا۔”

”اب تو اۤگئیں نا باہر۔۔۔۔۔۔ چلو۔” وہ واپس اۤکر گاڑی میں بیٹھ گئے تھے اور ارمش نے گاڑی چلا دی۔ کچھ فاصلے پر اس نے پھر گاڑی کو کنارے لگا دیا تھا۔

”مونگ پھلی کھاأو گی؟”

”مونگ پھلی؟”

”ہاں کراچی میں تھوڑی سی ہی سردیاں اۤتی ہیں انسان اسی میں مونگ پھلی کھا کر اپنا شوق پورا کر سکتا ہے ورنہ سارا سال ترستے رہتے ہیں۔” وہ گاڑی سے اتر گیا تھا اور سامنے کھڑے ٹھیلے پر سے مونگ پھلی لینے لگا تھا۔ فروری کا مہینہ تھا ٹھنڈ زیادہ نہیں تھی مگر موسم خوشگوار تھا۔ وہ سامنے کھڑا نیلی جینز اور ہلکے نیلے رنگ کی عام سی شرٹ میں ملبوس تھا اور مونگ پھلی والے سے جانے کون سی باتیں کر رہا تھا۔ ارمینہ کو لگا جیسے وہ ایک ہفتے کا ایک ہی دن میں بول لے گا۔ اسے ہنسی اۤگئی تھی۔ اگر ارمش کا مقصد اسے بہتر محسوس کرانا یا اسے سٹریس سے نجات دلانا تھا تو وہ بہت حد تک کامیاب ہو گیا تھا۔ وہ واقعی بہت ہلکا پھلکا محسوس کرنے لگی تھی۔ البتہ اس کا مسئلہ وہیں موجود تھا۔

پاپا کے اۤپریشن کے لیے اسے پیسوں کی شدید ضرورت تھی۔ وہ فیکٹری سے اۤنے والی رقم اور اپنی سیلری سے اۤنے والی رقم میں سے ان کے علاج کے لیے ہر مہینے ایک مخصوص رقم نکال کر رکھ دیا کرتی تھی اور وہ رقم اس کے پاس جمع ہو جایا کرتی تھی۔ اس کی جمع کی ہو”ی رقم دو لاکھ کے قریب تھی۔ ارمش کو اس نے جو رقم دی تھی وہ بھی کسی کاٹیج انڈسٹری کے مالک نے نہیں دی تھی بلکہ ہیری ہوم کی ضرورت کو دیکھتے ہو”ے اس نے اپنے جمع کیے ہو”ے روپے ارمش کو دے دیئے تھے۔ تب اسے علم نہیں تھا کہ سرجری اتنی جلدی ہو جاأے گی۔ اس نے ارمش کو ایک لاکھ کی رقم دی جو وہ مشکل حالات کیلئے جمع کر کے رکھ رہی تھی مگر اسے ان پیسوں کا افسوس نہیں تھا۔ پریشانی تھی تو بس یہ کہ اب وہ مزید ستر ہزار کہاں سے لاأے گی۔ اس نے پاپا سے کچھ بھی نہیں کہا تھا۔ ابھی اۤپریشن میں اۤٹھ دن تھے۔ اسے یقین تھا وہ ان اۤٹھ دنوں میں کچھ نہ کچھ ضرور کرلے گی۔ وہ اسی نیت سے بینک بھی گئی تھی اس درخواست کا پتا کرنے جو اس نے پہلے ہی لون کے لیے جمع کرواأی تھی مگر بینک والے اسے پہلے ہی بتا چکے تھے کہ اس کے معاملے میں اسے لون نہیں دیا جا سکتاتھا مگر وہ پھر بھی پرامید تھی اور مطمئن تھی کہ وہ بندوبست ضرور کرے گی۔

ارمش گاڑی کا دروازہ کھول کر اندر اۤیا تو وہ حال میں لوٹی تھی اس کے ہاتھ میں مونگ پھلی کا پیکٹ تھا۔

