سبز اور سفید

وہ کئی دفعہ اپنے اۤپ کو اۤءینے میں دیکھ چکی تھی مگر اسے تسلی نہیں ہو رہی تھی۔ وہ ارمش کی منتظر تھی۔ اۤج اس کی شادی کی پہلی سال گرہ تھی۔ اس نے صبح سے بہت محنت کر کے سب کچھ ارینج کیا تھا اور اب اس کی تیاری مکمل تھی۔ اس نے سیاہ رنگ کی ساڑی پہنی تھی جس کے پلو پر سرخ رنگ کے بہت نفیس سے پھول کڑھے تھے، بالوں کو ایک طرف سے پن سے روکا ہوا تھا دوسری طرف سے کھلے تھے۔ وہ اس وقت تک اۤجاتا تھا مگر اب تک اۤیا نہیں تھا وہ کمرے میں ٹہلنے لگی اس نے گاڑی کی اۤواز پر کھڑکی سے دیکھا، اس کی گاڑی اۤکر رکی تھی، وہ بھاگتی ہو”ی نیچے اۤگئی۔ نیچے بھی سب ارمش کا انتظار کر رہے تھے۔ ارحم بھاأی، رحمت بھابھی، امل، سرفراز، امی اور بڑے بابا۔۔۔۔۔۔ وہ سب وہاں موجود تھے۔ وہ اندر اۤیا تو سب نے اس کا استقبال کیا۔

”ارے اۤپ لوگ سب اتنا تیار کیوں ہیں؟ کہیں جانا ہے کیا؟” ارمینہ کا رنگ ایک پل میں پھیکا پڑ گیا۔ اب تک چاند سا چمکتا اس کا چہرہ ایک پل میں بجھ گیا تھا۔

”میں نے کہا تھا بڑے بابا اسے یاد نہیں ہوگا۔۔۔۔۔۔” وہ دکھ سے بولی تھی۔

”ارمش کو”ی اپنی شادی کی سال گرہ کیسے بھول سکتا ہے؟ وہ بھی پہلی۔” بابا کے بتانے پر اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا۔

”ارے ایک سال ہو گیا اسے جھیلتے ہو”ے اور پتا ہی نہیں چلا بابا۔” وہ چلتا ہوا اس کے قریب اۤیا اور اس کے ہاتھ میں اپنا کوٹ تھما دیا۔

”یہ اوپر رکھ اۤءو پھر کیک کاٹ لیتے ہیں۔” اس نے بڑے مزے سے ارمینہ سے کہا تو وہ پیر پٹختی اوپر چلی گئی۔ وہ خود ہی سب سے اجازت لے کر اوپر اۤگیا، ارمینہ نے اسے سیڑھیاں چڑھتے دیکھ لیا تھا۔ وہ جانتی تھی وہ سیدھا باتھ روم میں گھس جاأے گا اسی لئے وہ اس کے کپڑے نکالنے لگی تھی جب وہ الماری کے دروازے سے ٹک کر کھڑا ہو گیا تھا۔

”غصے میں ہو یا بلش کر رہی ہو؟” وہ اس کے سرخ چہرے کو دیکھ کر بولا تھا۔

”مت بولو تم مجھ سے، میں صبح سے اتنی محنت کر رہی ہوں اور ایک تم ہو جسے کچھ یاد ہی نہیں رہتا۔” بولتے بولتے اس کے اۤنسو بھی بہنا شروع ہو گئے تھے۔

”پلیز یار رونا مت۔۔۔۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔ مجھے ہنسی اۤجاتی ہے۔”

”تم بہت پتھر دل انسان ہو ارمش۔ تمہیں مجھ پر ذرا ترس نہیں اۤتا ہے۔” وہ پلٹنے لگی جب اس نے اسے روکا تھا۔ اس کی کلاأی پر اس نے ایک خوبصورت سابریسلٹ باندھا تھا۔ وہ بریسلٹ کو دیکھ کر گنگ سی ہو گئی ۔ اس پر ‘A’ کنندہ کیا گیا تھا۔

