آخری دنوں کی کچھ یادیں
کمانڈو کورس کرنے کے بعد 20جنوری 2014ء کو ہم نے اپنی یونٹ 4کمانڈو یلغاربٹالین میں رپورٹ کی۔ 4کمانڈومیں OACC-62 سے چھے آفیسرز پوسٹ ہوئے جن کے نام یہ ہیں۔
(1)کیپٹن آکاش آفتاب ربانی
(2)کیپٹن عاصم علی نقوی
(3)کیپٹن محمد زبیر
(4)کیپٹن خواجہ محمد
(5)کیپٹن ہارون
(6)کیپٹن عثمان فاروق کیانی
رپورٹنگ ڈے پر ہم سب بہت نروس تھے۔ بٹالین 21Cہم سب سے ملے۔ شروع کے دو ہفتے ہم نے سولجر لائن میں گزارے۔ ہمارا کھانا پینا، اٹھنا بیٹھنا سب جوانوں کے ساتھ تھا۔ اس کی وجہ سے ہمیں جوانوں کی زندگی اور ذاتی حالات کا اندازہ ہوا۔ آکاش شروع سے ہی ملنسار تھا اور اپنے بہترین اخلاق کی وجہ سے ہر جوان کا پسندیدہ آفیسر بنتا جارہا تھا۔ تمام سینئر آفیسرز بھی اُسے بہت پسند کرنے لگے تھے۔ یونٹ کے شروع کے ایام میں چھوٹے بڑے غرض یہ کہ ہر کسی کی نظر صرف ہم پر ہوتی تھی۔ آکاش انتہائی خوش مزاج، تحمل مزاج اور اعلیٰ کردار کا مالک تھا۔ وہ اپنے طور طریقوں کی وجہ سے نہ صرف افسروں میں بلکہ جوانوں میں بھی بہت اچھا جانا اور سمجھا جاتا تھا۔ اس کے اخلاق کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔
فروری2014ء کے پہلے ہفتے میں ہمیں Dine inکیا گیا۔اور پھر ہمیں BOQsمیں شفٹ کیا گیا۔آکاش مٹھا کمپنی میں پوسٹ کیاگیا۔اس کے کمپنی کمانڈر میجر طارق صاحب تھے۔ مٹھا کمپنی میں جب آکاش بطور کمانڈر پوسٹ ہوا تو اسکے ایک ہفتے بعد مٹھا کمپنی کی ٹر یننگ شروع ہوگئی۔ یہ وہ وقت تھا جب آکاش کی خدادادصلاحیتیں نکھر کر سامنے آنا شروع ہوگئیں۔ آکاش کو پسٹل فائرکرنے کا بہت شوق تھا۔ آکاش ہمیشہ advanced levelپریکٹس کرتا تھا۔ایک دفعہ میجر طارق نے آکاش کو challengeکیا جس میں دس سیکنڈز میں پسٹل کو پاؤچ سے نکال کر لوڈ کرنا، پھر ٹارگٹ پر 10 راؤنڈز 10میٹر سے فائر کر نا تھا۔ آکاش نے یہ challengeقبول کر لیا۔ میں نے اُسے سمجھایا کہ یار آکاش پاگل مت بن، یہ آسان نہیں ہے۔ لیکن آکاش نے یہ شرط بھی رکھ دی کہ ہارنے والا جیتنے والے کو 10کلو دنبے کا گوشت بھی کھلائے گا۔
میجر طارق نے سٹاپ واچ پکڑلی۔اور جیسے ہی ٹائم سٹارٹ ہوئی،آکاش نے کب پسٹل نکالا، کیسے لوڈ کیا اور10راونڈز ٹارگٹ پر فائر کیے،پتا بھی نہ چلا۔ بس اتنا سب کو یاد ہے کہ ہم سب فائر ہونے کے بعد سٹاپ واچ کی طرف لپکے اور ٹائم تھا نو سکینڈز۔
اب اس کے بعد اگلا مرحلہ تھا ٹارگٹ چیک کرنا۔ جب ٹا رگٹ کو چیک کیا تو دس کی دس گولیاں ٹارگٹ پر لگی ہوئی تھیں۔ میں اور آکاش خوشی سے چیخنا شروع ہوگئے۔ اور میجر طارق شرمندہ شرمندہ گھومنے لگے۔
آکاش کا پسٹل اور M4فائر بہت اچھا تھا۔ فری ٹائم میں جب ہم سب آرام کررہے ہوتے،آکاش اس وقت بھی فائرنگ پریکٹس کر رہا ہوتا تھا۔ کمپنی کا ہر آفیسر اور ہر جوان آکاش پر اعتماد کرتا تھا۔ اور جب بھی کسی کو کوئی مسئلہ ہوتا تو وہ آکاش سے رجوع کرتاتھا۔ بہت کم وقت میں آکاش نے تمام یونٹ میں اپنی خاص جگہ بنالی تھی۔ وہ نہایت اچھے اخلاق کا مالک اور بہت قابل آفیسر تھا۔ مجھے جب بھی کسی مسئلے میں رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہمیشہ آکاش سے رابطہ کیا اور اُس نے ہمیشہ میری بہت اچھی رہنمائی کی۔آکاش کا دل بہت بڑا تھا۔ وہ بہت سخی اور دریا دل ٹائپ بندہ تھا۔اس نے کبھی کسی کو ”ناں“ یانہیں کی۔جس نے جو مانگا جب مانگا آکاش نے دے دیا۔
