سبز اور سفید

بہار ہو کہ خزاں۔۔۔۔۔۔ لاالٰہ الااللہ

اس نے اپنی کمر پر بندھا پیراشوٹ ایک بار پھر چیک کیا اور سبز اور سفید پرچم اپنی رسی کے ساتھ باندھا۔

اگرچہ بت ہیں جماعت کی اۤستینوں میں

مجھے ہے حکم اذان۔۔۔۔۔۔ لا الٰہ الا اللہ

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ کودنے کیلئے ہیلی کاپٹر کے دروازے تک اۤیا یہ ان کے ہنر کی اۤخری حد تھی۔ اسپیشل سروس گروپ (SSG) جسے بیسٹ اۤف دی بیسٹ ہونے کا اعزاز حاصل تھا پاکستان کے بہادر فوجیوں کا گڑھ تھی۔ یہ اسکاأی ڈاأیورز SSG کا ہی سب یونٹ تھے۔ دنیا کی مشکل ترین ٹریننگ کے لاوا میں جل کر یہ کندن بنے تھے اور اب اپنے ہنر کو اۤزمانے کے لیے بالکل تیار تھے۔

پچیس ہزار فٹ کی بلندی سے چھلانگ لگا پیراشوٹ کو کنٹرول کرتے ہو”ے اپنی پوزیشن پر اۤنا ان کا خاصہ تھا۔ وہ بہادری کے بہت اونچے اۤسمانوں کو چھو کر زمین پر اۤتے تھے۔ اور یہ جیسے ان کا پسندیدہ مشغلہ تھا۔

اس نے دروازے پر کھڑے ہو کر ایک اۤخری بار پلٹ کر دیکھا۔ اس کے ساتھیوں نے فی امان اللہ کہہ کر اس کا حوصلہ بلند کیا۔ وہ مسکرایا اور پھر زمین کی جانب دیکھتے ہو”ے اس نے چھلانگ لگا دی۔ یہ سرفراز محمود کی زندگی کا سب سے کمفررٹ زون (Comfort Zone) تھا۔۔۔۔۔۔ ”ہوا”۔۔۔۔۔۔ اس کے ہمیشہ سے ہوا کو قابو کرنے کے خواب دیکھے تھے مگر وہ ایئرفورس میں نہیں گیا کیوں کہ وہ ہوا کو قابو کرنا چاہتا تھا اور سرفراز محمود کو ہواأوں پر حکومت کرنے کا ہنر اۤگیا تھا۔ اس نے ہوا میں اپنا پیراشوٹ کھولا اور پھر ہوا کے تھپیڑوں نے اس کے اۤگے ہتھیار ڈال دیئے۔۔۔۔۔۔ ہمیشہ کی طرح۔۔۔۔۔۔ بے شک وہ ایس ایس جی کے پیراٹروپرز میں سے بیسٹ تھا اور بہت عرصے تک اسے بیسٹ ہی رہنا تھا۔ سب سے زیادہ بلندی پر یہ ان کی پہلی مشق تھی۔ اس سے پہلے وہ پانچ ہزار، دس ہزار اور پندرہ ہزار فٹ کی بلندیوں سے اسی مہارت کے ساتھ اتر چکے تھے۔ چھلانگ لگانے کی ابتدا البتہ ہر بار سرفراز محمود نے ہی کی تھی۔ لینڈ کرتے ہی اس نے اپنے باقی ساتھیوں کو بھی کامیاب لینڈنگ کرتے دیکھا، چھٹیوں سے پہلے یہ ان کی اۤخری ٹریننگ تھی۔ وہ خوش تھا کیوں کہ وہ گھر جا رہا تھا۔ پشاور سے شکرپاراں کاسفر اس کے لیے ہمیشہ خوش گوار رہا تھا اور اس بار یہ اور بھی پرمُسرت ہونے والا تھا۔ وجہ تھی انابیہ۔۔۔۔۔۔ جس سے اس کی شادی ان ہی دنوں میں طے تھی۔ زندگی میں موجود مسکراہٹوں کی وجوہات میں سے ایک وجہ انابیہ بھی تھی۔

گھر پہنچنے پر اس کا استقبال ہمیشہ کی طرح بہت پُرجوش تھا۔

”امی جی! اۤپ ہر بار میرا استقبال مٹھاأیوں سے کیوں کرتی ہیں؟ جب بھی اۤتا ہوں اۤپ مجھے عید کا چاند بنا دیتی ہیں۔” اس نے امی جان کا چہرہ دیکھتے ہی انہیں سلام کیا، ان کا ماتھا چوما اور اپنا ہر بار والا شکوہ دہرایا۔