”اب اس ‘A’ کا مطلب کو”ی پوچھے تو کہہ دینا “A” سے ارمینہ اۤتا ہے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں پوچھوں تو کیا بولو گی تم۔۔۔۔۔۔؟”

”’A’ سے ارمش اۤتا ہے” وہ فوراً شرما کر بولی۔

”ہاں۔۔۔۔۔۔ اب تھوڑی تھوڑی عقل اۤتی جا رہی ہے اۤپ میں۔” وہ دھیرے سے مسکراأی۔

”اور اب جب ایک سال میں نے تمہیں ترساتے ہو”ے گزار دیا ہے تو اۤج میں قبول کر ہی لیتا ہوں کہ ۔۔۔۔۔۔guzel کا مطلب خوبصورت ہی تھا۔۔۔۔۔۔ اور اس میں کو”ی شک نہیں کہ میری بیوی اس دنیا کی سب سے حسین لڑکی ہے، وہ الگ بات ہے مجھ سے لڑتی ہے، تنگ بھی بہت کرتی ہے۔۔۔۔۔۔ مگر اب کیا کریں؟ محبت۔۔۔۔۔۔ ہے تو ہے۔” ارمش نے اپناأیت سے کہا تو اس نے گردن اٹھا کر ارمش کی جانب دیکھا تھا۔

”کیا کہا۔۔۔۔۔۔؟”اس کے سوال پر ارمش نے جھک کر اس کے ماتھے پر ہلکا سا بوسہ دیا تھا۔

”محبت ہے تو ہے۔۔۔۔۔۔ تم سے۔۔۔۔۔۔ بے انتہا۔۔۔۔۔۔ بے پناہ۔۔۔۔۔۔ اور بے لوث

”Happy Anniversay Mrs. Armeena Armash Raza Ibrahim”

یہ اس کی طرف محبت کا پہلا باقاعدہ اظہار تھا ورنہ اۤج تک وہ اس سے باتوں باتوں میں کچھ کہتا تھا تو ساتھ اس کے اۤگے کو”ی ”الٹا” جملہ ضرور ہوتا تھا۔۔۔۔۔۔ مگر اۤج اس نے اۤگے سے کچھ نہیں کہا تھا یہ اس کے جذبوں کی شفافیت تھی، جو اس کی اۤنکھوں میں ظاہر تھی۔

وہ شخص اس دنیا میں اس کا سب سے اچھا دوست تھا اور سب سے زیادہ لڑنے والا دشمن بھی تھا مگر وہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں ایسے گرفتار تھے کہ باقی سب کچھ ثانوی تھا۔ قصہ مختصر یہ کہ زندگی کی مشکلیں اور راستوں کی رکاوٹیں اپنی جگہ تھیں مگر ایک دوسرے کے ساتھ نے ان کی مشکلوں کو بہت حد تک اۤسان کر دیا تھا۔

”میں نے کہا تھا تم ایک نہ ایک دن قبول کر ہی لوگی۔” ارمش نے اس کے گرد بازو حاأل کر دیئے تھے۔

”اگر کو”ی مرد کسی عورت سے واقعی محبت کرتا ہے تو پھر اسے اس کے اۤگے ہارنا ہی پڑتا ہے، ایسے کام نہیں بنتا۔۔۔۔۔۔ خاص طور پر تب جب وہ عورت اس کی بیوی ہو۔” ارمش کے اِس دل چسپ تبصرے پر ارمینہ ہنس دی تھی۔

‘ارے رکو۔” وہ دراز سے اس کا گفٹ نکال لاأی تھی۔

”یہ لو” وہ اس کے ہاتھ سے ڈبہ لے کر اسے کھولنے لگا ۔ اس میں ایک خوبصورت سی گھڑی تھی۔

”اب تمہیں گھڑی اتنی پسند تھی تو میں نے یہی لے لی۔۔۔۔۔۔ اور ٹاأم دیکھ لو بالکل پرفیکٹ ہے نہ ایک منٹ اۤگے نہ پیچھے۔” وہ ہنس پڑا تھا اور پھر اس نے گھڑی کو پورے سات منٹ پیچھے کر دیا تھا۔

”اب یہ سات منٹ میرے لئے بہت خاص ہیں اور یہ بہت اچھی ہے تھینک یو۔”

