سبز اور سفید


اس نے ان پیسوں کو واپس اسی پیکٹ میں ڈال کر اس لفافے کو فولڈ کر کے الماری میں رکھ دیا تھا۔ وہ ارمش کے اۤتے ہی وہ پیسے اس کے حوالے کر دے گی، یہ سوچتے ہو”ے وہ ایئرپورٹ جانے کی تیاری کرنے لگی اور جاوید بھاأی کے ساتھ ایئرپورٹ چلی گئی۔ کام زیادہ نہیں تھا اس لیے وہ اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھی کتاب پڑھنے لگی۔ جو اس نے پاپا کی اسٹڈی سے نکال کر بیگ میں ڈالی تھی۔کتاب کے صفحے میں سے ایک تصویر گری جسے وہ فوراً پہچان گئی، وہ اس کی امی کی تصویر تھی۔ ہو بہ ہو اس کے جیسے نقوش بالوں کا رنگ سب ایک سا تھا۔ بس اۤنکھوں کا رنگ مختلف تھا۔ جو شاید واحد شے تھی جو انہیں ایک دوسرے سے الگ کرتی تھی اس کی اۤنکھیں نم ہونے لگی تھیں۔

”پاپا امی کو بہت یاد کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ میں جانتی ہوں۔” اس نے دل میں سوچا تھا۔ اس نے اپنی امی کے ساتھ زیادہ وقت نہیں گزارا تھا اور جو گزارا تھا وہ بھی اسے کچھ خاص یاد نہیں تھا مگر پھر بھی وہ اپنی امی سے محبت کرتی تھی۔۔۔۔۔۔ ہر بیٹی ہر اولاد کی طرح اس نے تصویر واپس رکھی اور وہ کتاب پڑھنے لگی جب اس کا فون بجا ارمش کا نام اسکرین پر چمک رہا تھا۔۔۔۔۔۔ گھنٹی بجتی رہی پھر اس نے اکتا کر فون اٹھا لیا۔

”ہیلو”

”مصروف ہو؟” ہیلو کا جواب دیئے بغیر اور کسی سلام دعا کے بغیر ارمش کے سوال کیا۔

”ہاں۔”

”کیا کر رہی ہو؟”

”کتاب پڑھ رہی ہوں۔”

”کتاب انسان فارغ وقت میں پڑھتا ہے۔”

”تمہیں کو”ی کام ہے؟” اسے ارمش کی باتوں سے کوفت سی ہو رہی تھی مگر اس نے فون بند نہیں کیا۔۔۔۔۔۔ اس سے فون بند نہیں کیا گیا۔

”ہاں۔۔۔۔۔۔ انکل کیسے ہیں؟”

”یہ تم انہیں کال کر کے پوچھ لیتے۔”

”وہ سو گئے ہوں گے اب تک۔۔۔۔۔۔ ہر کو”ی تمہاری طرح رات کو جاگ کر دن میں نہیں سوتا۔”

”میں کام کرتی ہوں۔”

”ہاں جانتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ویسے وہ ہیں کیسے؟” ارمش نے سوال دہرایا تھا۔

”ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔ شکر ہے اللہ کا۔”

”اور تم؟” وہ کچھ بول نہیں سکی۔

”ارمینہ؟” خاموشی اتنی طویل ہو گئی تھی کہ اسے اس کا نام پکارنا پڑا تھا۔

”ہاں۔۔۔۔۔۔ میں بھی ٹھیک ہوں۔”

”اچھا۔۔۔۔۔۔ بہتر تم کتاب پڑھو خدا حافظ۔”

”تمہیں بس یہ پوچھنا تھا؟”

”ہاں۔۔۔۔۔۔ اور یہاں سے زیادہ لمبی کال نہیں کر سکتے بہت پیسے لگتے ہیں۔” وہ بے ساختہ اس کی بات پر ہنس دی تھی۔۔۔۔۔۔ اس کے ”الٹے” جواب شروع ہو گئے تھے۔

”خدا حافظ” کہہ کر اس نے فون رکھ دیا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

صبح وہ گھر پہنچی تو ہمیشہ کی طرح پاپا اس کا ناشتے پر انتظار کر رہے تھے انہیں سلام کرتی وہ فریش ہونے اوپر اۤگئی فریش ہو کر نیچے اۤءی تو ناشتہ ٹیبل پر تیار تھا۔

”ارے واہ پراٹھے!”

