آکاش، ایک بے مثال انسان
حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا فرمان ہے ”غریب ہے وہ جس کا کوئی دوست نہیں۔“ اور کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید جیسے دوست ہی ہیں جو حقیقتاً متاع ِحیات ہوتے ہیں۔ فطری طور پر خوش مزاج ہونے کی وجہ سے وہ بات چیت تو سب سے اچھی رکھتا تھا لیکن دوست بنانے کے معاملے میں محتاط تھا۔ ہاں ایک بار جن سے دوستی ہوگئی ان کے ساتھ ہمیشہ مخلص رہا۔ PMA میں ایک لمبا عرصہ ساتھ گزارنے کے بعد جب ہماری پوسٹنگ علیحدہ علیحدہ یونٹوں میں ہوئی تو تقریباً تمام دوستوں میں ہی رابطے کم ہوگئے۔ لیکن آکاش نہ بدلا۔ وہ ہمیشہ خود مجھ سے اور اپنے تمام دوستوں سے رابطہ کرتا۔
مجھے اب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی سی عمر میں ہی انتہائی متوازن اور پختہ طبیعت کا مالک تھا۔ میں نے اسے اپنے کام پر بھرپور توجہ کے ساتھ ساتھ اپنی ذات سے جڑے رشتوں کو بہت خوبصورتی سے نبھاتے دیکھا۔ ورنہ عموماً جن لوگوں کا دھیان اپنے کام کی طرف زیادہ رہتا ہو ان کی فیملی لائف اور دوستیاں برائے نام رہ جاتی ہیں۔ آکاش نے اپنے پہلے پروفیشل کورس جسے Basic Courseکہا جاتا ہے، میں تیسری پوزیشن حاصل کی۔ وہ تمام لوگ جو کورس میں پہلی دس پوزیشنز حاصل کرسکے، ہر وقت کتابوں میں گم رہتے، جنہیں کتابی کیڑا کہا جاتا تھا۔ لیکن آکاش واحد ایسا تھا جو دوستوں کو وقت بھی دیتا، ان کے ساتھ گھومتا پھرتا اور گیمز بھی کھیلتا لیکن اپنے مقصد کی طرف سے بھی بالکل غافل نہ ہوتا۔ ایسی باقاعدگی اور ڈسپلن کم لوگوں میں ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔
وہ ہوٹلنگ کا رسیا تھا۔ لیکن ایک مرتبہ باتوں کے دوران اس نے بتایا کہ اس نے ہوٹلنگ بہت کم کردی ہے۔ جب میں نے وجہ پوچھی تو اس نے کہا کہ یار ان چیزوں کا مزہ دوستوں کے ساتھ ہی ہے۔ یار دوست جب الگ الگ ہوگئے تو ان چیزوں کا کیا مزہ۔
آکاش کی شہادت کے بعد یہ بات سمجھ آئی کہ یہ جو ہم خبروں میں کسی کی شہادت کی خبر سنتے ہیں، یہ باقی عام روٹین کی خبروں کی طرح کی کوئی خبر نہیں ہوتی۔ یہ اس کے گھر والوں اور قریبی دوستوں کے لیے غم کا پہاڑ ہوتا ہے۔ آکاش کے اچانک اس دنیا سے چلے جانے نے ہم سب دوستوں کو یکسر بدل دیا۔ ہم اتنے حساس ہوگئے ہیں کہ کسی دوست کو کسی بھی قیمت پر ناراض نہیں ہونے دیتے کہ ہم سب تھوڑے عرصے کے مسافر ہی تو ہیں، جانے کب کس کا وقت پورا ہو جائے۔ شہادت سے پہلے جب اس نے آپریشنز کے دوران مجھ سے رابطہ کیا اور کہا کہ سب لوگوں کو بتانا کہ ہم نے بہت بہادری سے اپنا فرض نبھایا ہے، ہماری قربانیوں کو بھول مت جانا، تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ ایک دن واقعی میں اس کے بارے میں لکھ رہا ہوں گا۔
میں اپنی نالائقی کے سبب اس کی شخصیت سے متعلق اپنے جذبات و احساسات کا اظہار پوری طرح سے نہ کرسکنے کے لیے شرمندہ ہوں۔ بس اتنی سی بات ہے کہ:
یہ فخر تو حاصل ہے برے ہیں کہ بھلے ہیں
دوچار قدم ہم بھی تیرے ساتھ چلے ہیں
میجر احسن اقبال
دوست، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭
کیپٹن آکاش جیسے افسر قوم کا اثاثہ ہوتے ہیں!