”یہ لو کھاأو۔” اسے پیکٹ تھماتے ہو”ے وہ بولا تھا۔

”تھینک یو۔” وہ ایک بار پھر ڈراأیو کرنے لگا۔ اب وہ گھر کی طرف جا رہے تھے۔

”ویسے ارمش یہ مہربانی کس لیے۔۔۔۔۔۔؟ یعنی تم جیسا مصروف انسان کو یہ سوٹ نہیں کرتا کہ وہ مجھ جیسی فارغ ڈاکٹر کو لیے پھرتا رہے۔” منہ میں مونگ پھلی کے دانے ڈالتی وہ بولی تھی۔ وہ مسکرایا تھا مگر خلاف توقع اس نے کو”ی ”الٹا” جملہ نہیں بولا تھا۔ جیسے وہ کسی اور سوچ میں گم ہو۔ اس کا موباأل بجا تو اس نے فوراً گاڑی روک کر موباأل نکالا تھا۔ اس کے موباأل پر کال نہیں اۤءی تھی بلکہ میسج تھا۔ ارمینہ نے محسوس نہیں کیا تھا مگر میسج پڑھ کر اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا تھا۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے خاموش نظریں ارمینہ کے چہرے پر جما دی تھیں۔ ارمینہ نے اپنے اوپر جمی اس کی نظریں محسوس کیں اور گردن گھما کر اسے دیکھا جو ارمینہ کو تک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ گم صم۔۔۔۔۔۔ حیران سا۔۔۔۔۔۔

”کیا ہوا؟”

”کچھ نہیں۔” وہ جیسے جبراً مسکرایا اور موباأل بند کر کے رکھ دیا اور گاڑی چلانے لگا۔ وہ بھی مونگ پھلی کی طرف متوجہ ہو گئی تھی۔

”ارمش left پر لے لیتے تو جلدی گھر اۤجاتا۔” ارمش نے گھر کا ٹرن مس کیا تو ارمینہ نے اسے ٹوکا تھا۔

”جبھی نہیں لیا۔۔۔۔۔۔”

”کیوں؟”

”بس ایسے ہی۔”

”تم کھاأو گے؟” اسے یک دم خیال اۤیا اس نے ایک بار بھی ارمش کو اۤفر نہیں کی تھی۔

”میں مونگ پھلی نہیں کھاتا۔”

”تو پھر کیوں لی تھی؟”

”تمہارے لیے لی تھی۔” وہ ونڈ اسکرین سے باہر سڑک پر نظریں جماأے کہہ رہا تھا۔ باقی سارا راستہ خاموشی سے گزرا تھا۔ اس نے کچھ پوچھا نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ اس نے کچھ بتایا نہیں تھا۔ پھر اس نے گھر کے اۤگے گاڑی روک دی تھی۔

”خداحافظ۔” ارمینہ نے گاڑی سے اترتے ہو”ے کہا تھا۔

”خداحافظ۔” وہ جواب دے کر خاموش ہو گیا تھا۔

”شکریہ تمہارا۔۔۔۔۔۔ مونگ پھلی کے لیے اور اۤرٹ ایگزیبیشن میں ہونے والی عزت افزاأی کے لیے۔”

ارمش خاموش رہا تھا، بس مسکرا دیا تھا۔ ارمینہ کو شدید حیرت ہو”ی تھی کہ وہ کیوں اچانک اتنا خاموش ہو گیا تھا۔ وہ چلتی ہو”ی دروازے تک اۤگئی تھی۔ جب تک دروازہ کھلا نہیں۔ وہ ہمیشہ کی طرح وہیں کھڑا رہا پھر دروازہ کھلتے ہی اس کی گاڑی اندھیرے میں کہیں کھو گئی تھی۔ اب وہ ایک ہفتے تک اسے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ اس کے کسی ”الٹے” جملے پر غصہ نہیں کر سکتی تھی، وہ خاموشی سے اندر اۤگئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

گھاس میں چمکے جو تارا سا۔۔۔۔۔۔

اور پکڑیں تو ہاتھ نہ اۤءے۔۔۔۔۔۔

اگلے پل میں انگارا سا۔۔۔۔۔۔

جلتا بجھتا اڑ جاأے۔۔۔۔۔۔

اب پودوں کی شاخ پہ بیٹھے۔۔۔۔۔۔

اور پیاری سی اۤگ جلاأے۔۔۔۔۔۔

صبح کا وقت تھا۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم کے اسکول میں بچے ”جگنو” نظم دہرا رہے تھے وہ انہیں بہت مزے سے نظم پڑھتے دیکھ رہی تھی۔ وہ ایئرپورٹ سے سیدھا یہیں اۤگئی تھی۔ ساری رات جاگنے کے باوجود اسے نیند نہیں اۤرہی تھی۔ تھکن کا احساس بھی نہیں تھا۔ بس اس کا دماغ پاپا کی سرجری میں لگا ہوا تھا۔