”پہنو تیار ہو اور نیچے اۤجاأو۔۔۔۔۔۔ اچھی خاصی دعوت خراب ہو جاتی مگر تم نے سب سنبھال لیا اچھے ہو تم ارمش رضا ابراہیم۔” وہ چہکتے ہو”ے کہتی ہو”ی پلٹ گئی اور وہ گھڑی ہاتھ میں لئے اسے دیکھتا رہا۔

”ابھی تھوڑی دیر پہلے میں کتنا پتھر دل تھا۔۔۔۔۔۔ اور اب کتنا اچھا ہوں۔۔۔۔۔۔ یہ لڑکی کبھی نہیں سدھر سکتی۔۔۔۔۔۔ بالکل اپنے ماموں پر گئی ہے۔”

”بالوں میں ہاتھ پھیرتے ہو”ے کہتا ہوا وہ باتھ روم کی طرف بڑھ گیا تھا۔ اسے تیار ہونا تھا اچھا لگنا تھا۔۔۔۔۔۔ یہ دعوت عام دعوت تو نہیں تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

تالیوں کا شور گونج اٹھا تھا۔ وہ اب اپنی نشست سے اٹھ کر اسٹیج کی جانب بڑھنے لگا تھا۔ مسکراہٹ اس کے چہرے پر بکھر رہی تھی۔ رسالپور کے ایک خوبصورت سے کیفے میں بہت سے لوگ بیٹھے تھے۔ اتنے کہ جگہ اب ختم ہو گئی تھی بچ جانے والے تمام لڑکے کیفے کے ساتھ چلتی دیوار کے ساتھ ٹک کر کھڑے ہو گئے تھے۔ رسالپور میں ہلکی ہلکی بارش اۤج صبح سے تھوڑے تھوڑے وقفے سے جاری تھی وہ اسٹیج پر چڑھا۔ اس نے ماأیک ایک چمچ کو تصور کر لیا تھا۔۔۔۔۔۔ فضا میں ہنسی گونجی تھی۔

”اۤپ میں سے شاید کو”ی بھی میرا اصل نہیں جانتا۔۔۔۔۔۔” اس نے کہنا شروع کیا تھا۔

”لیکن یہاں۔۔۔۔۔۔ اس کیفے کی چھت کے نیچے دو لوگ ایسے ہیں جو میرا اصل جانتے ہیں۔۔۔۔۔۔ مسٹر اینڈ مسز ارمش رضا ابراہیم۔۔۔۔۔۔” اس نے سامنے کی ٹیبل پر بیٹھے ایک خوبصورت سے جوڑے کی طرف اشارہ کیا تھا جن کے ساتھ اب ایک چھوٹا سا بچہ بھی موجود تھا پانچ یا چھے سال کا۔۔۔۔۔۔ وہ کہتا گیا:

”دوستوں میں نے اۤپ لوگوں کے ساتھ پاکستان ایئرفورس اکیڈمی رسالپور میں پورے چار سال گزارے ہیں اور اۤج ہم سب پاس اۤءوٹ ہوتے ہیں مگر ان چار سالوں میں کو”ی بھی یہ نہیں جانتا کہ میں کون ہوں۔۔۔۔۔۔ لیکن اۤج میں اۤپ سب کو یہ بتانا چاہتا ہوں کہ میں سڑک پر بڑی بڑی گاڑیوں کے شیشے صاف کر کے پیسے مانگنے والا ایک اسٹریٹ چاألڈ ہوں۔۔۔۔۔۔” پورے کیفے میں اچانک سناٹا چھا گیا تھا ہر اۤواز اب تھم گئی تھی وہ سب اس کی طرف متوجہ تھے۔

”درست ہے یہ کہ میں نے چودہ سال تک اپنی تعلیم یونہی جاری رکھی اور پھر ایک دن تھک کر تعلیم چھوڑ بھی دی۔۔۔۔۔۔ اۤپ لوگوں کو شاید یقین نہ اۤءے مگر یہی حقیقت ہے۔۔۔۔۔۔ پھر شاید قدرت کو مجھ پر ترس اۤگیا اور اللہ نے میری ملاقات ارمش رضا ابراہیم سے کروا دی۔۔۔۔۔۔” وہ کہتے ہو”ے مسلسل ٹیبل پر بیٹھے ارمش اور ارمینہ کو دیکھ رہا تھا۔

