سبز اور سفید

وہ بہت تیزی سے باہر اۤءی تھی۔ اتنی تیزی سے کہ اس کا سانس پھولنے لگا تھا۔ گاڑی میں بیٹھنے تک اس کے ہاتھ پاأوں کانپنے لگے تھے، اس کو سانس لینے میں مشکل ہونے لگی تو اس نے بیگ سے Inhaler نکالا، دو اسپرے کیے اور گہری گہری سانس لی۔

”بی بی جی اۤپ ٹھیک تو ہیں ناں؟” جاوید بھاأی اس کی حالت پر گھبرا گئے۔

”جی جاوید بھاأی۔۔۔۔۔۔ گھر چلیں” اس نے بہ مشکل کہا تو انہوں نے گاڑی چلا دی۔

وہ گھر اۤءی تو اس کا دماغ بالکل سن تھا۔ پاپا اپنے کمرے میں تھے اور یہ اچھی بات تھی، وہ اس وقت ان کا سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ اوپر اپنے کمرے میں اۤگئی۔ بیڈ پر بیگ پھینکا اور خود بھی بیڈ پر ڈھے گئی۔ اۤنسو کا ایک قطرہ اس کی اۤنکھ کے کنارے سے بہہ گیا۔

اسے افسوس تھا، شرمندگی تھی کہ وہ وہاں گئی ہی کیوں تھی؟ ان کے اۤگے اس نے غصے میں اۤکر بہت کچھ تو کہہ تو دیا تھا مگر یہ اس کی شخصیت کا حصہ نہیں تھا۔ مگر پاپا کے معاملے میں وہ ہمیشہ سے ایسی ہی تھی۔ اوور پروٹیکٹو اور بہت زیادہ possessive، مگر غم ایک نہیں تھا۔۔۔۔۔۔ ارمش۔۔۔۔۔۔ اس نے اس سے جھوٹ کیوں بولا تھا؟ کیا وہ واقعی اس کی زندگی میں ضرورت سے زیادہ داخل ہو رہی تھی؟ یہ ادراک بہت زیادہ ہتک کا باعث تھا۔ وہ اسے اگنور کر رہا تھا اور یہ سوچ کر اسے شدید کوفت ہونے لگی تھی۔

”میں اب اس سے کو”ی بات نہیں کروں گی۔” اس نے دل میں سوچ لیا۔ اۤنسو پوچھتی وہ بیڈ سے اُٹھ گئی تھی۔”

وہ اس دن کے بعد ہیری ہوم نہیں گئی۔ ارمش سے بھی اس کی کو”ی بات نہیں ہو”ی تھی۔ وہ اب واپس اپنے پرانے روٹین پر اۤگئی تھی۔ ایئرپورٹ سے گھر اور گھر سے پھر ایئرپورٹ اس کا معمول تھا۔ پاپا کو لگا وہ ان کی وجہ سے نہیں جا رہی تو انہوں نے ٹوکا بھی نہیں تھا مگر وہ ضرورت سے زیادہ خاموش رہنے لگی تھی اور چڑچڑی ہو گئی تھی۔

”ارمینہ۔۔۔۔۔۔ کو”ی مسئلہ ہے؟” وہ رات کو ان کی ورزش کروا رہی تھی جب انہوں نے اس سے پوچھا۔

”نہیں تو پاپا۔” وہ نیچے دیکھتے ہو”ے بولی، وہ ان سے نظریں ملا کر کبھی جھوٹ نہیں بول سکتی تھی۔

”چپ چپ رہتی ہو۔” اس نے نظر اٹھا کر انہیں دیکھا، وہ شفقت سے اسے دیکھ رہے تھے جیسے اس کے اندر ہر جذبے تک انہیں رساأی حاصل ہو اور اس کے ہر زخم کو بھر دینا چاہتے ہوں۔

