سبز اور سفید


ایئرپورٹ سے نزدیک ہی واقع ایک ہسپتال میں اس کی مرہم پٹی کی جا رہی تھی۔ ارمینہ خود بھی ڈیوٹی ڈاکٹر کی مدد کر رہی تھی۔ ارمش کمرے کی دیوار سے ٹیک لگاأے کونے میں کھڑا اس بچے کو دیکھ رہا تھا۔ اس کی چوٹ بہت گہری تھی بھاگتے ہو”ے وہ پارکنگ میں کھڑی ایک باأیک سے ٹکرا گیا تھا اور وہ باأیک اس کے پیر پر گر گئی تھی۔ اس نے بہت کوشش کے بعد باأیک کے نیچے سے اپنا پیر نکالا اور گارڈن میں اۤکر بیٹھ گیا۔ اس کی جگہ کو”ی اور بچہ ہوتا تو شاید درد سے کراہ رہا ہوتا مگر ارمش کو حیرانی ہو”ی کہ وہ بچہ اب تک رویا نہیں تھا۔ بینڈیج کرتے وقت بھی اس کے منہ سے ایک اۤہ تک نہیں نکلی تھی۔ اس اۤٹھ یا نو سال کے بچے کا صبر قابلِ دید تھا۔ ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ اس بچے کے پاس اۤیا۔

”نام کیا ہے تمھارا دوست؟” اس بچے نے گردن اٹھا کر اسے بہت غور سے دیکھا۔

”ہیری” اس نے معصومیت سے جواب دیا۔

”ہیری! اچھا نام ہے کس نے رکھا؟ امی یا ابو؟”

”کسی نے بھی نہیں وہ اسٹاپ پر ہر اتوار ایک بڑی سی کالی گاڑی میں ایک صاحب اۤتے ہیں وہ مجھے یہی بولتے ہیں تو میں بھی ان کو یہی نام بتا دیتا ہوں۔۔۔۔۔۔ ہیری” ارمش کو کچھ حیرانی ہو”ی مگر وہ پھر بھی مسکرا دیا۔

اس کی بینڈیج مکمل ہو گئی تھی۔ ارمینہ نے ایک مسکراہٹ کے ساتھ نرمی سے اس کے گال کو چھوا۔

”اۤءندہ احتیاط کرنا ہیری”

”جی” ایک شرمیلی سی مسکراہٹ کے ساتھ جواب اۤیا۔

”میرے خیال سے اۤپ کو بھی جانا چاہیے ورنہ اۤپ کی فلاأٹ مس ہو جاأے گی۔” اس نے ارمش کی طرف دیکھے بغیر اپنا سامان سمیٹتے ہو”ے اس سے کہا۔

ارمش نے جواب نہیں دیا۔ وہ بہت غور سے اس کے ہاتھوں کی حرکت کو دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت تیزی سے اپنی چیزیں سمیٹ رہی تھی اور انہیں بیگ میں ڈال رہی تھی۔ اس کی نظریں محسوس کرتے ہو”ے ارمینہ نے پلٹ کر ارمش کو دیکھا جو اس سے کچھ فاصلے پر کھڑا اب بھی دیوار سے ٹکا تھا ہاتھوں کو سینے پر باندھے ہو”ے اسے ہی دیکھ رہا تھا۔

”ہاں مجھے بھی لگتا ہے کہ مجھے جانا چاہیے۔ تم سے مل کر خوشی ہو”ی ہیری۔” اس نے نظریں ارمینہ سے ہٹا کر ہیری پر جما دی تھیں اور ہیری کی جانب ہاتھ بڑھایاتو ہیری نے جھٹ سے ہاتھ ملایا۔ پھر وہ ارمینہ کی جانب پلٹا۔

”مجھے یقین نہیں اۤتا ڈاکٹر ہوتے ہو”ے بھی اۤپ کی گھڑی پورے سات منٹ پیچھے ہے۔ سات منٹ میں کسی کی جان بچ بھی سکتی ہے اور جا بھی سکتی ہے۔ خدا حافظ”۔ یہ کہہ کر وہ رکا نہیں تھا۔ ارمینہ حیران کھڑی اپنی گھڑی کو دیکھ رہی تھی جو واقعی پورے سات منٹ پیچھے تھی۔ وہ اب سمجھی اس کے ہاتھوں کو کیوں دیکھ رہا تھا۔