”ارمش بھاأی نے مجھ سے پوچھا میرا گھر کہاں ہے؟ میں نے کہا نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ تو انہوں نے کہا میں تمہیں گھر لے کر چلتا ہوں۔۔۔۔۔۔ اور پھر یہ مجھے گھر لے اۤءے۔۔۔۔۔۔ ہیری ہوم۔۔۔۔۔۔ ہم سب لوگ یہاں رسالپور میں رہتے تھے، میس کا کھانا کھاتے تھے اور پھر اپنے اپنے روم میٹس کے خراٹے برداشت کرتے سو بھی جاتے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر چھٹیوں میں گھر جانے پر جو سکون حاصل ہوتا ہے اس کی کو”ی مثال نہیں۔۔۔۔۔۔ میرے لئے بھی ہیری ہوم ایسا ہی ہے۔۔۔۔۔۔ ایک گھر۔۔۔۔۔۔ارمش بھاأی میں ہمیشہ اۤپ کے جیسا بننا چاہتا تھا مگر میں اۤپ کے جیسا نہیں بن سکتا۔ کبھی نہیں، اۤپ جیسا کو”ی نہیں بن سکتا۔۔۔۔۔۔ اور ارمینہ۔۔۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے تم نے مجھ سے کہا تھا کہ میں اپنی پہلی اسپیج میں تمہارا نام ضرور لوں۔۔۔۔۔۔ تو یہ میری پہلی اسپیچ ہے۔۔۔۔۔۔ وہ الگ بات ہے کہ رسالپور کے اس کیفے میں نقلی ماأیک ہاتھ میں تھامے اور ان سب نمونوں کی موجودگی میں ہے۔۔۔۔۔۔ مگر ہے۔۔۔۔۔۔” وہ مسکرایا تھا۔۔۔۔۔۔

”اور میں تمہارا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔۔۔۔۔۔ تم میرے لئے میری سگی بہن سے بھی بہت بڑھ کر ہو۔۔۔۔۔۔ میری دوست ہو میری سب سے اچھی دوست، میں تمہیں اپنی ماں کی جگہ نہیں دے سکتا کیوں کہ اس کے لیے تم ابھی تھوڑی چھوٹی ہو۔۔۔۔۔۔” کیفے میں ایک بار پھر ہنسی گونجی تھی۔

”مگر تم نے میرے لیے جو کیا ہے وہ میں کبھی نہیں بھول سکتا۔۔۔۔۔۔ دوستوں مجھے پندرہ سال کی عمر میں ایک ایسی بیماری تھی جو کبھی بھی میری جان لے سکتی تھی۔۔۔۔۔۔ مگر یہ ایک لڑکی تھی جسے مجھ پر بھروسہ تھا جو جانتی تھی کہ میں اس بیماری سے لڑ لوں گا۔۔۔۔۔۔ اور میں نے واقعی لڑا بھی ۔ ان دونوں کی مدد سے اور اۤج میں یہاں اۤپ کے بیچ کھڑا ہوں۔۔۔۔۔۔ بالکل صحیح سلامت۔۔۔۔۔۔ پاک فضاأیہ کے ایک جوان کی حیثیت سے۔۔۔۔۔۔ یہ کرشمہ سا لگتا ہے۔” اس نے اپنی بات جاری رکھی۔