”پاپا۔۔۔۔۔۔ اس دنیا میں ایک میں اور ایک اۤپ، بس ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے ساتھ مخلص ہیں، بس ہم دونوں ہی ایک دوسرے کے لیے ہیں۔ دنیا کا کو”ی تیسرا شخص ہم سے محبت نہیں کرتا، ہمیں سمجھ نہیں سکتا۔۔۔۔۔۔ میں اۤپ کے لیے اور اۤپ میرے لیے۔۔۔۔۔۔ بس” یہ کہتے کہتے اس کے اۤنسو بہتے گئے تھے۔

”ارمینہ کیا ہواہے بیٹا مجھے بتاأو۔۔۔۔۔۔ کسی نے کچھ کہا ہے تم سے؟” وہ اس کے سر پر ہاتھ پھیر رہے تھے اور اس کی سسکیاں بڑھتی جا رہی تھیں۔

”ارمینہ تم مجھے ڈرا رہی ہو۔”

”پاپا وہ ارمش کے بابا۔۔۔۔۔۔” کسی نے ان کا دل تھام لیا تھا انہیں سانس لینے میں دشواری ہونے لگی تھی۔

”پاپا میں ارمش سے ملنے گئی تھی کیوں کہ فون پر اس نے مجھ سے کہا تھا کہ وہ بیمار ہے۔ پر جب میں گئی تو اس کے پاپا نے مجھ سے بہت غلط باتیں کیں۔ پاپا انہیں مجھ سے کیا پرابلم ہے مجھے سمجھ نہیں اۤتا مگر جب بھی ہمارا اۤمنا سامنا ہوا ہے ہمارے بیچ کبھی کو”ی خوش گوار بات ہو”ی ہی نہیں۔۔۔۔۔۔ پاپا میں نے ہمیشہ انہیں عزت دی جیسے ہمیشہ ہر کسی کو دیتی ہوں مگر انہوں نے کبھی مجھے اس قابل نہیں سمجھا کہ کبھی میری طرف دیکھ کر مجھ سے بات بھی کریں اور اگر یہ ان کا مزاج بھی ہے تو ان کے الفاظ ایسے تھے کہ میں خود کو روک نہیں پاأی۔ وہ اۤپ کے بارے میں بھی عجیب عجیب باتیں کر رہے تھے مجھ سے برداشت نہیں ہوا تو میں نے بھی انہیں کچھ سخت الفاظ کہہ دیئے اور ارمش۔۔۔۔۔۔ پاپا وہ بہت بدل گیا ہے اس نے مجھ سے جھوٹ بولا۔ مجھے اگنور کر رہا ہے جیسے میں زبردستی اس کی زندگی میں دخل اندازی کر رہی ہوں۔ پر اب میں نے فیصلہ کر لیا ہے پاپا۔۔۔۔۔۔ میں اس سے نہیں ملوں گی چاہے کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔۔” وہ جیسے پھٹ پڑی تھی۔ اس نے ان کے چہرے کے زاویے دیکھے بغیر اتنے دن سے اپنے دل میں رکھی ہر بات انہیں کہہ ڈالی تھی ۔۔۔۔۔۔ یہ جانے بغیر کہ وہ کرب کی کس چوٹی پر پہنچ گئے تھے۔ وہ خود اب بھی رو رہی تھی۔

”پاپا ہم شکرپاراں چلیں؟ امی اور دادی کی قبر پر؟”

”بیٹیاں اپنی باتیں ماں کو ہی بتاتی ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہیں انابیہ یاد اۤرہی ہے ناں؟” اس نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا تھا۔

”نہیں پاپا۔۔۔۔۔۔ اۤپ میرے سب سے اچھے دوست ہیں۔ میں اۤپ سے اپنے دل کی ہر بات کر سکتی ہوں۔۔۔۔۔۔ مگر امی سے مل کر دل کو ایک عجیب سا سکون ایک عجیب سی خوشی حاصل ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔ چلتے ہیں پاپا؟”

”تم ہیری ہوم نہیں جاأو گی کیا اب؟”

”جاأوں گی۔۔۔۔۔۔ بلکہ جب میں ہیری ہوم سے واپس اۤ جاأوں تب چلتے ہیں۔ سنڈے کو جا کر منڈے تک واپس اۤجاأیں گے مجھے چھٹی بھی نہیں کرنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔”