ارمینہ نے باہر اۤکر کاأونٹر پر ہیری کا بل مانگا۔

”مگر بل پے ہو چکا ہے میم۔”

” یقینا اسی لڑکے نے۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے شکریہ” کم از کم ایک گھنٹہ ارمش رضا ابراہیم کو سمجھنے کیلئے کافی نہیں تھا۔

وہ کار ڈراأیو کر کے ایک بار پھر ایئرپورٹ کی طرف جا رہا تھا جب اسے یاد اۤیا کہ وہ اپنا موباأل ہسپتال کے ریسیپشن پر ہی بھول اۤیا ہے۔” اۤج ہر کام الٹا ہو رہا ہے” اس نے خود سے کہا اور ہسپتال کی طرف واپس مڑ گیا۔

وہ اپنا موباأل ریسیپشن سے لے کر پلٹ رہا تھا جب اس نے ایک شور سنا۔

”It’s an emergency۔۔۔۔۔۔ ڈاکٹر کو بلاأیں فوراً” ارمینہ نرس سے کہہ رہی تھی۔

کچھ لوگ ارمینہ سمیت اسٹریچر کو گھسیٹتے ہو”ے ایمرجنسی کی طرف جا رہے تھے۔ کمرے سے اۤتی ڈاکٹر بھی اب ان میں شامل ہو گئی تھی۔ پھر اس کی نظر اسٹریچر پر لیٹے ہیری پر پڑی وہ گہری گہری سانس بہت مشکل سے لے رہا تھا اور اس کی اۤنکھیں ضرورت سے زیادہ پھیلی ہو”ی تھیں۔ ریسیپشن سے گزرتے ہو”ے اسٹریچر پر لیٹے ہو”ے اس کی نظر ارمش پر پڑی جو سکتے کے عالم میں اسے تک رہا تھا جیسے کچھ سمجھ نہ پا رہا ہو۔ ہیری کے لبوں پر ارمش کو دیکھ کر ایک مسکراہٹ اۤءی۔۔۔۔۔۔ دھیمی اور شرمیلی سی مسکراہٹ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کی سانسیں دھیمی پڑتی گئیں اور راہداری کے دوسرے سرے تک جاتے جاتے اسٹریچر پر لیٹے ہیری نے سانس لینے کی کوشش بھی ترک کر دی۔

”میرا نام ہیری ہے۔” اۤواز اس کے کانوں سے ٹکراأی اور مسکراہٹ اس کی اۤنکھوں سے۔ اسے خود پر کپکپی طاری ہوتی محسوس ہو”ی وہ وجہ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ اس نے جو دیکھا اس کا تصور بھی نہیں کیا تھا۔ اسے اچانک گھٹن کا احساس ہونے لگا۔ وہ باہر لگی بینچوں میں سے ایک پر اۤبیٹھا اور ایک گہری سانس لی۔ اب اسے صرف ارمینہ کا انتظار تھا کہ وہ اۤتی اور کہتی کہ ہیری بچ گیا ہے اور اس نے سانس لینا شروع کر دی ہے۔ دس منٹ۔۔۔۔۔۔ پندرہ منٹ۔۔۔۔۔۔ اۤدھا گھنٹہ۔۔۔۔۔۔ وہ بیٹھا رہا منتظر سا پرامید سا۔۔۔۔۔۔ پھر اسے ارمینہ اۤتی دکھاأی دی۔ اس کا سانس کچھ اٹکنے لگا۔ وہ سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ کیوں۔۔۔۔۔۔ ہیری اس کا کچھ نہیں لگتا تھا۔۔۔۔۔۔ سڑک پر پھرنے والا ایک بچہ ہی تھا تو ارمش اس کے لیے ایسا کیوں محسوس کر رہا تھا؟ سوچ کا رخ ایک بار پھر نتیجے کی طرف مرکوز ہوا۔۔۔۔۔۔ ارمینہ اس کے برابر بینچ پر بیٹھ گئی۔