”دوستوں۔۔۔۔۔۔ تو میں بات کر رہا تھا اصل کی۔۔۔۔۔۔ انسان کا اصل کیا ہوتا ہے کیسا ہوتا ہے؟ بھیانک یا خوبصورت؟ انسان کا اصل وہ نہیں ہوتا جو وہ دکھتا ہے بلکہ وہ ہوتا ہے جو وہ سوچتا ہے اور جو کچھ اس نے برداشت کیا ہوتا ہے۔۔۔۔۔۔ سارا دن دنیا کو اپنا ہنستا ہوا چہرہ دکھا کر جب رات کے اندھیرے میں خود سے نظریں ملاتا ہے ناں۔۔۔۔۔۔ وہ ہوتا ہے انسان کا اصل۔۔۔۔۔۔ اور اگر کو”ی اۤپ کا اصل جان کر بھی اۤپ کا ساتھ نہ چھوڑے، اۤپ سے منہ نہ موڑے اور اۤپ کا ہاتھ تھام کر اۤپ کو زندگی کے راستوں پر چلنا سکھاأے۔۔۔۔۔۔ تو پھر ایسے انسان کا ہاتھ کبھی مت چھوڑیئے گا۔۔۔۔۔۔ کیوں کہ ایسے لوگ اۤپ سے سچی محبت کرتے ہیں۔۔۔۔۔۔ بے لوث اور بے غرض۔۔۔۔۔۔

ایک اسٹریٹ چاألڈ سے ایک ایئرفورس پاألٹ تک کی کہانی میں میں نے زندگی سے بہت کچھ سیکھا ہے۔۔۔۔۔۔ مگر زندگی سے زیادہ میں نے ارمش رضا ابراہیم سے سیکھا ہے۔۔۔۔۔۔ میں نے سیکھا ہے کہ لوگوں سے محبت کیسے کی جاتی ہے؟ زندگی کو کاراۤمد طریقے سے کیسے جیا جاتا ہے؟ مشکلوں سے کیسے لڑا جاتا ہے؟ So Mr. Armesh Raza Ibrahim Thank you very much۔۔۔۔۔۔ یہ الفاظ ناکافی ہیں میں جانتا ہوں مگر پھر بھی مجھے کچھ سے کچھ بنانے کے لئے شکریہ۔۔۔۔۔۔ اور ایک وعدہ کر رہا ہوں اۤپ سے۔۔۔۔۔۔ اۤج کے بعد۔۔۔۔۔۔ میں کبھی نہیں رو”وں گا۔۔۔۔۔۔”

وہ اسٹیج سے اترنے لگا تھا اور پورے کیفے میں تالیوں اور سیٹوں کی گونج تھی۔۔۔۔۔۔ اور ارمش اور ارمینہ اسی ٹیبل پر بیٹھے تھے۔

ارمینہ نے ارمش کی جانب دیکھا۔ وہ رو رہا تھا اس نے اۤج زندگی میں پہلی بار ارمش کو روتے ہو”ے دیکھا تھا۔ گردن جھکاأے نم اۤنکھوں سے وہ مسکرا بھی رہا تھا۔ وہ خوشی تھی یا غم سکھ تھا، یا دکھ فرق کرنا مشکل تھا اور فرق کرنا ضروری بھی نہیں تھا۔

”اور تم مجھ سے کہتے تھے یہ کمزور دل کا لڑکا ہے اسے کو”ی ایسی فیلڈ لینی چاہیے جس میں زیادہ ہمت نہ جتانی پڑے۔” وہ روتے ہو”ے ہنس پڑا اور اپنے اۤنسو پونچھ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ اتنے میں عمر اسٹیج سے اتر کر ان تک اۤگیا تھا۔ ارمش نے کھڑے ہو کر اسے گلے لگا لیا تھا۔

Sword of Heroes لے کر پاکستان ایئرفورس اکیڈمی سے پاس اۤءوٹ ہونے والا عمر یاور اس کے قد کے برابر تھا۔

”ہمیشہ میں تمہیں رلاتا تھا اۤج تم نے مجھے رلا دیا۔” عمر نے اۤج ایک بھی اۤنسو نہیں بہایا تھا وہ بڑا ہو گیا تھا۔

”اۤپ نے ہی تو کہا تھا کہ لڑکیوں کو رونے والے مرد پسند نہیں اۤتے۔” اس کے بے ساختہ جملے پر وہ دونوں ہی ہنس پڑے تھے۔ پھر وہ ارمینہ کی جانب مڑا تھا۔

”اب تو خوش ہو ناں تم؟”

”ہاں” اس نے پوری مسکراہٹ کے ساتھ جواب دیا تھا۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!