جب آکاش نے SSG کورس مکمل کر کے یونٹ رپورٹ کی تو اس وقت میں یونٹ میں Adjutant کی ڈیوٹی کر رہا تھا۔ کمانڈو کورس کے بعد جب آکاش کو 4 کمانڈو بٹالین ملی تو اس نے میرا موبائل نمبر کسی سے لیا اور مجھے courtesyکال کی۔ اس وقت میں چھٹی پر اپنے گھر میں تھا۔ تعارف کے بعد جب تفصیلی بات چیت ہوئی تو پتا چلا کہ آکاش بھی اسی کاغان کالونی میں رہتا ہے جہاں میرا گھر ہے۔ مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آکاش پھر ملنے کے لیے گھر آگیا۔ میں نے اسے گھر بیٹھنے کو کہا مگر اس نے کہا باہر چلتے ہیں۔ میں اس کے ساتھ باہر نکل گیا۔ ہم نے ایک کیفے میں کچھ کھایا۔ میں نے اسے بٹالین کی طرف سے informally ویلکم بھی کیا اور بات چیت کرتے رہے۔ اس کے بعد آکاش نے مجھے گھر ڈراپ کیا۔ آکاش بھی کورس کے بعد joining time پر اپنے گھر تھا۔ یوں میری پہلی ملاقات میں آکاش کا جو impression مجھے ملا، وہ بہت اچھا تھا۔ آکاش ایک نہایت ہی سلجھا ہوا، wellgroomed، ادب والا، نہایت ہی courteousاورذہین آفیسر تھا۔خوش مزاج، مسکراتا ہوا چہرہ، آنکھوں میں ایک چمک۔ وہ مجھے نہایت ہی positive اپروچ کا حامل لگا۔کچھ دنوں بعد میں یونٹ واپس چلا گیا۔آکاش کی چھٹی بھی ختم ہوگئی۔ اُس نے اپنے پانچ اور کورس میٹس کے ساتھ رپورٹ کی۔ چھ افسروں کو اپنے آفس میں فارملی ویلکم کرنے کے بعد میں نے سب کو ایک ایک کر کے COکے ساتھ introduceکروایا۔ یونٹ میں جب بھی کوئی نیا افسر آتا ہے تو اس پر ساری یونٹ کی نظر ہوتی ہے۔ اسے نئےsetupکے متعلق بتایا اور سمجھایا جاتا ہے۔ جب تمام افسران کا انٹرویو ہوگیا تو COنے مجھے بلایا سب کی تعریف کی۔ انہوں نے باالخصوص آکاش اور ہارون کے بارے میں کہا کہ مجھے ان دونوں میں کچھ sparkنظر آرہاہے۔ اس کے بعد میں نے یونٹ کے SOPکے مطابق ان سب افسروں کو جوانوں کی linesمیں دوہفتے کے لیے رہنے کے لیے بھیج دیا۔ اگلے دو ہفتے تک میں روزانہ کی بنیاد پر سب افسروں کو مختلف tasksدیتا تھا جس کی رپورٹ تمام افسران چھٹی ہونے سے پہلے مجھے آکر دیتے تھے۔ میں نے محسوس کیا کہ میں جو بھی کام آکاش کو دیتا، وہ اُسے بہت اچھے طریقے سے سر انجام دیتا تھا۔ اور ہمیشہ سب سے پہلے آکر رپورٹ کرتاتھا۔ اُس کی اس عادت سے اور اُس کے اتنے اچھے سے taskمکمل کرنے پر میں بہت ہی impressہوا۔ اسکے علاوہ بھی جو feedbackاوروں کی طرف سے ان افسران کے بارے میں آتا، اس میں آکاش بہت ہی نمایاں ہوگیا۔ جوانوں سے لے کر COتک سب آکاش کی تعریف کرتے اور اُسے بہت پسند کرتے ۔Competentاور brilliant ہونے کے ساتھ ساتھ اُس کا اخلاق بھی بہت اچھا تھا۔ وہ جونیئرز اور جوانوں سے بھی اُسی طرح عِزت سے بات کرتا تھا جیسے اپنے سینئرز سے۔ ان دو ہفتوں میں یونٹ میں جوانوں کا ایک PTٹیسٹ ہوا۔ میں نے تمام افسران کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ کون اس ٹیسٹ میں voluntarilyشامل ہونا چاہتا ہے۔ تو آکاش نے سب سے پہلے حامی بھری۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ ایک willing workerہے۔ وہ runningٹیسٹ میں بھی اول آیا۔ اور اُس نے اپنی physical fitnessکا بھی لوہا منوایا۔دوہفتے ختم ہوئے تو یونٹ کے تمام افسران کا dine outکیا گیا۔ جس کے بعد انہوں نے BOQs میں شفٹ ہوجانا تھا۔ ہماری یونٹ کا رواج ہے کہ dine outکے بعد نئے افسران کو پکڑ کر ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی جاتی ہے۔ پھر انہیں گاڑی کی ڈگی میں ڈال کر BOQsپہنچا دیا جاتا ہے۔ مگر اس میں ذکر کرنے والی بات یہ ہے کہ جب ہم سب کو باندھ کر ڈگی میں ڈال رہے تھے تو میرا دل نہیں مانا کہ میں آکاش کو ڈگی میں ڈالوں۔ کیوں کہ اللہ نے اُسے ایسی صورت اور ایسی سیرت دی ہوئی تھی، وہ اتنا قابل، ذہین اور مؤدب تھا کہ انسان اس کا خیا ل کرنے پر مجبور ہو جاتا۔ میں نے اُسے مذاقًا کہا کہ تم میرے محلے کے ہو۔ اس لیے تمہیں گاڑی کے اندر سیٹ پر بیٹھا کر لے جائیں گے اور پھر میں اُسے اپنے ساتھ گاڑی میں بٹھا کر BOQs لے کر گیا۔
آکاش بڑا creative mindedاور artisticنیچر کا تھا۔ایک دن COنے کہا کہ یونٹ کی ایک دیوار پر painting والی فریم لگانی ہے اس کے لیے تمام آفیسرز کچھ ڈیزائن کرو اور کچھ آئیڈیاز دو۔ سب نے ڈیزائن بنائے لیکن آکاش کا آئیڈیا اور ڈیزائن COکو پسند آیا جو اُس نے کمپیوٹر پر بنا یا تھا۔ اس ڈیزائن میں آکاش نے مینارِپاکستا ن، قائداعظم محمد علی جناح کا مزار، فیصل مسجد، بابِ خیبر، بادشاہی مسجد، پاکستان کا جھنڈا، چاند اور تارا اور آرمی کے نشانات وغیرہ شامل کیے تھے۔
آکاش کاlossبہت بڑاloss ہے۔ ایسے افسر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ وہ قومی اثاثہ ہوتے ہیں۔ لیکن پھر اللہ بھی ایسے ہی لوگوں کو چنتا ہے۔ اور یہ سپیشل لوگ ہی اللہ کے منتخب شدہ ہوتے ہیں۔ ہر ایک کے نصیب میں یہ رتبہ کہاں آسکتا ہے۔
میجر جواد
دوست، کیپٹن آکاش آفتاب ربانی شہید
٭……٭……٭