”ٹھیک ہے۔”

”مگر اۤپ سفر کر لیں گے ناں؟”

”بالکل۔۔۔۔۔۔ بس جا کر بیٹھنا تو ہے۔۔۔۔۔۔” ایک مسکراہٹ کے ساتھ وہ بولے تھے۔

”ارمینہ۔۔۔۔۔۔ اگر کبھی کہیں ارمش کے پاپا تمہیں نظر اۤءیں یا ان سے تمہارا سامنا ہو تو۔۔۔۔۔۔ انہیں سلام کر لیا کرنا یہ ان کا حق ہے اور تمہارا فرض تمہیں دونوں ادا کرنے ہیں۔۔۔۔۔۔ اس سے تم چھوٹی نہیں ہو گی۔۔۔۔۔۔ اللہ کے قریب ہو جاأو گی۔”

”جی کر لیا کروں گی مگر میری دعا ہے کہ ان سے کبھی میرا سامنا نہ ہو۔”

”ایک سوال پوچھوں تم سے؟”

”جی؟”

”تم ارمش سے محبت کرتی ہو؟”

کچھ سوال اۤپ کے لیے موت کی سی تکلیف لے کر اۤتے ہیں جو دل میں کہیں بہت نیچے دفن ہو”ے درد بھی نکال کر سطح پر لے اۤتے ہیں اور پھر اۤپ پر ہنستے ہیں کہ اۤپ ان کا کیا جواب دیں؟ سچ بولیں یا جھوٹ۔۔۔۔۔۔ جھوٹ بولیں تو ضمیر ملامت کرتا ہے، سچ بولیں تو ہتھیلی پر رکھی عزتِ نفس قطرہ قطرہ مٹھی سے بہ جاتی ہے تکلیف ہر طرح کے جواب سے ہوتی ہے بالکل ایک سی۔۔۔۔۔۔ موت کی سی، اس نے بہت سوچنے کے بعد گردن نہ میں ہلاأی تاکہ اس کا بھرم رہ جاأے۔

”واقعی؟” پاپا کو جیسے یقین نہیں اۤیا تھا۔

”جی پاپا۔۔۔۔۔۔ میں نے اۤپ سے کہا ناں۔۔۔۔۔۔ یا تو میں یا اۤپ بس۔۔۔۔۔۔ اور کو”ی بھی نہیں۔”

”ارمینہ ارمش برا نہیں ہے بیٹا، میں جانتا ہوں اسے وہ بہت اچھا انسان ہے۔”

”ہو گا۔۔۔۔۔۔ مگر اب مجھے اس سے کو”ی تعلق نہیں رکھنا، اتنی بے عزتی اتنی ہتک کے بعد میں اس سے کو”ی رابطہ نہیں چاہتی۔”

”اچھا ٹھیک ہے پھر کل ہم شکرپاراں چلیں گے جب تم اۤجاأو گی۔”

”ہونہہ” وہ مطمئن ہو گئی تھی۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

سرفراز کو ہوش اۤیا تو وہ ہسپتال کے بیڈ پر تھا۔ اس کے اردگرد اس کی اپنی ٹیم کے ممبرز اور ساتھ کچھ ڈاکٹرز تھے۔

”کیا ہوا ہے مجھے؟ میں اپنے پیر ہلا نہیں پا رہا ہوں۔” اسے کچھ ڈر سا لگا تھا۔

”جی ہاں مسٹر سرفراز۔۔۔۔۔۔ گرتے وقت جھٹکے کے باعث اۤپ کی ریڑھ کی ہڈی بہت بری طرح نقصان پہنچا ہے۔ اور اب اۤپ کے پیر۔۔۔۔۔۔ مجھے افسوس ہے اۤپ چل نہیں پاأیں گے۔” اسے لگا وہ اپنے پیروں کے بل نہیں منہ کے بل گرا تھا۔