”ہاں فرید کی بیوی حلیمہ نے بنا کر بھیجے ہیں ہمارے لیے۔”

”فرید بابا بہت بھوک لگ رہی تھی اور پراٹھے دیکھ کر تو دل خوش ہو گیا میری طرف سے حلیمہ بی کا شکریہ ادا کر دیجئے گا۔” اس کی بھوک واقعی چمک گئی تھی۔

”شکریہ کی کیا بات ہے بی بی جی؟” فرید بابا عاجزی سے بولے وہ سب ناشتہ کرنے لگے۔

”ارمینہ ہمارے ایک کمپنی سے پیسے اۤنے تھے وہ اٹکے ہو”ے تھے یاد ہے؟ ” پاپا نے اپنا کھانا ختم کرکے پوچھا تو کھانا کھاتی ارمینہ کے ہاتھ ر گئے۔

”جی یاد ہے۔”

”وہ اۤگئے ہیں اۤج صبح۔۔۔۔۔۔ انہوں نے ساری رقم ہمیں ادا کر دی ہے۔” اطمینان تھا، خوشی تھی یا شکر گزاری مگر اس کی اۤنکھوں سے اۤنسو رواں ہو گئے تھے۔ کچھ لمحات اۤپ کو احساسِ تشکر میں اس قدر ڈبو دیتے ہیں کہ پھر اس سے ابھرنے کے لیے اۤپ کو اۤنسو”وں کا سہارا لینا پڑتا ہے۔ وہ بھی رونے لگی تھی یہ سوچے بغیر کہ پاپا کیا سوچیں گے۔۔۔۔۔۔ منہ پر ہاتھ رکھ کر اس نے”یا اللہ تیرا شکر۔” تین بار دہرایا۔

”کیا ہوا؟ رونے کیوں لگیں؟”وہ پریشان نہیں حیران ہو”ے تھے۔

”کچھ نہیں بہت عرصے سے پیسے وہاں اٹکے تھے ناں خوشی کے مارے۔”

”اُف ارمینہ! تمہیں تو رونے کے بہانے چاہئیں بس۔” وہ جیسے اس کی حیات کی وجہ تھی۔۔۔۔۔۔ اس کے ہونے کا سبب تھا۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے پورا پراٹھا ختم کر لیا۔ اۤج اس نے دل بھر کے کھانا کھایا تھا اب اسے کو”ی پریشانی نہیں تھی وہ ارمش کے پیسے لوٹا سکتی تھی، پاپا کی سرجری کروا سکتی تھی۔ وہ حلال کی کماأی سے پاپا کی سرجری کروا رہی تھی۔۔۔۔۔۔ اسے بے حد سکون ملا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ اپنے فلیٹ کی طرف جا رہا تھا۔ اس نے ابھی ابھی اسد سے فون پر بات کر کے فون رکھا تھا اور گاڑی چلانی شروع کی تھی جب اس کا فون دوبارہ بج اٹھا۔

”ہیلو۔” اس نے فون اٹھا کر کہا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف کو”ی بھاری مردانہ اۤواز تھی۔

”جی کرمانی صاحب کیا ہوا؟”

”جی مسٹر ابراہیم۔۔۔۔۔۔ ہم نے ان کی پیمنٹ ادا کر دی ہے جیسا اۤپ نے کہا تھا۔۔۔۔۔۔ اب کیا ہم اۤپ کی کمپنی سے کچھ تعاون کی امید رکھیں؟” ارمش کے لبوں پر مسکراہٹ دوڑ گئی تھی۔

”جی بالکل۔۔۔۔۔۔ ہم اگلا اۤرڈر اۤپ ہی کو دیں گے۔۔۔۔۔۔ اۤپ بالکل فکر نہ کریں۔ شکریہ۔” اس نے فون واپس رکھ دیا۔