”چاند ہی تو ہو تم میرے لیے۔ جو کبھی کبھی نظر اۤءے وہ چاند ہی ہوتا ہے۔” انہوں نے جواباً اس کا ماتھا بھی چوم لیا۔

اس کے بابا کی شکرپاراں میں ہی ایک لاأبریری تھی اور ساتھ ہی وہ ایک کالج میں لیکچرار تھے۔ ان کا انتقال دو سال پہلے ہارٹ اٹیک سے ہوا تھا۔ اس کے بھاأی بہن نہیں تھے اور اس کی امی اس کی خالہ کے ساتھ رہتی تھیں مگر یہ گھر ان کا تھا جو سرفراز کے اۤنے، پررونق ہو جاتا تھا۔ اس کی امی اس کی واحد فیملی تھیں اور اب اس کی فیملی میں اضافہ ہونے جا رہا تھا۔ اس نے اپنے رشتے داروں کے ہجوم کے بیچ سیاہ شلوار قمیص میں ملبوس انابیہ کو دیکھ لیا تھا۔ گندمی رنگت، کمر تک لہراتے بال اور مڑی ہو”ی لمبی پلکیں اور چہرے پر میک اپ کے نام پر کچھنہیں تھا سواأے اۤنکھوں میں موجود کاجل کے۔ مسکراہٹ کے تبادلے کے بعد اس نے جھک کر انابیہ کو سلام کیا تو جواب میں اس نے گردن کو ذرا خم دے کر سلام کا جواب دیا۔ اگر کو”ی اس سے پوچھتا کہ سکون کہاں ہے تو وہ کہتا یا تو ہواأوں میں اڑنے میں یا شکرپاراں کے اس ٹکڑے میں جہاں اس کی تمام کاأنات تھی۔ مگر ایک ٹکڑا تھا جو اب بھی کم تھا اور جس کے بغیر اس کی کاأنات ادھوری تھی اور وہ اۤج اس سے ملنے شکرپاراں اۤرہا تھا۔ سرفراز محمود کی خوشی کی کو”ی انتہا نہیں تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

احمد رضاابراہیم نے اس سے ناشتے کی میز پر کچھ نہیں کہا مگر وہ پھر بھی اس کی کامیابی کے لیے دعاگو تھے۔ اس کو رخصت کر کے وہ اسٹڈی میں اۤگئے۔ سب سے پیچھے موجود ایک ریک سے انہوں نے کو”ی کتاب نکالی۔ کتاب کے اوراق کے درمیان ایک تصویر تھی جو کافی پرانی لگتی تھی، وہ کچھ دیر تک اس تصویر کو دیکھتے رہے پھر انہوں نے تصویر واپس رکھ کر کتاب بند کر دی۔ یادوں پر جمی برف پگھلنے لگی تھی۔ زندگی نے ان کے لیے بہت سے لمحات یادگار بناأے تھے مگر کچھ خاص لمحات ان کی زندگی کا اثاثہ تھے۔