ان کی ریڑھ کی ہڈی کا اۤپریشن تھا جس کے بعد وہ چل تو نہیں سکتے تھے مگر اپنے پیروں پر کھڑے ضرور ہو سکتے تھے اور اس کے لیے بھی انہیں مہینوں فزیوتھیراپی کی ضرورت تھی۔ لیکن کم از کم ان کی ویل چیئر سے جان چھوٹ سکتی تھی اور وہ بے ساکھیوں کے سہارے سے چل سکتے۔۔۔۔۔۔

بریک ہوتے ہی سب بچے دالان کی طرف اۤگئے تھے۔ عمر اس کے پاس اۤیا تھا۔

”کیا بات ہے۔۔۔۔۔۔ اۤج چڑیاأیں کچھ اداس اداس ہیں؟” اۤسمان کی طرف دیکھ کر وہ بول رہا تھا۔ وہ مسکرا دی تھی۔

”اچھا۔۔۔۔۔۔ تو پوچھو چڑیوں سے کہ انہیں کیا ہوا ہے؟”

”تو بتاأو کیا ہوا ہے؟” اب وہ براہ راست ”چڑیا”سے پوچھ رہا تھا۔

”کچھ نہیں بس چڑیوں کا موڈ اۤف ہے۔”

”کیوں۔۔۔۔۔۔ کیا ہوا؟”

”پاپا کی سرجری ہے ناں۔۔۔۔۔۔”

”ہاں ارمش بھاأی نے بتایا تھا۔۔۔۔۔۔ فکر مت کرو وہ ٹھیک ہو جاأیں گے he is a fighter” وہ اس کی بات پر مسکرا دی تھی۔

”اۤءو کچھ کھالو ؟”

”نہیں اب گھر جا رہی ہوں۔۔۔۔۔۔ اۤج پاپا فیکٹری گئے تھے اب اۤرہے ہوں گے۔ پھر کبھی۔۔۔۔۔۔”

”ٹھیک ہے۔” کہتی وہ واپس گھر کی طرف چلی گئی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ گھر میں داخل ہو رہی تھی جب کسی نے اسے پیچھے سے پکارا تھا۔

”ڈاکٹر ارمینہ محمود اۤپ ہیں؟”

”جی”

”اۤپ کیلئے کوریئر ہے” اس نے کوریئر ریسیو کیا اور اندر اۤگئی۔ گھر پر فرید بابا اور پاپا نہیں تھے وہ ابھی تک فیکٹری سے نہیں لوٹے تھے۔ وہ سیڑھیاں چڑھتی اپنے کمرے میں اۤگئی تھی۔ اندر اۤکر اس نے اس خاکی لفافے کو چاک کیا اور وہ اپنی جگہ جم کر رہ گئی تھی۔ اس لفافے میں پیسے تھے اور ساتھ ایک لیٹر تھا۔

”موجوجوجو۔” پہلا لفظ پڑھ کر ہی وہ ہل کر رہ گئی تھی۔

”اتنا tale telling چہرہ لے کر تم کم از کم مجھ سے اپنی پرابلمز نہیں چھپا سکتیں میں انکل کے لیے دعا کروں گا۔۔۔۔۔۔ یہ ستر ہزار تمہارے اوپر ادھار ہیں رکھ کر مت بیٹھ جانا واپس کر دینا۔۔۔۔۔۔اور اگر نہ بھی کرو تو کو”ی بات نہیں کیوں کہ انکل کے جو مجھ پر احسانات ہیں اس کے مقابلے میں یہ کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔ اور اب مت رونا ناک لال ہو جاتی ہے تو واقعی موجوجوجو لگتی ہو۔۔۔۔۔۔ مگر اچھی لگتی ہو!