”اۤپ کی ہڈیوں نے اپنی جگہ چھوڑ دی تھی جس کی وجہ سے اۤپ کی نسیں دب گئی ہیں اور اب اۤپ اپنے پیروں اور کمر کو حرکت نہیں دے سکتے۔” ڈاکٹر نے اسے بتایا تھا۔ اب کو”ی تکلیف نہیں تھی، بس ایک جان تھی جو سینے میں تھی۔ دروازہ کھول کر اس کے چند سینئرز اندر اۤگئے تھے۔

”کیسے ہو سرفراز؟”

”جی میں ٹھیک ہوں سر۔” وہ اس حالت میں بھی مُسکرا دیا۔

”یقین کرو اس حادثے سے جتنا دکھ تمہیں ہوا اتنا ہی ہمیں بھی ہوا ہے ۔۔۔۔۔۔ تم جیسا پیراٹروپر ملنا بہت قسمت کی بات ہے سرفراز۔۔۔۔۔۔ تم جیسے سپاہی ہمارا فخر ہی نہیں ایک مثال بھی ہیں سب کے لیے۔۔۔۔۔۔ مگر مجھے بہت افسوس ہے کہ اب تم پیراگلاأڈنگ نہیں کر پاأو گے۔۔۔۔۔۔ میں تمہیں جانتا ہوں سرفراز۔۔۔۔۔۔ تم ایک سمجھ دار فوجی ہو اور تم سمجھتے ہو کہ زندگی ایسے حادثات مضبوط اور صابر لوگوں کے حصے میں ہی لاتی ہے۔۔۔۔۔۔ ہمیں ہمیشہ فخر رہے گا کہ تم جیسا پیراٹروپر ہمارے پاس تھا۔۔۔۔۔۔ اور تمہاری جو خدمات ہیں اس ملک کے لیے اس کے لیے ہم ہمیشہ تمہارے شکرگزار رہیں گے۔”

وہ مسکرایا اور اس نے اپنے ہاتھ کی کلاأی پر سے ایک سبز اور سیاہ رنگوں کا ایک بینڈ اتارا جس میں کہیں کہیں سفید رنگ بھی تھا۔ یہ بینڈ ان کی ٹیم کی نشانی تھی۔ اس نے وہ بینڈ اپنے ایک ٹیم ممبر کے حوالے کیا۔

”میری جگہ جو بھی اۤءے اسے یہ دے دینا اور جب بھی پیراشوٹ سے چھلانگ لگاأو تو اللہ کا نام لے کر ہی کودنا۔ اور ہاں! جب یہ رِسٹ بینڈ کسی کو دو تو اسے پورے دل سے چومنا اور مجھے یاد کرنا کیوں کہ میں بھی تم سب کو۔۔۔۔۔۔ بہت یاد کروں گا۔” اس کی اۤواز بھیگنے لگی تھی۔ اس کے کندھے پر اس کے سینئر نے ہاتھ رکھا تھا۔

”ہم تمہیں کبھی نہیں بھولیں گے۔” انہوں نے یقین دہانی کراأی تھی۔

”سر جو اۤپ ہمارے لیے ہیں وہ کو”ی نہیں ہو سکتا۔۔۔۔۔۔ اۤپ inspiration سے بھی کہیں بڑھ کر ہیںہمارے لیے، اۤپ نے ہمیشہ ہمیں اپنی ٹیم میں عزت دی، ہمیں وہ باتیں سکھاأیں جو ساری زندگی ہمارا ساتھ دیں گی، ہم اس کے لیے اۤپ کے احسان مند ہیں۔”

اور پھر اس کی ٹیم کے ان پانچ فوجیوں نے ایک قطار میں کھڑے ہو کر اسے سلیوٹ کیا ۔ یہ عزت دینے اور الوداع کہنے کا سب سے پروقار طریقہ تھا۔ اس نے مسکرا کر بھیگی اۤنکھوں سے ان کے سلیوٹ کا جواب دیا اور سر کو ہلکا سا خم کیا۔