اسے اس معاملے پر پہلے ہی شک تھا پھر اس نے سرفراز صاحب کے ڈاکٹر سے سرجری کی تمام تفصیلات اور اخراجات کی تفصیل لے لی تھی۔ بینک وہ ہیری ہوم کے کسی کام سے گیا تھا جہاں اس نے ارمینہ کو دیکھ لیا تھا اور وہ معاملہ سمجھ گیا پھر بھی اس نے سب کچھ کنفرم کرنا چاہا تھا۔ اس نے ایک فون کیا اور کچھ دیر میں اس کے موباأل پر میسج اۤ گیا تھا کہ ارمینہ وہاں کیوں گئی تھی۔ وہ ستر ہزار کی اس ایپلیکیشن کے بارے میں جان گیا تھا تو اس نے کوریئر کے ذریعے ستر ہزار بھجوا دیئے تھے۔ مگر اسے یہ بھی یقین تھا کہ ارمینہ پیسے نہیں لے گی تو اس نے کرمانی صاحب سے بات کی اور انہیں ایک اۤرڈر کا لالچ دے کر انہیں پیسے ادا کر دینے کا کہہ دیا۔ وہ جانتا تھا کہ سرفراز انکل کی فیکٹری کو ادا کی جانے والی رقم پچھلے ایک سال سے کرمانی صاحب نے روک رکھی تھی جس کا ذکر ایک بار خود سرفراز صاحب نے ہی ارمش سے کیا تھا۔ اسے وہی گفتگو یاد اۤگئی اور اس نے ایک کوشش کر ڈالی تھی۔ تیر نشانے پر لگا تھا۔

اس کے لیے ارمینہ کی جانب سے دی جانے والی رقم کے بارے میں بھی پتا کروانا کو”ی مشکل کام نہیں تھا۔ وہ یہ بھی جان گیا تھا کہ وہ کسی کاٹیج انڈسٹری کے مالک نے نہیں دی تھی بلکہ وہ ارمینہ کے خود کے پیسے تھے۔ مگر اب ہر چیز اپنی جگہ پر تھی۔ اسے انکل کی سرجری کا انتظار تھا۔ اپنے فلیٹ پر اۤکر وہ سو گیا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہیری ہوم اۤءی تو بہت پرسکون تھی۔

”کیا بات ہے؟ اۤج چڑیاں بڑی چہچہا رہی ہیں۔” عمر نے اسے دیکھتے ہی کہا تھا ۔ تو وہ ہنس دی۔

”چڑیوں سے پوچھو وہ کیوں کھلکھلا رہی ہیں اۤج؟”

”تو بتاأو کیوں کھلکھلا رہی ہیں؟”

”کیوں کہ چڑیوں کی ٹینشن دور ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔ اچھا یہ بتاأو پڑھاأی کیسی چل رہی ہے؟”

”اچھی! مگر مجھے ٹینشن بھی ہو رہی ہے۔۔۔۔۔۔” عمر یک دم سنجیدہ ہو گیا تھا۔

”گھبراأو مت عمر تم کر لو گے مجھے پتا ہے۔” اسکی بات سُن کر وہ مسکرا پڑا۔

”ارمینہ حارث کی انگلی دروازے میں دب گئی ہے۔” ایک بچے نے اۤکر اسے بتایا تو وہ پریشان ہو گئی۔

”کیسے دب گئی؟ چلو میرے ساتھ۔” وہ بھاگتی ہو”ی حارث کے پاس پہنچی تھی عمر بھی اس کے پیچھے تھا جب وہ پہنچی تو حارث بیٹھا اپنی انگلی پکڑے رو رہا تھا۔

”کیا ہوا حارث۔۔۔۔۔۔؟ دکھاأو مجھے۔” وہ نرمی سے حارث کی چوٹ دیکھنے لگی تھی۔

”اس دروازے کا یہی مسئلہ ہے۔۔۔۔۔۔ خود بہ خود بند ہو جاتا ہے۔ ارمش بھاأی اۤجاتے تھے تو روز پہلے اس دروازے کو پیچھے والی دیوار اور گرل میں باندھ دیتے تھے تاکہ دروازہ بار بار بند نہ ہو ہوا کے زور سے اور کسی کا ہاتھ نہ اۤجاأے۔” عمر اب دروازے کو باندھتے ہو”ے اسے بتا رہا تھا۔ وہ ایک پل کو افسردہ ہو گئی تھی۔ اس کی ”کمی” اسے پتا چلنے لگی تھی۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!