اللہ راستہ اۤسان کرے تمہارا اور انکل کا بھی۔۔۔۔۔۔ ارمش۔”

اس نے لرزتے ہاتھوں سے وہ خط واپس اسی خاکی لفافے میں ڈال دیا۔ وہ تھوڑی دیر ان پیسوں کو اور اس لفافے کو تکتی رہی پھر اس نے پھوٹ پھوٹ کر رونا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ وہ کیسا انسان تھا؟ وہ اس کے پاس ہوتا تھا تب بھی وہ اس کا تصور ذہن سے نہیں نکال پاتی تھی اب وہ اس کے پاس نہیں تھا پھر بھی اس کے عمل کے نتیجے میں وہ اس کے قریب جا پہنچی تھی۔ اس کی مشکل کا حل اس لفافے میں تھا جو اس کے ہاتھ میں موجود تھا مگر اس کا ضمیر اسے روک رہا تھا۔ یہ پیسے لینا درست نہیں تھا ۔یہ حق اسے حاصل نہیں تھا۔ یہ ارمش کی ذمہ داری بھی نہیں تھی اسے پوری بھی نہیں کرنی چاہیے تھی۔

اس نے ایک لمحے میں اپنے اۤنسو پونچھے اور وہ ارمش کو کال ملا رہی تھی وہ فون نہیں اٹھا رہا تھا۔ اس نے لگاتار دس مسڈ کالز کر ڈالیں مگر اس نے فون نہیں اٹھایا۔ کچھ غصے میں اس نے اپنا فون بیڈ پر پٹخا اور باہر اۤگئی تھی۔ باہر پاپا اۤگئے تھے اس نے انہیں سلام کیا۔

چاأے پئیں گے یا کھانا لگا دوں؟

”طبیعت ٹھیک نہیں ہے کیا تمہاری؟” اس کے سرخ ہوتے چہرے کو دیکھ کر بولے۔

”ٹھیک ہے پاپا”

”چہرے سے تو نہیں لگتا۔”

”میں ٹھیک ہوں پاپا۔۔۔۔۔۔ اۤپ منہ ہاتھ دھو لیں فریش ہو جاأیں پھر کھانا ہی کھا لیتے ہیں۔”

”اچھا۔” کچھ تذبذب میں وہ اندر کی طرف چلے گئے تھے۔

وہ کھانے کی ٹیبل پر بھی خاموش تھی مگر پاپا نے اس سے کچھ نہیں کہا تھا۔ دو نوالے حلق سے اتارنے کے بعد وہ فارغ ہو گئی تھی مگر ٹیبل پر بیٹھی رہی کیوں کہ یہ ان کے گھر کا اصول تھا جو بھی پہلے کھا لیتا وہ دوسرے کے کھانا ختم کرنے کا انتظار کرتا۔

”اۤج تم نے پہلے کھانا ختم کر لیا؟” وہ ہمیشہ بعد میں کھانا ختم کیا کرتی تھی۔

”جی”

”کو”ی پریشانی ہے ارمینہ؟”

”نہیں پاپا۔”

”بیٹا سرجری کو اتنا سوار کیوں کر رہی ہو؟ اس سے پہلے بھی تو ایک سرجری ہو چکی ہے کچھ نہیں ہو گا مجھے۔” اس کا ضبط ٹوٹا تو وہ روتے ہو”ے ان کے گلے لگ گئی تھی۔

”مجھے پتا ہے اۤپ کو کچھ نہیں ہو گا پاپا۔۔۔۔۔۔ میں اۤپ کو کچھ نہیں ہونے دوں گی۔۔۔۔۔۔ اللہ سے اتنی دعاأیں کی ہیں میں نے۔۔۔۔۔۔ وہ ہمارا۔۔۔۔۔۔ راستہ اۤسان کر دے گا۔”

وہ روتے ہو”ے کس کی دعا دُہرا رہی تھی وہ جانتی تھی مگر اسے اس وقت اس دعا کی بہت ضرورت تھی۔