مارچ کے دن اس نے اپنی زندگی کے اس عشق کو بھی خیرباد کہہ دیا تھا جس کے بغیر اسے لگتا تھا اسے سانس نہیں اۤءے گی۔۔۔۔۔۔ مگر سانس اۤرہی تھی، زندگی چل رہی تھی، کچھ بھی نہیں رکا تھا۔ ہسپتال کے کمرے سے سب لوگ اب چلے گئے تھے۔ اس نے تھکن کے مارے تکیے سے سر ٹکا دیا اور اۤنکھیں بند کر لیں۔

اگر وہ اپنی زندگی کا ایک جاأزہ لیتا تو اسے ہر کامیابی نظر اۤتی، ہر خوشی زندگی کی ہرمسرت، مگر پچھلے ایک سال پر نظر ڈالتا تو صرف دکھ، تکلیفیں اور جداأیاں تھیں، امی جی سے، انابیہ سے، احمد سے اور اب۔۔۔۔۔۔ اب اڑنے سے دو گھنٹے پہلے تک وہ ہوا میں اڑ رہا تھا اور اب دو گھنٹے بعد وہ اپنے پیر کو اپنی مرضی سے ہلا بھی نہیں سکتا تھا۔ بے بسی اس کے سوا اور کیا ہو سکتی تھی؟ انابیہ کی موت نے اسے توڑ کر رکھ دیا تھا تو احمد کی جداأی نے اسے کرچی کرچی کر دیا تھا اور اۤج۔۔۔۔۔۔ اۤج اس کا وجود کرچیوں سے دھواں بن گیا تھا۔ وہ گم ہو جانا چاہتا تھا۔ ہوا میں کہیں کھو جانا چاہتا تھا۔ یوں کہ کسی کو اس کی کو”ی خبر نہ ہو۔ زندگی جہاں تھی جیسی تھی ویسی ہی تھم جاأے مگر زندگی تھما نہیں کرتی، وہ چلتی رہی تھی۔ اس حادثے کے بعد وہ ارمینہ کو لے کر کراچی اۤگیا تھا۔ اس کے پاس موجود رقم سے اس نے فیکٹری ڈال لی تھی اور اسے فرید بابا جیسا ہمدرد بھی مل گیا تھا۔ البتہ فرید بابا اس کے ماضی کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتے تھے مگر پھر بھی وہ اس کا سہارا سا بن گئے تھے۔ ارمینہ بھی بڑی ہو رہی تھی اور اسکول بھی جانے لگی تھی۔ وہ اب ان کی واحد خوشی تھی۔۔۔۔۔۔ طوفان کے چلے جانے کے بعد ملنے والا ایک عجیب سا سکون۔۔۔۔۔۔

٭۔۔۔۔۔۔٭۔۔۔۔۔۔٭

وہ ہیری ہوم اۤءی تو وہاں ارمش نہیں تھا۔ وہ چلتی ہو”ی ڈسپنسری تک اۤگئی جہاں عمر، ڈاکٹر فاروق سے کچھ بات کر رہا تھا۔

”عمر تم پڑھاأی کرو نا جاکر۔۔۔۔۔۔ یہ سب کام ضروری نہیں ہیں۔”

”جانتا ہوں، ارمش بھاأی نے کہا تھا ڈاکٹر فاروق یا تمہیں بتا دوں کہ استعمال کیلئے نیا سامان اۤگیا ہے۔ دواأیاں، انجیکشنز، سرنجز اور باقی کا سامان بھی۔”

”ارمش نے فون کیا تھا تمہیں؟” تجسس نہیں تھا پھر بھی اس نے سوال کیا تھا ۔

”ہاں! فون کیا تھا۔۔۔۔۔۔ ویسے وہ کل اۤءے تھے تمہارا پوچھ بھی رہے تھے۔” وہ چونکی۔

”میں نے بتا دیا تھا کہ تم سنڈے کے بعد سے نہیں اۤءیں۔”

”پھر اس نے کیا کہا؟” ارمینہ کے سوال پر عمر نے گردن اٹھا کر اسے دیکھا تھا۔

”کچھ نہیں تم انکل کے ساتھ مصروف ہو گی اس لیے نہیں اۤءی ہو گی۔ یہی کہہ رہے تھے وہ۔۔۔۔۔۔ تمہارے پاپا کیسے ہیں؟”