”تم واپس کیوں اۤءے؟ تم تو چلے گئے تھے؟” بے تکا سوال تھا۔ یہ وقت اس سوال کا نہیں تھا۔

”ہیری کیسا ہے؟” اس نے ڈرت ڈرتے ایک پتے کی بات پوچھی، حالاں کہ وہ ہیری کے وجود کو ساکت ہوتا دیکھ چکا تھا مگر امید۔۔۔۔۔۔

”ہیری اب ایک بہت بہتر جگہ پر ہے۔” اس کے اندر کچھ ٹوٹ گیا۔۔۔۔۔۔ وہ خاموش ہی رہا تھا۔ اسے الجھن گھٹن کچھ محسوس نہیں ہو رہا تھا۔ اسے سرے سے کچھ محسوس ہی نہیں ہو رہا تھا۔ اسے وہ بھوری اۤنکھیں یاد اۤءیں جن میں اس نے لمحے بھر کو بھی تکلیف نہیں دیکھی تھی، بس انہیں چھوٹا ہوتے دیکھا تھا جب ہیری مسکراتا تھا۔ اس بچے کی اۤنکھوں میں چمک تھی، گہری چمک۔۔۔۔۔۔ زندگی کے پاس اسے دینے کو بہت سے غم تھے۔ پہلا غم اسے مل چکا تھا۔

”لیکن اسے ہوا کیا تھا اچانک؟” حواس بحال ہوتے ہی اس نے ارمینہ سے پہلا سوال کیا۔ ”دراصل اسے دل کی ایک بیماری تھی جو پیداأشی طور پر اس میں موجود تھی مگر اسے معلوم نہیں تھا۔ ایک اسٹریٹ چاألڈ کو معلوم ہوتا بھی کیسے۔ اس کا خون بہ جانے کی وجہ سے اس کا دل فیلیئر کی جانب چلا گیا۔ کوشش کے باوجود بھی اسے بچایا نہیں جا سکا۔”

”اگر وہ ایک عام زندگی گزارتا، وہ ایک اگر اسٹریٹ چاألڈ نہ ہوتا تو شاید بچ جاتا یا اگر کو”ی اس کا خیال رکھتا، اس کے بارے میں فکرمند ہوتا تو شاید۔۔۔۔۔۔”

”اس کی زندگی اتنی ہی تھی۔ کیا معلوم وہ تب بھی نہ بچ پاتا۔ یہ اللہ کی مرضی تھی جو ہوتا ہے اس کے فیصلے سے ہوتا ہے۔”

”ایک اۤٹھ سال کے بچے کی موت سے کیا بھلا ہو سکتا ہے؟ کیا صحیح ہے اس میں؟”

”جو بھی ہو ہمیں اس کے فیصلے کے اۤگے سر جھکانا پڑتا ہے۔ ہم موت سے لڑ نہیں سکتے۔”

”کوشش تو کر سکتے ہیں۔” وہ بینچ سے اٹھ گیا اور گاڑی میں اۤبیٹھا۔ ہیری کا چہرہ اس کی اۤنکھوں کے اۤگے سے نہیں جا رہا تھا۔ ارمش کبھی بھی اس قدر حساس نہیں رہا تھا مگر ہیری کی شخصیت میں کچھ تھا جسے وہ نام نہیں دے پایا اور جس کی وجہ سے وہ اس قدر متاثر ہو رہا تھا۔ اس نے گاڑی اسٹارٹ کر دی اس بار وہ ایئرپورٹ نہیں جا رہا تھا۔ گھر پہنچتے پہنچتے اس نے ایک فیصلہ کر لیا کہ وہ روز پاکستان کے ہزاروں بچوں کی طرح ہیری کی موت کو یوں بے وقعت نہیں ہونے دے گا۔۔۔۔۔۔ وہ اتنی اۤسانی سے ہیری کو مرنے نہیں دے گا۔

یہ نغمہ فصلِ گل و لالہ کا نہیں پابند

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!