ہم اپنی روزمرہ ٹریننگ مین مشغول تھے جب ہمیں بتایا گیا کہ چونکہ ملکی حالات بہت سیر یس ہیں۔ اس لیے چیف آف آرمی سٹاف نے دہشت گردوں کے خلاف ایک بڑے level کے آپریشن کا plan کیا ہے اور 4کمانڈو یلغار بٹالین کو اس آپریشن کے لیے نامزد کیا گیا ہے اور یہ کہ ہماری بٹالین کچھ دِنوں کے نوٹس پر ہے۔ یونٹ نے ہنگامی حالات میں آپریشن ایریا میں جانے کی تیاریاں شروع کردیں اور اس آپریشن کے لیے کی گئی ٹریننگ میں آکاش نے بڑے جوش وخروش سے حصہ لیا۔ اس کی اعلیٰ قائدانہ صلاحیتوں کی وجہ سے اس نے نہ صرف جوانوں کو متاثر کیا بلکہ تمام افسروں میں بھی رہا۔
آکاش نے اس موقع پر مٹھا کمپنی کی تمام تر ذمہ داری اپنے سر لے لی اور ہتھیاروں سے لے کر ہتھکڑیوں تک ہر چیز کو مکمل کیا۔ یہ آکاش کی قائدانہ صلاحتیں ہی تھیں کہ یونٹ کمانڈر نے ایڈوانس پارٹی کے ساتھ جانے کے لیے آکاش کا تعین کیا۔ کیپٹن آکاش 20مئی کو ایڈوانس پارٹی کے ساتھ آپریشن ایریا میران شاہ شمالی وزیرستان کے لیے نکل گیا۔
ان دنوں نہایت ہی سمجھداری سے وہ تما م صورتِ حال کا جائزہ لے رہا تھا۔ آکاش دن کا زیادہ تر وقت اپنے جوانوں کے ساتھ گزارتا تھا اور انہیں ہر قسم کی صورتِ حال سے آگاہ رکھتا تھا۔
میں کچھ Tasksمیں آکاش کے ساتھ تھا اور ہم نے کچھ ٹارگٹ اکٹھے کیے۔
14جولائی کی رات کو بھی ہم لوگ اکٹھے تھے۔ آکاش اگلے دن شہید ہواتھا۔اُس رات بھی ہماری کافی گپ شپ رہی اگلے دن بھی ہم لوگ صبح ملے تھے۔ پھر جب آکاش دن کو12بجے اُس آپریشن کے لیئے نکلا تو بھی اس وقت میں اُس کے ساتھ تھا۔
وہاں پہنچ کر ہمیں مختلف tasksدئیے گئے۔ کیپٹن آکاش کو وہاں سے شہداء کے جسِد خاکی ریکور کرنے کا ٹاسک ملا۔ میں وہیں نزدیک ہی موجودتھا جب مجھے پتہ چلا کہ آکاش ربانی ہٹ ہوگیا ہے تو میں فورََا وہاں پہنچا۔میں بالکل شاک میں تھا اور میں چلارہاتھا جلدی کرو اُسے ہسپتال لے کر جاؤکہ شائد وہ شدید زخمی ہے تو اُسے کسی طرح بچالیا جائے۔ لیکن close range ہونے کی وجہ سے گولیا ں اس کی باڈی کو کراس کر گئیں اور سر پر بھی دو گولیاں لگی تھیں۔ کیپٹن آکاش کے ہیلمٹ کی فرنٹ سائیڈ پر آج بھی دہشتگردوں کی فائر کی گئی گولیوں میں سے ایک گولی موجود ہے۔
آکاش نے اُسی وقت جامِ شہادت نوش کیا۔Sep Waqarجو بالکل اس کے ساتھ تھا، اُسے بھی گولیاں لگیں اور وہ بھی شہید ہوگیا۔ کیپٹن آکاش کی کمبٹ ٹیم نے ہی بعد میں آکاش کے ہی بنا ئے ہوئے پلان کے مطابق شہداء کے جسِد خاکی بھی سے وہاں سے ریکور کییاور دہشت گرد جنہیں آکاش نے ہلاک کیا تھا، انہیں بھی آکاش کی ٹیم نے ہی وہاں سے اٹھایا۔
آکاش کے جسِد خاکی کوتو وہاں سے فورََا evacuateکیا گیا اور اُسے ہسپتال منتقل کردیا گیا۔
پھر آکاش کے جسِد خاکی کو میران شاہ سے اگلے دن بذریعہ ہیلی کاپٹر ایبٹ آباد پہنچا یا گیا۔اس کی شہادت کے دو دن بعد نائب صوبیدار خالق چھٹیوں سے واپس آیا اور اُس نے بتایا کہ جب مین چھٹیوں پر جارہاتھا تو آکاش صاحب نے اپنا ATMکارڈ دیا اور مجھے کہا کہ میرے اکاؤنٹ سے پیسے نکال کر میرے سارے بل کلیئر کردو اور دیکھنا کہ میرے ذمے کچھ او ر تو نہیں ہے اور مجھے ضرور بتانا۔ میں نے اُسکے سارے بل کلیئر کر دئیے تھے۔ کچھ بھی نہیں بچا تھا اور وہ ATMآکاش کی شہادت کے بعد اُسؤ نائب صوبیدار نے آکاش کی فیملی کو بھجوا دیا۔ سب کو لگتا ہے کہ شاید آکاش کو کچھ اندازہ تھا یا اُسے پتا تھا کہ اُس کے ساتھ کچھ ہونے والا ہے۔
میجر ہارون
دوست، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