”ٹھیک ہیں۔۔۔۔۔۔ اچھا سنو۔” اس نے بیگ سے ایک لفافہ نکالا تھا۔

”یہ لفافہ ارمش کو دے دینا جب بھی وہ اۤءے، کہنا میں نے دیا ہے۔”

اس لفافے میں وہ رقم تھی جو ارمش نے سرجری کے لیے دی تھی ساتھ وہ پیسے بھی تھے جو ارمش نے ارمینہ کی جگہ اس رکشے والے کو دیئے تھے۔ وہ اس کے گھر بھی یہ لفافہ لے کر گئی تھی مگر دے نہیں سکی تھی کیوں کہ وہ سڈنی چلا گیا تھا۔

”مگر تم خود دے دینا۔”

”نہیں! تم دے دینا۔” یہ کہہ کر وہ اندر چلی گئی تھی۔

ایک ایک کر کے چیک اپ کیلئے بچے اۤتے گئے اور ہمیشہ کی طرح اۤخر میں اۤنے والا عمر تھا۔ وہ ڈاکٹر فاروق سے چیک اپ کروا رہا تھا۔ ڈاکٹر فاروق نے ارمینہ کو بلاکر کہا:

”ارمینہ پچھلے ہفتے ہم نے عمر کے چند ٹیسٹ لکھے تھے، یہ ان کی رپورٹس ہیں تم تھی نہیں اس لیے تمہیں علم نہیں۔” ارمینہ نے رپورٹس ہاتھ میں لی تھیں اور ان پر ایک نظر ڈالنے کے بعد وہ سرد سی ہو گئی تھی۔ عمر کی رپورٹس کے مطابق اسے شریانوں کی ایک بیماری تھی۔ اس نے رپورٹس واپس ڈاکٹر فاروق کے حوالے کر دی تھیں۔

”کیا ہوا ارمینہ؟” اس نے بے ساختہ عمر کے ہاتھوں اور گردن پر دیکھا وہاں جگہ جگہ سرخ نشانات تھے۔ گھبراہٹ کے مارے اس اس کا حلق خشک ہونے لگا تھا۔ ہیری کا چہرہ ایک بار پھر اس کے سامنے اۤگیا تھا۔ زندگی ایک داأرے کی طرح لگ رہی تھی، جہاں سے اس نے ابتدا کی، یہ وہیں لا کر اس کو کھڑا کر رہی تھی۔ اسے لگا اتنے مہینوں کی محنت کا کو”ی حاصل نہیں تھا۔

”عمر تمہیں پچھلے دنوں سے یہ نشانات واضح ہونا شروع ہو”ے ہیں؟”

”ہاں۔۔۔۔۔۔”

”عمر دیکھو تمہیں ایک بیماری ہے شریانوں کی۔۔۔۔۔۔ تمہاری شریانیں بہت کمزور ہو گئی ہیں اس لیے ذرا سا بھی دباأو بڑھنے سے ان میں چھوٹے چھوٹے سوراخ پڑنے لگتے ہیں یہ نشانات جو تمہارے ہاتھ اور گردن پر ہیں اسی لیے ہیں۔۔۔۔۔۔ تمہارا علاج چلے گا اور تھوڑا لمبا بھی چل سکتا ہے۔”

”کو”ی بات نہیں ارمینہ مجھے اس سے کیا مسئلہ ہو سکتا ہے۔” وہ جانتی تھی کہ عمر سمجھ دار تھا۔

”شاید اس سال امتحان نہ دے پاأو تم۔۔۔۔۔۔” اتنے وقت میں پہلی بار اس کے چہرے کے تاثرات تبدیل ہو”ے تھے۔

”ایسا کیوں؟” وہ واضح طور پر خوف زدہ ہوا تھا۔

”کیوں کہ اس سے تم اپنے ذہن پر دباأو لو گے اور خون کا دباأو بڑھے گا۔۔۔۔۔۔ تمہاری بیماری بگڑ سکتی ہے۔ یہ رِسک ہے عمر۔۔۔۔۔۔” اس نے کچھ بھی نہیں بولا بس گردن جھکا لی تھی اور وہاں سے چلا گیا۔ ارمینہ اسے جاتا دیکھتی رہی۔

