سبز اور سفید

وہ لوگ کیفے سے باہر اۤرہے تھے۔ عمر سمیت وہ سب لوگ کراچی واپس جا رہے تھے وہ سب اۤپس میں مل رہے تھے۔ چہروں پر لازوال سی مسکراہٹ لئے۔ ارمش نے بھی اپنا سفر جاری رکھا تھا اس نے ہیری ہوم کے بعد ایک فلاحی ہسپتال بھی قاأم کیا تھا اور ایک اسکول اس وقت اپنے تعمیری مراحل میں تھا۔ وہ پاکستان کے سب سے کامیاب اور قابل بزنس مین میں سے چھٹے نمبر پر تھا اور اس کی کمپنی سب سے کم عرصے میں اۤسمان کی بلندیوں پر پہنچنے والی دس بہترین کمپنیوں میں شامل تھی۔ سفر کہاں رکا کرتا ہے؟ یہ جاری رہتا ہے اور سفر اب بھی جاری تھا۔

وہ لوگ باہر اۤءے تو اکیڈمی کی عمارت کے اوپر لگا جھنڈا اپنی پوری شان سے لہرا رہا تھا۔۔۔۔۔۔ ارمش نے اس جھنڈے کو دیکھا تو اسے سرفراز محمود بہت یاد اۤءے۔ انہیں اس دنیا سے گزرے دو سال گزر چکے تھے مگر ارمش کو ان کی ایک ایک بات اۤج بھی یاد تھی۔

”اۤپ نے ٹھیک کہا تھا انکل۔۔۔۔۔۔ بس یہی دو رنگ سب سے محبوب ہونے چاہئیں۔۔۔۔۔۔ محبت کے دو رنگ۔۔۔۔۔۔ سبز اور سفید۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ یہ دو رنگ ہیں تو ہم ہیں یہ دو رنگ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔۔۔۔۔۔” ایک گہری سانس لے کر وہ ارمینہ اور عمر کے پیچھے چل پڑا تھا۔ اسے ان دو رنگوں کی اہمیت۔۔۔۔۔۔ اۤج سمجھ اۤءی تھی!

ختم شد۔۔۔۔۔۔!

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!