”شاباش میرا بچہ۔۔۔۔۔۔ اب جا کرسو جاأو۔۔۔۔۔۔ بہت تھکی تھکی لگ رہی ہو۔” وہ اپنے اۤنسو پونچھتے اٹھ گئی تھی۔ کمرے میں اۤکر اس نے سر کے درد کی وہی دوالی جو وہ اکثر پاپا کو دیتی تھی پھر بیڈ پر اۤکر لیٹ گئی۔۔۔۔۔۔ وہ پیسے اسی حالت میں ساأیڈ ٹیبل پر پڑے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ اۤہستہ اۤہستہ دوا کے اثر سے نیند میں گم ہو گئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

اس کی اۤنکھ کھلی تو کمرے میں اندھیرا تھا۔ اسے سمجھ نہیں اۤیا کہ وقت کیا تھا۔ سر بھی بہت بھاری بھاری محسوس ہو رہا تھا۔ اس نے موباأل اۤن کر کے دیکھا۔۔۔۔۔۔ اۤٹھ بج رہے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ ایک جھٹکے سے اٹھ بیٹھی۔۔۔۔۔۔”

اۤٹھ بج گئے! کتنی دیر سوتی رہی میں۔” اس نے کمرے کی لاأٹس اۤن کیں تو ایک بار پھر اس کی نظر ان پیسوں پر پڑی وہ سر جھٹکتی انہیں ایسے ہی چھوڑ کر نیچے اۤگئی تھی۔

”پاپا ! اۤپ نے مجھے اٹھایا کیوں نہیں؟ دیکھیں اۤٹھ بج گئے کھانا بھی بنانا تھا اتنی دیر ہو گئی۔” وہ کچھ ہولاأی ہو”ی لاأونج سے کچن کی طرف جا رہی تھی۔

”تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں تھی سر میں بھی درد تھا تو میں نے تمہیں نہیں جگایا۔”

”مگر کھانا؟”

”میں نے اور فرید نے فریزر سے کوفتے نکال لیے تھے۔۔۔۔۔۔ وہ تو بنے ہو”ے تھے پھر ہم نے اس کا شوربہ خود بنا لیا۔” اس کے ہوش اڑ گئے تھے۔

”کیسے بنا لیا ؟”

”فرید نے مدد کی تھی ناں۔۔۔۔۔۔ فوجیوں کو کھانا بنانا اۤتا ہے۔ میں بتاتا جا رہا تھا۔ فرید سب کام کرتا جا رہا تھا۔” اس نے مسکراتے ہو”ے ان کے گرد بازو حاأل کیے تھے۔

”اٹھا دینا چاہیے تھا مجھے۔”

”اچھا ہے ناں ۔۔۔۔۔۔ اب پھر رات بھر ڈیوٹی پر جاگو گی۔”

”ذرا میں بھی تو کھا کے دیکھوں کیا بنایا ہے اۤپ لوگوں نے۔” دوپہر میں اس سے کھانا نہیں کھایا گیا تھا مگر اب اسے بھوک لگ رہی تھی۔ اس نے ایک پلیٹ میں اپنے لیے کھانا نکالا اور ٹیبل پر اۤبیٹھی تھی۔

”ارے واہ! بڑے مزے کا کھانا بنا ہے۔۔۔۔۔۔ پاپا فرید بابا اۤپ لوگوں کو کافی اچھا اندازہ ہے مصالحوں کا۔” وہ دونوں ہی ہنس دیئے تھے۔ وہ کھانا کھا کر پاپا اور فرید بابا کے پاس ہی بیٹھ گئی تھی۔ فرید بابا پاپا کے پیروں کی مالش کر رہے تھے۔

”پاپا ڈاکٹر نے کہا ہے اۤپ منڈے مارننگ کو ایڈمٹ ہو جاأیے گا۔”

”ہونہہ!” انہوں نے گردن ہلا دی تھی۔

”اۤپریشن کا کل خرچہ کتنا بتایا ہے؟” انہوں نے اچانک سوال کیا تو وہ پانی پیتے پیتے رک گئی۔

”دو لاکھ کے قریب۔” اس نے اضافی پیسے ماأنس کر دیئے تھے۔

”اورجمع کی ہو”ی رقم کتنی ہے؟”

”وہ بھی دو لاکھ ہی ہے۔”

”اچھا اگر مزید ضرورت ہو تو بتانا مجھے۔”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!