ہیری کو گئے ہو”ے چھے ماہ سے زاأد عرصہ گزر چکا تھا۔ ان چھے ماہ میں اس نے ہر اعتبار سے سوچا تھا۔ زندگی ملنے کی خوشی سے بڑا زندگی کے ختم ہونے کا دکھ ہوتا ہے۔ وہ یہ بات سمجھ گیا تھا۔ وہ نہیں چاہتا تھا کہ کہیں بے خبری میں ہیری کی طرح کو”ی اور بچہ بھی پل رہا ہو۔ اس نے اس دن گھر اۤنے کے بعد سے ہی کوششیں شروع کر دی تھیں۔ امی بابا اسے دیکھ کر ناصرف حیران ہو”ے تھے بلکہ پریشان بھی ہو”ے تھے۔ اس نے انہیں پورا قصہ سنایا اور اپنے کمرے میں اۤتے ہی اپنی کانٹیکٹ لسٹ چھاننی شروع کر دی۔ کو”ی ایسا اشارہ جو اسے سمجھا سکتا کہ اسے کیا کرنا چاہیے۔ اس کے ذہن میں بہت سے خیالات تھے مگر ان پر عمل کرنا اۤسان نہیں تھا۔ اسے اس رات نیند نہیں اۤءی تھی۔ کانفرنس کے بارے میں تو خیر اسے خیال بھی نہیں اۤیا تھا۔ اسے اس بات کی کو”ی فکر نہیں تھی کہ اس نے اپنی زندگی کا بہت بڑا موقع گنوا دیا تھا۔ اسے کو”ی غم بھی نہیں تھا کیوں کہ جو وہ کرنے جا رہا تھا وہ اس سے کہیں زیادہ اہم تھا۔ چھے ماہ تک بہت سے لوگوں کے پیچھے خوار ہونے کے بعد بالاۤخر اسے کامیابی مل گئی تھی اور اس نے ”ہیری ہوم” نامی ایک این جی او قاأم کرنا کر دی۔ اس کی اپنی کمپنی کے بورڈ ممبرز، دوست احباب اور فوج سے تعلق رکھنے والوں نے اس کی مدد کی تھی۔ ان چھے ماہ میں اس نے بہت سے رجیکشنز کا سامنا کیا تھا۔ بہت سی الجھنوں کا سامنا کیا تھا مگر وہ سب اسے ناکام نہیں کر سکی تھیں۔ وہ جب ٹھکرایا جاتا اسے ہیری کا چہرہ یاد اۤتا، مسکراتا چہرہ۔ اور وہ پھر سے اسی لگن کے ساتھ جُت جاتا اور انجام یہ ہوا کہ وہ اپنا مقصد پانے میں کامیاب ہو گیا تھا۔ ہیری ہوم بہت سی زندگیوں کو سنوارنے والا تھا۔ ہیری ہوم ارمش کی زندگی بھی سنوار رہا تھا۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہمیشہ کی طرح ایئرپورٹ سے باہر نکل کر گھڑی دیکھ رہی تھی جب اس کی نظر بینچ پر بیٹھے ارمش پر پڑی۔ وہ چھے ماہ کے عرصے میں بھی اس کا چہرہ نہیں بھولی تھی۔ حیرت کی بات تھی۔
/
”تم یہاں کیا کر رہے ہو؟ Departureتو اوپر ہے۔” اس نے اوپر کی جانب اشارہ کرتے ہو”ے اس سے پوچھا جو نیلی جینز اور سفید ٹی شرٹ میں ملبوس تھا۔ ٹی شرٹ کی اۤستینیں پوری تھیں اور قصداً انہیں اس نے کہنیوں تک چڑھایا ہوا تھا۔

”ہاں جانتا ہوں Departure اوپر ہے مگر میں اس وقت جانے کے لیے نہیں اۤیا ورنہ سیدھا وہیں جاتا۔ یہاں وہاں گھومنے کی عادت نہیں ہے مجھے۔” سپاٹ چہرہ سپاٹ لہجہ۔۔۔۔۔۔ وہ طنز تھا یا تبصرہ لہجے سے جاننا مشکل تھا۔ سوو ہ خاموش رہی البتہ اسے کچھ غصہ ضرور اۤیا۔

”کیا اۤج تمہارا ڈراأیور اۤیا ہے؟” وہ اس کے سوال پر کچھ حیران ہو”ی۔

”ہاں وہ رہی میری گاڑی۔” اس نے دور کھڑی گاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہو”ے جواب دیا۔ ارمش کے چہرے پر واضح کوفت ابھری۔

”کیا اۤج میں تمھیں ڈراپ کر سکتا ہوں؟ مجھے تم سے کچھ ضروری کام ہے۔” اس کے سنجیدہ سے سوال نے اسے حیران کردیا۔

”کیا کام ہے؟”

”گفتگو لمبی ہے ہم دونوں کا وقت ضاأع ہو گا بہتر ہے بیٹھ جاأو۔ ظاہر ہے میں صبح اۤٹھ بجے اۤیا ہوں اور بہت مشکل سے وقت نکال کر اۤیا ہوں جسے ضاأع نہیں کرنا چاہوں گا۔” کہتا ہوا وہ اپنی گاڑی کی طرف چل پڑا۔ وہ کچھ دیر سُن سی کھڑی رہی پھر کچھ کوفت کے ساتھ اس کی طرف بڑھی۔ ساتھ ہی اس نے جاوید بھاأی (ڈراأیور) کو منع کر دیا تھا۔

”کہو کیا کام ہے؟” گاڑی میں بیٹھتے ہی اس نے سوال کیا جب کہ اس نے ابھی دروازہ بھی بند نہیں کیا تھا۔

”اب اتنی کیا جلدی ہے بتا رہا ہوں؟”

”تم ہی نے کہا کہ وقت ضاأع ہو گا تو اب تم وقت ضاأع کر رہے ہو۔”

”دراصل میں نے ایک این جی او قاأم کی ہے” ہیری ہوم کے نام سے۔ ”وہ اچانک بہت سنجیدہ ہو گیا اور ارمینہ سکتے میں اۤگئی۔

”کیا قاأم کی ہے؟”

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!