غم اس دنیا کے ہر انسان کے پاس تھے کسی کے پاس کم کسی کے پاس زیادہ مگر ہر ایک کو اپنا غم ہی زیادہ لگتا ہے۔ ایک وہ تھی جسے کسی نے سخت الفاظ کہہ دیئے تو وہ ایک ہفتہ اسی کا غم مناتی رہی اور ایک عمر تھا جس کی امید چھین لی گئی تھی اور وہ ایک بھی لفظ کہے بغیر ایک بھی اۤنسو بہاأے بغیر وہاں سے چلا گیا تھا۔ وہ یا تو بہت مضبوط تھا یا بہت کمزور، ارمش کہتا تھا اس کا دل بہت نرم ہے ذرا ذرا سی بات پر بچوں کی طرح روتا ہے مگر ارمینہ کو وہ بہت مضبوط لگا تھا۔

وہ باہر اۤءی تو اسے ارمش اۤتا ہوا دکھاأی دیا تھا، وہ اس سے سامنا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ لہٰذا پیچھے ہو کر اس کے ہال کی طرف جانے کا انتظار کرنے لگی۔ جب وہ اندر چلا گیا تو وہ باہر کی طرف بڑھ گئی۔ دروازے پر پہنچنے پر اسے پیچھے سے ارمش کی اۤواز اۤنے لگی۔ وہ اسے پکار رہا تھا۔ اس کا دل چاہا کہ وہ رک جاأے پر وہ رکی نہیں۔ اگر وہ معافی مانگنا چاہتا تھا یا اس بات پر شرمندہ تھا کہ اس کا جھوٹ پکڑا گیا ہے تو اسے اس کی معافی کی ضرورت نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ اس نے سوچا اور چلتی رہی۔ وہ قدم باہر نکال رہی تھی جب اس کے کہنی سے پکڑ کر اسے روکا تھا۔

”کہاں جا رہی ہو؟ رک تو جاأو کب سے چلا رہا ہوں۔” وہ اس کے بالکل سامنے اۤکر کھڑا ہو گیا تھا۔ اس نے بڑی مشکل سے اپنے اۤنسو روکے تھے۔

”تم اپنا موباأل بھول کر جا رہی تھیں۔۔۔۔۔۔ یہ ٹیبل پر پڑا تھا۔” وہ اس کا موباأل اس کے اۤگے کرتے ہو”ے بولا تھا۔ ارمینہ کو حیرت کا شدید جھٹکا لگا تھا۔ اس کی ساری خوش فہمیاں ہوا ہو گئی تھیں۔ وہ اس سے معافی مانگنے نہیں اۤیا تھا۔ اس نے ایک جھٹکے سے اپنا موباأل اس کے ہاتھ سے لیا اور بنا کچھ کہے پلٹ گئی تھی۔

”ارمینہ؟” اس کا رویہ ارمش کو حیران کر رہا تھا۔

”عمر بیمار ہے اسے کو”ی کام مت دینا اۤرام کرنے کا کہنا باقی تفصیل ڈاکٹر فاروق بتا دیں گے” اس نے مڑے بنا بس اتنا کہا اور چلی گئی تھی۔ وہ اسے جاتے ہو”ے دیکھتا رہ گیا تھا۔

”اسے کیا ہوا؟” اس نے خودکلامی کی اور پھر عمر کے بارے میں سوچتا ہوا اندر اۤگیا۔ وہ عمر کے بیڈروم میں اۤگیا جہاں عمر کے ساتھ تین اور لڑکے سوتے تھے۔ اس وقت کیوں کہ سب کھانے کی تیاری کر رہے تھے اس لیے عمر اکیلا اپنے بیڈ پر لیٹا چھت کو تک رہا تھا۔

Loading

Read Previous

باجی ارشاد

Read Next

شکستہ خواب

Leave a Reply

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

error: Content is protected !!